وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

کوئمبٹور ، تمل ناڈو میں ساؤتھ انڈیا نیچرل فارمنگ سمٹ 2025 میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

प्रविष्टि तिथि: 19 NOV 2025 6:53PM by PIB Delhi

ونکم!

مُعزّز اسٹیج پر جلوہ افروز ریاستِ تمل ناڈو کے گورنر آر این روی جی ، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی ایل مروگن جی ، تمل ناڈو زرعی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر کے راماسامی جی ، مختلف زرعی تنظیموں کے تمام معززین ، دیگر عوامی نمائندے ، میرے پیارے کسان بھائیو اور بہنو اور پورے ملک میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہم سے جڑنے والے لاکھوں کسان ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں! میں یہاں سے ان کو بھی وَنکّکم اور نمسکار کہتا ہوں،اور سب سے پہلے میں آپ سب سے، اور ملک بھر میں جمع ہونے والے اپنے کسان بھائیوں اور بہنوں سے معذرت چاہتا ہوں۔ مجھے تقریبا ایک گھنٹے کی تاخیر ہوئی کیونکہ میں آج پٹاپرتھی میں ستیہ سائیں بابا کے پروگرام میں تھا ، لیکن وہاں پروگرام کچھ دیر تک چلا ، اس لیے مجھے آنے میں تاخیر ہوئی ، میں دیکھ رہا ہوں کہ ملک بھر میں آپ سب کو کیا تکلیف ہوئی ، بہت سے لوگ بیٹھے ہیں ، اس کے لیے میں آپ سب سے معافی مانگتا ہوں ۔

جب میں پانڈین جی کا خطاب سن رہا تھا، تو مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ کاش! کسی نے مجھے بچپن میں تمل زبان سکھائی ہوتی، تو آج میں اس تقریر کا بھرپور لطف اٹھا سکتا تھا۔ لیکن مجھے وہ سعادت حاصل نہ ہو سکی۔ البتہ جو کچھ میں سمجھ پا رہا تھا، وہ جلّی کٹّو کی بات کر رہے تھے، وہ کووڈ کے زمانے میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کر رہے تھے۔ لیکن میں نے رویش جی سے کہا ہے کہ پانڈین جی کے خطاب کو ہندی اور انگریزی میں تیار کرکے مجھے بھیجیں، میں اسے ضرور پڑھناچاہوں گا۔ تاہم، میں ان کے جذبات کو پوری گہرائی سے محسوس کر رہا تھا، میں اُنہیں دل سے جذب کر رہا تھا، اور یہ لمحہ میرے لیے بہت خوشگوار تھا۔جب میں یہاں منچ پر آیا، تو میں دیکھ رہا تھا کہ بہت سے کسان بھائی اور بہنیں اپنا گامچھا گھما رہے تھے۔ تو مجھے محسوس ہوا کہ بہار کی ہوا میرے پہنچنے سے پہلے ہی یہاں آ چکی ہے۔

میرے عزیز کسان بھائیو اور بہنو!

کوئمبٹور کی اس مقدس دھرتی پر سب سے پہلے میں مرُد ملئی کے بھگوان مرگن کو پرنام  کرتا ہوں۔ کوئمبتور، ثقافت، شفقت اور تخلیقی قوت کی سرزمین ہے۔ یہ شہر جنوبِ ہند کی صنعتی توانائی کا مرکز بھی ہے۔ یہاں کا ٹیکسٹائل سیکٹر ملک کی معیشت میں بے مثال کردار ادا کرتا ہے۔ اور اب کوئمبتور اس لیے بھی خاص مقام رکھتا ہے کہ یہاں کے سابق رکن پارلیمنٹ جناب سی۔ پی۔ رادھا کرشنن آج ملک کے نائب صدر کی حیثیت سے ہم سب کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔

ساتھیو!

فطری کھیتی ایسا موضوع ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہے۔ میں تمل ناڈو کے تمام کسان بھائی بہنوں کو ساؤتھ انڈیا نیچرل فارمنگ سمٹ کے غیر معمولی انعقاد پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔ ابھی جب میں نے نمائش دیکھی تو بہت سے کسانوں سے بات چیت کا موقع ملا۔ کوئی میکانیکل انجینئرنگ کر کے پی ایچ ڈی کے بعد کھیتی میں آیا ہے، کوئی ناسا میں چاند مشن سے جڑے کام چھوڑ کر فطری کھیتی اختیار کر چکا ہے۔ وہ نہ صرف خود جدید اور فطری زراعت کر رہے ہیں بلکہ نوجوانوں کو تربیت بھی دے رہے ہیں۔

مجھے آج اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اگر میں اس پروگرام میں شریک نہ ہوتا تو اپنی زندگی میں بہت کچھ کھو دیتا۔ آج یہاں آکر میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں دل سے تمل ناڈو کے کسانوں کی ہمت، جدّت پسندی اور تبدیلی کو قبول کرنے کی طاقت کو سَو سَو سلام پیش کرتا ہوں۔ یہاں کسان، زرعی ماہرین، صنعت کار، اسٹارٹ اَپس اور جدّت کار — سب ایک ساتھ جمع ہیں۔ میں سبھی کا دل سے خیر مقدم کرتا ہوں۔

ساتھیو!

آنے والے برسوں میں میں بھارت کی زرعی دنیا میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ابھرتی ہوئی دیکھ رہا ہوں۔ ہندوستان فطری کھیتی کا عالمی مرکز بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہماری حیاتیاتی تنوع نئی قوت اختیار کر رہا ہے، اور ملک کے نوجوان اب زراعت کو ایک جدید، وسیع امکانات والے شعبے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس سے دیہی معیشت کو عظیم تقویت ملنے والی ہے۔

میرے عزیز کسان بھائیو اور بہنو!

گزشتہ گیارہ برسوں میں ملک کے زرعی منظرنامے میں بڑے پیمانے پر مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہمارا زرعی برآمدات کا حجم تقریباً دوگنا ہو چکا ہے۔ زراعت کو جدید بنانے کے لیے حکومت نے کسانوں کی مدد کے تمام دروازے کھول دیے ہیں۔ کسان کریڈٹ کارڈ (کے سی سی)کے ذریعے اس سال کسانوں کو دس لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی مالی معاونت دی گئی ہے، جو ایک عظیم الشان رقم ہے۔

سات برس قبل جب مویشی پالنے والوں اور ماہی پروری سے وابستہ افراد کو بھی کے سی سی کی سہولت دی گئی تو انہوں نے بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بایو فرٹیلائزر پر جی ایس ٹی میں کمی سے بھی کسانوں کو زبردست فائدہ پہنچا ہے۔

ساتھیو،

کچھ ہی دیر پہلے، اسی اسٹیج سے ہم نے ملک کے کسانوں کے لیے پردھان منتری کسان سمان ندھی کی اگلی قسط جاری کی ہے۔ ملک کے کونے کونے میں موجود کسانوں کو اٹھارہ ہزار کروڑ روپے منتقل کیے گئے ہیں۔ یہاں تمل ناڈو کے بھی لاکھوں کسانوں کے کھاتوں میں کسان سمان ندھی کی رقم پہنچ چکی ہے۔

ساتھیو،

اب تک اس یوجنا کے تحت ملک کے چھوٹے کسانوں کو چار لاکھ کروڑ روپے کی رقم براہ راست ان کے بینک کھاتوں میں منتقل کی جا چکی ہے۔ یہ رقم ان کے کھیتی باڑی سے متعلق بے شمار کاموں کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔ میں اس یوجنا کے کروڑوں مستفید کسان بھائیوں اور بہنوں کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ وہاں پیچھے دو بچیاں پلی کارڈ لے کر کب سے کھڑی ہیں، ان کے ہاتھ تھک جائیں گے۔ میں سیکورٹی اہلکاروں سے کہوں گا کہ وہ جو بھی پیغام میرے لیے لائی ہوں اسے لے کر مجھے دے دیں۔ آپ کا پیغام میں پوری سنجیدگی کے ساتھ پڑھوں گا۔ آپ اسے جمع کرا کے میرے پاس پہنچا دیں۔

ساتھیو،

شکریہ بیٹی، آپ کب سے ہاتھ اٹھا کر کھڑی تھیں۔

ساتھیو،

قدرتی کھیتی یعنی نَیچرل فارمنگ کا فروغ آج اکیسویں صدی کی زرعی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے کھیتوں میں اور زراعت سے متعلق مختلف شعبوں میں کیمیائی کھادوں اور کیمیائی ادویات کا استعمال تیزی سے بڑھا ہے۔ ان کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے مٹی کی زرخیزی متاثر ہو رہی ہے، مٹی میں نمی کی مقدار کم ہو رہی ہے اور کھیتی کی لاگت ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا حل فصلوں کی تنوع کاری یعنی کروپ ڈائیورسفکیشن اور قدرتی کھیتی ہی سے ممکن ہے۔

ساتھیو،

ہماری مٹی کی زرخیزی اور فصلوں کی غذائی افادیت کو بہتر بنانے کے لیے قدرتی کھیتی کے راستے پر بڑھنا ناگزیر ہے۔ یہی ہمارا ویژن بھی ہے اور ہماری ضرورت بھی۔ اسی سے ہم آنے والی نسلوں کے لیے اپنی حیاتیاتی تنوع یعنی بایو ڈائیورسٹی کو محفوظ رکھ سکیں گے۔ قدرتی کھیتی ہمیں موسموں میں غیر یقینی تبدیلی اور ماحولیاتی بگاڑ کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ مٹی کو صحت مند رکھتی ہے اور انسانوں کو نقصان پہنچانے والے کیمیکل سے محفوظ رکھتی ہے۔ آج کا یہ پروگرام اسی سمت میں اہم کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔

ساتھیو،

مرکزی حکومت کسانوں کو قدرتی کھیتی کی طرف راغب کرنے کے لیے مستقل کوششیں کر رہی ہے۔ گزشتہ برس حکومت ہند نے قومی مشن برائے قدرتی کھیتی کا آغاز کیا تھا۔ لاکھوں کسان اس سے جڑ چکے ہیں۔ اس کے مثبت نتائج خصوصاً پورے جنوبی ہند میں دیکھے جا رہے ہیں۔ آج تمل ناڈو میں ہی تقریباً پینتیس ہزار ہیکٹیئر اراضی پر نامیاتی اور قدرتی کھیتی کی جا رہی ہے۔

ساتھیو،

قدرتی کھیتی بھارت کا اپنا دیسی نظریہ ہے۔ ہم نے اسے کہیں باہر سے حاصل نہیں کیا۔ یہ ہماری روایات سے جنم لینے والا طریقہ ہے۔ ہمارے بزرگوں کے تجربات اور محنت کا نچوڑ ہے اور ماحول کے لیے بھی موزوں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ جنوبی بھارت کے کسان آج بھی پنجگیہ، جیوامرت، بیجامرت اور آچھادن یعنی ملچنگ جیسی روایات کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ طریقے مٹی کی صحت بہتر رکھتے ہیں، فصل کو کیمیکل سے پاک رکھتے ہیں اور اخراجات میں نمایاں کمی کرتے ہیں۔

ساتھیو،

اگر قدرتی کھیتی کے ساتھ ہم شری(ان) اناج یعنی باجرہ اور دیگر جوار و باجرا اناج کی کاشت کو بھی فروغ دیں تو یہ بھی ماں دھرتی کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تمل ناڈو میں تو بھگوان مورگن کو شہد اور شری اناج سے بنی نذریں پیش کی جاتی ہیں۔ جنوبی ہند کے مختلف خطوں میں کمبو یعنی باجرا، سامئی یعنی چھوٹا باجرا، راگی، سجو اور جونا جیسے اناج نسلوں سے ہمارے غذائی نظام کا حصہ رہے ہیں۔ ہماری حکومت کی کوشش ہے کہ یہ سپرفوڈ دنیا کی منڈیوں تک پہنچے۔ قدرتی اور کیمیکل سے پاک کھیتی اس سفر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے اس سمٹ میں اس پہلو پر بھی تفصیلی گفتگو ہونی چاہیے۔

ساتھیو،

میری درخواست ہے کہ ہم یکسانیت والی کھیتی کی جگہ متنوع کھیتی یعنی ملٹی کلچر ایگریکلچر کو اپنائیں۔ جنوبی بھارت کے کئی علاقوں میں اس کی شاندار مثالیں موجود ہیں۔ کیرالہ اور کرناٹک کے پہاڑی علاقوں میں ایک ہی کھیت میں ناریل، سپاری اور پھلدار درخت ہوتے ہیں اور ان کے نیچے مصالحہ جات اور کالی مرچ اُگائی جاتی ہے۔ اس طرح ایک ہی زمین سے متنوع پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ یہی قدرتی کھیتی کا بنیادی فلسفہ ہے۔ اس ماڈل کو ہمیں پورے ملک میں فروغ دینا ہے۔ میں ریاستی حکومتوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے غور کریں کہ اس طریقے کو ملک کے مختلف علاقوں میں کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔

ساتھیو،

جنوبی ہند زراعت کے علم کا ایک عملی جامعہ رہا ہے۔ اسی خطے میں دنیا کے قدیم ترین بند تعمیر ہوئے، تیرہویں صدی میں کلنگ-رائن نہر بنی، مندروں کے حوض پانی کے ذخائر کی بہترین مثال بنے، ندیوں کے پانی کو قابو میں لا کر کھیتی کے لیے استعمال کرنے کے ماڈل تیار کیے گئے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ دنیا کو قدرتی کھیتی میں رہنمائی بھی یہی خطہ دے گا۔

ساتھیو،

وِکست بھارت‘ کے لیے مستقبل پر مبنی زرعی نظام بنانے کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ میری کسان بھائیوں سے درخواست ہے کہ آپ ایک ایکڑ اور ایک موسم سے قدرتی کھیتی کی شروعات کریں۔ ایک موسم کے لیے اپنے کھیت کے ایک حصے میں قدرتی کھیتی آزمائیں، پھر اگلے سال اسے بڑھائیں اور پھر اگلے سال مزید وسعت دیں۔ تجربہ کامیاب ہوگا تو آپ اس سفر میں آگے بڑھتے جائیں گے۔

میں سائنس دانوں اور تحقیقی اداروں سے بھی کہوں گا کہ قدرتی کھیتی کو زرعی نصاب کا لازمی حصہ بنائیں۔ گاؤں جا کر کسانوں کے کھیتوں کو اپنی تجربہ گاہ بنائیں۔ ہمیں ہر حال میں قدرتی کھیتی کو سائنسی بنیادوں پر استوار ایک مضبوط تحریک بنانا ہے۔ ریاستی حکومتوں اور کسان پیداوار تنظیموں یعنی ایف پی اوز کے لیے بھی اس میں بہت اہم کردار ہے۔ ملک میں گزشتہ چند برسوں میں دس ہزار ایف پی او بن چکے ہیں۔ ان کی مدد سے چھوٹے چھوٹے کسان گروہ بنائے جا سکتے ہیں، جہاں صفائی، پیکنگ اور پراسیسنگ کی مقامی سہولت ہو اور ای-نام جیسے آن لائن بازاروں سے کسانوں کو براہ راست جوڑا جائے۔ اس طرح قدرتی کھیتی کرنے والے کسانوں کو مزید فائدہ ہوگا۔ جب ہمارا روایتی علم، سائنسی تحقیق اور سرکاری تعاون آپس میں جڑ جائیں تو کسان بھی خوشحال ہوگا اور ہماری دھرتی ماں بھی صحت مند رہے گی۔

ساتھیو،

مجھے پکا یقین ہے کہ یہ سمٹ اور خاص طور پر ہمارے کسان بھائی بہنوں کی رہنمائی ملک میں قدرتی کھیتی کو ایک نئی سمت دینے والی ہے۔ یہاں سے نئے خیالات اور نئے حل سامنے آئیں گے۔

اسی امید کے ساتھ، آپ سب کو بہت بہت مبارک باد!

میرے ساتھ بولیے:

بھارت ماتا کی جے،
بھارت ماتا کی جے،
بھارت ماتا کی جے۔

بہت بہت شکریہ!

***

(ش ح۔اس ک  )

UR-1520


(रिलीज़ आईडी: 2191878) आगंतुक पटल : 7
इस विज्ञप्ति को इन भाषाओं में पढ़ें: English , हिन्दी , Gujarati