جدید اور قابل تجدید توانائی کی وزارت
صدرِ جمہوریہ مرمو نے بین الاقوامی شمسی اتحاد (آئی ایس اے) کی آٹھویں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’عالمِ جنوب‘ کو جامع شمسی ترقی کی قیادت کرنی چاہیے۔ اس اجلاس میں 137 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی
صدرِ جمہوریہ مرمو نے کہا کہ بھارت تمام رکن ممالک کے ساتھ مل کر ایک شمسی توانائی سے چلنے والی دنیا کی تعمیر کے لیے پرعزم ہے
مرکزی وزیر اور آئی ایس اے کے صدر پرہلاد جوشی نے کہا کہ آئی ایس اے کے ذریعے بھارت، عالمِ جنوب کی آواز کو عملی اقدامات میں بدل رہا ہے
انہوں نے مزید کہا کہ شمسی انقلاب کے مرکز میں عالمِ جنوب ہے، اور آئی ایس اے اور بھارت ایک جامع، مستحکم اور شمسی توانائی سے روشن مستقبل کی سمت قیادت کر رہے ہیں
Posted On:
28 OCT 2025 6:11PM by PIB Delhi
صدرِ جمہوریہ ہند محترمہ دروپدی مرمو نے آج نئی دہلی کے تاریخی بھارت منڈپم میں بین الاقوامی شمسی اتحاد (آئی ایس اے) کی آٹھویں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کلیدی خطاب کیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ کسی صدرجمہوریہ ہند نے آئی ایس اے اسمبلی سے خطاب کیا، جو اس بات کی علامت ہے کہ بھارت عالمی سطح پر شمسی توانائی کے فروغ اور تعاون میں آئی ایس اے کی قیادت کے عزم پر قائم ہے۔ اس موقع پر صدرِ جمہوریہ نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے پیش کردہ وژن ’’ایک دنیا، ایک سورج، ایک گرڈ‘‘ کے اصول کو مزید آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔صدرجمہوریہ کے خطاب نے اجلاس کی اعلیٰ سطحی مشاورت کا رخ متعین کیا، جس میں 125 رکن اور دستخط کنندہ ممالک کے وزراء، پالیسی سازوں اور بین الاقوامی شراکت داروں نے شرکت کی، تاکہ شمسی توانائی میں عالمی تعاون اور سرمایہ کاری کو تیز کیا جا سکے۔
یہ عالمی سطح پر ایک اہم اجتماع ہے جس میں 550 سے زائد مندوبین اور 30 وزراء و نائب وزراء شریک ہیں، اور یہ اجلاس برازیل میں ہونے والی سی او پی30 کانفرنس سے محض چند دن قبل منعقد ہوا ہے۔

اپنے کلیدی خطاب میں محترمہ صدرِ جمہوریہ ہند دروپدی مرمو نے کہا’’ بین الاقوامی شمسی اتحاد (آئی ایس اے) نے قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے، جس میں عالمی شمسی سہولت، اسمال آئی لینڈ ڈویلپنگ اسٹیٹس پلیٹ فارم، افریقہ کے سولر منی گرڈز اور ابھرتی ہوئی ڈیجیٹل اختراعات شامل ہیں۔ اگلا قدم زیادہ جامعیت کی طرف ہونا چاہیے تاکہ اس شمسی انقلاب میں کوئی خاتون، کوئی کسان، کوئی گاؤں اور کوئی چھوٹا جزیرہ پیچھے نہ رہ جائے۔ بھارت تمام آئی ایس اے رکن ممالک کے ساتھ مل کر شمسی توانائی سے چلنے والی دنیا بنانے کے اپنے عزم پر مضبوطی سے قائم ہے — ایسی دنیا جہاں ہر خطہ، چاہے وہ سب سے چھوٹا جزیرہ ہو یا سب سے بڑا براعظم، ترقی کرے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’جب یہ اسمبلی آئندہ لائحۂ عمل پر غور کر رہی ہے، میں تمام رکن ممالک سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ محض بنیادی ڈھانچے سے آگے سوچیں اور عوام کی زندگیوں پر توجہ دیں۔ میں اس اسمبلی سے گزارش کرتی ہوں کہ ایک مشترکہ عملی منصوبہ تیار کیا جائے جو شمسی توانائی کو روزگار کے مواقع، خواتین کی قیادت، دیہی روزی روٹی اور ڈیجیٹل شمولیت سے جوڑ دے۔ ہماری پیش رفت کا پیمانہ صرف میگاواٹ سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اُن زندگیوں سے ہونا چاہیے جو روشن ہوئیں، اُن خاندانوں سے جو مضبوط ہوئے، اور اُن برادریوں سے جو بدل گئیں۔ توجہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے اشتراک پر بھی ہونی چاہیے تاکہ سب زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا یا جا سکے۔ جیسے جیسے ہم بڑے پیمانے پر شمسی تنصیبات بڑھا رہے ہیں، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ خطے کا ماحولیاتی توازن برقرار رہے۔ آخرکار، ماحول کے تحفظ ہی کی خاطر ہم آلودگی سے پاک توانائی کی طرف جا رہے ہیں۔‘‘
پیرس میں ہونے والی سی او پی 21 کانفرنس میں اعلان کیے جانے کے بعد سے، آئی ایس اے ایک پراعتماد اور نتائج پر مبنی ادارے کے طور پر ترقی کر چکا ہے جو’’عزم سے عمل‘‘کے نظریے کو اجاگر کرتا ہے۔ پچھلی دہائی میں، اس نے شمسی توانائی کے عالمی وژن سے آگے بڑھ کر رکن ممالک میں قابلِ پیمائش اثرات پیدا کیے ہیں۔ اپنی ترقی یافتہ وژن کے تحت، جو چار اسٹریٹیجک ستونوں پر مبنی ہے — مربوط فنانس ہب، عالمی صلاحیت مرکز اور ڈیجیٹلائزیشن، علاقائی و قومی سطح پر شمولیت، اور ٹیکنالوجی روڈ میپ و پالیسی — اتحاد ایک جامع نظام تشکیل دے رہا ہے جو سرمایہ کاری کو متحرک کرتا ہے، صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے، پالیسیوں کو آگاہ کرتا ہے اور تکنیکی اختراع کو فروغ دیتا ہے، تاکہ شمسی توانائی دنیا بھر میں قابلِ رسائی، قابلِ اعتماد اور سستی بن سکے۔
نئی اور قابل تجدید توانائی کے وزیر، ہندوستان اور آئی ایس اے اسمبلی کے صدرجناب پرہلاد جوشی نے کہا،“آئی ایس اے عالمی تعاون اور مشترکہ مقصد کی ایک حقیقی علامت ہے۔ ہزاروں برسوں سے بھارت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایمان و ترقی، فطرت و نمو ایک ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ صرف ایک دہائی قبل، بھارت کی قابلِ تجدید توانائی کی مہم کا آغاز ہی ہوا تھا۔ ہمارا چیلنج کروڑوں گھروں میں روشنی پہنچانا تھا۔ آج بھارت محض ایک شریک کے طور پر نہیں بلکہ عالمی توانائی کی منتقلی میں ایک قائد کے طور پر صفِ اول میں کھڑا ہے۔ بھارت اب قابلِ تجدید توانائی کی استعداد میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ یہ تبدیلی محترم وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ممکن ہوئی۔ اُن کی رہنمائی میں بھارت نے قومی پر عزم تعاون (این ڈی سی) کا ہدف — یعنی غیر فوسل ذرائع سے 50 فیصد صلاحیت حاصل کرنا — مقررہ مدت سے پانچ سال پہلے ہی پورا کر لیا۔ بھارت “گلوبل ساؤتھ” کی آواز ہے، اور آئی ایس اے کے ذریعے ہم اس آواز کو عمل میں بدل رہے ہیں، تاکہ ممالک کو شمسی توانائی کے استعمال اور ٹیکنالوجی کے تبادلے میں مدد ملے۔‘‘

بین الاقوامی شمسی اتحاد (آئی ایس اے) کی فرانسیسی شریک صدارت کی نمائندگی کرتے ہوئے، فرانسیسی وزیرِ مملکت برائے فرانکوفونی، بین الاقوامی شراکت داری اور بیرونِ ملک مقیم فرانسیسی شہریوں کے امور محترمہ ایلیانور کاروا نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا:
’’فرانس بین الاقوامی شمسی اتحاد کو انتہائی اہمیت دیتا ہے، جو شمسی توانائی کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ تقریباً دس سال قبل اس اتحاد کے آغاز سے ہی فرانس کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ شریک صدر کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ طویل شراکت داری اس بات کی عکاس ہے کہ ہم اتحاد کی کامیابی اور شمسی توانائی کے ذریعے توانائی کی منتقلی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔‘‘
فرانسیسی وزارت برائے یورپ و امورِ خارجہ کے ماحولیاتی امور کے خصوصی ایلچی جناب بینوئٹ فریکو نے کہا، ’’اتحاد کا کام براہِ راست سی او پی کے فیصلوں کے نفاذ میں معاونت کرنا ہے۔ دس سال قبل ہم نے پیرس معاہدہ منظور کیا اور ایک مشترکہ ہدف طے کیا کہ عالمی حدت کو قبل از صنعتی دور کی سطح سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہ بڑھنے دیا جائے۔ ہم نومبر میں ہونے والے سی او پی 30 میں آئی ایس اے کی کامیابیوں کو پیش ہوتے دیکھنے کے منتظر ہیں۔‘‘ فرانس نے آئی ایس اے کے نمایاں منصوبے افریقہ شمسی سہولت کے لیے مالی امداد کا بھی اعلان کیا۔
بین الاقوامی شمسی اتحاد کے ڈائریکٹر جنرل جناب آشیش کھنہ نے کہا، ’’دنیا شمسی انقلاب کے ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے — پہلی ایک ہزار گیگا واٹ شمسی استعداد پیدا کرنے میں 25 سال لگے، لیکن اگلی ایک ہزار گیگا واٹ صلاحیت محض دو سال میں حاصل کی گئی۔ اگلے چار سالوں میں یہ صلاحیت ایک بار پھر دگنی ہونے جا رہی ہے، اور اس تبدیلی کے مرکز میں گلوبل ساؤتھ موجود ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’آئی ایس اے اب محض وکالت سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کی جانب گامزن ہے — بھارت کے بڑے پیمانے پر شمسی منصوبوں، اختراعات اور کم لاگت والی ٹیکنالوجی کے کامیاب تجربات کو گلوبل ساؤتھ کے ممالک تک پہنچا رہا ہے۔ چھوٹے جزائر کے ترقی پذیر ممالک کی مشترکہ خریداری، افریقہ سولر فیسلٹی، گلوبل کیپیبیلٹی سینٹر کا آغاز، سرکولر معیشت اور فضلہ انتظام کے نئے پروگراموں، اور او ایس او ڈبلیو او جی کے لیے مخصوص منصوبے جیسے اقدامات کے ذریعے ہم ممالک کو تجرباتی مرحلے سے آگے بڑھا کر بڑے پیمانے پر پائیدار، جامع اور خود بحال ہونے والی شمسی معیشتیں قائم کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب گلوبل ساؤتھ ایک جامع، مضبوط اور شمسی توانائی سے روشن مستقبل کی تشکیل میں قیادت کر سکتا ہے۔‘‘
بھارت کی شمسی توانائی کے شعبے میں کامیابیاں دنیا بھر کے لیے ایک مضبوط محرک کا ذریعہ ہیں۔ آج بھارت دنیا کا تیسرا سب سے بڑا شمسی توانائی پیدا کرنے والا ملک ہے۔ بھارت نے اپنی کل نصب شدہ صلاحیت کا 50 فیصد حصہ غیر فوسل ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف اپنے 2030 کے مقررہ وقت سے پانچ سال پہلے ہی پورا کر لیا ہے، جس کے نتیجے میں بھارت نے تقریباً چار لاکھ کروڑ روپے (تقریباً 46 ارب امریکی ڈالر) کے فوسل ایندھن کی درآمدات اور آلودگی سے متعلق اخراجات سے بچت کی ہے، اور 1,08,000 گیگا واٹ فی گھنٹہ سے زیادہ شمسی بجلی پیدا کی ہے۔ آئی ایس اے کے ذریعے بھارت اپنے کامیاب پروگراموں جیسے پی ایم سوریہ گھر – مفت بجلی یوجنا اور پی ایم-کُسُم اسکیم کو ترقی پذیر ممالک، خصوصاً افریقہ اور چھوٹے جزائر میں نافذ کرنے میں مدد دے گا۔ یہ پروگرام اس بات کی روشن مثال ہیں کہ غیرمرکزی، عوام پر مبنی توانائی کے حل کس طرح زندگیوں کو بدل سکتے ہیں — گھروں کو روشن کر سکتے ہیں، روزگار کو سہارا دے سکتے ہیں، اور توانائی کو آخری سرحد تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ جنوب-جنوب تعاون کی ایک شاندار مثال ہے، جو تجربات کے تبادلے، حلوں کے فروغ، اور عالمی سطح پر شمسی توانائی کے اپنانے کے عمل کو تیز کرنے میں مددگار ہے۔
اہم نکات:
- ’سن رائز‘کا آغاز شمسی ری سائیکلنگ، اختراع اور شراکت داروں کی شمولیت کے لیے ایک عالمی نیٹ ورک ری سائیکلنگ، اختراع اور شراکت دار کی مصروفیت کے لیے شمسی اپ سائیکلنگ نیٹ ورک کے نام سے شروع کیا گیا۔ سن رائز حکومتوں، صنعتوں اور ماہرین کو آپس میں جوڑے گا تاکہ شمسی فضلے میں پوشیدہ قدر کو اجاگر کیا جا سکے اور زندگی کے آخری مرحلے میں پہنچ چکے شمسی آلات کے مسائل کو نئی صنعتی ترقی، سبز روزگار اور پائیدار وسائل کے انتظام کے مواقع میں تبدیل کیا جا سکے۔
- ایک سورج، ایک دنیا، ایک گرڈ‘پروگرام کی شروعات علاقائی شمسی روابط کو فروغ دینے کے لیے ایک خصوصی پروگرام متعارف کرایا گیا۔ ایک آنے والی رپورٹ میں مشرقی ایشیا–جنوبی ایشیا، جنوبی ایشیا–مشرقِ وسطیٰ، مشرقِ وسطیٰ–یورپ اور یورپ–افریقہ کے درمیان ترجیحی روابط کی نشاندہی کی گئی ہے۔ آئندہ دو سے تین برسوں میں ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے عمل درآمد سے متعلق مطالعات اور ضابطوں کا کام شروع کیا جائے گا۔
- چھوٹے جزیرہ نما ترقی پذیر ممالک کی جانب سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط —
چھوٹے جزیرہ نما ترقی پذیر ممالک کے وزراء اور وفود کے سربراہان نے عالمی بینک گروپ اور بین الاقوامی شمسی اتحاد کے اشتراک سے تیار کردہ ایس آئی ڈی ایس پلیٹ فارم کے تحت خریداری کے لیے اصولی طور پر ایک مفاہمت نامہ پر دستخط کیے۔ اس موقع پر 16 رکن ممالک — اینٹیگوا و باربودا، بیلیز، کامن ویلتھ آف ڈومینیکا، سری لنکا، ڈومینیکن جمہوریہ، پاپوا نیو گنی، کیریباتی، ناؤرو، سورینام، سینٹ کٹس اینڈ نیوس، سلیمان جزائر، مالدیپ، سیشلز، ماریشس، فجی اور مارشل آئی لینڈز — نے مربوط خریداری، ڈیجیٹل انضمام اور صلاحیت سازی کے ذریعے شمسی توانائی کے فروغ اور توانائی کے استحکام کے عزم کا اعادہ کیا۔
- عالمی صلاحیت مرکز‘ اور ’آئی ایس اے اکیڈمی‘ کا اجرا—
بھارت میں شمسی توانائی کے لیے ’سیلیکون ویلی‘ کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کے مقصد سے عالمی صلاحیت کے مرکز کا افتتاح کیا گیا۔ یہ مرکز ’ہب اینڈ اسپوک‘ ماڈل کے تحت قائم کیا گیا ہے جو موجودہ ’شمسی ٹیکنالوجی ایپلیکیشن وسائل مرکز‘ (اسٹار-سی) جیسے قومی مراکزِ فضیلت کو آپس میں جوڑتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ’آئی ایس اے اکیڈمی‘ کا بھی تعارف کرایا گیا، جو ایک آن لائن پلیٹ فارم ہے جہاں مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی ذاتی نوعیت کے تعلیمی راستوں کے ذریعے شمسی توانائی سے متعلق علم کو سب کے لیے قابلِ رسائی بنایا گیا ہے۔
اسمبلی کے دوران بین الاقوامی شمسی اتحاد (آئی ایس اے) کی پانچ علمی رپورٹیں بھی جاری کی جائیں گی — شمسی توانائی کیلئے آسانیاں 2025، افریقہ میں شمسی پی وی مہارتیں اور ملازمتیں، شمسی کمپاس: اسپیشل ایشو آن انٹیگریٹڈ فوٹو وولٹائکس، عالمی فلوٹنگ شمسی طریقہء کار، اور عالمی شمسی رجحانات اور نظریات 2025۔یہ رپورٹیں اُن اہم رجحانات کو اجاگر کریں گی جو عالمی سطح پر شمسی توانائی کے منظرنامے کو تشکیل دے رہے ہیں۔
ایز آف ڈوئنگ سولر (ای او ڈی ایس) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2024 میں توانائی کے انتقال (توانائی کی منتقلی) میں عالمی سرمایہ کاری 2083 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی، جن میں آئی ایس اے کے رکن ممالک کا حصہ 861.2 ارب امریکی ڈالر رہا۔ یہ اعداد و شمار اس بات کو نمایاں کرتے ہیں کہ صاف توانائی کے مستقبل کی تشکیل میں گلوبل ساؤتھ (جنوبی ممالک) کی قیادت تیزی سے مضبوط ہو رہی ہے۔ قابلِ تجدید توانائی کے شعبے نے مجموعی طور پر 725 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی، جن میں صرف شمسی توانائی کا حصہ 521 ارب امریکی ڈالر رہا — جو عالمی توانائی کی تبدیلی میں اس کے کلیدی کردار کو مستحکم کرتا ہے۔
افریقہ میں شمسی پی وی مہارتیں اور ملازمتیں کی رپورٹ کے مطابق افریقہ میں شمسی توانائی کے شعبے میں کام کرنے والی افرادی قوت 2.26 لاکھ سے بڑھ کر سال 2050 تک 25 سے 42 لاکھ کے درمیان پہنچنے کا امکان ہے۔ اس ترقی کی قیادت ٹیکنیشنز (ماہرانِ فن) کریں گے، جن کے لیے تقریباً 13 لاکھ روزگار کے مواقع متوقع ہیں، جبکہ 55 فیصد ملازمتیں چھوٹے پیمانے کے نظاموں سے منسلک ہوں گی۔ آئی ایس اے نے زور دیا ہے کہ افریقہ میں صاف توانائی کے مستقبل کے لیے ایک ہنرمند سولر ورک فورس تیار کرنے کی خاطر بہتر سرٹیفکیشن، مستقبل کے تقاضوں کے مطابق تربیت، ڈیجیٹل لرننگ، اور علاقائی تعاون کو فروغ دیا جائے۔
عالمی شمسی رجحانات اور نظریات 2025 رپورٹ میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ شمسی توانائی کس طرح ایک ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی سے ترقی کرتے ہوئے عالمی سطح پر صاف توانائی کی توسیع کی سب سے غالب قوت بن چکی ہے۔ یہ جامع رپورٹ پالیسی سازوں، سرمایہ کاروں، اور ترقیاتی شراکت داروں کو شمسی توانائی کے بدلتے منظرنامے سے متعلق اہم بصیرت فراہم کرتی ہے۔
سولر کمپاس – اسپیشل ایشو آن انٹیگریٹڈ پی وی ایپلیکیشنز میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ یہی وہ لمحہ ہے جب عالمِ جنوب کو شمسی اختراعات میں قیادت سنبھالنی چاہیے۔ ترقی پذیر ممالک میں تقریباً 70 فیصد عمارتیں ابھی تعمیر ہونا باقی ہیں، ایسے میں بلڈنگ انٹیگریٹڈ فوٹو وولٹائکس (بی آئی پی وی) مستقبل کے بنیادی ڈھانچے میں شمسی توانائی کو شامل کرنے کا ایک انقلابی موقع فراہم کرتا ہے۔ آئی ایس اے کی زیرِ قیادت اقدامات کے ذریعے بی آئی پی وی کی لاگت کو چھت پر نصب شمسی سسٹمز کے برابر لانے اور شمسی توانائی سے مطابقت رکھنے والے تعمیراتی ضوابط (سولر ریڈی ہاؤسنگ کوڈز) کو فروغ دینے کی کوششیں جاری ہیں۔
عالمی فلوٹنگ شمسی لائحہء عمل کی رپورٹ کے مطابق اگلی دہائی میں فلوٹنگ شمسی توانائی کی عالمی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے، جس کی قیادت ایشیا-بحرالکاہل کا علاقہ کرے گا۔ یہ اضافہ بجلی پیدا کرنے کی کم ہوتی لاگت — جو فی الحال فی کلو واٹ فی گھنٹہ 0.05 سے 0.07 امریکی ڈالر کے درمیان ہے — اور ڈیزائن میں مسلسل جدتوں کی عکاسی کرتا ہے، جو فلوٹنگ سولر کو زمینی نظاموں کا ایک قابلِ عمل متبادل بنا رہی ہیں۔ یہ فریم ورک ممالک کو ایسے عملی اوزار فراہم کرتا ہے جن کی مدد سے وہ اپنی جغرافیائی، معاشی، اور سماجی ضروریات کے مطابق مؤثر حکمتِ عملیاں تیار کر سکیں۔
اسمبلی کا اختتام بی ایس ای ایس راجدھانی پاور لمیٹڈ کے کلوکری بیٹری انرجی اسٹوریج سسٹم کے دورے کے ساتھ ہوگا، جو بھارت کا سب سے بڑا شہری واحد بی ای ایس ایس ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، مندوبین جنک پوری میں ڈیجیٹل ٹوئن آف نیٹ ورک پروجیکٹ کا بھی معائنہ کریں گے — یہ ایک نمایاں قدم ہے جو بھارت میں بجلی کی ترسیل کے لیے پہلا بڑے پیمانے پر، بر وقت ڈیجیٹل ٹوئن متعارف کرا رہا ہے۔آئی ایس اے اسمبلی کے آٹھویں اجلاس نے عالمی سطح پر شمسی تعاون، اختراعات اور پائیدار ترقی کے لیے الائنس کے عزم کو ایک بار پھر مضبوط کیا ہے۔ یہ اجلاس اس بات کی مثال پیش کرتا ہے کہ شراکت داری، علم کا تبادلہ، اور ٹیکنالوجی کس طرح ایک ساتھ مل کر سب کے لیے شمسی توانائی سے روشن مستقبل تشکیل دے سکتے ہیں۔
بین الاقوامی شمسی اتحاد کے بارے میں:
بین الاقوامی شمسی اتحاد (آئی ایس اے) ایک عالمی پہل ہے جو 2015 میں بھارت اور فرانس نے پیرس میں منعقدہ سی او پی21 کے دوران شروع کی تھی۔ اس کے 125 رکن اور دستخط کنندہ ممالک ہیں۔ یہ الائنس دنیا بھر کی حکومتوں کے ساتھ مل کر توانائی تک بہتر رسائی اور توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانے پر کام کرتا ہے، اور شمسی توانائی کو صاف توانائی کے مستقبل کی طرف ایک پائیدار منتقلی کے طور پر فروغ دیتا ہے۔
آئی ایس اے کا ابھرتا ہوا وژن چار سٹریٹجک ستونوں پر لنگر انداز ہے: (1) بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو کھولنے اور متحرک کرنے کے لیے مربوط فنانس ہب؛ (2) رکن ممالک میں جدت، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، اور صلاحیت سازی کو فروغ دینے کے لیے عالمی قابلیت کا مرکز اور ڈیجیٹلائزیشن؛ (3) اسٹریٹجک ساجھے داری اور (4) قابل عمل پالیسی فریم ورک اور علمی وسائل کے ذریعے ابھرتی ہوئی شمسی ٹیکنالوجیوں کی تعیناتی کو تیز کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا روڈ میپ اور پالیسی
شمسی توانائی سے چلنے والے حل کے لیے اپنی وکالت کے ساتھ، آئی ایس اے کا مقصد زندگیوں کو تبدیل کرنا، دنیا بھر کی کمیونٹیز کے لیے صاف، قابل بھروسہ، اور سستی توانائی لانا، پائیدار ترقی کو فروغ دینا، اور زندگی کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔ 6 دسمبر 2017 کو، 15 ممالک نے آئی ایس اے فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے اور اس کی توثیق کی، جس سے آئی ایس اے پہلی بین الاقوامی بین الحکومتی تنظیم ہے جس کا صدر دفتر بھارت میں ہے۔
************
ش ح ۔ م د ۔ م ص
(U : 408 )
(Release ID: 2183525)
Visitor Counter : 7