وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

وزیراعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی صد سالہ تقریبات سے خطاب کیا

Posted On: 02 OCT 2025 11:15AM by PIB Delhi

اسٹیج پر موجود راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے معزز  سركاریواہ  جناب  دتاتریہ ہوسبلے جی، مرکزی وزیر جناب  گجندر شیخاوت جی، دہلی کی مقبول وزیراعلیٰ ریکھا گپتا جی، راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے تمام رضاکار، دیگر معزز شخصیات، خواتین و حضرات!

گزشتہ روز، ہم نے وِجئے کمار ملوہوترا جی کو کھو دیا، جو اس تنظیم کے طویل عرصے سے رضاکاروں میں سے ایک تھے اور جن کا ہر موڑ پر سنگھ کے سفر میں ایک اہم مقام رہا۔ سب سے پہلے، میں ان کے لیے اپنی تعظیم پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج مہانوامی ہے۔ یہ دیوی سدھی دتری کا دن ہے۔ میں نورتری کے موقع پر تمام اہل وطن کو اپنی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کل کے دن وِجئے دشمی کا عظیم تہوار ہے، جو انصاف پر ظلم کی، سچائی پر جھوٹ کی، روشنی پر اندھیروں کی فتح کی علامت ہے۔ وِجئے دشمی بھارتی ثقافت کے اس  تخیل  اور عقیدے کا دائمی اعلامیہ ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی بنیاد اتنے شاندار موقع پر ایک صدی قبل رکھی گئی تھی۔ یہ ایک قدیم روایت کی تجدید تھی، جس میں قوم کا شعور ہر دور کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے نئے روپ اختیار کرتا ہے۔ سنگھ اس دور میں اس ابدی قومی شعور کی ایک مقدس تجسم ہے۔

ساتھیو،

یہ ہمارے رضاکاروں کی نسل کی خوش قسمتی ہے کہ ہم ایسے شاندار موقع یعنی سنگھ کے صدی سالہ جشن کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس موقع پر، میں ملک کی خدمت کے عزم میں لگے بے شمار رضاکاروں کو اپنی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں سنگھ کے معزز بانی اور ہمارے مثالی رہنما ڈاکٹر ہیڈ گوار جی  کو بھی خراج عقیدت پیش کرتا  ہوں ا ور نمن کرتا ہوں۔

ساتھیو،

 حکومت ہند نے آج راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے ایک صدی پر محیط شاندار سفر کی یاد میں خصوصی ڈاک ٹکٹ اور یادگاری سکّے جاری کیے ہیں۔ 100 روپے کے سکے پر ایک طرف قومی نشان ہے، اور دوسری طرف بھارت ماتا کی ایک شاندار تصویر ہے، جو  آشیرواد  کے روپ  میں شیر کے ساتھ کھڑی ہیں اور رضاکار ان کے سامنے عقیدت کے ساتھ جھکتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ شاید یہ پہلا موقع ہے کہ آزاد بھارت کی تاریخ میں بھارت ماتا کی تصویر بھارتی کرنسی پر  دکھائی دی ہو۔ سکے پر سنگھ کے نعرے بھی درج ہیں: ‘‘راشٹرایہ سواہا، ادند راشٹرایہ اند نا مم ’’ ( ملک  کے لیے میں وقف ہوں، یہ  ملک  کے لیے ہے، نہ کہ میرے لیے)۔

ساتھیو،

آج جاری کیا گیا خصوصی یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 26 جنوری کو ہونے والی یوم جمہوریہ کی پریڈ کی کیا اہمیت ہے۔ 1963 میں، راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے رضاکار بھی اس قومی پریڈ میں شریک ہوئے اور وطن پرستی کے جذبے کے ساتھ فخر سے مارچ کیا۔ یہ ڈاک ٹکٹ اس تاریخی لمحے کو یاد دلاتا ہے۔

ساتھیو،

وہ رضاکار جو مسلسل  ملک  کی خدمت اور سماج کی مضبوطی میں لگے ہوئے ہیں، انہیں بھی اس یادگاری ڈاک ٹکٹ میں دکھایا گیا ہے۔ میں اس موقع پر ملک کے عوام کو ان یادگاری سکّوں اور ڈاک ٹکٹوں کے لیے دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

جس طرح بڑی دریا اپنی دھاروں کے کناروں پر انسانی تہذیبوں کو سیراب کرتے ہیں، اسی طرح سنگھ کے کناروں اور اس کے بہاؤ میں بھی بے شمار زندگیاں پروان چڑھی ہیں۔ جس طرح دریا اپنی پانی سے زمین، دیہات اور علاقوں کو زرخیز اور خوشحال بناتا ہے، اسی طرح سنگھ نے اس ملک  کے ہر گوشے، سماج کے ہر پہلو کو  متاثر کیا ہے۔ یہ مسلسل صبر و محنت کا پھل ہے اور یہ قومی جذبے کی مضبوط روانی ہے۔

ساتھیو،

جس طرح دریا کئی شاخوں میں بہتا ہے اور ہر شاخ ایک مختلف علاقے کو زرخیز کرتی ہے، اسی طرح سنگھ کا سفر بھی کئی دھاروں میں بٹ کر آگے بڑھا ہے۔ اس کی کئی وابستہ تنظیمیں، جو زندگی کے ہر شعبے سے جڑی ہوئی ہیں، اپنے اپنے طریقوں سے ملک  کی خدمت کر رہی ہیں، چاہے وہ تعلیم، زراعت، سماجی بہبود، قبائلی فلاح، خواتین کے بااختیار بنانا، فنون و علوم، یا محنت کش بھائیوں اور بہنوں کی حمایت ہو۔ سنگھ سماجی زندگی کے بے شمار شعبوں میں بلا توقف کام کر رہا ہے۔ اس سفر کی ایک خاص بات یہ رہی ہے کہ ایک شاخ کئی شاخوں میں تقسیم ہوئی لیکن وہ کبھی آپس میں ٹکرائیں نہیں، کبھی تقسیم پیدا نہیں ہوئی۔ کیونکہ ہر شاخ کا مقصد، ہر شعبے میں کام کرنے والی تنظیم کا جذبہ، ایک ہی رہا: ‘راشٹریہ پرتھم ، یعنی ملک  پہلے!

ساتھیو،

 اپنے آغاز  کے بعد سے، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے ایک عظیم مقصد کو اپنایا ہے، اور وہ مقصد ہے  ملکی  تعمیر کا مشن۔ اس مشن کو پورا کرنے کے لیے اس نے جو راستہ اپنایا وہ تھا فرد کی کردار سازی کے ذریعے ملکی تعمیراور اس نے جو طریقہ اختیار کیا وہ تھا شاکھا (برانچ) کی روزانہ، باقاعدہ مشق۔

ساتھیو،

معزز ڈاکٹر ہیڈگوار صاحب بخوبی جانتے تھے کہ ہمارا ملک تب ہی مضبوط ہوگا جب ہر شہری اپنے فرائض کے تئیں بیدار ہوگا۔ ہمارا ملک تب ہی آگے بڑھے گا جب ہر بھارتی اپنے ملک کے لیے جینا سیکھے گا۔ اسی لیے انہوں نے خود کو مسلسل فرد کی کردار سازی کے لیے وقف کر دیا، اور ان کا طریقہ منفرد تھا۔ ہم نے اکثر ڈاکٹر ہیڈ گوار صاحب کو کہتے سنا: ‘‘چیزوں کو جیسا ہے ویسا قبول کریں، اور انہیں جیسا ہونا چاہیے ویسا بنائیں۔’’

ان کے عوام کو متحرک کرنے کے طریقے کو سمجھنے کے لیے، مٹی کے برتن بنانے والے کی مثال دی جا سکتی ہے۔ جب ایک مٹی ساز اینٹیں بناتا ہے، تو وہ زمین کی عام مٹی سے شروع کرتا ہے۔ اسے جمع کرتا ہے، اس پر کام کرتا ہے، اسے شکل دیتا ہے، اور حرارت میں بھنتا ہے، اور اس دوران خود بھی اسی آگ سے گزرتا ہے۔ وہ خود کو مٹی کے ساتھ تیار کرتا ہے۔ پھر وہ ان اینٹوں کو جمع کرکے ایک شاندار ڈھانچہ تعمیر کرتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے بالکل عام لوگوں کو منتخب کیا، انہیں تربیت دی، انہیں وژن دیا، انہیں ڈھالا، اور اس طرح ملک کی خدمت کے لیے وقف رضاکار تیار کیے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سنگھ میں عام لوگ اکٹھے ہو کر غیر معمولی اور بے مثال کام انجام دیتے ہیں۔

ساتھیو،

کردار سازی کا یہ خوبصورت عمل آج بھی سنگھ کی شاکھوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک سنگھ شاکھ کا میدان ترغیب کا ایک مقدس زمین ہے، جہاں سے ایک رضاکار کی سفر‘‘میں’’ سے ‘‘ہم’’ کی طرف شروع ہوتی ہے۔ شاکھیں  کردار سازی کے لیے قربانی کے مقامات ہیں۔ ان شاخوں میں فرد کی جسمانی، ذہنی، اور سماجی ترقی ہوتی ہے۔ رضاکاروں کے ذہنوں میں ملک کی خدمت اور ہمت کا جذبہ روز بروز بڑھتا ہے۔ ان کے لیے قربانی اور لگن فطری بن جاتی ہے، ذاتی شہرت کے لیے مقابلے کا احساس ختم ہو جاتا ہے، اور وہ اجتماعی فیصلہ سازی اور اجتماعی عمل کی ثقافت حاصل کرتے ہیں۔

ساتھیو،

قوم کی تعمیر کا عظیم مقصد، کردار سازی کا روشن راستہ، اور شاکھ  کا سادہ مگر متحرک طریقہ، یہ سب راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کے صدی پر محیط سفر کی بنیاد ہیں۔ انہی ستونوں پر مضبوطی سے کھڑا رہتے ہوئے، سنگھ نے لاکھوں رضاکاروں کو پروان چڑھایا، جو مختلف شعبوں میں قوم کے لیے اپنی بہترین خدمات پیش کر رہے ہیں اور لگن، خدمت اور قومی ترقی کے جذبے کے ذریعے ملک کو آگے بڑھانے کی مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔

ساتھیو،

اپنے قیام کے وقت سے ہی، سنگھ کی ترجیح ہمیشہ ملک  کی ترجیح رہی ہے۔ اسی لیے ہر دور میں، جب بھی ملک نے کسی بڑےچیلنج کا سامنا کیا، سنگھ نے خود کو اس جدوجہد میں غرق کر دیا اور اسے سرِ فخر سے سہارا دیا۔ اگر ہم آزادی کی تحریک کے زمانے کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ معزز ڈاکٹر ہیڈ گوار جی اور سنگھ کے کئی کارکنوں نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر صاحب کو کئی بار جیل جانا پڑا۔ سنگھ نے کئی مجاہدین آزادی  کی حمایت اور حفاظت کی، اور ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کیا۔ 1942 میں، چیمور میں برٹش کے خلاف بغاوت کے دوران، کئی رضاکاروں نے برطانوی ظلم و ستم برداشت کیے۔ آزادی کے بعد بھی، سنگھ نے بے شمار قربانیاں دیں، چاہے وہ حیدرآباد میں نظام کی ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد ہو، گوا کی آزادی کی تحریک ہو، یا دادرا اور نگر حویلی کی آزادی۔ لیکن ان سب کے بیچ، جذبہ ایک رہا: ‘ملک  پہلے’۔ مقصد ایک رہا: ‘ایک بھارت، شریشتھ بھارت’۔

ساتھیو،

ملک کی خدمت کے راستے میں یہ نہیں کہ سنگھ نے کبھی حملوں یا سازشوں کا سامنا نہیں کیا۔ ہم نے دیکھا کہ آزادی کے بعد بھی اسے مٹانے کی کوششیں کی گئیں۔ اسے مرکزی دھارے میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے بے شمارسازشیں رچی گئی۔ معزز گرو جی (ایم ایس گولوالکر) کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا اور جیل بھیجا گیا۔ لیکن جب گرو جی جیل سے باہر آئے، تو انہوں نے نہایت سادگی سے بات کی — الفاظ جو تاریخ میں آج بھی ایک عظیم تر تحریک کا سرچشمہ ہیں۔ گرو جی نے فرمایا: “کبھی کبھار زبان دانتوں کے نیچے آ جاتی ہے اور کچل جاتی ہے، لیکن ہم اپنے دانت نہیں توڑتے۔ کیونکہ دانت ہمارے ہیں اور زبان بھی ہماری ہے۔”

ذرا تصور کریں، اتنی اذیت جھیلنے کے بعد، جیل میں بے شمار ظلم سہنے کے باوجود، گرو جی کے دل میں نہ کوئی غصہ تھا، نہ کوئی کینہ۔ یہی ان کی صوفیانہ شخصیت تھی۔ ان کی وضاحتِ فکر ہر سنگھ کے رضاکار کی زندگی کے لیے رہنما روشنی بن گئی۔ اس نے سماج کے ساتھ یکجہتی اور محبت کے اقدار کو مضبوط کیا۔ اسی لیے، جب بھی سنگھ نے پابندیوں، سازشوں یا جھوٹے مقدمات سامنا کیا تو اس کے رضاکاروں نے اپنے دلوں میں کڑواہٹ کو کبھی جگہ نہیں دی۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سنگھ سماج سے الگ نہیں ہے۔ سماج ہم سب سے مل کر بنتا ہے۔ اس میں جو اچھا ہے، وہ ہمارا ہے؛ اور جو کم اچھا ہے، وہ بھی ہمارا ہے۔

ساتھیو،

اور دوسری بات جس نے کبھی تلخی کو جنم نہیں دیا، وہ ہے ہر رضاکار کا جمہوریت اور آئینی اداروں میں ثابت قدم یقین، جب ملک پر ایمرجنسی عائد کی گئی تو اسی ایک یقین نے ہر رضاکار کو طاقت دی، اسے جدوجہد کرنے کی صلاحیت دی۔ انہی دو اصولوں، معاشرے کے ساتھ ایک یگانگت اور آئینی اداروں کے تئیں عقیدت نے ایسو سی رضاکاروں کو ہر بحران میں ثابت قدم رکھا، معاشرے کے تئیں حساس بنایا۔ اس لیے معاشرے کے کئی صدمات برداشت کرنے کے باوجود سنگھ آج تک ایک عظیم برگد کے درخت کی طرح ثابت قدم کھڑا ہے۔ ملک اور معاشرے کی خدمت میں مسلسل کام کر رہا ہے۔ ابھی یہاں ہمارے ایک رضاکار نے اتنی خوبصورت پر فارمنس دی، صفر سے ایک صدی بنے، اعداد کی دلکش بھارتی کی جے-وجے ہو، لے دل میں تحریک، کر رہے ہیں ہم سادھنا، ماتر-بھوارادھنااور اس گانے کا پیغام تھا، ہم نے ملک کو ہی دیو مانا ہے اور ہم نے جسم کو ہی دیا بنا کر جلنے کا سیکھا ہے۔ واقعی یہ شاندار تھا۔

ساتھیو،

ابتداء سے ہی سنگھ قوم پرستی اور خدمت کی علامت رہا ہے۔ جب تقسیم کے درد نے لاکھوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا، تب رضاکاروں نے مہاجرین کی خدمت کی،سنگھ کے وہی رضاکار اپنی محدود وسائل کے ساتھ سب سے آگے کھڑے تھے۔ یہ صرف راحت نہیں تھی، بلکہ قوم کی روح کو سہارا دینے کا کام تھا۔

ساتھیو،

1956 میں، گجرات کے کچھ کے انجار میں ایک بہت بڑا زلزلہ آیا تھا۔ تباہی اتنی شدید تھی کہ چاروں طرف تباہی کا منظر تھا۔ اُس وقت بھی سنگھ کے رضاکار ریلیف اور بچاؤ میں مصروف تھے۔ تب پرم پووجیا گرو جی نے گجرات کے سینئرسنگھ کے پرچارک وکیل صاحب کو، جو اُس وقت گجرات کے کام کی ذمہ داری سنبھال رہے تھے، ایک خط لکھا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ کسی دوسرے کے دکھ کو دور کرنے کے لیے بے لوث انداز میں خود تکلیف اٹھانا، ایک اعلیٰ دل کی پہچان ہے۔

ساتھیو،

خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کے دکھ دور کرنا، یہ ہر رضاکار کی پہچان ہے۔ یاد کیجیے، 1962 کے جنگ کے اُس وقت، سنگھ کے رضاکار دن رات کھڑے رہ کر فوج کی مدد کی، اُن کا حوصلہ بڑھایا، سرحد پر بسے گاؤں تک امداد پہنچائی۔ 1971 میں لاکھوں مہاجر مشرقی پاکستان سے بھارت کی زمین پر آئے، اُن کے پاس نہ گھر تھا نہ وسائل، اُس مشکل گھڑی میں رضاکاروں نے اُن کے لیے خوراک فراہم کی، پناہ دی، صحت کی سہولیات پہنچائیں، اُن کے آنسو پونچھے، اُن کے دکھ بانٹے۔

ساتھیو،

ایک اور بات ہم جانتے ہیں، 1984 میں سکھوں کے خلاف جو قتل عام کیا گیا، کئی سکھ خاندان سنگھ  کے رضاکاروں کے گھروں میں آ کر پناہ لے رہے تھے۔ یہ رضاکاروں کا فطری رویہ رہا ہے۔

ساتھیو،

سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ایک بار چترکوٹ گئے تھے۔ وہاں انھوں نے وہ آشرم دیکھا جہاں نانا جی دیش مکھ کام کر رہے تھے اور وہاں کی خدمتی سرگرمیوں سے حیران رہ گئے تھے۔ اسی طرح جب سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے ناگپور کا دورہ کیا تو وہ بھی سنگھ کے نظم و ضبط اور سادگی سے بہت متاثر ہوئے تھے۔

ساتھیو،

آج بھی آپ دیکھیں، پنجاب کی سیلاب، ہماچل-اترکھنڈ کی آفت، کیرالہ کے وائناڈ کا المیہ، ہر جگہ رضاکار سب سے پہلے پہنچنے والوں میں سے ایک رہتے ہیں۔ کورونا کے دور میں تو پوری دنیا نے سنگھ کے حوصلے اور خدمت کے جذبے کا براہِ راست ثبوت دیکھا ہے۔

ساتھیو،

اپنی 100 سالہ اس سفر میں سنگھ کا ایک بڑا کام یہ رہا ہے کہ اس نے معاشرے کے مختلف طبقات میں خود شناسی پیدا کی، خود اعتمادی پیدا کی، اور اس کے لیے سنگھ اُن علاقوں میں بھی کام کرتا رہا جو دشوار گزار ہیں، جہاں پہنچنا سب سے مشکل ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً 10 کروڑ آدیواسی بھائی بہن ہیں، جن کی بھلائی کے لیے سنگھ مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔ طویل عرصے تک حکومتوں نے انہیں ترجیح نہیں دی، لیکن سنگھ نے ان کی ثقافت، ان کے تہوار، ان کے جشن، ان کی زبان اور روایات کو اعلیٰ ترین ترجیح دی۔ سیوا بھارتی، ودیا بھارتی، ایکل سکول، ونواسی کلیان آشرم آدیواسی معاشرے کے بااختیار بنانے کا ستون بن کر ابھرے ہیں۔ آج ہمارے آدیواسی بھائی بہنوں میں جو خود اعتمادی آئی ہے، وہ ان کی زندگی کو بدل رہی ہے۔

ساتھیو،

سنگھ دہائیوں سے آدیواسی روایات، آدیواسی رسومات، آدیواسی اقدار کو محفوظ رکھنے اور سنوارنے میں اپنا تعاون دیتا رہا ہے، اپنا فریضہ نبھاتا رہا ہے، اس کی کفایت شعاری نے بھارت کی ثقافتی شناخت کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں ملک کے دور دراز، کونے کونے میں آدیواسیوں کی زندگی آسان بنانے میں مصروف سنگھ کے لاکھوں رضاکاروں کی بھی تعریف کروں گا۔

ساتھیو،

معاشرہ میں صدیوں سے بس چکی جو بیماریاں ہیں، جو اونچ نیچ کا جذبہ ہے، جو برائیاں ہیں، چھواچھوت جیسی گندگی پھیلی ہوئی ہے، یہ ہندو معاشرے کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج رہی ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ فکر ہے، جس پر سنگھ مسلسل کام کرتا رہا ہے۔ ایک بار مہاتما گاندھی جی وردھا میں سنگھ کے کیمپ میں گئے تھے۔ انہوں نے بھی سنگھ میں برابری، محبت، ہم آہنگی، مساوات، ہمدردی، یہ جو کچھ دیکھا اور اس کی کھل کر تعریف کی تھی۔ اور آپ دیکھیے، ڈاکٹر صاحب سے لے کر آج تک سنگھ کی ہر عظیم شخصیت نے، ہر سر سنگھ چالک نے امتیاز اور چھواچھوت کے خلاف جدوجہد کی ہے۔پرّم پوَجیا گرو جی نے مسلسل ‘نا ہندو پتیتو بھوت’ کے جذبے کو آگے بڑھایا۔ یعنی، ہر ہندو ایک ہی خاندان ہے۔ کوئی بھی ہندو کبھی پتیت یا نیچ نہیں ہو سکتا۔ پوَجیا بالا صاحب دیورس جی کے الفاظ بھی ہم سب کو یاد ہیں، وہ کہتے تھے،چھواچھوت اگر گناہ نہیں، تو دنیا میں کوئی گناہ نہیں ہے!۔سرسنگھ چالک رہتے ہوئے پوَجیا رجّو بھیا جی اور پوَجیا سُدرشن جی نے بھی اسی جذبے کو آگے بڑھایا۔ موجودہ سرسنگھ چالک جناب موہن بھاگوت جی نے بھی ہم آہنگی کے لیے معاشرے کے سامنے واضح ہدف رکھا ہے اور گاؤں گاؤں تک اس بات کی روشنی پہنچائی ہے۔ کیا ہے وہ؟ انہوں نے کہاایک کنواں، ایک مندر اور ایک شمشان۔ اس تصور کے تحت سنگھ ملک کے ہر کونے میں گیا ہے۔ کوئی امتیاز نہیں، کوئی اختلاف نہیں، کوئی دل کا جھگڑا نہیں، یہی ہم آہنگی کی بنیاد ہے، یہی سب شامل معاشرے کا عزم ہے، اور سنگھ اسے مسلسل نئی طاقت اور نئی توانائی دے رہا ہے۔

ساتھیو،

جب 100 سال پہلے سنگھ وجود میں آیا تھا، تو اُس وقت کی ضروریات، اُس وقت کے مسائل کچھ اور تھے۔ تب ہمیں صدیوں کی سیاسی غلامی سے آزادی حاصل کرنی تھی، اپنے ثقافتی اقدار کی حفاظت کرنی تھی۔ لیکن آج 100 سال بعد، جب بھارت ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے، جب بھارت دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے، جب ملک اور ملک کا بہت بڑا غریب طبقہ غربت پر قابو پا کر آگے بڑھ رہا ہے، جب ہمارے نوجوانوں کے لیے نئے شعبوں میں نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، جب عالمی سفارت کاری سے لے کر ماحولیاتی پالیسیوں تک، بھارت دنیا میں اپنی آواز بلند کر رہا ہے، تب آج کے وقت کے چیلنجز مختلف ہیں، مسائل بھی مختلف ہیں۔دوسرے ممالک پر اقتصادی انحصار، ہماری یکجہتی کو توڑنے کی سازشیں، آبادی میں تبدیلی کے منصوبے، ایک وزیراعظم کے طور پر میں عاجزی کے ساتھ کہوں گا کہ مجھے بہت اطمینان ہے کہ ہماری حکومت ان چیلنجز سے تیزی سے نمٹ رہی ہے۔ اسی طرح ایک رضاکار کے طور پر مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ قومی رضاکار سنگھ نے نہ صرف ان چیلنجوں کی نشاندہی کی ہے، بلکہ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی بھی کی ہے۔ ابھی معزز دتاترئے جی نے جن باتوں کا ذکر کیا، میں اپنے انداز میں پھر سے ایک بار اُس کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

ساتھیو،

سنگھ کی پانچ تبدیلیاں، خود شناسی، سماجی ہم آہنگی، خاندانی روشن خیالی، شہری آداب اور ماحول۔یہ عزم ہر رضاکار کے لیے ملک کے سامنے موجود چیلنجوں پر قابو پانے کی ایک بہت بڑی تحریک ہیں۔

ساتھیو،

خود شناسی، یعنی اپنے شعور کا ادراک، خود شناسی یعنی غلامی کی ذہنیت سے آزاد ہو کر اپنی وراثت پر فخر کرنا، اپنی مادری زبان پر فخر کرنا، خود شناسی یعنی خود مختار، خود انحصار ہونا۔ اور میرے ہم وطنو، یہ بات سمجھ کر چلیں کہ خود انحصاری اختیار کے طور پر نہیں، بلکہ ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر ہے۔ ہمیں اپنے ملک کی خود مختاری کے اصل اصول کو معاشرے کا عزم بنانا ہے۔ ہمیں ‘‘ووکَل فار لوکل’’ مہم کو اس کی کامیابی کے لیے، ‘‘ووکَل فار لوکل’’ کو ہمارا مسلسل نئی توانائی دینے والا نعرہ ہونا چاہیے، کوشش ہونی چاہیے۔

ساتھیو،

سنگھ نے ہمیشہ سماجی ہم آہنگی کو ترجیح دی ہے۔ سماجی ہم آہنگی کا مطلب ہے پسماندہ افراد کو ترجیح دے کر سماجی انصاف کا قیام اور قومی یکجہتی کو بڑھانا۔ آج قوم کو بحرانوں کا سامنا ہے جو براہ راست ہمارے اتحاد، ہماری ثقافت اور ہماری سلامتی پر حملہ آور ہیں۔ علیحدگی پسند سوچ، علاقائیت، ذات پات اور زبان کے تنازعات، اور بیرونی طاقتوں کی طرف سے پیدا ہونے والے تفرقہ انگیز رجحانات- یہ تمام ان گنت چیلنجز ہمارے سامنے ہیں۔ ہندوستان کی روح ہمیشہ سے تنوع میں اتحاد رہی ہے۔ اگراس  فارمولہ کو توڑاگیا تو بھارت کی طاقت بھی کمزور ہو جائے گی۔  اور اسی لیے ہمیں اس فارمولے کو مسلسل جینا ہے ، اسے مضبوط کرنا ہے ۔

ساتھیو،

آج سماجی ہم آہنگی کو دراندازی کرنے والوں اور آبادی کو تبدیل کرنے کی سازشوں سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے ۔  یہ ہماری داخلی سلامتی اور مستقبل کے امن کا بھی سوال ہے ۔  اور اسی لیے میں نے لال قلعہ سے ڈیموگرافی مشن کا اعلان کیا ہے ۔  ہمیں اس چیلنج سے ہوشیار رہنا ہے ، ہمیں اس سے مضبوطی سے لڑنا ہے ۔

ساتھیو،

کٹمب پربودھن آج کے وقت کی ضرورت ہے ، جو سوشیولوجی کے صدیوں پرانے اسکالرز کی زبان ہے ۔  وہ کہتے ہیں کہ یہ زندگی کی قوت ہزاروں سالوں سے ہندوستان کی زندگی میں رہنے کی ایک وجہ اس کا خاندانی ادارہ ہے ۔  ہندوستانی سماجی نظام کی سب سے مضبوط اکائی ، اگر کوئی ہے تو ، ایک مضبوط خاندانی نظام ہے جو ہندوستانی معاشرے میں پروان چڑھا ہے ۔  کٹمب پربودھن کا مطلب ہے ، خاندانی ثقافت کی پرورش کرنا ، جو ہندوستانی تہذیب کی بنیاد ہے ، جو ہندوستانی ثقافت سے متاثر ہے ، جو جڑوں سے جڑی ہوئی ہے ۔  خاندان کی اقدار کو سمجھنا ، بزرگوں کا احترام ، خواتین کی طاقت کا احترام ، نوجوانوں میں ثقافت ، اپنے خاندان کے تئیں ذمہ داریوں کو پورا کرنا اس سمت میں خاندان اور معاشرے میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔

ساتھیو،

مختلف ادوار میں جس بھی ملک نے ترقی کی ہے اس میں شہری آداب نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔  شہری آداب کا مطلب ہے فرض کا احساس ، شہری فرض کا احساس ہر ملک میں ہونا چاہیے ، صفائی کا فروغ ، ملک کی املاک کا احترام ، قوانین و ضوابط کا احترام ، ہمیں اسی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے ۔ہمارے آئین کی روح یہ ہے کہ شہری اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ ہمیں آئین کی اس روح کو مسلسل مضبوط کرنا ہے۔

ساتھیو،

ماحول کی حفاظت، موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ پوری انسانیت کے مستقبل سے جڑا ہوا موضوع ہے۔ ہمیں معیشت کے ساتھ ساتھ ماحولیات کی بھی فکر کرنی ہے۔ پانی کا تحفظ، سبز توانائی، صاف توانائی،یہ تمام مہمات اسی سمت میں ہیں۔

ساتھیو،

سَنگھ کے پانچ تبدیلیاں، یہ وہ ذرائع ہیں، جو ملک کی طاقت بڑھائیں گے، جو ملک کو مختلف چیلنجز سے نمٹنے میں مدد کریں گے، اور جو 2047 تک وکست بھارت کے قیام کی بنیاد بنیں گے۔

ساتھیو،

2047 کا بھارت علم و سائنس، خدمت اور ہم آہنگی سے تعمیر شدہ شاندار بھارت ہو۔ یہی سَنگھ کی بصیرت ہے، یہی ہم سب رضاکاروں کی کوشش ہے، اور یہی ہمارا عزم ہے۔

ساتھیو،

ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا ہے-سَنگھ قائم ہے، ملک کے تئیں غیر متزلزل عقیدت کے ساتھ۔ سَنگھ چل رہا ہے، ملک کے تئیں گہری خدمت کے جذبے کے ساتھ۔ سَنگھ تپ گیا ہے، قربانی اور ریاضت کی آگ میں۔ سَنگھ نکھرا ہے، سنسکار اور کوشش کے سنگم سے۔ سَنگھ قائم ہے، قومی فریضے کو زندگی کا اعلیٰ فریضہ مان کر، اور سَنگھ جڑا ہوا ہے، بھارت ماتا کی خدمت کے عظیم خواب سے۔

ساتھیو،

سَنگھ کا آئیڈیل یہ ہے کہ ثقافت کی جڑیں گہری اور مضبوط ہوں۔سَنگھ کی کوشش یہ ہے کہ معاشرے میں خوداعتمادی اور قومی فخر ہو۔سَنگھ کا مقصد یہ ہے کہ ہر دل میں عوامی خدمت کی روشنی روشن ہو۔سَنگھ کا نظریہ یہ ہے کہ بھارتی معاشرہ سماجی انصاف کی علامت بنے۔سَنگھ کا ہدف یہ ہے کہ عالمی سطح پر بھارت کی آواز مزید مؤثر بنے۔سَنگھ کا عزم یہ ہے کہ بھارت کا مستقبل محفوظ اور روشن ہو۔میں ایک بار پھر آپ سب کو اس تاریخی موقع پر مبارکباد دیتا ہوں۔ کل وِجَیا دشمی پاون تہوار ہے، ہمارے سب کے زندگی میں وِجَیا دشمی کا ایک خاص مقام ہے۔ میں اسی کے لیے بھی آپ سب کو نیک تمناؤں کے ساتھ اپنی تقریر کا اختتام کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ!

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ش ح۔ ش آ۔ ع ح۔رض۔ م ش)

U. No.7112


(Release ID: 2175286) Visitor Counter : 5