نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین نے سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کی اپیل کی


بہتری کے لیے تجاویز مذمت یا تنقید نہیں ، پارٹیوں کو تعمیری سیاست میں مشغول ہونا چاہیے ، نائب صدر کی اپیل

سیاست محاذ آرائی کا نام نہیں ہے؛ میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کوئی سیاسی جماعت بھارت کے تصور کے خلاف ہو: نائب صدر جمہوریہ

باہمی احترام رکھیں ، ٹیلی ویژن پر نامناسب زبان استعمال نہ کریں ، ذاتی حملوں سے گریز کریں ، نائب صدر کی اپیل

کیا یہ کانوں کو تھکا نہیں رہا ہے ؟  ہمارے کان تھک چکے ہیں ، ہے نا ؟  - ٹی وی مباحثوں میں تلخیوں پر  نائب صدر جمہوریہ

ہم اختلافِ رائے رکھ سکتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے متفق نہ بھی ہوں، لیکن دلوں میں تلخی کیسے ہو سکتی ہے؟نائب صدر جمہوریہ

آئندہ اجلاس میں بامعنی اور سنجیدہ بات چیت کی امید ہے: نائب صدر جمہوریہ

Posted On: 20 JUL 2025 7:55PM by PIB Delhi

نائب صدر جمہوریہ جناب جگدیپ دھنکھڑ نے آج سیاسی جماعتوں کے درمیان خوشگوار تعلقات اور باہمی احترام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ’’میں سیاسی میدان میں شامل تمام افراد سے اپیل کرتا ہوں  کہ براہ کرم باہمی احترام کا مظاہرہ کریں۔ براہ کرم ٹیلی ویژن پر یا کسی اور پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کی قیادت کے خلاف نامناسب زبان کا استعمال نہ کریں۔ یہ انداز ہمارے تہذیبی ورثے کا حصہ نہیں ہے۔ ہمیں اپنی زبان کے استعمال میں محتاط رہنا چاہیے، ذاتی حملوں سے گریز کریں۔ میں سیاست دانوں سے اپیل کرتا ہوں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ناموں سے پکارنا بند کریں۔ جب مختلف سیاسی جماعتوں کے افراد دیگر جماعتوں کے سینئر رہنماؤں کو نامناسب القابات سے یاد کرتے ہیں تو یہ ہمارے ثقافتی وقار کے خلاف ہے۔‘‘

نائب صدر جمہوریہ جناب جگدیپ دھنکھڑ نے آج کہا،’’ ہمیں باہمی احترام اور مکمل شائستگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ یہی ہماری تہذیب کا تقاضا ہے۔ بصورت دیگر، ہمارے سوچنے کے عمل میں اتحاد ممکن نہیں ہو سکتا۔ یقین جانیے، اگر سیاسی مکالمہ بلند سطح پر ہو، اگر قائدین زیادہ کثرت سے آپس میں ملاقات کریں، ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کریں، اور انفرادی سطح پر خیالات بانٹیں تو اس سے قوم کے مفادات کو فروغ ملے گا۔ہمیں آپس میں کیوں لڑنا چاہیے؟ آئیے ہم دشمنوں کو اندرون ملک تلاش نہ کریں۔ میری معلومات کے مطابق، ہر بھارتی سیاسی جماعت اور ہر رکنِ پارلیمان آخرکار قوم پرست ہوتا ہے۔ وہ ملک پر یقین رکھتا ہے، وہ ملک کی ترقی پر یقین رکھتا ہے۔جمہوریت کبھی ایسی نہیں ہوتی کہ ایک ہی جماعت ہمیشہ اقتدار میں رہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ ریاستی سطح پر، پنچایت سطح پر، اور بلدیاتی سطح پر تبدیلی آتی ہے ۔ یہی جمہوری عمل ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے: ترقی کا تسلسل اور ہماری تہذیبی اقدار کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے، اور یہ صرف ایک صورت میں ممکن ہے — ہمیں جمہوری اقدار کا احترام کرنا ہوگا۔‘‘

نائب صدر جمہوریہ، جناب جگدیپ دھنکھڑ نے کہا،’’ایک خوشحال جمہوریت، دوستو، مسلسل کشیدگی کے ماحول کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جب آپ سیاسی کشیدگی دیکھتے ہیں، جب سیاسی ماحول منفی رخ اختیار کرتا ہے، تو آپ کا ذہن بھی متاثر ہوتا ہے۔ میں ملک کے ہر فرد سے اپیل کرتا ہوں کہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کیا جائے۔ سیاست کا مطلب محاذ آرائی نہیں ہے، سیاست یک طرفہ عمل نہیں ہو سکتی۔ مختلف سیاسی نظریات ہوں گے، لیکن سیاست کا مطلب ایک ہی مقصد کو مختلف طریقوں سے حاصل کرنا ہوتا ہے۔

میرا پختہ یقین ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی فرد ملک کے خلاف نہیں سوچتا۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کوئی سیاسی جماعت بھارت کے تصور کے خلاف ہو۔ ان کے خیالات اور طریقے مختلف ہو سکتے ہیں؛ لیکن انہیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنی چاہیے، مکالمہ کرنا چاہیے۔ محاذ آرائی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جب ہم آپس میں لڑتے ہیں، چاہے سیاسی میدان میں ہی کیوں نہ ہو، تو ہم اپنے دشمنوں کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔ ہم انہیں موقع دیتے ہیں کہ وہ ہمیں تقسیم کرنے کا مواد حاصل کریں۔اسی لیے نوجوان ذہنوں کی اہمیت ایک دباؤ گروہ کے طور پر ہے۔ آپ کے پاس ایک مضبوط طاقت ہے۔ آپ کا طرزِ فکر سیاست دان کو، آپ کے رکنِ پارلیمان کو، رکنِ اسمبلی کو، اور کارپوریٹر کو متاثر کرے گا۔ قوم کے بارے میں سوچیے۔ ترقی کے بارے میں سوچیے۔‘‘

نائب صدر جمہوریہ ہند، جناب جگدیپ دھنکھڑ نے آج نائب صدر کی رہائش گاہ پر راجیہ سبھا انٹرن شپ پروگرام کے آٹھویں بیچ کے افتتاحی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے زور دے کر کہا،’’جب بات قومی مفاد کی ہو، تو آئیے سیاست نہ کریں۔ جب بات ترقی کی ہو، تو سیاست نہ ہو۔ جب ملک کی ترقی کی بات ہو، تو سیاست سے گریز کیا جائے۔ جب معاملہ قومی سلامتی یا قومی تشویش کا ہو، تو سیاست نہیں ہونی چاہیے ، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب بھارت دنیا کی اقوام میں باوقار مقام پر کھڑا ہو۔آج دنیا میں بھارت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ خیال کہ بھارت کو بیرونی طاقتوں سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، ہمارے خودمختار ہونے کے دعوے کے خلاف ہے۔ ہم ایک خودمختار قوم ہیں۔ تو پھر ہمارا سیاسی ایجنڈا ان طاقتوں کے ہاتھوں کیوں طے ہو، جو بھارت کے خلاف ہیں؟ ہمارا ایجنڈا دشمن قوتوں کے زیر اثر کیوں ہو؟

نائب صدر جمہوریہ، جناب جگدیپ دھنکھڑ نے ٹیلی ویژن مباحثوں میں سیاسی جماعتوں کے درمیان تلخی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا:’’ہر سیاسی جماعت کے پاس بالغ نظر قیادت موجود ہے۔ ہر سیاسی جماعت، چاہے بڑی ہو یا چھوٹی، قومی ترقی کے لیے پُرعزم ہے ، اور یہی نوجوانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سوچ کو پروان چڑھائیں۔ یہ سوچ سوشل میڈیا پر بھی آنی چاہیے اور جب ہمارے ٹی وی مباحثے مثبت، خوشگوار اور پُرکشش بن جائیں تو تصور کیجیے کہ ہمارے معاشرے میں کتنی بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ذرا رک کر سوچیے، ہم ٹیلی ویژن پر کیا دیکھتے ہیں؟ ہم کیا سنتے ہیں؟ کیا یہ سب ہمارے کانوں کے لیے تھکا دینے والا نہیں؟ ہمارے کان تو تنگ آ چکے ہیں، کیا ایسا نہیں ہے؟ بھائی، آخر ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک عظیم تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری سوچ کی ایک بنیاد ہے۔ اختلافِ رائے ہو سکتا ہے، ہم ایک دوسرے سے متفق نہ ہوں ، لیکن دلوں میں تلخی کیسے ہو سکتی ہے؟ ہم سب بھارتی ہیں۔ہماری تہذیب ہمیں کیا سکھاتی ہے؟ ’اننت واد‘یعنی لامتناہی مکالمے کا عقیدہ۔ ’انت واد‘ کا مطلب کیا ہے؟ بحث اور مباحثہ اور بحث و مباحثہ کا مطلب کیا ہے؟ اظہارِ خیال۔ اور اظہارِ خیال کا مطلب ہے ، اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر بیان کرنا، لیکن اس حد تک نہیں کہ آپ اپنی رائے کو حتمی اور مطلق سچ سمجھنے لگیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ دوسرا شخص آپ سے مختلف رائے نہیں رکھ سکتا۔‘‘

نائب صدر جمہوریہ، جناب جگدیپ دھنکھڑ نے آنے والے مانسون اجلاس میں بامعنی مباحثے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا،’’ہمیں ثابت قدم رہنا چاہیے۔ ہمیں اپنی رائے پر یقین ہونا چاہیے، لیکن ساتھ ہی ہمیں دوسروں کی رائے کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ اگر ہم یہ سمجھیں کہ صرف ہم ہی درست ہیں اور باقی سب غلط ، تو یہ نہ تو جمہوریت ہے، نہ ہی ہماری ثقافت۔ یہ انا ہے، یہ تکبر ہے۔ ہمیں اپنی انا پر قابو پانا چاہیے، ہمیں اپنے تکبر پر قابو رکھنا چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ دوسرا شخص مختلف رائے کیوں رکھتا ہے ۔ یہی ہماری تہذیب ہے۔بھارت کو تاریخ میں کس چیز کے لیے جانا جاتا ہے؟ مکالمے، مباحثے، اظہارِ خیال اور غور و فکر کے لیے۔ لیکن آج کل ہمیں پارلیمنٹ میں یہ سب کم نظر آتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آنے والا اجلاس ایک اہم موقع ہوگا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس اجلاس میں بامعنی بحثیں اور سنجیدہ تبادلۂ خیال ہوگا، جو بھارت کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ سب کچھ کامل ہے۔ کبھی بھی ایسا وقت نہیں آئے گا جب سب کچھ مکمل طور پر درست ہو۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ کمی یا خامی رہتی ہے۔ بہتری کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ اگر کوئی کسی بہتری کی تجویز دیتا ہے تو وہ تنقید نہیں ہوتی، وہ صرف ترقی کے لیے ایک تجویز ہوتی ہے۔اسی لیے میں تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ تعمیری سیاست کریں ، اور جب میں یہ کہتا ہوں تو میرا مطلب تمام جماعتوں سے ہے: حکومت کی نشستوں پر بیٹھنے والی جماعت، حکمراں جماعت اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں، سب شامل ہیں۔‘‘

*****

) ش ح –     ش ت-  ش ب ن )

U.No. 2925


(Release ID: 2146287)