امور داخلہ کی وزارت
امور داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ کاآج نئی دہلی میں’’ایمرجنسی کے 50 سال‘‘ پروگرام سے خطاب کیا
مودی جی نے’سمودھن ہتیہ دیوس‘ منانے کا فیصلہ کیا تاکہ ملک کو یاد رہے کہ جب کوئی حکومت آمرانہ انداز اختیار کرلیتی ہے تو ملک کو کس طرح خوفناک نتائج بھگتنے پڑتے ہیں،یہ ایمرجنسی نہیں تھی، بلکہ اس وقت کی حکمراں جماعت کا’انیائے کال‘ تھا
’ایمرجنسی‘ حالات اور مجبوری کی پیداوار نہیں بلکہ آمرانہ ذہنیت اور اقتدار کی بھوک کی پیداوار ہے
’ایمرجنسی‘ کثیر جماعتی جمہوریت کو یک جماعتی آمریت میں تبدیل کرنے کی سازش کا آغاز تھا
جب انسان کے اندر چھپی آمرانہ فطرت باہر آتی ہے تو صرف ایمرجنسی لگائی جاتی ہے، ہماری نوجوان نسل کے لیے یہ تاریخ جاننا ضروری ہے
ایمرجنسی سے پہلے کی رات آزادی کے بعد طویل ترین رات تھی، کیونکہ اس کی صبح 21 ماہ بعد آئی تھی، جب ملک میں جمہوریت دوبارہ بحال ہوئی
ہندوستان کی جمہوریت کی بنیاد اتنی گہری ہے کہ اگر کوئی آمر حکمراں اس بنیاد کو ہلانے کی کوشش کرے گا تو اسے اپنا مستقبل برباد کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا
ایمرجنسی- جب خیالات، قلم اور اپوزیشن کو قید میں ڈال دیا گیا
ایمرجنسی کے دوران آئین میں اتنی ترامیم کی گئیں کہ اسے آئین کا’مِنی ورژن‘ کہا گیا
ایمرجنسی میں صحافیوں کو سماج مخالف، طلبہ کو بھڑکانے والا، سماجی کارکنان کو ملک کے لیے خطرہ قرار دیا گیا اور عوام ڈکٹیٹر کے غلام بن گئے
آج جو لوگ آئین کی دہائی دے رہے ہیں اُن کا تعلق اسی جماعت سے ہے جس نے جمہوریت کی محافظ بننے کی بجائے جمہوریت کو تباہ کرنے کا کام کیا
ایمرجنسی کی بڑی وجہ اقتدار کی بھوک تھی، ملک کو کوئی بیرونی خطرہ نہیں تھا، نہ ہی کوئی اندرونی بحران تھا، خطرہ صرف اُس وقت کے وزیراعظم کی کرسی کو تھا
جمہوریت کی بنیادوں کو ہلا دینے والے ایمرجنسی جیسے واقعے کے بارے میں اگر معاشرے کا حافظہ دھندلا جائے تو ایک جمہوری ملک کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے
ایمرجنسی کے دوران آئین کا اس طرح غلط استعمال کیا گیا کہ بھارتی جمہوریت اسے ہمیشہ ڈراؤنے خواب کی طرح یاد رکھے گی
Posted On:
24 JUN 2025 9:42PM by PIB Delhi
امور داخلہ اور امداد باہمی کےمرکزی وزیر جناب امت شاہ نے آج نئی دہلی میں شیاما پرساد مکھرجی ٹرسٹ کے زیر اہتمام منعقدہ ’’ایمرجنسی کے 50 سال‘‘ پروگرام سے خطاب کیا۔ اس موقع پر کئی معززین موجود تھے۔

ایمرجنسی کے 50 سال پورے ہونے کے موقع پر منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے کہا کہ جب وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 11 جولائی 2024 کو فیصلہ کیا کہ ہر سال 25 جون کو ’سمودھن ہتیہ دیوس‘ کے طور پر منایا جائے گا، تو سوال یہ پیدا ہوا کہ آج سے 50 سال پہلے کے واقعے کی بات کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟ جناب شاہ نے کہا، مودی جی نے ’سمودھن ہتیا دیوس‘ منانے کا فیصلہ کیا تاکہ ملک ہمیشہ یاد رکھے کہ جب کوئی حکومت آمرانہ رویہ اختیار کرلیتی ہے تو ملک کو کس طرح کے خوفناک نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب کسی بھی اچھے یا برے قومی واقعے کے 50 سال مکمل ہو جاتے ہیں تو معاشرتی زندگی میں اس کی یاد دھندلی ہو جاتی ہے اور اگر جمہوریت کی بنیاد کو ہلا دینے والے ایمرجنسی جیسے واقعے کی یاد دھندلی ہو جائے تو یہ کسی بھی جمہوری ملک کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے کیونکہ جمہوریت اور آمریت ذہن کے دو جذبات ہیں، جن کو کسی بھی شخص سے منسلک کرنے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذہن کے جذبات دراصل انسانی فطرت کے جذبات ہیں، جو دوبارہ ابھر کر ملک اور معاشرے کے سامنے ایک چیلنج بن کر آ سکتے ہیں۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ دنیا میں بھارت کومادرِجمہوریت سمجھا جاتا ہے۔بھارت میں جمہوریت صرف آئین کی روح نہیں ہے، بلکہ آئین بنانے والوں نے آئین میں موجود الفاظ کی شکل میں عوام کی روح کی ترجمانی کی ہے اور یہی ہمارا قومی کردار ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ایمرجنسی کے دوران رہنے والے کسی بھی باشعور شہری نے اسے پسند نہیں کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کو یہ وہم تھا کہ انہیں کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، وہ ایمرجنسی کے بعد ہوئے انتخابات میں شکست کھا گئے اور آزادی کے بعد پہلی بار غیر کانگریسی حکومت قائم ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر چہ ایمرجنسی کو 50 سال ہوچکے ہیں لیکن آج بھی کروڑوں بھارتیوں کے دلوں کا زخم اتنا ہی تازہ ہے جتنا ایمرجنسی کے دوران تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ایمرجنسی نہیں بلکہ اس وقت کی حکمراں جماعت کا ’انیّائے کال‘ تھا۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ہمارے آئین کی تشکیل میں 2 سال 11 مہینے اور 18 دن لگے، 13 کمیٹیاں بنائی گئیں، 165 دنوں میں 11 اجلاس ہوئے۔ آئین کی مختلف شقوں پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ 1100 گھنٹے 32 منٹ کی بحث ہوئی۔ سات ارکان پر مشتمل آئین سازکمیٹی نے اسے حتمی شکل دے دی۔ انہوں نے کہا کہ جو آئین دنیا کی تمام جمہوریتوں کے آئینوں سے زیادہ بحثوں، قربانیوں اور تپسیا سے بنایا گیا، اسے کچن کیبنٹ کے حکم سے ایک منٹ میں مسترد کر دیا گیا۔ جناب شاہ نے کہا کہ 24 جون 1975 کی رات آزاد بھارت کی تاریخ کی سب سے طویل رات تھی کیونکہ اس کی صبح 21 مہینے بعد آئی تھی اور یہ سب سے چھوٹی رات بھی تھی، کیونکہ اس رات 2 سال 11 مہینے اور 18 دن کی مشق ایک لمحے میں منسوخ ہو گئی تھی۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ایمرجنسی ایک جمہوری ملک کی کثیر جماعتی جمہوریت کو ایک شخص کی آمریت میں تبدیل کرنے کی سازش کا نام ہے، جس کی اس وقت بہت سے لوگوں نے شدید مخالفت کی تھی حتیٰ کہ ذاتی نقصان بھی اُٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ’ایمرجنسی‘ حالات اور مجبوری کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ آمرانہ ذہنیت اور اقتدار کی بھوک کی پیداوار ہوتی ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ایمرجنسی کے دوران عوام کے مینڈیٹ کی بنیاد پر بننے والی حکومتوں کو آئین کی روح کو پامال کرتے ہوئے راتوں رات گرا دیا گیا۔ ملک کے عوام اور خصوصاً نوجوان نسل کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جب کسی شخص کی آمرانہ خوبیاں سامنے آجائیں تو کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج آئین کو پکارنے والوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایمرجنسی لگانے سے پہلے پارلیمنٹ کی رضامندی لی گئی، کیا کابینہ کا اجلاس بُلایا گیا، کیا اہل وطن اور اپوزیشن کو اعتماد میں لیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ یہ اسی جماعت سے وابستہ لوگ ہیں جنہوں نے جمہوریت کے محافظ کا کردار ادا کرنے کے بجائے جمہوریت کو تباہ کرنے والوں کا کردار ادا کیا۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک کی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، لیکن اس کی بنیادی وجہ اقتدار کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کے وزیراعظم نے آئین کی مختلف شقوں کا استعمال کرکے آئین کا قتل کیا اور ملک کو طویل ایمرجنسی میں جھونک دیا۔ انہوں نے کہا کہ متعدد واقعات اور احتجاج اور تحریکوں نے اکثریت سے منتخب ہونے والی حکومت کی کرسیاں اور بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ملک کی سلامتی کو کوئی بیرونی یا اندرونی خطرہ نہیں تھا۔ درحقیقت عوام میں شعور آچکا تھا۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے ایمرجنسی لگانے کے لیے دفعہ 352 کا غلط استعمال کیا اور 1 لاکھ 10 ہزار اپوزیشن سیاسی رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا۔ کارکنوں، آزاد ایڈیٹروں، رپورٹرز، غیر مطمئن طلبہ لیڈروں اور مختلف تخلیقی کاموں میں مصروف لوگوں کو بھی جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ مقننہ، عاملہ، عدلیہ، پریس اور میڈیا، فنکاراور عام لوگ اس واقعہ سے دہشت میں آگئے اور پورا ملک جیل میں تبدیل ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا اس طرح غلط استعمال کیا گیا کہ بھارتی جمہوریت ہمیشہ ڈراؤنے خواب کی طرح یاد رہے گی۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ایمرجنسی کے دوران خیالات، قلم اور اپوزیشن کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ ایمرجنسی کے دوران آئین میں اتنی ترامیم کی گئیں کہ اسے آئین کا ’مِنی ورژن‘ کہا گیا۔ آئین کی تمہید میں تبدیلی کی گئی، آرٹیکل 14 کو تبدیل کیا گیا، 7 شیڈول تبدیل کیے گئے اور 40 مختلف شقوں میں تبدیلیاں کی گئیں۔ نئے آرٹیکلز شامل کیے گئے، نئی دفعات شامل کی گئیں، 42ویں آئینی ترمیم نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تبدیل کر دیا، عدلیہ پریشان تھی کیونکہ عدلیہ میں انصاف دینے والوں نے پہلے اسے اپنے حق میں بنایا ہوا تھا۔ جناب شاہ نے کہا کہ آئینی ترمیم کی 69ویں دفعہ نے سپریم کورٹ کے اختیارات بھی چھین لیے۔ جمہوری حقوق کو ختم ہوگئے اور ایجنسیوں کا اس طرح غلط استعمال کیا گیا جسے بھارتی سماج، یہ ملک اور اس ملک کے لوگ کبھی نہیں بھول سکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے آئین ہتیہ دیوس کی یاد منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات پورے ملک کے حافظے میں رہے کہ جب جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والا شخص آمرحکمراں بن جاتا ہے تو پھر ملک کو اس کے کیسے برے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ایمرجنسی کے دوران ایک کروڑ سے زیادہ نس بندی کی گئی۔ مقبول گلوکار کشور کمار کی آواز آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے سے روک دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے سبق ہے کہ مختلف نظریات کا وجود ہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ کوئی بھی نظریہ ہو، راستہ کوئی بھی ہو، آخر کار ہمارا مقصد ملک کو عظیم بنانا ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ ملک اس طرح کبھی نہیں بن سکتا کہ سب ایک ہی نظریے کی بنیاد پر کام کریں، ایک ہی لیڈر کی قیادت میں کام کریں اور یہ کہ بس میں ہی صحیح ہوں اور کسی کو ووٹ دینے کا بھی حق نہیں ہے۔ ایسی ذہنیت ہمارے آئین کا بنیادی جذبے سے میل نہیں کھاتی۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ آئین نے جمہوریت کےجذبے کو تیز کیا ہے، اس کا اظہار کیا ہے اور اسے قانونی طور پر قائم کیا ہے۔ آئین نے جمہوریت کی جذبے کو ہمارے لوگوں کے ذہنوں میں بسایا ہے اور قانونی زبان میں اس کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کے لوگ فطرتاً جمہوریت پسند ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو مختلف نظریات، مختلف نظریات اور مختلف آراء کا احترام کرتے ہیں۔ یہ ہماری ہزاروں سال کی ثقافت ہے، اسی لیے ہم بھارت کو مادرِ جمہوریت مانتے ہیں۔ تاریخ کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جمہوریت نے سب سے پہلے ہمارے ملک میں جنم لیا اور سرپنچ کا خیال اسی ملک سے آیا۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ہماری جمہوریت کی بنیاد اتنی گہری ہے کہ اگر کوئی آمر اس بنیاد کو ہلانے کی کوشش کرے گا تو وہ اپنا مستقبل برباد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج کا دن ایمرجنسی نافذ کرنے کے گھناؤنے فعل کی مذمت اور نوجوانوں کو مستقبل کے لیے جمہوریت کے تحفظ کی مشعل اٹھانے کا دن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے نوجوان شاہ کمیشن کی رپورٹ ضرور پڑھیں۔ اگر مستقبل میں کسی کے ذہن میں آمرانہ خیالات آتے ہیں تو اس سے جئے پرکاش نارائن جیسا لیڈر بننے کا جوش پیدا ہوگا اور وہ رپورٹ بھی راستہ دکھائے گی۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے جذبے کا تحفظ عوام کی ذمہ داری ہے۔ اس جذبے سے کھیلنے والوں کو سزا دینا بھی عوام کی ذمہ داری ہے۔
***************
(ش ح۔ک ح۔م ش)
U:2123
(Release ID: 2139437)