وزیراعظم کا دفتر
سری نارائن گرو اور گاندھی جی کے درمیان بات چیت کی صد سالہ تقریب کے اجلاس میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
24 JUN 2025 1:25PM by PIB Delhi
برہمارشی سوامی سچیدا نند جی، شری مٹھ سوامی شبھنگا -نندا جی، سوامی شاردا نند جی، تمام معزز سنت حضرات، حکومت میں میرے ساتھی جناب جارج کوریئن جی، پارلیمان کے میرے ساتھی جناب اڈور پرکاش جی، دیگر تمام معزز شخصیات، خواتین و حضرات!
پِنے اینڈے ایللا، پری پیٹ ملیالی سہودری سہودرن مارکو،اینڈےونیت مائے نمسکارم
آج یہ مقام ملک کی تاریخ کے ایک بے مثال واقعے کو یاد کرنے کا گواہ بن رہا ہے۔ ایک ایسا تاریخی لمحہ، جس نے نہ صرف ہماری آزادی کی تحریک کو ایک نئی سمت دی، بلکہ آزادی کے مقصد کو، آزاد بھارت کے خواب کو ایک ٹھوس معنی دیے۔آج سے 100 سال پہلے شری نارائن گرو اور مہاتما گاندھی کی وہ ملاقات آج بھی اُتنی ہی متاثر کن ہے، اُتنی ہی موزوں ہے۔ 100 سال قبل ہونے والی وہ ملاقات، سماجی ہم آہنگی کے لیے،وکست بھارت کے اجتماعی اہداف کے لیے، آج بھی ایک عظیم توانائی کا ذریعہ ہے۔اس تاریخی موقع پر میں شری نارائن گرو کے چرنوں میں پرنام کرتا ہوں۔ میں گاندھی جی کو بھی اپنی عقیدت پیش کرتا ہوں۔
بھائیوں اور بہنوں،
شری نارائن گرو کے اصول پوری انسانیت کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہیں۔ جو لوگ ملک اور سماج کی خدمت کے عزم پر کام کرتے ہیں، ان کے لیے شری نارائن گرو ایک مینارِ نور کی مانند ہیں۔آپ سب جانتے ہیں کہ ملک کے مظلوم، متاثرین، اور محروم طبقے سے میرا کیسا گہرا رشتہ رہا ہے اور اسی لیے آج بھی جب میں سماج کے مظلوم اور محروم طبقے کے لیے بڑے فیصلے لیتا ہوں، تو میں گرو دیو کو ضرور یاد کرتا ہوں۔100 سال پہلے کے وہ سماجی حالات، صدیوں کی غلامی کی وجہ سے آئی ہوئی برائیاں، لوگ اُس زمانے میں ان برائیوں کے خلاف بولنے سے ڈرتے تھے۔لیکن شری نارائن گرو نے مخالفت کی پرواہ نہیں کی، وہ مشکلات سے نہیں ڈرے، کیونکہ ان کا یقین ہم آہنگی اور مساوات میں تھا۔ ان کا اعتقادسچائی، خدمت اور بھائی چارے میں تھا۔ یہی تحریک ہمیں ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘کا راستہ دکھاتی ہے۔ یہی یقین ہمیں اُس بھارت کی تعمیر کے لیے طاقت دیتا ہے، جہاں سب سے نچلے پائیدان پر کھڑا انسان ہماری پہلی ترجیح ہے۔
ساتھیوں،
شِیوگِری مٹھ سے جُڑے لوگ اور سنت حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ شری نارائن گرو اور شِیوگِری مٹھ میں میرا کتنا گہرا عقیدہ اور اعتماد رہا ہے۔ میں زبان کو تو پوری طرح نہیں سمجھ پا رہا تھا، لیکن پُجیہ سچیدانند جی جو باتیں بیان کر رہے تھے، وہ ساری پرانی یادیں تازہ کر رہے تھےاور میں بھی دیکھ رہا تھا کہ آپ سب بھی ان باتوں سے جذباتی طور پر جُڑ گئے تھے۔یہ میرا خوش قسمتی ہے کہ مٹھ کے معزز سنتوں نے ہمیشہ مجھے اپنا پیار دیا ہے۔مجھے یاد ہےکہ 2013 میں، جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا اور کیدارناتھ میں ایک قدرتی آفت آئی تھی، تب شِیوگِری مٹھ کے کئی پُجیہ سنت وہاں پھنس گئے تھے، کچھ بھکت جن بھی وہاں موجود تھے۔شِیوگِری مٹھ نے وہاں پھنسے لوگوں کو بچانے کے لیے بھارت سرکار سے رابطہ نہیں کیا تھا،پرکاش جی برا مت مانئے گا، شِیوگِری مٹھ نے مجھ پر، جو اُس وقت صرف ایک ریاست کا وزیر اعلیٰ تھا، اعتماد کیا، اور مجھ سے کہا کہ بھائی یہ کام تم کرواور ایشور کی کرپا سے، میں تمام سنتوں اور تمام بھکتوں کو بحفاظت واپس لا سکا۔
ساتھیوں،
ویسے بھی، مشکل وقت میں ہمارا پہلا دھیان اُس کی طرف جاتا ہے، جسے ہم اپنا مانتے ہیں، جس پر ہم اپنا حق سمجھتے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ آپ سب مجھ پر اپنا حق سمجھتے ہیں۔شِیوگِری مٹھ کے سنتوں کے اس اپنائیت بھرے رویے سے زیادہ روحانی خوشی میرے لیے اور کیا ہو سکتی ہے؟
ساتھیوں،
میرا آپ سب سے ایک رشتہ کاشی سے بھی ہے۔ ورکلا کو صدیوں سے جنوبی بھارت کی کاشی کہا جاتا ہےاور کاشی، چاہے شمال کی ہو یا جنوب کی میرے لیے ہر کاشی میری کاشی ہے۔
ساتھیوں،
مجھے بھارت کی روحانی روایت، رشیوں-منیوں کی وراثت کو قریب سے جاننے اور اسے جینے کا شرف حاصل ہوا ہے۔یہ بھارت کی ایک خاصیت ہے کہ جب بھی ملک مشکلات میں پھنستا ہے، کوئی نہ کوئی عظیم شخصیت ملک کے کسی نہ کسی کونے میں جنم لیتی ہے اور سماج کو نئی سمت دکھاتی ہے۔کوئی روحانی ارتقاء کے لیے کام کرتا ہے، تو کوئی سماجی شعبے میں اصلاحات کی رفتار بڑھاتا ہے۔شری نارائن گرو بھی ایسی ہی ایک عظیم سنت تھے۔نروتّی پنچکما، اور آتموپ دیش شت کما، جیسی ان کی تخلیقات،یہ اَدویت اور روحانیت کے ہر طالب علم کے لیے ایک رہنما کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ساتھیو،
یوگ اور ویدانت، سادھنا اور مکتی، شری نارائن گرو جی کے اہم موضوعات تھے۔ لیکن وہ یہ جانتے تھے کہ رسومات اور برائیوں میں جکڑے سماج کا روحانی ارتقاء تبھی ممکن ہے جب اس کا سماجی ارتقاء ہو۔ اسی لیے انہوں نے آدھیاتم کو سماجی اصلاح اور فلاحِ عامہ کا ذریعہ بنایا۔ شری نارائن گرو کی انہی کوششوں سے مہاتما گاندھی جی نے بھی تحریک حاصل کی اور ان سے رہنمائی لی۔ گُرو دیو رویندرناتھ ٹیگور جیسی شخصیات بھی شری نارائن گرو سے گفت و شنید کے ذریعے استفادہ کرتے تھے۔
ساتھیو،
ایک بار کسی نے شری نارائن گرو کی آتْموپ دیش شتکم رمن مہارشی کو سنائی تھی۔ جب رمن مہارشی نے اسے سنا تو فرمایا-‘‘اور ایلام تریٖنجور’’۔ یعنی، "وہ سب کچھ جانتے ہیں!اور اُسی دور میں، جب غیر ملکی خیالات کے زیرِ اثر بھارت کی تہذیب، ثقافت اور فلسفے کو نیچا دکھانے کی سازشیں ہو رہی تھیں، شری نارائن گرو نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہماری اصل روایت میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمیں اپنے آدھیاتم کو صحیح معنوں میں اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہم انسان میں نارائن کو، ہر جیو میں شیو کو دیکھنے والے لوگ ہیں۔ ہم دوئیت میں اَدویَت کو دیکھتے ہیں۔ ہم فرق میں بھی اتحاد دیکھتے ہیں اور تنوع میں بھی اتحاد دیکھتے ہیں۔
ساتھیو،
آپ سب جانتے ہیں کہ شری نارائن گرو کا منتر تھا- ‘‘اورو جاتی، اورو متم، اورو دیوم، منشیَنُ’’یعنی، پوری انسانیت کی ایکتا، ہر جاندار کا باہمی رشتہ! یہ خیال بھارت کی جیون سنسکرتی کی بنیاد ہے۔ آج بھارت اسی خیال کو دنیا کی فلاح کے جذبے کے ساتھ وسعت دے رہا ہے۔ ذرا دیکھئے، ابھی حال ہی میں ہم نے عالمی یوم یوگ منایا۔ اس بار یوم یوگ کا موضوع تھا: یوگا فار ون ارتھ،ون ہیلتھ۔ یعنی، ایک دھرتی، ایک صحت! اس سے پہلے بھی بھارت نے دنیا کی بھلائی کے لیے ون ورلڈ، ون ہیلتھ جیسی پہل شروع کی ہے۔ آج بھارت پائیدار ترقی کی سمت میں ون سن ، ون ارتھ ، ون گرڈ جیسے عالمی اقدام کی قیادت کر رہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، 2023 میں جب بھارت نے جی-20 سمٹ کی میزبانی کی تھی تو ہم نے اس کی تھیم رکھی تھی- ‘‘ون ارتھ، ون فیملی، ون فیوچر’’۔ہمارے ان تمام اقدامات میں ‘‘وسودھیو کٹمبکم’’ یعنی ‘‘پوری دنیا ایک کنبہ ہے’’ کی روح شامل ہے۔ اس میں شری نارائن گرو جیسے سنتوں کی تحریک شامل ہے۔
ساتھیوں،
شری نارائن گرو نے ایک ایسے معاشرے کا تصور پیش کیا تھا جو ہر طرح کے امتیاز سے پاک ہو۔ مجھے اطمینان ہے کہ آج ہمارا ملک کامل رسائی کے نظریے پر چلتے ہوئے ہر قسم کے بھید بھاؤ، فرق اور امتیاز کو ختم کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔لیکن ذرا 10-11 سال پہلے کے حالات کو یاد کریں،آزادی کے کئی دہائیوں بعد بھی، کروڑوں بھارتی کیسی زندگی گزارنے پر مجبور تھے؟کروڑوں خاندانوں کے پاس سر چھپانے کو چھت نہیں تھی! لاکھوں دیہات ایسے تھے جہاں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں تھا۔ چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے لیے بھی علاج کا کوئی انتظام نہیں تھا اور اگر کوئی سنگین بیماری ہو جائے، تو زندگی بچانے کا کوئی سہارا نہیں تھا۔کروڑوں غریب، دلت، آدیواسی، خواتین، یہ سب بنیادی انسانی وقار سے محروم تھے! اور یہ کروڑوں لوگ، نسل در نسل ایسی ہی تکلیفوں کے درمیان جیتے چلے آ رہے تھے کہ اُن کے دلوں میں بہتر زندگی کی اُمید تک ختم ہو چکی تھی۔جب ملک کی اتنی بڑی آبادی درد اور مایوسی میں ہو، تو ملک ترقی کیسے کر سکتا تھا؟ اسی لیے ہم نے سب سے پہلے حساسیت کو حکومت کی سوچ کا حصہ بنایا۔ ہم نے خدمت کو اپنا سَنکلپ بنایا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم پی ایم آواس یوجنا کے تحت کروڑوں غریب، دلت، مظلوم، محروم خاندانوں کو پکے گھر فراہم کر پائے ہیں۔ ہمارا ہدف ہے کہ ہر غریب کو اس کا اپنا پکا گھر ملے اور یہ گھر صرف اینٹوں اور سیمنٹ کا ڈھانچہ نہیں ہوتے بلکہ یہ خوابوں کو حقیقت میں بدلنے والی پناہ گاہیں ہوتی ہیں، جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ ہم صرف چار دیواری والی عمارت نہیں دیتے ہیں بلکہ ہم ایک مکمل، باوقار زندگی کی بنیاد دیتے ہیں۔
اسی لیے پی ایم آواس یوجنا کے تحت بننے والے گھروں میں گیس، بجلی، ٹوائلٹ جیسی تمام سہولتیں یقینی بنائی جا رہی ہیں۔ جل جیون مشن کے تحت ہر گھر تک پینے کا پانی پہنچایا جا رہا ہے۔ ایسے قبائلی علاقوں میں، جہاں کبھی حکومت کی کوئی اسکیم نہیں پہنچ پا رہی تھی، آج وہاں ترقی کی ضمانت پہنچ رہی ہے۔قبائلیوں میں بھی جو انتہائی پسماندہ قبائل ہیں، اُن کے لیے ہم نے پی ایم-جَن-مَن اسکیم شروع کی ہے، جس سے آج بے شمار علاقوں کی تصویر بدل چکی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سماج کے سب سے آخری صف میں کھڑے انسان کے دل میں بھی نئی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ وہ نہ صرف اپنی زندگی بدل رہا ہے بلکہ ملک کی تعمیر میں بھی اپنی مضبوط شراکت دیکھ رہا ہے۔
ساتھیوں،
شری نارائن گرو نے ہمیشہ خواتین کو با اختیار بنانے پر زور دیا تھا۔ ہماری حکومت بھی خواتین کی قیادت میں ترقی کے منتر کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ہمارے ملک میں آزادی کے اتنے برسوں کے بعد بھی کئی ایسے شعبے تھے جہاں خواتین کے داخلے پر پابندی تھی۔ہم نے ان رکاوٹوں کو ختم کیا، نئے نئے شعبوں میں خواتین کو حقوق دیے گئے۔ آج کھیلوں سے لے کر خلا تک، ہر میدان میں بیٹیاں ملک کا نام روشن کر رہی ہیں۔آج سماج کا ہر طبقہ، ہر گروہ، پورے اعتماد کے ساتھ وکست بھارت کے خواب کی تکمیل میں ا پنا تعاون کر رہا ہے۔سوچھ بھارت مشن، ماحولیاتی مہمات، امرت سروور کی تعمیر، ملیٹس کے بارے میں بیداری کی مہم،ہم عوامی شراکت داری کے جذبے سے آگے بڑھ رہے ہیں، 140 کروڑ ہندوستانیوں کی طاقت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
ساتھیو،
شری نارائن گرو کہا کرتے تھے- ودیا کونڈ پربدھر آووکا سنگٹھنا کونڈ شکتر آووکا، پریتنم کونڈ سمپننار آووکا۔ یعنی ‘‘تعلیم کے ذریعے بیداری، تنظیم کے ذریعے طاقت، اور محنت کے ذریعے خوشحالی’’۔انہوں نے خود بھی اس وژن کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اہم ادارے قائم کیے۔ شیوگیری میں گرو جی نے شاردا مٹھ کی بنیاد رکھی، جو ماں سرسوتی کو وقف ہے۔ اس مٹھ کا پیغام ہے کہ تعلیم ہی محروم طبقے کے لیے ترقی اور نجات کا ذریعہ بنے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ گرو دیو کی یہ کوششیں آج بھی مسلسل فروغ پا رہی ہیں۔ ملک کے کئی شہروں میں گرو دیو سینٹرز اور شری نارائن کلچرل مشن انسانی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ساتھیو،
تعلیم، تنظیم، اور صنعتی ترقی کے ذریعے سماجی بہبود کے اس وژن کی واضح جھلک آج ہمیں بھارت کی پالیسیوں اور فیصلوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ہم نے کئی دہائیوں بعد ملک میں نئی قومی تعلیمی پالیسی نافذ کی ہے۔ یہ پالیسی نہ صرف تعلیم کو جدید اور سب کی شمولیت کو یقینی بناتی ہے بلکہ مادری زبان میں تعلیم کو بھی فروغ دیتی ہے۔اس کا سب سے بڑا فائدہ پسماندہ اور محروم طبقات کو ہو رہا ہے۔
ساتھیو،
گزشتہ ایک دہائی میں ہم نے ملک میں جتنے نئے آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم، ایمس جیسے ادارے کھولے ہیں، اتنے ادارے آزادی کے بعد کے 60 سالوں میں بھی نہیں کھلے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اعلیٰ تعلیم کے دروازےغریب اور محروم نوجوانوں کے لیے کھل گئے ہیں۔پچھلے 10 برس میں قبائلی علاقوں میں 400 سے زیادہ ایکلوویا رہائشی اسکول کھولے گئے ہیں۔ جو قبائلی سماج نسلوں سے تعلیم سے محروم تھے، آج ان کے بچے آگے بڑھ رہے ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
ہم نے تعلیم کو ہنر اور مواقع سے براہِ راست جوڑا ہے۔اسکل انڈیا مشن جیسے اقدامات ملک کے نوجوانوں کو خود کفیل بنا رہے ہیں۔ملک میں جاری صنعتی ترقی، پرائیویٹ سیکٹر میں ہونے والے بڑے اصلاحات، مدرا یوجنا، اسٹینڈ اپ یوجنا ان سب کا سب سے زیادہ فائدہ دلت، پسماندہ اور قبائلی معاشرے کو ہو رہا ہے۔
دوستو،
شری نارائن گرو ایک مضبوط ہندوستان چاہتے تھے۔ ہندوستان کو بااختیار بنانے کے لیے ہمیں معاشی، سماجی اور فوجی ہر پہلو سے آگے رہنا ہوگا۔ آج ملک اسی راستے پر چل رہا ہے۔ ہندوستان تیزی سے دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں دنیا نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہندوستان کی صلاحیت کیا ہے۔ آپریشن سندھ نے دہشت گردی کے خلاف بھارت کی سخت پالیسی کو دنیا پر واضح کر دیا ہے۔ ہم نے دکھایا ہے کہ ہندوستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔
دوستو،
آج کا ہندوستان ملک کے مفاد میں جو بھی ممکن اور درست ہے اس کے مطابق قدم اٹھا رہا ہے۔ آج ہندوستان کی فوجی ضروریات کے لیے بھی بیرونی ممالک پر انحصار مسلسل کم ہو رہا ہے۔ ہم دفاعی شعبے میں خود کفیل ہو رہے ہیں۔ اور ہم نے آپریشن سندھ کے دوران بھی اس کا اثر دیکھا ہے۔ ہماری افواج نے بھارت میں بنائے گئے ہتھیاروں سے دشمن کو 22 منٹ میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں میڈ ان انڈیا کے ہتھیار کا پوری دنیا میں ڈنکا بجے گا۔
دوستو،
ملک کے عزائم کو پورا کرنے کے لیے ہمیں شری نارائن گرو کی تعلیمات کو عوام تک پہنچانا ہوگا۔ ہماری حکومت بھی اس سمت میں سرگرمی سے کام کر رہی ہے۔ ہم شیوگیری سرکٹ بنا کر شری نارائن گرو کی زندگی سے جڑے یاتری مقامات کو جوڑ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کا آشیرواد، ان کی تعلیمات امرت کال کی طرف ہمارے سفر میں ملک کو راستہ دکھاتی رہیں گی۔ ہم مل کر ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو پورا کریں گے۔ اس خواہش کے ساتھ کہ شری نارائن گرو کا آشیرواد ہم سب پر قائم رہے، میں ایک بار پھر شیوگیری مٹھ کے تمام سنتوں کوپھر سے نمن کرتا ہوں۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ! نمسکارم!
*********
UR-2091
(ش ح۔ ع ح-رب)
(Release ID: 2139207)