وزارت ماہی پروری، مویشی پروری و ڈیری
azadi ka amrit mahotsav

جالوں کے ذریعہ کامیابی


بھارت کی ماہی گیری کا عروج

Posted On: 15 FEB 2025 10:18AM by PIB Delhi

تعارف:

بھارت دنیا میں مچھلی پیدا کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، جو عالمی مچھلی پیداوار میں تقریباً 8 فیصد حصہ رکھتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، بھارت کے ماہی گیری کے شعبے میں نمایاں ترقی اور تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ 2004 سے 2024 کے درمیان کا دور تکنیکی ترقیات اور پالیسی اصلاحات سے بھرپور رہا ہے، جس نے بھارت کو عالمی ماہی گیری اور آبی زراعت میں ایک مضبوط مقام دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

مرکزی بجٹ 2025-26 میں ماہی گیری کے شعبے کے لیے 2,703.67 کروڑ روپے کی اب تک کی سب سے زیادہ سالانہ بجٹ مدد کی تجویز رکھی گئی ہے۔ یہ بھارت کی آبی زراعت اور سمندری خوراک برآمدات میں قائدانہ حیثیت حاصل کرنے کی بڑی کامیابی کا ثبوت ہے!

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001EG5X.png

 

مرکزی بجٹ 2025-26 میں ’’ابھرتا ہوا شعبہ‘‘

بجٹ 2025-26 کا اعلان حکمت عملی کے تحت مالی شمولیت کو بڑھانے، کسانوں پر مالی بوجھ کم کرنے کے لیے کسٹم ڈیوٹیز میں کمی کرنے اور سمندری ماہی گیری کی ترقی کو مزید فروغ دینے پر مرکوز ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image003Y2PQ.png https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0025CCE.png

اس کے علاوہ، بجٹ 2025-26 میں خصوصی طور پر لکشدیپ اور انڈمان و نکوبار جزیروں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، خصوصی اقتصادی زون (ای ای زیڈ) اور گہرے سمندروں سے ماہی گیری کے پائیدار استعمال کے لیے ایک فریم ورک کو فعال بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد بھارتی ای ای زیڈ اور ملحقہ گہرے سمندروں میں سمندری ماہی گیری کے غیر دریافت شدہ وسائل کے پائیدار استعمال کو یقینی بناتے ہوئے سمندری شعبے کی ترقی کو فروغ دینا ہے۔

حکومتِ ہند نے ماہی گیروں، کسانوں، پروسیسرز اور ماہی گیری کے شعبے سے جڑے دیگر فریقین کے لیے کسان کریڈٹ کارڈ (کے سی سی) کے تحت قرض کی حد کو 3 لاکھ روپے سے بڑھا کر 5 لاکھ روپے کر دیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد مالی وسائل کے بہاؤ کو ہموار بنانا ہے تاکہ شعبے کی ورکنگ کیپیٹل ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ رقومات باآسانی دستیاب ہو سکیں۔

 

دو دہائیوں کی کامیابی

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image004WAHN.png

پیداوار میں اضافہ: مچھلی کی پیداوار2003-04 میں 63.99 لاکھ ٹن اور 2013-14 میں 95.79 لاکھ ٹن سے بڑھ کر 2023-24 میں ایک شاندار اضافے کے ساتھ 184.02 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح 2014-24 کے دوران 88.23 لاکھ ٹن کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ 2004-14 کے دوران یہ اضافہ 31.80 لاکھ ٹن تھا۔

انلینڈ اور آبی زراعت میں مچھلی کی پیداوار میں اضافہ: 2014-24 کے دوران انلینڈ اور آبی زراعت کی مچھلی کی پیداوار میں شاندار 77.71 لاکھ ٹن کا اضافہ ہوا، جبکہ 2004-14 میں یہ اضافہ 26.78 لاکھ ٹن رہا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image005219I.png

سمندری مچھلی کی پیداوارمیں 2004-14 تک کے 5.02 لاکھ ٹن سے بڑھ کر 2014-24 میں تقریباً دوگنا ہو کر10.52 لاکھ ٹن ہو گئی۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0062B6W.png

بحری مصنوعی برآمداتی ترقیاتی اتھارٹی (ایم پی ای ڈی اے) کی رپورٹ کے مطابق، مالی سال 2023-24 کے دوران بھارت نے 17,81,602 میٹرک ٹن سمندری خوراک برآمد کی، جس کی مالیت 60,523.89 کروڑ روپے رہی۔ برآمدات کی قدر میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا، جو 2003-04 میں 609.95 کروڑ روپے تھی۔

 

پالیسی اقدامات اور اسکیمیں:

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image007SDN0.png

نیلا انقلاب: نیلا انقلاب اسکیم ماہی گیری کے شعبے کو اقتصادی طور پر مستحکم اور پائیدار بنانے کی جانب پہلا قدم تھا۔ اس کی کثیر جہتی سرگرمیوں کے ذریعے، یہ اسکیم بنیادی طور پر آبی زراعت اور ماہی گیری کے وسائل، بشمول انلینڈ اور سمندری ماہی گیری، سے پیداوار اور پیداواری صلاحیت بڑھانے پر مرکوز رہی۔ نیلا انقلاب اسکیم مالی سال 2015-16 میں پانچ سال کے لیے 3000 کروڑ روپے کے مرکزی بجٹ کے ساتھ شروع کی گئی تھی۔ تاہم، اس شعبے میں اصلاحات کی ضرورت تھی تاکہ ویلیو چین میں موجود بنیادی خامیوں کو دور کیا جا سکے۔ اسی لیے 2020 میں پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی) کا آغاز کیا گیا، تاکہ ماہی گیری کے شعبے کو نئی بلندیوں تک پہنچایا جا سکے اور ماہی گیروں، مچھلی فارمروں اور دیگر متعلقین کی سماجی و اقتصادی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ اسکیم پانچ سال (2020-21 سے 2024-25) کے لیے 20,050 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے ساتھ نافذ ہے۔ یہ اقدام انلینڈ ماہی گیری اور آبی زراعت کے شعبے میں اصلاحات پر زور دیتا ہے، جو مچھلی کی پیداوار بڑھانے اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

ماخذ: https://pmmsy.dof.gov.in/#schemeIntro

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0096HLV.png

پی ایم ایم ایس وائی کے تحت اقدامات

  1. فش فارمرز پروڈیوسر آرگنائزیشنز (ایف ایف پی اوز): پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی) کے تحت ماہی گیروں اور مچھلی پالنے والوں کو اقتصادی طور پر مضبوط کرنے اور ان کی سودے بازی کی طاقت کو بڑھانے کے لیے فش فارمرز پروڈیوسر آرگنائزیشنز (ایف ایف پی اوز) کے قیام کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس کا حتمی مقصد ماہی گیروں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔

محکمہ ماہی گیری نے اب تک مجموعی طور پر 2195 ایف ایف پی اوز کے قیام کی منظوری دی ہے، جن کی کل پروجیکٹ لاگت 544.85 کروڑ روپے ہے، جس میں 2000 ماہی گیری کوآپریٹیوز کو ایف ایف پی اوز کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور 195 نئے ایف ایف پی اوز شامل کیے گئے ہیں۔ مزید برآں، ماہی گیروں اور مچھلی پالنے والوں کو ادارہ جاتی قرض تک آسان رسائی فراہم کرنے کے لیے 2018-19 سے کسان کریڈٹ کارڈ (کی سی سی) کی سہولت کو ماہی گیری کے شعبے تک توسیع دی گئی ہے، اور اب تک 4,50,799 کے سی سی کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں۔

 

  1. ماہی گیری اور آبی زراعت انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ فنڈ(ایف آئی ڈی ایف):

مرکزی بجٹ 2018 میں، متحرمہ وزیر خزانہ نے ماہی گیری کے شعبے کے لیے فشریز اینڈ ایکواکلچر انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ فنڈ (ایف آئی ڈی ایف) کے قیام کا اعلان کیا۔ اس کے مطابق، 2018-19 کے دوران ایک مخصوص فنڈ ایف آئی ڈی ایف  تشکیل دیا گیا، جس کا کل بجٹ 7522.48 کروڑ روپے رکھا گیا۔

محکمہ ماہی گیری نے مختلف ریاستی حکومتوں، مرکزی زیر انتظام علاقوں اور دیگر مستحق اداروں سے موصولہ درخواستوں کے تحت 136 پروجیکٹ تجاویز/منصوبوں کی منظوری دی ہے، جن کی کل لاگت 5801.06کروڑ روپے ہے۔ ان منصوبوں میں 3858.19 کروڑ روپے پر سود میں سبسڈی فراہم کرنے کے لیے مالی معاونت مختص کی گئی ہے۔ ایف آئی ڈی ایف کی توسیع سے ماہی گیری کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی مزید تیز ہوگی۔

 

  1. پردھان منتری متسیا کسان سمرِدھی سہ-یوجنا (پی ایم ایم کے ایس ایس وائی):

مرکزی کابینہ نے فروری 2024 میں پردھان منتری متسیا کسان سمرِدھی سہ-یوجنا پی ایم ایم کے ایس ایس وائی کی منظوری دی، جو پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی)  کے تحت ایک مرکزی ذیلی اسکیم ہے۔ یہ اسکیم مالی سال 2023-24 سے 2026-27 تک چار سال کے لیے نافذ کی جارہی ہے ۔

پی ایم-ایم کے ایس ایس وائی₹6000 کروڑ روپے کے تخمینہ بجٹ کے ساتھ تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں نافذ کی جائے گی۔ اس اسکیم کا مقصد ماہی گیری کے شعبے میں طویل مدتی تبدیلی لانے کے لیے مالی اور تکنیکی مداخلت کے ذریعے ادارہ جاتی اصلاحات کو فروغ دینا ہے، تاکہ اس شعبے میں موجود بنیادی کمزوریوں کو دور کیا جا سکے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image010HL8C.png

  1. پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایم ایس ایس وائی) کے تحت مربوط ایکوا پارکس:

بھارت میں محکمہ ماہی گیری، ماہی گیری کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے مربوط ایکوا پارکس کی ترقی کو فعال طور پر فروغ دے رہا ہے۔ یہ ایکوا پارکس پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی)  کا حصہ ہیں اور مختلف اقدامات کے ذریعے آبی زراعت کی ویلیو چین کو مستحکم کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔ محکمہ ماہی گیری نے ملک میں 11 مربوط ایکوا پارکس کے قیام کی منظوری دی ہے، جن کی مجموعی لاگت ₹682.6 کروڑ روپے ہے۔

 

  1.  پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی) کے تحت مصنوعی مرجان (آرٹیفیشل ریفس) کی تنصیب:

مصنوعی مرجان (آرٹیفیشیل ریفس) وہ انسانی ساختہ ڈھانچے ہیں جو سمندری فرش پر رکھے جاتے ہیں تاکہ سمندری مسکن اور ماحولیاتی نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔ یہ ڈھانچے قدرتی مرجان کی چٹانوں کی نقل کرتے ہیں اور مختلف سمندری جانداروں کے لیے پناہ گاہ، خوراک کے ذرائع اور افزائش نسل کے مقامات فراہم کرتے ہیں۔ بھارت میں، محکمہ ماہی گیری سمندری ماہی گیری کے پائیدار تحفظ کو فروغ دینے کے لیے ساحلی ریاستوں میں مصنوعی مرجانوں کی تنصیب کو فعال طور پر آگے بڑھا رہا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد ساحلی ماہی گیری کو دوبارہ بحال کرنا، مچھلی کے ذخائر کو مستحکم کرنا اور سمندری حیاتیاتی تنوع میں اضافہ کرنا ہے۔ محکمہ ماہی گیری، فشری سروے آف انڈیا (ایف ایس آئی) اورآئی سی اے آر سینٹرل میرین فشریز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی ایم ایف آر آئی)  کی تکنیکی معاونت کے ساتھ، ان منصوبوں کے ذریعے پائیدار ماہی گیری کے طریقوں کو فروغ دینے اور ساحلی کمیونٹیز کے معاش کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

ستمبر 2024 تک، 937 مصنوعی مرجانوں کی تنصیب کی منظوری دی جا چکی ہے، جن کی مجموعی لاگت ₹291.37 کروڑ روپے ہے۔ یہ منصوبے درج ذیل ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں آندھرا پردیش، گجرات، لکشدیپ، کرناٹک، اوڈیشہ، مہاراشٹر، گوا، کیرالہ، پڈوچیری، تمل ناڈو، اور مغربی بنگال میں نافذ کیے جا رہے ہیں۔

 

  1. پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایس ایس ایس وائی) کے تحت نامزد نیوکلئس بریڈنگ سینٹرز(این بی سیز):

بھارت میں محکمہ ماہی گیری نے آبی زراعت کی اقسام کے جینیاتی معیار کو بہتر بنانے کے لیے مخصوص نیوکلئس بریڈنگ سینٹرز (این بی سیز) نامزد کیے ہیں۔ یہ این بی سیز جھینگے (Shrimp) سمیت دیگر اہم آبی انواع کی پیداوار اور معیار کو بہتر بنانے میں بنیادی کردار ادا کررہے ہیں، جو نہ صرف مقامی کھپت بلکہ برآمدات کے لیے بھی انتہائی اہم ہیں۔

 

تکنیکی ترقیات:

  • سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا انضمام: نیشنل رول آؤٹ پلان کے تحت ویسل کمیونیکیشن اینڈ سپورٹ سسٹم، اوشن سیٹ کی ایپلیکیشن، ممکنہ ماہی گیری زونز (پی ایف زیڈ) جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ محکمہ ماہی گیری، ماہی گیری کے شعبے میں خلائی ٹیکنالوجی کے اطلاق کو فروغ دے رہا ہے تاکہ اس شعبے کو مزید مؤثر اور جدید بنایا جا سکے۔
  • جی آئی ایس پر مبنی وسائل کی نقشہ سازی: جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) ٹیکنالوجی کو سمندری ماہی گیری کے مراکز اور ماہی گیری کے مخصوص علاقوں کی نقشہ سازی کے لیے نافذ کیا جا رہا ہے، جو وسائل کے مؤثر انتظام میں مدد فراہم کرے گا۔

ماہی گیری کے شعبے میں ڈیٹا بیس اور جغرافیائی معلوماتی نظام (جی آئی ایس) کو مضبوط بنانے کے لیے اسکیم کے اہم اجزاء درج ذیل ہیں:

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0111I32.jpg

آئی سی اے آر-سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف فشریز ایجوکیشن (سی آئی ایف ای): ایک مرکزِ فضیلت

سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف فشریز ایجوکیشن(سی آئی ایف ای) ، جو1961میں قائم کیا گیا، بھارت میں ماہی گیری کی اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کا سب سے اہم ادارہ ہے۔ سی آئی ایف ای نے4,000 سے زائد ماہی گیری کے توسیعی کارکنان اور پیشہ ور افراد کو تربیت فراہم کی ہے، جو پورے ملک میں پائیدار ماہی گیری کے طریقوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھارت میں ماہی گیری کے شعبے کی ترقی میں سی آئی ایف ای کی استعداد کار بڑھانے کی کوششیں نہایت اہم رہی ہیں۔

 

بھارت کی پائیدار ماہی گیری کی کوششوں کے کلیدی نکات:

قومی پالیسی برائے سمندری ماہی گیری(این پی ایم ایف، 2017): بھارت کی حکومت نے قومی پالیسی برائے سمندری ماہی گیری (این پی ایم ایف، 2017) متعارف کرائی ہے، جو پائیداری کو تمام سمندری ماہی گیری اقدامات کا بنیادی اصول قرار دیتی ہے۔ یہ پالیسی بھارت کے سمندری ماہی گیری کے وسائل کے تحفظ اور انتظام کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

ضابطے اور تحفظ کے اقدامات: سمندری مچھلیوں کے ذخائر کی طویل مدتی پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے، حکومت نے کئی تحفظاتی اقدامات نافذ کیے ہیں، جن میں شامل ہیں:

  • یکساں ماہی گیری پابندی: مانسون کے دوران مچھلیوں کے ذخائر کو بحال کرنے کے لیے خصوصی اقتصادی زون (ای ای زیڈ) میں 61 دن کی یکساں ماہی گیری پابندی نافذ کی جاتی ہے۔
  • ماہی گیری کے تباہ کن طریقوں پر پابندی: پیئر ٹرالنگ، بل ٹرالنگ اور مصنوعی ایل ای ڈی لائٹس کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے، تاکہ زیادہ ماہی گیری کو روکا جا سکے اور سمندری ماحولیاتی نظام کو کم سے کم نقصان پہنچے۔
  • پائیدار طریقوں کا فروغ: سمندری رانچنگ کی حوصلہ افزائی، مصنوعی مرجانوں کی تنصیب اور سمندری کاشتکاری جیسے اقدامات، بشمول سی ویڈ کی کاشت، کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
  • ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ماہی گیری ضوابط: ساحلی ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے (یو ٹیز) بھی پائیدار ماہی گیری کے فروغ کے لیے مختلف ضوابط نافذ کر رہے ہیں، جن میں جال کی میش سائز اور انجن کی طاقت کے ضوابط، مچھلیوں کا کم از کم قانونی سائز (ایم ایل ایس) ، اور مختلف اقسام کی کشتیوں کے لیے مخصوص ماہی گیری علاقوں کی زون سازی شامل ہیں۔

نتیجہ:

2004 سے 2024 کا عرصہ بھارت میں ماہی گیری کے شعبے کے لیے ایک انقلابی دور ثابت ہوا ہے۔ پالیسیوں کے نفاذ، جدید ٹیکنالوجی کے انضمام اور پائیدار ماہی گیری کے طریقوں کے ذریعے، بھارت نے نہ صرف مچھلی کی پیداوار میں اضافہ کیا بلکہ ماہی گیری سے وابستہ برادریوں کی سماجی و اقتصادی ترقی کو بھی یقینی بنایا۔

جیسے جیسے بھارت آگے بڑھ رہا ہے، جدت طرازی اور پائیداری پر مسلسل توجہ دینا اس ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم ہوگا۔

حوالہ جات:

Download in PDF

******

ش ح۔ ش ا ر۔ ول

Uno- 7099


(Release ID: 2103487) Visitor Counter : 44