وزارت اطلاعات ونشریات
سنیما اور ادب کے درمیان فاصلہ جتنا کم ہو، بھارتی سنیما کے لیے اُتنا ہی بہتر ہے : 55ویں اِفی میں معروف فلم ساز منی رتنم کا اظہار خیال
گوتم وی مینن کے ساتھ بات چیت کے دوران منی رتنم نے اِفی ماسٹر کلاس میں نوجوان فلم سازوں کو ترغیب فراہم کی
# اِفی ووڈ، 22 نومبر 2024
اساطیری فلم ساز مانی رتنم نے 55ویں انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا (اِفی) کے دوران ’’ادبی شاہکاروں کو دلچسپ فلموں میں تبدیل کرنے ‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے حاضرین کو مسحور کر دیا۔ اور مشہور بھارتی فلم ہدایت کار گوتم وی میننن کے ساتھ معلوماتی بات چیت کے دوران، جناب رتنم نے ادب کو پردۂ سیمیں پر اتارنے کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی اور فلم سازوں اور فلم شائقین کو بیش قیمتی مشورے دیے۔
رتنم نے داستان گوئی سے متعلق اپنے تجسس اور جوش و جذبے کے بارے میں بات کی اور سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا،’’میں آج بھی حاضرین کے درمیان بیٹھے ایک عام شخص کی طرح ہوں۔‘‘فلم سازی میں مہارت رکھنے کے باوجود، انہوں نے کہا، ’’کئی طریقوں سے ، میں آج بھی خود کو ناتجربہ کار ہی سمجھتا ہوں۔‘‘
’’ منی رتنم نے سنیما اور ادب کے درمیان گہرے تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ "سنیما اور ادب کے درمیان فاصلہ جتنا کم ہوگا، بھارتی سنیما اتنا ہی بہتر ہوگا۔" انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلم سازوں کو تحریری الفاظ کو زبردست بصری بیانیے میں تبدیل کرنے کے نازک فن کو بہتر بنانا چاہیے۔‘‘
ادب کو پردۂ سیمیں پر زندہ کرنا
کتابوں کو فلموں میں ڈھالنے کی باریکیوں پر بحث کرتے ہوئے، رتنم نے وضاحت کی، "فلمیں ایک بصری ذریعہ ہیں، جبکہ کتابیں بنیادی طور پر تخیلاتی ہوتی ہیں۔ ایک فلم ساز کو قاری کے تخیل کو زندہ کرنے میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اسکرپٹ کو ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت پیش آسکتی ہے، تاہم ان تبدیلیوں کو کہانی کے بنیادی جوہر کو تبدیل کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کرنا چاہیے۔
منی رتنم نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح اساطیر اور قدیم ہندوستانی تاریخ نے ان کے نقطہ نظر کو متاثر کیا ہے، جس سے وہ منفرد طریقوں سے کرداروں تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے خوبصورت ادبی زبان کو سنیما اسکرپٹ میں ڈھالنے کی چنوتیوں پر تبصرہ کیا، ساتھ ہی اس امر کو بھی یقینی بنایا کہ اداکار اسکرپٹ کے مطابق فطری طور پر اداکاری کر سکیں۔
اپنی حالیہ عظیم تخلیق 'پونیئن سیلوان'، جو اسی نام سے کلکی کرشنامورتی کے 1955 کے مشہور ناول سے ماخوذ ہے ، کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئےمنی رتنم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ فلم میں چول عہد کو کس طرح دکھایا جانا تھا لیکن تنجاور میں اس دور کی تمام تر باقیات پہلے ہی وقت کے ساتھ ختم ہوگئیں۔چونکہ وہ وسیع سیٹس بنانا نہیں چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے شمالی بھارت میں فلم کی شوٹنگ کی آزادی لی اور وہاں کے فن تعمیر کو چولوں کے فن تعمیر سے مشابہ بنانے کے لیے تبدیل کیا۔
تعاون پر مبنی فن کے طور پر فلمیں
سنیما کی تعاون پر مبنی نوعیت کو اجاگر کرتے ہوئے، رتنم نے کہا، ’’ایک ہدایت کار کے طور پر، میرا کام فلم میں ہر شخص کو مرکزی حیثیت دلانا ہے، خواہ وہ اداکار ہو یا عملے کا کوئی رکن۔ ‘‘
ماسٹرکلاس نے سامعین کو ایک بھرپور تجربہ فراہم کیا، جس میں رتنم نے نوجوان فلم سازوں کو سوچ سمجھ کر تخلیقی آزادیوں کو بروئے کار لانے کی تاکید کی۔ انہوں نے ان سے یہ بھی کہا کہ وہ کتاب کی اصل روح کو محفوظ رکھیں اور اسے اپنا منفرد تخلیقی نظریہ دیں۔
یہ ماسٹرکلاس فلم ساز کی مہارت اور عاجزی کا ثبوت تھا، اور اس نے سامعین میں موجود تمام خواہشمند کہانی کاروں کو ادب اور سنیما کے دو جہانوں کو آپس میں جوڑنے کے بارے میں بیش قیمتی اسباق پیش کیے۔
**********
(ش ح –ا ب ن)
U.No:2831
(Release ID: 2076250)
Visitor Counter : 6