قومی انسانی حقوق کمیشن

بھارت  میں این  ایچ آر سی نے بھیک مانگنے کو روکنے اور بھکاریوں کی بازآباد کاری کے بارے میں ایک کھلی بحث کا اہتمام کیا


کار گزار چیئرپرسن،  محترمہ  وجیا بھارتی سایانی نے کہا ہے کہ  اقتصادی ترقی اور متعدد سرکاری اقدامات کے باوجود، بھیک مانگنے کا جاری عمل ملک میں گہری سماجی و اقتصادی تفاوت کی نشاندہی کرتا ہے

سکریٹری جنرل جناب بھرت لال نے کہا کہ اگر ملک کے 80 کروڑ لوگوں کو مفت اناج مل سکتا ہے، تو بھیک مانگنے والے تقریباً 4 لاکھ افراد کی بازآبادکاری مشکل نہیں ہونی چاہیے

مختلف تجاویز میں بھکاریوں کی زیادہ تعداد والے علاقوں کی نقشہ سازی، انہیں آدھار کارڈ جاری کرنا اور بھیک مانگنے کو جرائم قرار  نہ دینا شامل ہے

Posted On: 30 AUG 2024 3:46PM by PIB Delhi

ہندوستان کے  قومی حقوق  انسانی کمیشن  (این ایچ آر سی) نے آج اپنے  یہاں   بھیک مانگنے کی روک تھام اور بھکاریوں  کی باز  آباد کاری   کے موضوع پر ایک کھلی بحث کا اہتمام کیا۔ اس کی صدارت کرتے ہوئے، این ایچ آر سی ، انڈیا کی کار گزار چیئرپرسن محترمہ وجئے بھارتی سایانی نے کہا کہ تیز رفتار اقتصادی ترقی اور مرکز اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے نافذ کئے گئے متعدد اقدامات اور فلاحی پروگراموں کے باوجود بھیک مانگنے کا جاری عمل ملک میں گہری سماجی و اقتصادی تفاوت کی نشاندہی کرتا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں 413  ہزار سے زیادہ بھکاری اور گھومنے پھرنے والے موجود  تھے، جن میں خواتین، بچے، خواجہ سرا اور بوڑھے شامل ہیں، جو زندہ رہنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔

alt

انہوں نے کہا کہ پہلے بھیک دینا اور لینا  مذہبی طریقہ تھا ، جس کا مقصد عاجزی پیدا کرنا تھا لیکن ان دنوں خیرات کا عمل اپنے اصل مقصد سے الگ ہو گیا ہے اور غربت یا مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے بھیک مانگنا  پیشہ بن گیا ہے، یہاں تک کہ اس میں بردہ فروشوں سمیت بچے بھی شامل  ہوگئے ہیں ، جو اپنے  اغوا کاروں کے لئے  قابل قدر رقم  پیدا کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ، معاشرتی طور پر نظر انداز  کئے گئے  افراد ، جسمانی طور پر معذور افراد کے پاس اپنی بقا اور روزمرہ کے کھانے پینے کے لیے دوسروں پر انحصار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

alt

محترمہ وجے بھارتی سایانی نے کہا کہ کمیشن ایسے افراد کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے عہد بستہ ہے،  اور  اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ان کے ساتھ وقار اور انصاف کے ساتھ برتاؤ کیا جائے۔ اس تناظر میں، انہوں  نے پسماندہ افراد کے لیے ذریعہ معاش اور انٹرپرائز (اسمائل)-  بی  اسکیم کے لیے تعاون کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی، جو بھکاریوں  کی باز آباد کاری پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔

این ایچ آر سی، انڈیا کے سکریٹری جنرل، جناب بھرت لال نے کہا کہ حال ہی میں، کمیشن نے مرکز اور ریاستی حکومتوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے انتظامیہ کو ایک ایڈوائزری جاری کی ہے، تاکہ ایسی حکمت عملی تیار کی جائے،  جس کا مقصد بھیک مانگنے کی ضرورت کو ختم کرنا اور اس میں شامل لوگوں کے لیے معیار زندگی کو بڑھانا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومتیں، خاص طور پر حالیہ برسوں میں، شہریوں کے معیار زندگی کو مسلسل بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ پانی، رہائش اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات تک سبھی  کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے توجہ مرکوز کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر ملک میں 80 کروڑ لوگوں کو مفت اناج مل سکتا ہے،  تو بھیک مانگنے میں مصروف تقریباً 4 لاکھ افراد کی باز آباد کاری مشکل نہیں ہونی چاہیے۔

alt

جناب  لال نے کہا کہ اگر سول سوسائٹی کی تنظیموں سمیت مختلف  فریق مل کر کام کریں،  تو ان کی باز آباد کاری مشکل نہیں ہوگی۔  انہیں آدھار کارڈ فراہم کرکے اناج، مکان، بجلی کے کنکشن، بیت الخلا اور کھانا پکانے کی گیس تک رسائی فراہم  کی جاسکتی  ہے ۔

اس سے پہلے ، کھلی بحث کا  تعارف کراتے ہوئے، جوائنٹ سکریٹری جناب دیویندرکمار نیم نے موجودہ قوانین اور طریقوں کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا اور آئینی اصولوں اور  عدالتوں کے حالیہ فیصلوں کے  ساتھ ہم آہنگی میں، تادیبی  اقدامات سے باز آباد کاری  کے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے کی وکالت کی۔ یہ تبدیلی بھیک مانگنے کے مسئلے کا  زیادہ موثر اور انسانی حل پیش کرتی ہے۔

سوسائٹی فار پروموشن آف یوتھ اینڈ ماسز کے ڈائریکٹر جناب راجیش کمار نے کہا کہ ان کی تنظیم نے اپنے شیلٹر ہوم کے مکینوں کے لیے تقریباً 100 فیصد آدھار کارڈ کا اندراج کر ایا ہے۔ بیگرس کارپوریشن پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائرکٹر جناب چندر مشرا نے بتایا کہ وہ کس طرح بھکاریوں کو اپنی کمپنی میں  فریق کے طور پر شامل کرکے انہیں کاروباریوں میں تبدیل کررہے ہیں۔

دیگر شرکاء میں جناب جوگندر سنگھ، رجسٹرار (قانون)، این ایچ آر سی، سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کی وزارت کے نمائندے، حکومت بہار، حکومت راجستھان، حکومت دہلی، این جی اوز، اکیڈمیاں اور  اس  موضوع کے ممتاز  ماہرین شامل تھے۔


alt

میٹنگ  میں  پیش  کی گئیں چند اہم تجاویز  مندرجہ ذیہ ہیں:

  • بھیک مانگنے کی زیادہ تعداد والے علاقوں کی شناخت اور نقشہ سازی ، اور ایک جامع ڈاٹا بیس بنانے کے لیے بھکا ریوں کا سروے کریں۔
  • ریاستی حکومتوں کو تمام بھکاریوں کو آدھار کارڈ جاری کرنے، سماجی تحفظ کی اسکیموں اور فوائد تک ان کی رسائی کو آسان بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
  • بھیک مانگنے کو مجرمانہ فعل  قرار نہ دیا  جائے ، کیونکہ تادیبی اقدامات اور باز آباد کاری کی کوششوں کو مؤثر طریقے سے یکجا نہیں کیا جا سکتا۔
  • سبھی بھکاری یکساں نہیں ہوتے ،  لہٰذا، ان کی انفرادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کئے جانے  چاہئیں ۔

************

U.No:10352

ش ح۔وا۔ق ر



(Release ID: 2050146) Visitor Counter : 13