وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav g20-india-2023

وزیراعظم نے زرعی ماہرین اقتصادیات کی 32ویں بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح کیا


ہندوستان میں 65 سال بعد ہوئی کانفرنس، وزیر اعظم نے 120 ملین کسانوں، 30 ملین سے زیادہ خواتین کسانوں، 30 ملین ماہی گیروں اور 80 ملین مویشی پروری کے کسانوں کی جانب سے مندوبین کا استقبال کیا

ہندوستانی زرعی روایت میں سائنس اور منطق کو فوقیت دی گئی ہے

ہندوستان کے پاس اپنی وراثت کی بنیاد پر زرعی تعلیم اور تحقیق کا مضبوط نظام موجود ہے

ہندوستان آج غذائی اجناس کا ملک ہے

ایک وقت تھا جب ہندوستان کا غذائی تحفظ ایک عالمی تشویش تھی، آج ہندوستان عالمی خوراک اور غذائی تحفظ کے لیے حل فراہم کر رہا ہے

ہندوستان ایک ’وشو بندھو‘ کے طور پر عالمی بہبود کے لیے پرعزم ہے

پائیدار زراعت اور خوراک کے نظام کے سامنے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ ’ایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل‘ کے جامع نقطہ نظر کے تحت ہی کیا جا سکتا ہے

چھوٹے کسان ہندوستان کی غذائی تحفظ کی سب سے بڑی طاقت ہیں

Posted On: 03 AUG 2024 11:02AM by PIB Delhi

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی کے نیشنل ایگریکلچرل سائنس سینٹر (این اے ایس سی) کمپلیکس میں زرعی ماہرین اقتصادیات (آئی سی اے ای) کی 32ویں بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح کیا۔ اس سال کی کانفرنس کا تھیم ہے، ”پائیدار زرعی خوراک کے نظام کی طرف تبدیلی“۔ اس کا مقصد ماحولیاتی تبدیلیوں، قدرتی وسائل کے انحطاط، بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت اور تنازعات جیسے عالمی چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے پائیدار زراعت کی اہم ضرورت سے نمٹنا ہے۔ کانفرنس میں تقریباً 75 ممالک سے ایک ہزار کے قریب مندوبین نے شرکت کی۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ زرعی ماہرین اقتصادیات کی بین الاقوامی کانفرنس (آئی سی اے ای) 65 سال بعد ہندوستان میں ہو رہی ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے 120 ملین کسانوں، 30 ملین سے زیادہ خواتین کسانوں، 30 ملین ماہی گیروں اور 80 ملین مویشی پروری کے کسانوں کی جانب سے تمام معززین کا خیرمقدم کیا۔ جناب مودی نے کہا، ”آپ اس سرزمین میں ہیں جو 500 ملین سے زیادہ مویشیوں کا گھر ہے۔ میں زراعت اور جانوروں سے محبت کرنے والے ملک ہندوستان میں آپ کا خیرمقدم کرتا ہوں“۔

وزیر اعظم نے زراعت اور خوراک کے بارے میں قدیم ہندوستانی عقائد اور تجربات کی طویل عمر پر زور دیا۔ انہوں نے ہندوستانی زراعت کی روایت میں سائنس اور منطق کو دی جانے والی ترجیح پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے خوراک کی دوائی خصوصیات کے پیچھے پوری سائنس کے وجود کا ذکر کیا۔

وزیر اعظم نے اس زرخیز ورثے پر مبنی زراعت پر تقریباً 2000 سال پرانے مقالے ’کرشی پراشر‘ کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ زراعت اس ہزاروں سال پرانے وژن کی بنیاد پر پروان چڑھی ہے۔ وزیر اعظم نے ہندوستان میں زرعی تحقیق اور تعلیم کے مضبوط نظام کی طرف اشارہ کیا۔ ”آئی سی اے آر خود 100 سے زیادہ تحقیقی اداروں پر فخر کرتا ہے“، انہوں نے کہا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ زراعت کی تعلیم کے لیے 500 سے زیادہ کالج اور 700 سے زیادہ کرشی وگیان کیندر موجود ہیں۔

ہندوستان میں زرعی منصوبہ بندی میں تمام چھ موسموں کی مطابقت پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے 15 زرعی آب و ہوا والے علاقوں کی اہم خصوصیات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ملک میں تقریباً سو کلومیٹر کا سفر کرے تو زرعی پیداوار میں تبدیلی نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ”خواہ وہ زمین پر، ہمالیہ پر، صحرا میں، پانی کی کمی والے علاقوں یا ساحلی علاقوں میں کاشتکاری ہو، یہ تنوع عالمی غذائی تحفظ کے لیے اہم ہے اور ہندوستان کو دنیا میں امید کی کرن بناتا ہے۔“

65 سال قبل ہندوستان میں منعقد ہونے والی زرعی ماہرین اقتصادیات کی آخری بین الاقوامی کانفرنس کو یاد کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ذکر کیا کہ ہندوستان ایک نیا آزاد ملک تھا جس کی وجہ سے ہندوستان کی غذائی تحفظ اور زراعت کے لیے یہ ایک مشکل وقت تھا۔ آج، وزیر اعظم نے کہا، ہندوستان ایک فوڈ سرپلس ملک ہے، جو دودھ، دالوں اور مسالوں کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے، اور اناج، پھل، سبزیاں، کپاس، چینی، چائے اور فارمی مچھلی کا دوسرا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے۔ انہوں نے اس وقت کو یاد کیا جب ہندوستان کا غذائی تحفظ دنیا کے لیے تشویش کا باعث تھا جبکہ آج ہندوستان عالمی خوراک اور غذائی تحفظ کے حل فراہم کر رہا ہے۔ لہذا، وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان کا تجربہ خوراک کے نظام کی تبدیلی پر بات چیت کے لیے قیمتی ہے اور اس سے گلوبل ساؤتھ کو فائدہ پہنچنے کا یقین ہے۔

وزیر اعظم مودی نے ’وشو بندھو‘ کے طور پر عالمی بہبود کے لیے ہندوستان کے عزم کو دہرایا۔ انہوں نے عالمی فلاح و بہبود کے لیے ہندوستان کے وژن کو یاد کیا اور ’ایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل‘، ’مشن لائف‘، اور ’ایک زمین ایک صحت‘ سمیت مختلف فورم پر ہندوستان کی طرف سے پیش کیے گئے مختلف منتروں کا ذکر کیا۔ جناب مودی نے انسانوں، پودوں اور جانوروں کی صحت کو جمود میں نہ دیکھنے کے ہندوستان کے نقطہ نظر کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ ”پائیدار زراعت اور خوراک کے نظام کے سامنے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ 'ایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل' کے جامع نقطہ نظر کے تحت ہی کیا جا سکتا ہے“۔

”زراعت ہندوستان کی اقتصادی پالیسیوں کے مرکز میں ہے“، وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کے 90 فیصد چھوٹے کسان جن کے پاس تھوڑی سی زمین بھی ہے وہ ہندوستان کی غذائی تحفظ کی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اسی طرح کی صورتحال ایشیا کے کئی ترقی پذیر ممالک میں ہے جو ہندوستان کے ماڈل کو لاگو کر رہے ہیں۔ قدرتی کاشتکاری کی مثال دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں بڑے پیمانے پر کیمیکل سے پاک قدرتی کھیتی کو فروغ دینے کے مثبت نتائج دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اس سال کے بجٹ میں پائیدار اور آب و ہوا سے مزاحم کھیتی پر بڑی توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے کسانوں کی مدد کے لیے ایک مکمل ماحولیاتی نظام تیار کرنے کا بھی ذکر کیا۔ موسمیاتی لچکدار فصلوں سے متعلق تحقیق اور ترقی پر حکومت کے زور کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ گزشتہ 10 سالوں میں تقریباً 19 سو نئی موسمیاتی مزاحمتی اقسام کسانوں کے حوالے کی گئی ہیں۔ انہوں نے ہندوستان میں چاول کی ان اقسام کی مثالیں دیں جن کو روایتی اقسام کے مقابلے میں 25 فیصد کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ”منی پور، آسام اور میگھالیہ کے کالے چاول اپنی طبی قدر کی وجہ سے ترجیحی انتخاب ہیں“، انہوں نے کہا کہ ہندوستان اپنے متعلقہ تجربات کا عالمی برادری کے ساتھ اشتراک کرنے کے لیے بیتاب ہے۔

وزیراعظم نے پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ غذائیت کے چیلنج کی سنگینی کا بھی اعتراف کیا۔ انہوں نے شری انّ، جوار کو ایک حل کے طور پر پیش کیا جس میں سپر فوڈ کا معیار ’کم سے کم پانی اور زیادہ سے زیادہ پیداوار‘ ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ہندوستان کی جوار کی ٹوکری کو دنیا کے ساتھ بانٹنے کی خواہش ظاہر کی اور پچھلے سال کو جوار کے بین الاقوامی سال کے طور پر منائے جانے کا ذکر کیا۔

زراعت کو جدید ٹکنالوجی سے جوڑنے کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے سوائل ہیلتھ کارڈ، سولر فارمنگ، جس سے کسان توانائی فراہم کرنے والے بن رہے ہیں، ڈیجیٹل ایگریکلچر مارکیٹ یعنی ای-نام، کسان کریڈٹ کارڈ اور پی ایم فصل بیمہ یوجنا کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے زراعت کی رسمی شکل اور روایتی کسانوں سے لے کر ایگری اسٹارٹ اپس تک، قدرتی کاشتکاری سے لے کر فارم اسٹے اور فارم ٹو ٹیبل تک کے اس سے منسلک شعبوں پر بھی بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے دس سالوں میں نوے لاکھ ہیکٹر کو مائیکرو اریگیشن کے تحت لایا گیا۔ چونکہ ہندوستان ایتھنول کی 20 فیصد ملاوٹ کے ہدف کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، انہوں نے کہا کہ اس سے زراعت اور ماحولیات دونوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔

خطاب کے اختتام پر، وزیر اعظم نے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی کا ذکر کیا اور اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اگلے پانچ دن دنیا کو پائیدار زرعی خوراک کے نظام سے جوڑنے کے طریقے بتائے جائیں گے۔ ”ہم ایک دوسرے سے سیکھیں گے اور ایک دوسرے کو سکھائیں گے“۔

اس موقع پر زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر جناب شیو راج سنگھ چوہان، نیتی آیوگ کے رکن، پروفیسر رمیش چند، کانفرنس کے صدر، پروفیسر متین قائم اور ڈی اے آر ای کے سکریٹری اور آئی سی اے آر کے ڈی جی ڈاکٹر ہمانشو پاٹھک موجود تھے۔

*****

ش ح۔ ف ش ع- ج ا

U: 9258



(Release ID: 2041104) Visitor Counter : 51