وزیراعظم کا دفتر

راجیہ سبھا میں صدر  جمہوریہ کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر وزیر اعظم کا جواب


’’ہندوستان کے عوام نے پچھلے 10 سالوں میں ملک کی خدمت کرنے کے لئے ہماری حکومت کی کوششوں کی پورے دل سے حمایت کی ہے اور ان کے لئے  اپنی نیک خواہشات  دی ہیں‘‘

’’یہ بابا صاحب امبیڈکر کا دیا ہوا آئین ہے،  جس نے مجھ جیسے لوگوں کو، جن کا سیاسی سلسلہ صفر ہے، کو سیاست میں آنے اور اس مقام تک پہنچنے کی راہ ہموار کی ہے‘‘

’’ہمارا آئین مینارہ نور کی طرح ہماری رہنمائی کرتا ہے‘‘

’’لوگوں نے ہمیں اس  اعتماد اور پختہ یقین کے ساتھ تیسری مرتبہ خدمت کرنے کا موقع دیا ہے کہ ہم ہندوستان کی معیشت کو تیسری سب سے بڑ ی معیشت بنائیں گے‘‘

’’اگلے 5 سال ملک کے لیے اہم ہیں ‘‘

’’ اچھی حکمرانی  کی مدد سے ہم اس دور کو بنیادی ضروریات کی تکمیل کے دور میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘‘

’’ہم یہاں رکنا نہیں چاہتے۔ اگلے پانچ سالوں کے لیے ہم نئے شعبوں میں پیدا ہونے والے مسائل کا مطالعہ کرکے، ان کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘

’’ہم نے کسانوں کو بیج سے لے کر مارکیٹ تک ہر مرحلے پر، مائیکرو پلاننگ کے ذریعے ایک مربوط  نظام فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے‘‘

’’ہندوستان خواتین کی قیادت میں ترقی کے لیے صرف ایک نعرے کے طور پر  ہی نہیں بلکہ مصمم ارادے کے ساتھ کام کر رہا ہے‘‘

Posted On: 03 JUL 2024 3:06PM by PIB Delhi

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج راجیہ سبھا میں پارلیمنٹ سے صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریہ کی تحریک کا جواب دیا۔

ایوان سے خطاب کرتے ہوئے،  وزیراعظم نے متاثر کن اور حوصلہ افزا خطاب پر صدر جمہوریہ کا شکریہ ادا کیا۔ صدر  جمہوریہ کے خطاب پر تقریباً 70 اراکین نے اپنے خیالات پیش کیے اور وزیراعظم نےان  اراکین کا شکریہ ادا کیا۔

ملک کے جمہوری سفر کی عکاسی کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ 60 سال کے بعد ،ہندوستان کے رائے دہندگان نے مسلسل تیسری بار حکومت  کی تشکیل کے لئے اپنا حق رائے دہی دیا ہے ۔انہوں نے اسے ایک تاریخی کارنامہ قرار دیا ہے۔ رائے دہندگان کے فیصلے کو کمزور کرنے کے اپوزیشن کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے، جناب مودی نے کہا کہ پچھلے کچھ دنوں میں انہوں نے دیکھا ہے کہ اسی حلقے نے اپنی شکست اور ان کی  جیت کو بھاری دل کے ساتھ قبول کیا ہے۔

وزیراعظم نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت نے اپنی حکمرانی کا صرف ایک تہائی یعنی 10 سال مکمل کیا ہے اور دو تہائی یا 20 سال باقی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ہندوستان کے لوگوں نے گزشتہ 10 سالوں میں ملک کی خدمت کرنے کے لئے ہماری حکومت کی کوششوں کی تہہ دل سے حمایت کی ہے اور ان کے لئے نیک خواہشات دی ہیں‘‘۔ انہوں نے  ان شہریوں فیصلے پر فخر کا اظہار کیا ، جنہوں نے پروپیگنڈے کو شکست دی، کارکردگی کو ترجیح دی، سراب کی سیاست کو مسترد کیا اور اعتماد کی سیاست پر فتح کی مہر ثبت کی ہے ۔

یہ واضح  کرتے ہوئے کہ ہندوستان آئین کے 75 ویں سال میں داخل ہو رہا ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ایک خاص مرحلہ ہے، کیونکہ ہندوستان کی پارلیمنٹ بھی 75 سال مکمل کر رہی ہے۔  یہ ایک خوشگوار اتفاق ہے۔ جناب مودی نے،  بابا صاحب امبیڈکر کے ذریعہ تیار کئے گئے ہندوستان کے آئین کی تعریف کی اور کہا کہ جن لوگوں کا کبھی بھی ہندوستان میں سیاسی میدان سے کوئی تعلق نہیں تھا، انہیں اس میں درج حقوق کی وجہ سے ملک کی خدمت کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ بابا صاحب امبیڈکر کا دیا ہوا آئین ہے،  جس نے مجھ جیسے لوگوں کو، جن کا سیاسی سلسلہ صفر ہے، سیاست میں آنے اور اس مقام  تک پہنچنے کی راہ ہموار کی ہے‘‘ ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب جب کہ عوام نے اپنی منظوری کی مہر لگا دی ہے، تو مسلسل تیسری بار حکومت تشکیل ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کا آئین صرف مضامین کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس کی روح اور نقوش انتہائی  بیش قیمت ہیں۔

جناب مودی نے یاد ددہانی کرائی کہ جب ان کی حکومت نے 26 نومبر کو ’’یوم آئین‘‘ کے طور پر منانے کی تجویز پیش کی تھی،  تو سخت مخالفت ہوئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوم آئین  منانے کے ان کے فیصلے نے آئین کی روح کو مزید پھیلانے، اس بات پر تبادلہ خیال اور غور و خوض کرنے میں مدد کی ہے کہ اسکولوں اور کالجوں کے نوجوانوں میں آئین میں بعض دفعات کیوں اور کیسے شامل اور ختم کی گئیں۔ وزیر اعظم پرامید تھے کہ آئین کے مختلف پہلوؤں پر ہمارے طلباء کے درمیان مضامین، مباحثے اور دیگر اسی طرح کے مقابلوں کا اہتمام کرنے سے،  ایمان کا جذبہ اور آئین کی ترقی یافتہ سمجھ میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا  کہ ’’آئین ہماری سب سے بڑی تحریک رہا ہے‘‘۔ جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ جب آئین اپنے وجود کے 75 ویں سال میں داخل ہو رہا ہے، ان کی حکومت نے ملک گیر تقریبات کو یقینی بنانے کے لیے اسے ’’جن اتسو‘‘ کے طور پر منانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کی بھی کوشش کریں گے کہ ملک کے ہر کونے میں آئین کی روح اور مقصد سے آگاہی  پیدا کی جائے۔

رائے دہندگان کی ستائش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان کے عوام     ان کی حکومت کو تین بار ووٹ دے کر اقتدار میں لائی ہے تاکہ ترقی اور انحصار کے اہداف کو  ’وکست بھارت‘ اور ’آتم نربھر بھارت‘کے ذریعہ  حاصل کیا جا سکے ۔ جناب مودی نے اس انتخابی جیت کو گزشتہ 10 سالوں میں ان کی حکومت کے فیصلوں پر نہ صرف شہریوں کی منظوری کی مہر کے طور پر،  بلکہ ان کے مستقبل کے خوابوں اور امنگوں کو پورا کرنے کے منشور کے طور پر بھی سراہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس ملک کے لوگوں نے ہمیں اپنے مستقبل کی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔‘‘

وزیر اعظم نے یاد دہانی کرائی  کہ ملک نے عالمی خلفشار اور وبائی امراض جیسے چیلنجوں کے باوجود ، پچھلے دس سالوں میں ہندوستانی معیشت کو دسویں  مقام سے پانچویں سب سے بڑی معیشت  بنتے ہوئے  دیکھا ہے۔ وزیر اعظم نے اس منشور  کو پورا کرنے کے لیے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا  کہ ’’یہ  منشور،  معیشت کو موجودہ پانچویں نمبر سے تیسرے نمبر پر لے جانا ہے‘‘۔

جناب مودی نے پچھلے 10 سالوں میں ہونے والی ترقی کی رفتار اور دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے حکومت کے عزم کو دہرایا۔ وزیراعظم نے ایوان کو یقین دلایا کہ اگلے 5 سالوں میں حکومت،  عوام کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے کام کرے گی۔ وزیراعظم نریندر  مودی نے کہا کہ ’’ہم اس دور کو اچھی حکمرانی  کی مدد سے بنیادی ضروریات کی تکمیل کرنے کے دور میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘‘ ۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آئندہ 5 سال،  غریبی کے خلاف جنگ کے لیے انتہائی اہم ہیں اور گزشتہ 10 سالوں کے تجربات کی بنیاد پر ، غریبی کے خلاف ڈٹ جانے اور اس پر قابو پانے کے لیے غریبوں کی اجتماعی صلاحیتوں کے  تئیں  یقین کا اظہار کیا۔

لوگوں کی زندگیوں کے ہر پہلو میں ہندوستان کے تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کے اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے ، جناب مودی نے کہا کہ اس واقعہ کا عالمی منظر نامے پر بھی بے مثال اثر پڑے گا۔ انہوں نے اگلے پانچ سالوں میں ہندوستانی اسٹارٹ اپس اور کمپنیوں کی عالمی سطح پر بحالی اور ترقی کے انجن کے طور پر ابھرنے والے ٹیئر 2 اور ٹیئر 3 شہروں کے ابھرنے کے بارے میں بات کی۔

موجودہ صدی کو ٹکنالوجی پر مبنی صدی قرار دیتے ہوئے، وزیراعظم  نریندر مودی نے عوامی نقل و حمل  جیسے کئی نئے شعبوں میں نئی ​​ٹیکنالوجی کی نئی جہتوں کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ چھوٹے شہر طب، تعلیم یا اختراع جیسے شعبوں میں اہم کردار ادا کریں گے۔

کسانوں، غریبوں، ناری شکتی اور نوجوانوں کے چار ستونوں کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان کی ترقی کے سفر میں ان شعبوں پر حکومت کی توجہ اہم ہے۔

زراعت اور کسانوں کے لیے اراکین کی تجاویز پر شکریہ ادا کرتے ہوئے،  وزیر اعظم نے گزشتہ 10 سالوں میں کسانوں کے لیے زراعت کو منافع بخش بنانے کے لیے ، حکومت کی کوششوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے قرض، بیج، سستی کھاد، فصل کے بیمہ، کم سے کم امدادی قیمت پر خریداری کو یقینی بنانے کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ہم نے کسانوں کو بیج سے لے کر مارکیٹ تک، ہر مرحلے پر مائیکرو پلاننگ کے ذریعے ایک مربوط  نظام فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے‘‘۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے کسان کریڈٹ کارڈ کے فوائد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس نے چھوٹے کسانوں کے لیے قرض حاصل کرنے کے عمل کو آسان بنا دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسان کریڈٹ کارڈ کے فوائد،  ماہی گیروں اور مویشیوں کے رکھوالوں تک پہنچائے گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے چھوٹے کسانوں کے لیے فلاحی اسکیموں کا بھی تذکرہ کیا اور وزیر اعظم کسان سمان ندھی پر روشنی ڈالی،  جس سے 10 کروڑ کسانوں کو فائدہ ہوا ہے اور گزشتہ 6 سالوں میں تقریباً 3 لاکھ کروڑ روپے تقسیم کیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے پچھلی حکومتوں میں قرض معافی کی اسکیموں کی ناکافی اور ساکھ کی کمی کی بھی نشاندہی کی اور موجودہ حکومت کی کسان کلیان اسکیموں کو اجاگر  کیا۔

حزب اختلاف  کے واک آؤٹ کے بعد اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے ، وزیراعظم نے ایوان کے چیئرمین سے اظہار ہمدردی کیا اور کہا کہ ’’میں عوام کا خادم ہونے کا پابند ہوں۔ میں اپنے وقت کے ہر ایک منٹ کے لیے لوگوں کے سامنے جوابدہ ہوں۔‘‘ انہوں نے ایوان کی روایات کی توہین کرنے پر اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ان کی حکومت نے غریب کسانوں کو کھادوں کے لیے 12 لاکھ کروڑ روپے کی سبسڈی دی، جو آزادی کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ کسانوں کو بااختیار بنانے کے لیے،  ان کی حکومت نے نہ صرف کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) میں ریکارڈ اضافہ کا اعلان کیا ، بلکہ ان سے خریداری کے ضمن میں بھی نئے ریکارڈ بنائے۔ پچھلی حکومت سے موازنہ کرتے ہوئے، انہوں نے روشنی ڈالی کہ ان کی حکومت نے گزشتہ 10 سالوں میں دھان اور گندم کے کسانوں کو 2.5 گنا زیادہ رقم فراہم کی ہے۔ ’’ہم یہاں رکنا نہیں چاہتے۔ اگلے پانچ سالوں کے لیے ہم نئے شعبوں میں پیدا ہونے والے مسائل کا مطالعہ کرکے ان کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے فی الحال خوراک کو ذخیرہ کرنے کی دنیا کی سب سے بڑی مہم چلائی ہے،‘‘ انہوں نے کہا کہ مرکزی انتظامات کے تحت اناج  ذخیرہ کرنے کی  لاکھوں  اکائیاں بنانے کے لیے کام شروع ہو گیا ہے۔

وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ باغبانی، زراعت کا ایک اہم شعبہ ہے اور ان کی حکومت اس کے محفوظ ذخیرہ، نقل و حمل اور فروخت کے لیے بنیادی ڈھانچے  کو وسعت دینے کے لیے انتھک محنت کر رہی ہے۔

وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ’’حکومت نے سب کا ساتھ،  سب کا وکاس کے بنیادی منتر کے ساتھ،  ہندوستان کے ترقی کے سفر کے دائرہ کار کو مسلسل وسعت دی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شہریوں کو باوقار زندگی فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ یہ بتاتے ہوئے کہ آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک نظر انداز کیے جانے والوں کی نہ صرف دیکھ بھال کی جاتی ہے،  بلکہ آج ان کی پوجا بھی کی جاتی ہے، وزیر اعظم نے ’دیویانگ‘ بھائیوں اور بہنوں کے مسائل کو مشن موڈ اور مائیکرو لیول پر حل کرنے کا ذکر کیا،  تاکہ وہ اپنی زندگی  اس طرح پروقار طور پر گزار سکیں،  جس میں دوسروں پر کم سے کم انحصار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی حکومت کی جامع نوعیت کو اجاگر کرتے ہوئے، جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ اس نے سماج کے ایک بھولے ہوئے طبقے، خواجہ سراؤں کے لیے ایک قانون نافذ کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج مغربی ممالک بھی ہندوستان کی ترقی پسند فطرت کو فخر سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ا ن کی حکومت نے اب  باوقار پدم ایوارڈز خواجہ سراؤں کو بھی عطا کیے ہیں۔

اسی طرح خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش برادریوں کے لیے ایک ویلفیئر بورڈ بنایا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے خاص طور پر کمزور قبائلی گروپس (پی وی ٹی جی) کے لیے   کئے گئے اقدامات کا بھی ذکر کیا،  کیونکہ جن من اسکیم کے تحت 24 ہزار کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت ووٹ کی سیاست کے بجائے ترقی کی سیاست کر رہی ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوستان کے وشوکرماؤں کے بارے میں بھی بات کی،  جنہوں نے ہندوستان کی ترقی کے سفر میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے  بتایا کہ حکومت نے تقریباً 13 ہزار کروڑ کی مدد سے پیشہ ورانہ مہارت پیدا کرکے اور ہنر مندی کے فروغ کے لیے وسائل فراہم کرکے،  ان کی زندگیوں کو بدل دیا ہے۔ انہوں نے پی ایم سواندھی اسکیم کا بھی تذکرہ کیا ، جس نے خوانچہ فروشوں کو بینک قرض حاصل کرنے اور اپنی آمدنی میں مزید اضافہ کرنے کے قابل بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’خواہ وہ غریب ہوں، دلت ہوں، پسماندہ طبقہ  سےہوں، قبائلی ہوں یا خواتین، انہوں نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا ہے‘‘۔

وزیر اعظم نے خواتین کی قیادت میں ترقی کے ہندوستانی نقطہ نظر کو اجاگر کیا ، جس کے تئیں  ملک صرف ایک نعرے کے طور پر ہی  نہیں بلکہ غیر متزلزل عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ خواتین کی صحت سے متعلق محترمہ سدھا مورتی کی مداخلت کا حوالہ دیتے ہوئے ، وزیراعظم نریندر مودی نے خاندان میں ماں کی اہمیت کو واضح  کیا۔ جناب مودی نے خواتین کی صحت، صفائی ستھرائی اور تندرستی پر ترجیحی توجہ کا ذکر کیا۔ انہوں نے اس سمت میں کلیدی اقدامات کے طور پر بیت الخلاء، سینیٹری پیڈ، ویکسی نیشن، کھانا پکانے والی گیس کا ذکر کیا۔ انہوں نے روشنی ڈالی کہ 4 کروڑ گھر، جو غریبوں کے حوالے کیے گئے ہیں ، ان میں سے زیادہ تر خواتین کے نام پر رجسٹرڈ ہیں۔ انہوں نے مدرا اور سوکنیا سمردھی یوجنا جیسی اسکیموں کا بھی تذکرہ کیا جنہوں نے خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنایا ہے اور انہیں فیصلہ سازی کا حصہ بننے کے لیے آواز دی ہے۔ جناب مودی نے بتایا کہ اب تک چھوٹے گاؤں میں،  ذاتی مدد کے گروپوں  میں کام کرنے والی ایک  کروڑ خواتین،  آج لکھ پتی دیدی بن چکی ہیں ، جبکہ حکومت موجودہ مدت میں ان کی تعداد میں 3 کروڑ تک اضافہ کرنے پر کام کر رہی ہے۔

جناب نریندر مودی نے امید ظاہر کی کہ ان کی حکومت کی کوشش ہے کہ خواتین کو ہر نئے شعبے میں آگے بڑھایا جائے اور ہر نئی ٹیکنالوجی کو سب سے پہلے خواتین تک پہنچانے کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا  کہ ’’آج نمو ڈرون دیدی ابھیان کو دیہاتوں میں کامیابی کے ساتھ نافذ کیا گیا ہے،  جس میں خواتین سب سے آگے ہیں۔‘‘ وزیراعظم نریندر مودی نے مزید کہا کہ ڈرون چلانے والی خواتین کو ’پائلٹ دیدی‘ کہا جاتا ہے اور اس طرح کی پہچان خواتین کے لیے ایک ترغیب ہے۔

خواتین کے مسائل پر سیاست کرنے کے رجحان اور منتخب رویہ پر تنقید کرتے ہوئے،  وزیر اعظم نے مغربی بنگال میں خواتین کے خلاف تشدد پر تشویش کا اظہار کیا۔

ملک کی نئی عالمی تصویر کو اجاگر کرتے ہوئے،  وزیر اعظم نے کہا کہ آج ’ اگر اور  لیکن‘ کا دور ختم ہو گیا ہے کیونکہ بھارت غیر ملکی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کر رہا ہے،  جو اس کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کی راہ ہموار کر رہے ہیں اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اپنی صلاحیتوں اور ٹیلنٹ کو بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان کی آج کی جیت نے ان سرمایہ کاروں کے لیے امید پیدا کی ہے،  جو عالمی معیشت میں توازن کے منتظر ہیں۔ جناب مودی نے کہا کہ آج جب شفافیت کی بات آتی ہے،  تو بھارت ایک امید افزا مقام  کے طور پر ابھر رہا ہے۔

وزیر اعظم نے 1977 کے لوک سبھا انتخابات کے وقت کو یاد کیا جب پریس اور ریڈیو کو بند کر دیا گیا تھا اور لوگوں کی آوازوں کو خاموش کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ رائے دہندگان نے، ہندوستان کے آئین کی حفاظت اور جمہوریت کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے ووٹ دیا، جب کہ آج آئین کو بچانے کی اس لڑائی میں ہندوستان کے عوام کی پہلی پسند موجودہ حکومت ہے۔ جناب مودی نے ایمرجنسی کے دوران قوم پر ڈھائے جانے والے مظالم کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے 38 ویں، 39 ویں اور 42 ویں آئینی ترامیم کے ساتھ ایک درجن دیگر شقوں کا بھی ذکر کیا جن میں ایمرجنسی کے دوران ترامیم کی گئی تھیں اورجس سے آئین کی روح کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔ جناب مودی نے قومی مشاوراتی کونسل (این اے سی) کی تقرری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ، جو  کابینہ کے فیصلوں کو نظر انداز کرنے کا اختیار رکھتی تھی  اور قائم کردہ پروٹوکول سے قطع نظر ایک ہی خاندان کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا جاتا تھا۔ وزیر اعظم  نریندر مودی نے ، ایمرجنسی کے دور پر بحث سے بچنے کے لیے،  اپوزیشن کی جانب سے استعمال کیے جانے والے شاطرانہ  طریقوں پر بھی تنقید کی۔

وزیر اعظم نے کہا  کہ ’’ایمرجنسی کا دور صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں تھا،  بلکہ یہ ہندوستان کی جمہوریت، آئین اور انسانیت سے متعلق تھا‘‘۔ اُس وقت کے حزب اختلاف کے  لیڈروں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جنہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تھا، جناب مودی نے آنجہانی جناب  جئے پرکاش نارائن جی کا ذکر کیا جو رہائی کے بعد پوری طرح صحت یاب بھی  نہیں ہو سکے تھے۔ ایمرجنسی کے دوران مظفر نگر اور ترکمان گیٹ میں اقلیتوں کی حالت  زار کی یاددہانی کراتے ہوئے ، وزیر اعظم نے گہرے دکھ  کے ساتھ کہا کہ ’’بہت سے لوگ جو گھر چھوڑ کر گئے تھے وہ ایمرجنسی کے بعد کبھی واپس  ہی نہیں آئے‘‘۔

وزیراعظم نے اپوزیشن میں بعض حلقوں کی جانب سے بدعنوانوں کو تحفظ دینے کے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے چلائی جانے والی مختلف حکومتوں کی طرف سے کئے گئے مختلف گھپلوں کا ذکر کرتے ہوئے ،وزیر اعظم نے  قانون نافذ کرنے والے اداروں کے غلط استعمال  کرنے کے الزام کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے بدعنوانی کے خلاف جنگ میں دوہرے معیار پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے پچھلی حکومتوں میں تحقیقاتی ایجنسیوں کے غلط استعمال کی مثالیں بھی بیان کیں۔ وزیراعظم نریندر  مودی نے کہا کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ،  میرے لیے انتخابی معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ میرے لیے ایک مشن ہے۔ وزیر اعظم نے 2014 میں نئی ​​حکومت کی تشکیل  کے وقت غریبوں سے لگن اور بدعنوانی کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے دوہرے وعدوں کی یاد دہانی  کرائی۔ اس کا اظہار دنیا کی سب سے بڑی غریب فلاحی اسکیم اور بدعنوانی کے خلاف نئے قوانین، کالا دھن، بے نامی اور براہ راست فائدہ کی منتقلی کی دفعات اور ہر اہل مستفید کو فوائد کی منتقلی کو یقینی بنانا جیسے بدعنوانی کے خلاف قوانین سے ہوتا ہے۔  وزیراعظم نے زور دے کر کہا کہ میں نے تفتیشی اداروں کو بدعنوانوں کے خلاف کارروائی کی مکمل مہلت دی ہے۔

حالیہ پیپر لیکس پر صدر جمہوریہ کی تشویش کا اعادہ کرتے ہوئے،  وزیراعظم نے نوجوانوں کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت ، ہمارے ملک کے مستقبل سے کھیلنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے اور انہیں سزا سے محروم نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم پورے نظام کو مستحکم  کر رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہمارے نوجوانوں کو کسی قسم کے شکوک و شبہات میں نہ رہنا پڑے اور وہ  اپنی صلاحیتوں کو پراعتماد طریقے سے ظاہر کریں۔‘‘

جموں و کشمیر میں حالیہ لوک سبھا انتخابات کے ووٹنگ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے کے لوگ، بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے باہر آئے ہیں، جس نے گزشتہ چار دہائیوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ انہوں نے اس منشور  کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’’جموں و کشمیر کے لوگوں نے ہندوستان کے آئین، اس کی جمہوریت اور انتخابی کمیشن کو منظوری دی ہے۔ جناب مودی نے اسے اس ملک کے شہریوں کے لئے ایسا لمحہ قرار دیا جس کا طویل مدت سے انتظار تھا۔ مرکز کے زیر انتظام  علاقے کے رائے دہندگان کو مبارکباد دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ چند دہائیوں میں متعدد بندوں، احتجاجوں، دھماکوں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں نے ، جموں و کشمیر میں جمہوریت کو گرہن لگا دیا ہے۔ تاہم، جموں و کشمیر کے لوگوں نے آئین پر اپنے غیر متزلزل اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ  ’’ایک طرح سے، ہم جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف اپنی لڑائی کے آخری مرحلے میں ہیں۔ ہم دہشت گردی کے باقی ماندہ نیٹ ورکس کو تباہ کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ مرکز کے زیر انتظام  علاقے کے لوگ اس لڑائی میں ان کی مدد اور رہنمائی کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ شمال مشرق تیزی سے ملک کی ترقی کا گیٹ وے بن رہا ہے۔ انہوں نے گزشتہ چند سالوں میں اس سمت میں اٹھائے گئے اقدامات کو بیان کیا۔ انہوں نے شمال مشرق میں بنیادی ڈھانچے کی بے مثال ترقی کا ذکر کیا۔ انہوں نے خطے میں مستقل امن کو یقینی بنانے کی کوششوں کے دیرپا اثر کی امید بھی ظاہر کی کیونکہ ریاستوں کے درمیان سرحدی تنازعات کو بامعنی انداز میں اتفاق رائے کے ساتھ حل کیا جا رہا ہے۔

راجیہ سبھا کے پچھلے اجلاس میں منی پور کے بارے میں اپنی تفصیلی تقریر کی  یاد دہانی  کراتے ہوئے جناب مودی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ حکومت، منی پور میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ منی پور میں بدامنی کے دوران اور اس کے بعد 11000 سے زیادہ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور 500 سے زیادہ غلط کام کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ منی پور میں تشدد کے واقعات، مسلسل کم ہوتے  جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ منی پور میں امن کی امید ایک یقینی امکان ہے۔ جناب مودی نے ایوان کو بتایا کہ آج منی پور میں اسکول، کالج، دفاتر اور دیگر ادارے معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کی ترقی کے سفر میں بھی کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ مرکزی اور ریاستی سرکاریں،  منی پور میں امن اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہیں۔ انہوں نے روشنی ڈالی کہ وزیر داخلہ نے خود منی پور میں رہ کر امن کی کوششوں کی قیادت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ اعلیٰ حکام پر مسائل کا حل تلاش کرنے اور امن کو یقینی بنانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے اس وقت منی پور میں سیلاب کی مشکل صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ ایوان کو مطلع کرتے ہوئے کہ این ڈی آر ایف کی 2 کمپنیاں سیلاب سے متعلق امدادی کاموں کے لیے تعینات کی گئی ہیں، جناب مودی نے زور دے کر کہا کہ مرکزی حکومت امدادی کوششوں میں ریاستی سرکار کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ منی پور میں امن  و امان کی صورت حال کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی اور جماعتی خطوط پر عمل پیرا ہونا، تمام متعلقہ فریقین کی ذمہ داری  اور فرض ہے۔ وزیر اعظم نے منتشر افراد سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ منی پور کی سلامتی کی صورتحال کو مزید خطرے میں ڈالنے اور اشتعال انگیزی سے باز رہیں۔ انہوں نے ایوان کو یاد دلایا کہ منی پور میں سماجی تنازعہ کی جڑیں ایک طویل تاریخ کے ساتھ منسلک ہیں، جس کی وجہ سے وہاں  آزادی کے بعد سے 10 بار صدر راج نافذ کیا جا چکا ہے۔ منی پور میں 1993 کے بعد سے، 5 سالہ طویل سماجی تنازعہ کو واضح  کرتے ہوئے، جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ حالات کو عقلمندی اور صبر کے ساتھ سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تمام ہم خیال لوگوں کو مدعو کیا کہ وہ منی پور میں معمول اور امن کو یقینی بنانے کی کوششوں میں ان کی مدد کریں۔

وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ انہوں نے تجربے سے وفاقیت کی اہمیت کو سیکھا ہے ، کیونکہ وہ لوک سبھا میں قدم رکھنے اور ہندوستان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ، ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔ جناب مودی نے تعاون پر مبنی اور مسابقتی وفاقیت کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے موقف کی نشاندہی کی اور عالمی سطح پر ریاست اور اس کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے ملک کی ہر ریاست میں اہم  جی 20 پروگراموں کے انعقاد کا ذکر کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کووڈ  کے دوران ریاست اور مرکز کے اندر ریکارڈ تعداد میں بات چیت اور غور و خوض ہوا۔

یہ واضح  کرتے ہوئے کہ راجیہ سبھا ریاستوں کا ایوان ہے، وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہندوستان سیمی کنڈکٹر اور الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ میں اگلے انقلاب کی رہنمائی کر رہا ہے اور ہندوستان کی ریاستوں کو ترقی، اچھی حکمرانی، پالیسی سازی، روزگار پیدا کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے پر مقابلہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔   وزیر اعظم مودی نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ہندوستان کی ہر ریاست کے پاس ایک موقع ہے،  جب دنیا ہندوستان کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ انہوں نے تمام ریاستوں پر زور دیا کہ وہ ہندوستان کی ترقی کی کہانی میں اپنا حصہ رسدی کریں اور اس کے فوائد حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں کے درمیان مقابلہ،  نوجوانوں کی بہت مدد کرے گا کیونکہ نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ انہوں نے شمال مشرق میں آسام کی مثال  بھی دی جہاں سیمی کنڈکٹرز سے متعلق کام تیز رفتاری سے ہو رہا ہے۔

سال 2023 کو اقوام متحدہ کے ذریعہ ’جوار کا سال‘ قرار دیئے جانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ہندوستان کے چھوٹے پیمانے پر کسانوں کی طاقت کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے ریاستوں پر زور دیا کہ وہ باجرے کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے پالیسیاں بنائیں اور اسے عالمی مارکیٹ میں جگہ دینے کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کریں۔ انہوں نے یہ بھی واضح  کیا کہ جوار،  دنیا کی غذائیت کی منڈی میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور غذائی قلت کا شکار آبادی والے خطوں میں ایک اہم غذا بن سکتا ہے۔

وزیر اعظم نے ریاستوں کو پالیسیاں بنانے اور ایسے قوانین بنانے کی بھی ترغیب دی جو شہریوں کے درمیان ’زندگی کو آسان بنانا‘ کو بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے ہر سطح پر بدعنوانی کے خلاف جنگ کو بلند کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا ، چاہے وہ پنچایت، نگر پالیکا، مہانگر پالیکا، تحصیل یا ضلع پریشد ہو نیز  انہوں نے  ریاستوں کو متحد ہونے کی تلقین کی۔

ہندوستان کو 21ویں صدی کے بلیو پرنٹ میں تبدیل کرنے کے لیے حکومت کے فیصلہ سازی، ترسیل اور حکمرانی کے ماڈل میں کارکردگی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم نے یقین ظاہر کیا کہ ان شعبوں میں کام کی رفتار کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح  کیا کہ کارکردگی ، نظام میں شفافیت لاتی ہے، اس طرح شہریوں کے حقوق کا تحفظ،  زندگی کو آسان بنانے کو فروغ دیتا ہے اور  ’اگر اور لیکن‘ کو ختم کرتا ہے۔

وزیر اعظم نے شہریوں کی زندگی میں حکومت کی مداخلت کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور ان لوگوں کے لیے حکومت کی حمایت کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

وزیر اعظم نے آب و ہوا کی تبدیلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قدرتی آفات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے تمام ریاستوں کو آگے آنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دی۔ جناب مودی نے کہا کہ سب کو پینے کا پانی فراہم کرنے اور صحت کی خدمات کو اپ گریڈ کرنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ یہ بنیادی اہداف،  سیاسی آمادگی کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہیں اور ہر ریاست ان تک پہنچنے کے لیے آگے بڑھے گی اور تعاون کرے گی۔

اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ موجودہ صدی،  ہندوستان کی صدی ہونے جا رہی ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ اب ہم اس موقع کو ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے واضح  کیا کہ اسی طرح کے کئی ممالک ترقی یافتہ ہو گئے ہیں ،کیونکہ ہندوستان نے بہت سے مواقع گنوا دیئے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ اصلاحات سے بچنے کی ضرورت نہیں ہے اور فیصلہ سازی کی زیادہ طاقت شہریوں کو منتقل ہونے کے ساتھ ہی ترقی اور نمو لازمی ہے۔

وزیر اعظم نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اتحاد کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’وکست بھارت 140 کروڑ شہریوں کا مشن ہے‘‘۔ انہوں نے دہرایا کہ پوری دنیا ہندوستان کی صلاحیت میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار ہے اور کہا کہ ’’ہندوستان دنیا کی پہلی پسند ہے۔‘‘ انہوں نے ریاستوں کو موقع سے فائدہ اٹھانے کی تلقین کی۔

وزیر اعظم نے صدر کی رہنمائی اور اپنے خطاب میں اٹھائے گئے مسائل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے  اپنے خطاب کا اختتام کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔  ا ع۔ن ا۔

U-8026

                          



(Release ID: 2030431) Visitor Counter : 36