امور صارفین، خوراک اور عوامی تقسیم کی وزارت
سال کے آخر میں محکمہ خوراک اور عوامی نظام تقسیم کا جائزہ-2023
پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا(پی ایم جی کے اے وائی) کے تحت، یکم جنوری 2024 سے پانچ سال کی مدت کے لیے81.35 کروڑ این ایف ایس اے مستفیدین کو مفت اناج
مرکز نے27.50روپے فی کلوکی ایم آر پی پر ‘بھارت’ آٹے کی فروخت شروع کی
تیسرےمرحلے کے دوران آئی سی ڈی ایس، پی ایم- پوشن اور ٹی پی ڈی ایس کے تحت ریاستوں/مرکز کے زیرانتظام خطوں کے 207.31ایل ایم ٹی فورٹیفائیڈ چاول اٹھایا گیا
مستفیدین کو سبسڈی شدہ اناج کی شفاف اور یقینی تقسیم کے لیے الیکٹرانک پوائنٹ آف سیل (ای پی او ایس) ڈیوائسز کا استعمال کرتے ہوئے99.8 فیصد راشن کی دکانوں کوخودکار بنایاگیا
سال 2023 میں نومبر تک، 28 کروڑ پورٹیبلٹی ٹرانزیکشنز کیے گئے جن میں 80 ایل ایم تی سے زیادہ کی فراہمی کی گئی
Posted On:
27 DEC 2023 12:56PM by PIB Delhi
خوارک اور عوامی نظام تقسیم کے محکمےکی سال 2023 کے دوران کی سرگرمیوں کی اہم جھلکیاں درج ذیل ہیں:
پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا (پی ایم جی کے اے وائی):
پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا(پی ایم جی کے اے وائی) ملک میں کووڈ-19پھیلنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کی وجہ سے غریبوں اور ضرورت مندوں کو درپیش مصائب کو دور کرنے کے خاص مقصد کے ساتھ شروع کی گئی تھی۔ کووڈ بحران کے پیش نظر پی ایم جی کے اے وائی کے تحت مفت اناج کی تقسیم باقاعدہ مختص رقم کے علاوہ تھی ۔ کل مقدار پی ایم جی کے اے وائی (مرحلہ ایک تا 7) کے تحت 28 ماہ کی مدت کے لیے تقریباً 1118 ایل ایم ٹی غذائی اجناس مختص کیے گئے تھے جس کا کل منصوبہ بند مالی خرچ تقریباً 3.91 لاکھ کروڑ روپے تھا۔
مرکزی حکومت نے غریب استفادہ کنندگان کے مالی بوجھ کو دور کرنے اور ملک گیر یکسانیت اور ایکٹ کے موثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے،این ایف ایس اے استفادہ کنندگان یعنی اے اےوائی گھرانوں اورپی ایچ ایچ مستفیدین کو ابتدائی طور پر پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا (پی ایم جی کے اے وائی) کے تحت یکم جنوری2023 سے شروع ہونے والے ایک سال کی مدت کے لیے مفت اناج فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔اس سے پہلے، این ایف ایس اے کے تحت، سبسڈی والا اناج 3 روپے فی کلو چاول، 2 روپے فی کلو گیہوں اورایک روپے فی کلو موٹے اناج کی شرح سے مستحقین میں تقسیم کیا جاتا تھا۔
مرکزی حکومت کے فیصلے کے مطابق، دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ دو فوڈ سبسڈی اسکیموں کو پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا (پی ایم جی کے اے وائی) کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
استفادہ کنندگان کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے اوراین ایف ایس اے، 2013 کے ضابطوں کو غریبوں کے لیے اناج کو قابل رسائی، سستا اور دستیابی کے لحاظ سے مضبوط بنانے کے لیے اور ریاستوں میں یکسانیت برقرار رکھنے کے لیے مرکزی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ این ایف ایس اے کے تحت استحقاق کے مطابق یکم جنوری 2024 سے پانچ سال کی مدت کے لیے پی ایم جی کے اے وائی کے تحت تقریباً 81.35 کروڑ این ایف ایس اے استفادہ کنندگان (یعنی انتیودیہ ان یوجنا(اے اے وائی) گھروں اور ترجیحی گھروں(پی ایچ ایچ) کے مستفیدین) کومفت اناج کی فراہمی کو جاری رکھاجائے۔
پی ایم جی کے اے وائی اسکیم نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ(این ایف ایس اے) کے موثر اور یکساں نفاذ کو یقینی بنائے گی۔ ون نیشن ون راشن کارڈ (او این او آر سی) کے تحت، جو راشن کارڈ کی پورٹیبیلیٹی کا ایک کامیاب اقدام ہے، کوئی بھی فائدہ اٹھانے والا کسی بھی ایف پی ایس سے پورے ملک میں یکساں این ایف ایس اے حقدارہوگا اور یکساں قیمت پر اناج حاصل کر سکتا ہے۔ مفت غذائی اجناس کی فراہمی پورے ملک میں ون نیشن ون راشن کارڈ(او این او آر سی) کے تحت پورٹیبیلٹی کے یکساں نفاذ کو یقینی بنائے گی اور اس انتخاب پر مبنی پلیٹ فارم کو مزید مضبوط کرے گی۔
پی ایم جی کے اے وائی کے تحت جنوری سے نومبر 2023 تک کی تقسیم کے اعداد وشمار۔
ماہ
|
تقسیم کی مقدار(میٹرک ٹن میں)
|
جون،23
|
40,72,922
|
فروری،23
|
40,93,818
|
مارچ،23
|
41,19,561
|
اپریل، 23
|
40,64,491
|
مئی،23
|
40,84,928
|
جون، 23
|
40,91,201
|
جولائی، 23
|
41,24,719
|
اگست، 23
|
41,20,305
|
ستمبر، 23
|
40,65,725
|
اکتوبر، 23
|
41,02,089
|
نومبر، 23*
|
38,42,479
|
* پی ایم جی کے اے وائی کے تحت ماہ نومبر 2023 کے لیےتقسیم کے حتمی اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں۔
بھارت آٹے کی فروخت
گیہوں اور آٹے کی قیمتوں میں اعتدال لانے اور عام صارفین کو سستی قیمت پر آٹا دستیاب کرانے کے لیے، نیم سرکاری اور کوآپریٹو تنظیموں جیسے کیندریہ بھنڈار، نیشنل کوآپریٹو کنزیومر فیڈریشن آف انڈیا لمیٹڈ(این سی سی ایف)اور نیشنل ایگریکلچرل کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن آف انڈیا لمیٹڈ(نیفڈ)کے لیے او ایم ایس ایس (ڈی)کے تحت آٹے میں تبدیل کرنے اور اسے ‘بھارت آٹا’ برانڈ کے تحت عوام کو زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمت(ایم آرپی) 27.50 روپے فی کلو کی شرح پر فروخت کے لیے پیش کرنے کے لیے انہیں 21.50 روپے فی کلو کی شرح پر 2.5 لاکھ میٹرک ٹن گیہوں مختص کیا گیا۔اس اسکیم کے تحت مختص کیے جانے والے گیہوں کی مقدار مزید اضافہ کرکے 4 ایل ایم ٹی کیاگیا۔
اوپن مارکیٹ سیل اسکیم (گھریلو)(او ایم ایس ایس (ڈی)):
• سال 2023 کے دوران اوپن مارکیٹ سیل اسکیم (گھریلو)(او ایم ایس ایس ڈی) کے تحت ایف سی آئی کی ای نیلامی کے ذریعے، اب تک کھلے بازار میں 82.89 لاکھ ایم ٹی گیہوں اور 3.04 لاکھ ایم ٹی چاول فروخت کیے جاچکے ہیں۔
• لاک ڈاؤن کے حالات کی وجہ سے مہاجر مزدوروں/ کمزور گروپوں کے لیے امدادی کارروائیوں میں مصروف تمام خیراتی/ غیر سرکاری تنظیموں وغیرہ کو(او ایم ایس ایس ڈی) کے تحت اناج کی فروخت بند کر دی گئی ہے کیونکہ اب کووِڈ-19 کی صورتحال غالب نہیں ہے۔ تاہم، ذیلی اسکیم کمیونٹی کچن کو 21.50 روپے فی کلو گرام گیہوں اور 24.00 روپے فی کلوگرام کی شرح پرچاول کی فروخت کومارچ 2024 تک جاری رکھا جا ئےگا۔
ون نیشن ون راشن کارڈ پلان کی پیش رفت:
اگست2019میں محض 4 ریاستوں میں بین ریاستی پورٹیبیلٹی کو شروع کیے جانے کے بعد سے اب تک ملک بھر کی تمام 36 ریاستوں/ مرکزکے زیرانتظام خطوں میں ، او این او آر سی منصوبہ نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت تقریباً 80 کروڑ این ایف ایس اے استفادہ کنندگان کا احاطہ کیا گیا ہے، یعنی ملک میں موجود این ایف ایس اے آبادی کا تقریباً 100فیصد احاطہ۔ چھتیس گڑھ ریاست اور آسام ریاست نے بالترتیب فروری2022 اور جون 2022 میں پلیٹ فارم میں شمولیت اختیار کی تھی۔
اگست 2019 میں او این او آرسی پلان کے آغاز کے بعد سے، ملک میں او این او آر سی پلان کے تحت 125 کروڑ سے زیادہ پورٹیبلٹی ٹرانزیکشنز ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں 241 ایل ایم ٹی سے زیادہ غذائی اجناس کی فراہمی کی گئی ہے،جس میں بین ریاستی اور اندرون ریاست دونوں طرح کے ٹرانزکشن شامل ہیں۔
سال 2023 کے دوران، 2023 کے 11 مہینوں میں تقریباً 28 کروڑ پورٹیبلٹی ٹرانزیکشن انجام دیے گئے جس میں این ایف ایس اے اور پی ایم جی کے اے وائی کے تحت 80 ایل ایم ٹی سے زیادہ غذائی اجناس کی فراہمی کی گئی جن میں بین ریاستی اور انٹرا اسٹیٹ پورٹیبلٹی ٹرانزیکشن شامل ہیں۔ فی الحال، پی ایم جی کے اے وائی اناج کی تقسیم کے تحت ہر ماہ 2.5 کروڑ سے زیادہ پورٹیبلٹی ٹرانزیکشن ریکارڈ کیے جا رہے ہیں۔
ٹی پی ڈی ایس، او ڈبلیو ایس اور اضافی اختصاص (سیلاب اور تہوار وغیرہ) کے تحت 24-2023 کے لیے مختص کی گئی سالانہ غذائی اجناس کی تفصیل:
خوراک اور عوامی نظام کے تقسیم کے محکمے نے این ایف ایس اے (انتودیہ ان یوجنا (اے اے وائی)، ترجیحی گھروں (پی ایچ ایچ)، ٹائیڈ اوور، پی ایم پوشن اسکیم، گیہوں پر مبنی تغذیائی پروگرام (امبریلا آئی سی ڈی ایس کا ایک جزو) اور دیگر فلاحی اسکیموں مثلاً لڑکیوں کے لیے اسکیم ،ان پورنا اسکیم اور فلاحی ادارے اور ہاسٹل اسکیم(ڈبلیو آئی ایچ) کے تحت اناج مختص کیا ہے۔سال24-2023 کے لیے ریاست وار مختص کی گئی مقدار کی تفصیل منسلک ہے۔
|
24-2023 کیلئے مختص کردہ سالانہ غذائی اجناس
|
لاکھ ٹن میں
|
|
اسکیم کا نام
|
چاول
|
گندم
|
تقویہ بخش اناج
|
کل
|
اے
|
ٹی پی ڈی ایس (این ایف ایس اے ایلوکیشن)
|
|
انتیودیہ انّ یوجنا(اے اے وائی)
|
73.01
|
26.58
|
0.00
|
99.59
|
|
ترجیحی کنبے(پی ایچ ایچ)
|
280.96
|
137.45
|
9.53
|
427.94
|
|
ٹی پی ڈی ایس (ٹائیڈ اوور)
|
21.25
|
5.03
|
0.00
|
26.29
|
|
پی ایم پوشن (ایم ڈی ایم)
|
19.36
|
4.26
|
0.00
|
23.61
|
|
ڈبلیو بی این پی(آئی سی ڈی ایس)
|
12.83
|
11.28
|
0.00
|
24.11
|
|
کل
|
407.40
|
184.60
|
9.53
|
601.53
|
|
|
|
|
|
|
بی
|
دیگر فلاحی اسکیمیں
|
|
ہاسٹل اور فلاحی ادارے
|
2.90
|
0.78
|
0.00
|
3.67
|
|
نوعمر لڑکیوں کے لیے اسکیم(ایس اے جی)
|
0.225
|
0.225
|
0.00
|
0.45
|
|
انّ پورنا
|
0.00
|
0.00
|
0.00
|
0.00
|
|
کل
|
3.12
|
1.00
|
0.00
|
4.12
|
|
|
|
|
|
|
سی
|
اضافی مختص کردہ (تہوار ،قدرتی آفت، اضافی ٹی پی ڈی ایس وغیرہ)
|
|
قدرتی آفات وغیرہ(ایم ایس پی شرحیں)
|
0.30
|
0.00
|
0.00
|
0.30
|
|
تہواراضافی ضروریات وغیرہ
اقتصادی لاگت
|
0.93
|
0.60
|
0.00
|
1.53
|
|
کل
|
1.23
|
0.60
|
0.00
|
1.83
|
|
|
|
|
|
|
اے+بی+سی
|
کل میزان
|
411.75
|
186.20
|
9.53
|
607.49
|
چاول کو مقوی بنانے اوراس کو بہتر بنانے کے بارے میں وزیر اعظم کا اعلان:
ہندوستان کے وزیر اعظم نے 75 ویں یوم آزادی (15 اگست 2021) کے موقع پر اپنے خطاب میں تمام سرکاری اسکیموں میں مقوی بنائے گئے چاول کی فراہمی کے ذریعےتغذیہ بخش خوراک فراہم کرنے کا اعلان کیاتھا۔ اعلان کے مطابق، حکومت ہند نے طے شدہ سرکاری نظام تقسیم (ٹی پی ڈی ایس) میں اور حکومت ہند کی آئی سی ڈی ایس اورپی ایم- پوشن اسکیموں سمیت دیگر فلاحی اسکیموں کے ذریعہ تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں (مرکز کے زیر انتظام علاقے)میں مرحلہ وار طریقے سےمقوی بنائے گئے چاول کی فراہمی کو منظوری دے دی ہے۔
- پہلا مرحلہ ( (2021-22پہلے مرحلے کوآئی سی ڈی ایس اورپی ایم -پوشن کا احاطہ کرتے ہوئے لاگو کیا گیا ہے۔ آئی سی ڈی ایس اور پی ایم پوشن کے تحت تقسیم کے لیے تقریباً 17.51 ایل ایم ٹی مقوی بنائے گئے چاول ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے اٹھا لیے ہیں۔
- دوسرا مرحلہ (2022-23) ٹی پی ڈی ایس اوراو ڈبلیو ایس کے تحت تمام آئی سی ڈی ایس ،پی ایم -پوشن مراکز اور 291 خواہش مند اور زیادہ بوجھ والے اضلاع کا احاطہ کرنے والے دوسرے مرحلہ کا نفاذ اپریل، 2022 سے شروع ہو گیا ہے۔دوسرا مرحلہ 31 مارچ2023 کو مکمل ہو گیا ہے۔آئی سی ڈی ایس، پی ایم-پوشن اور ٹی پی ڈی ایس کے تحت ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعے تقریباً 136ایل ایم ٹی مقوی بنائے گئے چاول اٹھائے گئے ہیں۔
- تیسرامرحلہ (24-2023) تیسرےمرحلہ کا نفاذ اپریل 2023 سے شروع ہوا ہے اوریہ 31 مارچ2024 تک نافذ رہےگا۔ آئی سی ڈی ایس، پی ایم-پوشن اور ٹی پی ڈی ایس کے تحت یکم دسمبر 2023 تک تقریباً 207.31 ایل ایم ٹی مقوی بنائے گئے چاول ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقے کے ذریعے اٹھائے گئے ہیں۔
طے شدہ سرکاری نظام تقسیم (ٹی پی ڈی ایس) اصلاحات:
- تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں این ایف ایس اے کے تحت 100فیصد ڈیجیٹائزڈ راشن کارڈز/مستحقین کا ڈیٹا۔ لگ بھگ 80 کروڑ مستفیدین کا احاطہ کرنے والے تقریباً 20.06 کروڑ راشن کارڈز کی تفصیلات ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے شفافیت سے متعلق پورٹل پر دستیاب ہیں۔
- راشن کارڈ کے 99.8فیصد سے زیادہ آدھارکے ساتھ منسلک کئے گئے (کم از کم ایک ممبر)۔
- ملک میں تقریباً 99.8فیصد(کل 5.44 لاکھ میں سے 5.41 لاکھ)راشن کی دوکانوں (ایف پی ایسز)کو الیکٹرانک پوائنٹ آف سیل (ای پی او ایس) آلات کا استعمال کرتے ہوئے مستفیدین کو سبسڈی والے اناج کی شفاف اور یقینی تقسیم کے لیے خودکار بنایا گیاہے۔
- اناج کی تقسیم کے تحت، 97 فیصد سے زیادہ لین دین کوریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعہ بایومیٹرک/آدھار سے تصدیق شدہ ریکارڈ کیاگیا ہے۔
سرکاری خرید سے متعلق کارروائی میں ای -حکمرانی:
حکومت ہند نے درخواست دینے سے متعلق ایک ماحولیاتی نظام تیارکرنے کے لیے ایم ٹی پی (کم سے کم حد کے پیمانے)متعارف کروائے ہیں، جن میں نگرانی اور حکمت عملی سے متعلق فیصلہ سازی کے لیے سرکاری خرید سے متعلق تمام ریاستی پورٹلز کو کم از کم حد کے پیمانوں کے ساتھ مربوط کرکے سرکاری خرید کے سلسلے میں مطلوبہ معلومات واحدمقام پر دستیاب ہیں۔تاکہ یکسانیت اور شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔ ایم ٹی پی میں آدھارکے ساتھ منسلک کرنے کے ساتھ کسانوں کی آن لائن رجسٹریشن، زمینی ریکارڈ کا انضمام، ڈیجیٹائزڈ منڈی آپریشنز، کسانوں کو ایم ایس پی کی منتقلی، چاول/گندم کی ترسیل کا انتظام، بلوں کی آٹو جنریشن وغیرہ شامل ہیں۔ آن لائن سرکاری خریدکے نظام کی بدولت بڑے پیمانے پر بیچولیوں اور دلالوں کی خریداری کو ختم کر دیا ہے اوراس کے نتیجہ میں کسانوں کوکم از کم امدادی قیمت -ایم ایس پی کے بہتر ہدف حاصل ہورہےہیں۔
اناج کی سرکاری خرید:
جاری خریف مارکیٹنگ سیزن (کے ایم ایس)24-2023 کے دوران،17 دسمبر2023 تک، 365.48 ایل ایم ٹی دھان (244.99 ایل ایم ٹی چاول) کی سرکاری خرید کی گئی ہے جس سے 80515.26 کروڑ روپےکے بقدرایم ایس پی مالیت کے ساتھ 30,90,303 کسانوں کو فائدہ ہوا ہے۔
ربیع مارکیٹنگ سیزن(آر ایم ایس)24-2023 کے دوران، 262.02 ایل ایم ٹی گندم کی سرکاری خریدکی گئی جس سے 55,679.73 کروڑ روپے کے بقدرایم ایس پی کے ساتھ 21,28,985 کسانوں کو فائدہ ہواہے۔
موٹے اناجوں/جوار،باجرے وغیرہ کی سرکاری خرید:
گزشتہ دو سالوں کے دوران موٹے اناجوں/جوار،باجرے وغیرہ کی سرکاری خریداور رواں سال کے لیے سرکاری خریدکاتخمینہ حسب ذیل ہے:
|
|
|
|
|
میٹرک ٹن میں اعداد و شمار
|
کے ایم ایس
|
اجناس
|
کل
|
2021-22
|
جوار
|
156575
|
باجرہ
|
13251
|
مکئی
|
22767
|
راگی
|
437339
|
کل
|
629931
|
2022-23
|
جوار
|
85197
|
باجرہ
|
182005
|
مکئی
|
13122
|
راگی
|
456745
|
کل
|
737069
|
2023-24*
|
جوار
|
162548
|
باجرہ
|
743000
|
مکئی
|
168778
|
راگی
|
455185
|
چھوٹے موٹے اناج
|
11470
|
کل
|
1540981
|
|
|
|
*ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے موصولہ درخواست کے مطابق سرکاری خرید کی مقدار کا تخمینہ ۔
گندم کے ذخیرے کی حد کا نفاذ:
مجموعی طور پر خوراک کی حفاظت کا انتظام کرنے اور ذخیرہ اندوزی اور بے ضمیر قیاس آرائیوں کو روکنے کے لیے، حکومت ہند نے 12 جون 2023 کو گندم کے ذخیرے کی حدیں نافذ کی ہیں جو تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے تاجروں/تھوک فروشوں، خردہ فروشوں، بڑی چین والے خردہ فروشوں اور پروسیسرز پر لاگو ہیں۔ جو کہ تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لیے 31 مارچ 2024 تک لاگو ہے جس پر 08دسمبر 2023 کو نظر ثانی کی گئی ہے:
ادارے
|
گندم دخیرہ کرنے کی حد
|
تاجر/تھوک فروش
|
1000 ایم ٹی
|
خردہ فروش
|
ہر خردہ فروش دوکان کے لیے 5 ایم ٹی
|
بڑے چین والے خردہ فروش
|
ہرآؤٹ لیٹ کے لیے 5ایم ٹی اور ان کے تمام ڈپو پر 1000 ایم ٹی
|
پروسیسرز
|
24-2023 کے بقیہ مہینوں کی تعداد سے ماہانہ نصب شدہ صلاحیت کے ضرب کی کُل مقدار کا 70فیصد
|
(ii) گندم کے اسٹاک پورٹل پررجسٹرڈ اداروں کی کل تعداد (18.12.2023 تک)20,456 ہے اور گندم کے اسٹاک پورٹل پر 65.43 ایل ایم ٹی اسٹاک دکھایا گیا ہے۔
ذخیرہ کرنے کا شعبہ
اناج کا ذخیرہ اور ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ:
ایف سی آئی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کا مسلسل جائزہ لیتا ہےاور نگرانی کرتا ہے اور ذخیرہ کرنے کی جگہ میں کمی کو صلاحیت تخلیق کرنےیا کرائے پر لینے سے پورا کیا جاتا ہے۔ ایف سی آئی میں ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کی ضرورت کا انحصار خریداری کی سطح، بفر کے اصولوں کی ضرورت اور بنیادی طور پر چاول اور گندم کے لیے پی ڈی ایس آپریشنز پر ہے۔ نئے گوداموں کی تعمیر/تعمیر کے لیے فلاحی اسکیم (او ڈبلیو ایس) ذخیرہ کرنے والی ریاستوں میں پچھلے تین سالوں میں سب سے زیادہ اسٹاک کی سطح کی بنیاد پر اور استعمال کرنے والی ریاستوں میں نیشنل فوڈ سیکیورٹی ایکٹ (این ایف ایس اے) کی ضرورت کے 4 ماہ (شمال مشرقی خطےکے معاملے میں 6 ماہ) کی بنیاد پر ذخیرہ کے فرق کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ یکم دسمبر2023 تک، فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے پاس 363.69 ایل ایم ٹی کی ذخیرہ کرنے کی گنجائش اور ریاستی ایجنسیوں کے پاس 397.60 ایل ایم ٹی اناج کے سنٹرل پول سٹاک کے لیے دستیاب ہے۔ اس کے نتیجے میں، مرکزی پول کے ذخیرے کے لیے مجموعی طور پر 761.29 ایل ایم ٹی گنجائش موجود ہے۔ (سی اے پی کی صلاحیتیں اب استعمال نہیں ہوتی ہیں اور مرحلہ وار ختم کی جا رہی ہیں)۔
پرائیویٹ انٹرپرینیور گارنٹی (پی ای جی) اسکیم:
اسٹوریج کی ضرورت کو پورا کرنے اور ملک بھر میں اناج کے محفوظ ذخیرہ کو یقینی بنانے کے مقصد سے، حکومت نجی کاروباریوں، سنٹرل گودام کارپوریشن (سی ڈبلیو سی) اور ریاستی گودام کارپوریشنز (ایس ڈبلیو سیز) کے ذریعے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے پرائیویٹ انٹرپرینیورز گارنٹی (پی ای جی) اسکیم کو نافذ کر رہی ہے۔ پی ای جی اسکیم کے علاوہ پلان اسکیم اور سائلوس کے ذریعے صلاحیت میں اضافے کو بھی امور صارفین، خوراک اور عوامی تقسیم کی وزارت نے انتہائی اہمیت دی ہے۔پی ای جی اسکیم کے تحت، جسے 2008 میں غیر مرکوز خریداری ریاستوں (ڈی سی پی) کے لیے وضع کیا گیا تھا اور بعد میں 2009 میں ڈی سی پی ریاستوں تک بڑھا دیا گیا تھا، نجی سرمایہ کاری کو راغب کرتے ہوئے 22 ریاستوں میں روایتی گوداموں کی تعمیر شروع کی گئی ہے۔ ایف سی آئی نجی سرمایہ کاروں کو 10 سال اور سی ڈبلیو سی اورایس ڈبلیو سیز کو 9 سال اسٹوریج کی صلاحیتوں کے استعمال کی ضمانت دیتا ہے۔یکم دسمبر2023 تک گوداموں کے لیے منظور شدہ کل صلاحیت 151.74ایل ایم ٹی ہے۔ اس میں سے 146.45 ایل ایم ٹی مکمل ہو چکا ہے۔
کوالٹی کونسل آف انڈیا سے ایف سی آئی کی ملکیت اور کرایہ پر رکھے گئے گوداموں کا تیسرے فریق کے ذریعے تجزیہ ۔
ایف سی آئی کے ذریعہ چلائے جانے والے تمام گوداموں کا تیسرے فریق کے ذریعے تجزیہ کیو سی آئی کے ذریعے کیا گیا جس میں ٹھوس بنیادی ڈھانچے، ایس او پیز کی تعمیل، حفاظتی معیارات اور بہترین طریقوں کے ساتھ بینچ مارکنگ شامل ہیں۔ اس کے مطابق، تمام گوداموں کی درجہ بندی چھ زمروں میں کی گئی تھی ‘‘بہترین، 5 اسٹار، 4 اسٹار، 3 اسٹار، 2 اسٹار اور 1 اسٹار’’ شامل ہیں۔
کیو سی آئی نے ایف سی آئی کی ملکیت والے 556 ڈپوز اور ایف سی آئی کے ذریعہ کرائے پر حاصل کیے گئے1591 ڈپوز کے لیے رپورٹس پیش کیں اور اس کے مطابق بہتری کے لیے خامیوں اور دیگر شعبوں کی نشاندہی کی گئی۔ کیو سی آئی کے تاثرات کی بنیاد پر، ایف سی آئی نے ایس او پیز کو پھر سے جانچا ہے اور اس پر نظرثانی کی ہے۔نظر ثانی شدہ ایس او پیز کو فیلڈ دفاتر میں بھیج دیا گیا ہے۔ گوداموں کی اپ گریڈیشن کے لیے ایکشن پلان تیار کیا گیا۔ اس کے مطابق، ایف سی آئی نے کیو سی آئی کی طرف سے نشاندہی کی گئی خامیوں کو بہتر کیا ہے اور ایف سی آئی کے دفاتر نے اس کا تجزیہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ ، ڈی ایف پی ڈی کی ہدایت کے مطابق،کیو سی آئی نے ایف سی آئی کی ملکیت والے ان ڈپو زکا دوبارہ جائزہ لیا ہے جو 4ستارہ، 5ستارہ اور بہترین زمرے میں شامل کیے گئے تھے۔ جائزہ مکمل کرلیا گیا ہے اور ایف سی آئی کی ملکیت والے 479ڈپوز کو جدید بنانے کے بعد ، جو پوز 5 ستارہ اور اس سے اوپر کے زمرے میں آئے ہیں،ان کی تعداد کیو سی آئی کی طرف سے کی گئی تشخیص میں 102 ہے۔
اس سال ذخیرہ کرنے کے شعبےکی کچھ اہم کامیابیاں یہ ہیں:
- سی اے پی کو سائبان والی صلاحیت میں تبدیل کرنا - روایتی طور پر، ریاستی ایجنسیوں/ایف سی آئی کے ذریعہ بنیادی طور پر خریداری کے علاقوں میں گندم کو سی اے پی (سائبان والے اور کھلے) میں بھی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ تاہم، سی اے پی کی اس صلاحیت کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے ایک پالیسی فیصلہ کیا گیا، یعنی تقریباً 180 ایل ایم ٹی تفصیلی ایکشن پلان ایف سی آئی نے ریاستی حکومتوں کے ساتھ غور و خوض کے بعد تیار کیاہے، جسے حکومت ہند (ڈی ایف پی ڈی) نے 10مئی 2022 کو منظور کیا تھا۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہےکہ سائبان والے گوداموں کی گنجائش پیدا کی جائے تاکہ مستقبل میں سی اے پی استعمال کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ ایف سی آئی نے مجوزہ نئی 5 سال کی گارنٹی اسکیم کے تحت 117.75 ایل ایم ٹی اسٹوریج کی گنجائش پیدا کرنے کی تجویز پیش کی ہے اور اسے ڈی ایف پی ڈی نے منظور کر لیا ہے۔ ذخیرہ کرنے کے منظر نامے میں تبدیلی کی وجہ سے، ہریانہ (4 ایل ایم ٹی) اور پنجاب میں (9ایل ایم ٹی) پہلے مرحلے میں 13 ایل ایم ٹی کا تصور کیا گیا ہے۔ اس کے لیے ہریانہ اور پنجاب میں پہلے ہی ٹینڈر جاری کیے جا چکے ہیں۔
- اثاثوں کا مونیٹائزیشن ۔
- سنٹرل پول اسٹاک/سی اے پی فیز آؤٹ کے لیے ریاستوں کے ذریعہ اثاثوں کا مونیٹائزیشن:
پہلے مرحلے میں 13 ایل ایم ٹی ، یعنی پنجاب (9ایل ایم ٹی) اور ہریانہ (4 ایل ایم ٹی)کی گنجائش تعمیر کرنے کامنصوبہ ہے۔ پنجاب کی مجاز ایجنسیوں (پنگرین) اور ہریانہ کی (ایچ اے ایف ای ڈی) کے ذریعے ٹینڈر جاری کیے گئے ہیں۔
- کے پی ایم جی رپورٹ/ ایف سی آئی کی خالی زمین کے مطابق ایف سی آئی کے اثاثوں کی جدید کاری اور مونیٹائزیشن:
- زمرہ اے: وہ اثاثے جہاں زمین دستیاب ہے اور علاقے میں ذخیرہ کرنے کی جگہ میں کمی ہے،پی ایم ایس کے تحت 21 مقامات پر 4.32 ایل ایم ٹی اور 48 مقامات پر غیر پی ایم ایس کے تحت 2.80 ایل ایم ٹی کے لیے ذخیرہ کرنے کی گنجائش تعمیر کی جائے گی۔
- زمرہ بی: وہ اثاثے جہاں زمین دستیاب ہے، لیکن ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی کمی نہیں ہے۔
- زمرہ سی: شہری علاقوں کے اثاثے جہاں ان کی مونیٹائزیشن کی قدر بہت زیادہ ہے۔
- زمرہ ڈی: موجودہ ریلوے بنیادی ڈھانچے کے قریب اثاثے
- سی ڈبلیو سی کو 29 مقامات کی پیشکش کی گئی ہے جس کے لیے سی ڈبلیو سی کی جانب سے ٹینڈر جاری کیے گئے ہیں۔
- ڈبلیو ڈی آر اے کی تصدیق - گوداموں کو معیاری بنانے کے لیے ایف سی آئی کی ملکیت والے تمام 557 گوداموں کا ویئرہاؤسنگ ڈیولپمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی سے تصدیق نامہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔ 552 ایف سی آئی ڈپوز کی ڈبلیو ڈی آر اے نے تصدیق کی ہے۔ 2 گوداموں میں، بڑی انجینئرنگ کی مرمت جاری ہے۔ 03 گوداموں کو مسترد کر دیا گیا ہے جنہیں اثاثوں کو مونیٹائز کرنے کے تحت لیا جائے گا۔
ماڈل ٹینڈر فارموں کو جی ای ایم کے تقاضوں کے مطابق لائق نفاذ بنایا گیا – تمام تر فیلڈ افسران 11 اپریل 2023 سے جی ای ایم پورٹل پر متعلقہ درج رجسٹر خدمات زمرے کے توسط سے نقل و حمل، معاہدے اور سڑک نقل و حمل معاہدات کے ٹینڈروں کو مشتہر کر رہے ہیں اور ان کا رکھ رکھاؤ بھی کر رہے ہیں۔ تربیتی اجلاسات ایف سی آئی زونل اور علاقائی دفاتر کے ساتھ ساتھ متعلقہ ماڈیولس کی بہتر تفہیم کے سلسلے میں مستقبل کے بولی لگانے والوں کے لیے منعقد کیے گئے ہیں جس میں جی ای ایم کا تال میل بھی شامل ہے۔ اب ایف سی آئی ٹی سی/ آر ٹی سی/ ایچ ٹی سی ٹینڈر جی ای ایم کے تمام تر تقاضوں کے عین مطابق بنا دیے گئے ہیں۔
1 مرطوب ہوا اور نمی سے محفوظ رکھنے والے کمرے: اناجوں کا سائنٹفک ذخیرہ
ذخیرے کی صلاحیت کو منظم، تاحال اور جدید بنانے کے لیے حکومت ہند نے پی پی پی موڈ کے تحت ملک بھر میں 100 ایل ایم ٹی محفوظ گودام کی تعمیر کے منصوبہ عمل کو منظوری دی ہے۔ ان محفوظ کمروں پر مشتمل گوداموں کی صلاحیت 29 ایل ایم ٹی کے بقدر ہے جنہیں ٹی پی موڈ کے تحت ایف سی آئی کے لیے تعمیر کیا جانا ہے۔ ریاستی حکوت کی جانب سے سی ڈبلیو سی کے ذریعہ 2.5 ایل ایم ٹی اور 68.5 ایل ایم ٹی کے گودام تعمیر کیے جائیں گے۔ اس میں سے 14.75 ایل ایم ٹی کی صلاحیت 29 مقامات پر مکمل کر لی گئی ہے اور اس کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔ 18 مقامات پر 9.00 کے بقدر ایل ایم ٹی زیر نفاذ ہیں۔ اس کے علاوہ 7 مقامات پر 5.50 ایل ایم ٹی کے بقدر محفوظ کمرہ صلاحیت 2007 سے 2009 کے درمیان سرکٹ ماڈل کے تحت بہم پہنچائی گئی جس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس طرح مجموعی مکمل صلاحیت اور زیر استعمال صلاحیت 20.25 ایل ایم ٹی کے بقدر ہوگئی ہے۔ ان میں سے بیشتر محفوظ کمرے ریلوے سائڈنگ کے ساتھ تعمیر کیے گئے ہیں۔
2 محفوظ کمروں کا ہب اور اسپوک ماڈل
محفوظ کمروں کی منظم ترقی کو مزید تقویت دینے کے لیے ایف سی آئی نے مرحلہ وار طریقے سے ملک بھر میں 249 مقامات پر 111.125 ایل ایم ٹی محفوظ کمروں کی تعمیر کا ایک لائحہ عمل تیار کیا ہے۔ ان میں سے بیشتر کمرے سڑک سے قابل رسائی ہوں گے اور ہب اور اسپوک ماڈل کے اصول پر کام کریں گے۔ توقع کی جاتی ہے کہ ہب اینڈ اسپوک ماڈل مؤثر ثابت ہوگا اور ریل سائڈنگ کے محفوظ کمرے کے لیے آراضی کے حصول سے متعلق پیچیدگیاں یہاں نہیں ہوں گی۔ ہب اور اسپوک ماڈل کے پہلے مرحلے میں 80 مقامات پر 34.875 ایل ایم ٹی محفوظ کمروں کی تعمیر کا منصوبہ ہے جنہیں 10.125 ایل ایم ٹی صلاحیت کی بہم رسانی کے لیے ڈی بی ایف او ٹی موڈ کے تحت 14 مقامات پر تعمیر کیا جائے گا اور 24.75 ایل ایم ٹی کی صلاحیت 66 مقامات پر ڈی بی ایف او او موڈ کے تحت فراہم کرائی جائے گی۔ پہلے مرحلے کے مقامات کے لیے ٹینڈر جاری کر دیے گئے ہیں۔ 18 بنڈلوں / پروجیکٹوں کی شکل میں ڈی بی ایف او او موڈ کے تحت 66 مقامات پر 30.75 ایل ایم ٹی محفوظ کمروں کی تعمیر کا کام دوسرے مرھلے میں ہونا ہے، اس کے لیے ٹینڈر 5 مئی 2023 کو جاری کیے جاچکے ہیں۔ حاصل ہوئی بولیوں کو 21 ستمبر 2023 کو کھولا جا چکا ہے اور یہ بولیاں تکنیکی تجزیے کے مرحلے میں ہیں۔
ذخیرہ گوداموں کی تعمیر کے لیے مرکزی شعبے کی اسکیم
محکمہ ایک مرکزی شعبے کی اسکیم (جسے اس سے قبل منصوبہ اسکیم کا نام دیا گیا تھا) نافذ کر رہا ہے جس کا مقصد شمال مشرقی خطے میں چند دیگر ریاستوں کے ساتھ صلاحیت کو منظم بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے گوداموں کی تعمیر ہے۔ ان ریاستوں میں شمال مشرقی حصے کے علاوہ دیگر ریاستیں شامل ہیں۔ اس اسکیم کے تحت ایف سی آئی کو براہِ راست فنڈ آراضی کے حصول اور خوراک ذخیرہ گوڈاؤنوں کی تعمیر کے لیے مساوی سرمایہ ہائے حصص کی شکل میں جاری کیے جاتے ہیں اور انہیں ریلوے سائڈنگ، برق کاری، تنصیب اور وزن کرنے والے پلوں کی شکل میں بنیادی ڈھانچہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ مرکزی شعبے کی اسکیم کے تحت (2017-20) جس کی توسیع 31 مارچ 2025 تک کے لیے کی گئی ہے، شمال مشرق میں 105890 ایم ٹی کے بقدر مجموعی صلاحیت اور دیگر شمال مشرقی خطوں کے علاوہ 56690 صلاحیت 419.99 کروڑ روپئے کے مالی تخمینہ جاتی اخراجات کے ذریعہ مکمل کیے جانے کی منظوری دی گئی ہے (شمال مشرق کے لیے 315.41 کروڑ روپئے اور شمال مشرق کے علاوہ دیگر مقامات کے لیے 104.58 کروڑ روپئے) جسے بڑھا کر 484.08 کروڑ روپئے (شمال مشرق کے لیے 379.50 کروڑ روپئے اور شمال مشرق کے علاوہ دیگر علاقوں کے لیے 104.58 کروڑ روپئے) کر دیا گیا ہے۔ سی ایس ایس کے تحت، شمال مشرقی خطوںمیں مجموعی طور پر 77650 ایم ٹی (شمال مشرقی خطے میں 56430 ایم ٹی اور شمال مشرقی خطوں کے علاوہ دیگر علاقوں میں 21230 ایم ٹی کی صلاحیت ) ایف سی آئی کے ذریعہ یکم اپریل 2017 سے 30 نومبر 2023 کے دوران بہم پہنچائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، شمال مشرقی خطوں میں 5 کام ہیں (49460 ایم ٹی) جو فی الحال پیش رفت کے مراحل میں ہے۔ شمال مشرقی خطوں کے علاوہ دیگر علاقوںمیں مجموعی طور پر چار کام (33540 ایم ٹی) کے بقدر پیش رفت کے مراحل میں ہیں۔
شکر کا شعبہ
بھارتی شکر صنعت ایک اہم زرعی انحصار والی صنعت ہے جو تقریباً پانچ کروڑ کے بقدر گنا کاشتکاروں اور ان کے کنبوں کی دیہی روزی روٹی پر اثر انداز ہوتی ہے اور تقریباً 5 لاکھ کےبقدر کارکنان براہِ راست طور پر کارخانوں میں ملازم ہیں۔ نقل و حمل، تجارت سے متعلق خدمات، مشینری اور زرعی سازوسامان کی سپلائی سے متعلق مختلف النوع سرگرمیوں میں بھی روزگار بہم پہنچایا جاتا ہے۔ بھارت دنیا کا وسیع تر شکر پیدا کرنے والا اور صارف ملک ہے، آج شکر صنعت کا سالانہ آؤٹ پٹ تقریباً 140000 کروڑ روپئے کے بقدر کا ہے۔
2022-23 کے سیزن میں ملک میں 534 مصروف عمل شکر کارخانے تھے۔ گنے کی اوسط سالانہ پیداوار اب اضافے سے ہمکنار ہوکر 5000 لاکھ میٹرک ٹن کےبقدر پہنچ گئی ہے جو منجملہ دیگر چیزوں کے تقریباً 330 ایل ایم ٹی شکر پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تقریباً 43 ایل ایم ٹی کے بقدر شکر ایتھنول کی پیداوار کے لیے منتقل کی جا تی ہے۔ تقریباً 280 ایل ایم ٹی کے بقدر شکر گھریلو کھپت میں کام آتی ہے، بعد ازاں 63 ایل ایم ٹی کے بقدر شکر کو 2022-23 کے شکر سیزن کے دوران برآمد کیا گیا تھا۔
حکومت کی جانب سے کاشتکاروں کی حمایت میں اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں تقریباً 99.9 فیصد کے بقدر سابقہ گنا واجبات ادا کیے جا چکے ہیں۔ 2022-23 کے شکر سیزن کے لیے 11494 کروڑ روپئے کے واجب الادا گنا واجبات میں سے تقریباً 112829 کروڑ روپئے کی ادائیگی کی جا چکی ہے اور صرف 1665 کروڑ روپئے واجب الادا ہیں۔ اس طرح کاشتکاروں کو 98 فیصد سے زائد کے گنا واجبات ادا کیے جا چکے ہیں جس کے نتیجے میں اب بقایہ گنا واجبات بہت کم رہ گئے ہیں۔
ایتھنول کو پیٹرول کے ساتھ مرکب کرنے کا پروگرام
ایتھنول ایک زرعی انحصار والی چیز ہے جس کا استعمال اسے پیٹرول کے ساتھ آمیزش کے لیے کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مینوفیکچرنگ اور ہاتھوں کو جراثیم سے محفوظ کرنے کے رقیق کی تیاری سمیت اس کا دیگر صنعتی استعمال بھی ہوتا ہے۔ اسے شکر صنعت کے ذیلی پروڈکٹ سے حاصل کیا جاتاہے، یعنی شیرے کے ساتھ اسٹارچی اناجوں سے اس کا حصول ہوتا ہے۔ جن سالوں میں گنے کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے، جب قیمتیں گر جاتی ہیں، شکر صنعت گنے کی قیمتوں کی ادائیگی کاشتکاروں کو بروقت نہیں کر پاتی او ر اس مسئلے کے حل کے لیے ضرورت سے زیادہ شکر کا مسئلہ حل کیا جاتا ہے اور شکر کارخانوں پر عائد واجبات کو ادا کرنے کے لیے حکومت شکر کارخانوں کو فاضل گنے کو ایتھنول کی تیاری کے لیے منتقل کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ حکومت ہند ایتھنول آمیز پیٹرول (ای بی پی) پروگرام ملک بھر میں نافذ کرتی آئی ہے، جس کے تحت تیل مارکیٹنگ کمپنیاں ایتھنول آمیز پیٹرول فروخت کرتی ہیں۔ ای بی پی پروگرام کے تحت حکومت نے 2025 تک پیٹرول میں 20 فیصد کے بقدر ایتھنول کی آمیزش کا ہدف مقرر کیا ہے۔
2014 تک، شیرے پر مبنی رقیق صاف کرنے والے اداروں کے ذریعہ ایتھنول کی صفائی 200 کروڑ لیٹر سے بھی کم تھی۔ او ایم سی کو ایتھنول کی سپلائی محض 38 کروڑ لیٹر کے بقدر تھی، اور اس کی آمیزش کی سطحیں 2013-14 ایتھنول سپلائی سال میں محض 1.53 فیصد کے بقدر تھیں، تاہم گذشتہ 9 برسوں میں حکومت کی جانب سے جو پالیسی تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں ان کے نتیجے میں شیرے پر مبنی ڈسٹلریز کی صلاحیت بڑھ کر 875 کروڑ لیٹر کے بقدر ہوگئی ہے۔ اناج پر مبنی ڈسٹلریز کی صلاحیت 505 کروڑ لیٹر کے بقدر ہوگئی ہے۔
ایتھنول سپلائی سال (دسمبر۔اکتوبر) 2022-23 کے دوران 12 فیصد کے بقدر آمیزش کا ہدف کامیابی سے حاصل کر لیا گیا تھا، جس کے لیے پیٹرول میں ایتھنول کی آمیزش کے لیے تقریباً 502 کروڑ لیٹر ایتھنول فراہم کرایا گیا تھا۔ ملک میں ایتھنول پیداوار کی مجموعی صلاحیت (30.11.2023) تک بڑھ کر 1380 کروڑ لیٹر کے بقدر ہوگئی ہے (505 کروڑ لیٹر کے بقدر اناج پر مبنی اور 875 کروڑ لیٹر شیرے پر مبنی ڈسٹلریز) پیٹرول کو کامیابی کے ساتھ ایتھنول میں آمیز کرنے کے پروگرام نے مختلف پہلوؤں سے فائدے کاراستہ ہموار کیا ہے۔
- ایتھنول کی فروخت نےشکر کارخانوں کے لیے نقد آمدنی کا راستہ بہتر بنایا ہے جس کے نتیجے میں کاشتکاروں کو فوری طور پر ادائیگی ممکن ہوئی ہے۔ گذشتہ 10 برسوں میں (2014-15 سے لے کر 2022-23) شکر کارخانوں نے ایتھنول کی فروخت سے 90 ہزار کروڑ سے زائد کا مالیہ کمایا ہے جس نے شکر کارخانوں کی بنیادی حیثیت میں اضافہ کیا ہے۔
- ایتھنول کی پیداوار کا متبادل درآمداتی پیٹرول یا خام تیل ہے جس کے نتیجے میں بھارت کے زر مبادلہ کی بچت ممکن ہوئی ہے۔ 2022-23 میں تقریباً 502 کروڑ کے بقدر ایتھنول کی پیداوار ہوئی اور اس کے نتیجے میں بھارت نے تقریباً 24300 کروڑ روپئے کے بقدر کا غیر ملکی زرمبادلہ بچایا اور بھارت کی توانائی سلامتی کو بہتر بنایا۔
- حکومت ہند نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تخفیف کے سلسلے میں اپنے اہداف کے حصول کی عہد بندگی کر رکھی ہے۔ ایتھنول آمیز پیٹرول کے استعمال سے کاربن مونو آکسائڈ کے اخراج میں تقریباً 30 سے 50 فیصد کی تخفیف رونما ہوگی اور دیگر ہائیڈروکاربن عناصر کے اخراج میں تقریباً 20 فیصد کی تخفیف حاصل ہوگی۔ دراصل نقل وحمل میں ایتھنول کا استعمال بھارتی نقل و حمل کے شعبے کو سبز تر اور ماحولیات دوست ماحول کی جانب گامزن کرے گا۔
- اس مؤثر سرکاری پالیسی کے نتیجے میں 40000 کروڑ روپئے سے زائد کے سرمایہ کاری مواقع پید ا ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں دیہی علاقوں میں نئی ڈسٹلریاں قائم ہو رہی ہیں اور ان خطوں میں تقریباً 60 ہزار کے بقدر بالواسطہ اور راست روزگار فراہم کر رہی ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ 2025-26 تک ایک لاکھ سے زائد روزگار مواقع براہِ راست اور بالواسطہ روزگار کی شکل میں فراہم ہوں گے۔
شکر کے شعبے میں ڈجیٹائزیشن
کاروبار کرنا سہل بنانے، شفافیت لانے، اور شکر کارخانوں کے لیے راستہ ہموار کرنے کے لیے ڈی ایف پی ڈی نے انویسٹ انڈیا کے اشتراک سے ڈی ایس وی او کی مختلف النوع سرگرمیوں کو خودکار بنانے کا کام شروع کیا ہے۔ پورے نظام کو مکمل طور سے ڈجیٹائز کرنے کے لیے ، ساتھ ہی ساتھ شکر کارخانوں کے متعلقہ تمام اعدادو شمار کو یکجا کرنے کے لیے، ساتھ ہی ایتھنول صنعت کے اعدادو شمار کو بھی ایک جگہ لانے کے لیے این ایس ڈبلیو ایس پورٹل پر ایک کلی طور پر وقف پورٹل وضع کیا گیا ہے۔
این ایس ڈبلیو ایس پورٹل پر اب تک حاصل ہوئی پیش رفت
- تمام تر شکر کارخانوں کو این ایس ڈبلیو ایس پورٹل پر درج رجسٹر کیا گیا ہے۔
- این ایس ڈبلیو ایس پورٹل پر ایم آئی ایس فارمیٹ وضع کیا گیا ہے۔
- شکر کارخانوں نے این ایس ڈبلیو ایس پورٹل پر اعدادو شمار جمع کرنے شروع کر دیے ہیں۔
- ماہانہ اجراء کے سلسلے میں اعدادو شمار این ایس ڈبلیو ایس پورٹل سے تمام تر شکر کارخانوں کے لیے حاصل کیے جا رہے ہیں۔
شکر کارخانوں کے ذریعہ بھرے جانے والے فارموں اور ایم آئی ایس کی رپورٹ کی بہم رسانی کے لیے ریاستی سطح پر نوڈل افسر کی تقرری عمل میں آئی ہے۔
*****
ش ح ۔ ا گ ۔ج ا۔ ع م ۔م ش۔ و۔ع ن۔ م ن ۔ اب ن
U. No.3006
(Release ID: 1990735)
Visitor Counter : 217