وزیراعظم کا دفتر

دہلی کے لال قلعہ میں منعقد انڈیا آرٹ، آرکیٹیکچر اور ڈیزائن بینالے 2023 کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 08 DEC 2023 9:36PM by PIB Delhi

تقریب میں موجود میرے ساتھی جناب جی کشن ریڈی جی، ارجن رام میگھوال جی، میناکشی لیکھی جی،  ڈاینا کیلاگ جی،  دنیا کے دیگر ممالک سے تشریف لائے معزز مہمانان کرام،  آرٹ کی دنیا کے سبھی  معزز ساتھیوں، خواتین و حضرات!

لال قلعہ کا یہ  صحن، اپنے آپ میں بہت تاریخی ہے۔ یہ قلعہ صررف ایک عماررت نہیں، یہ ایک تاریخ ہے۔ آزادی  سے پہلے اور آزادی کے بعد کتنی ہی نسلیں  گزر گئیں، لیکن لال قلعہ  اپنی شان کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ اس عالمی ورثے کے مقام  لال قلعے میں آپ سبھی کا بہت بہت خیرمقدم ہے۔

 ساتھیوں،

ہر ملک کے پاس، اس کی اپنی امتیازی نشانیاں ہوتی ہیں جو دنیا کو اس کے ماضی  اور اس کی اقدار سے متعارف کراتی ہیں۔ اور ان علامتوں کو   بنانے کا کام ملک کے فنون، ثقافت اور واستو کا ہوتا ہے۔  راجدھانی دلی تو ایسے ہی  کتنی علامتوں کا مرکز ہے، جس میں ہمیں بھارتی واستو (فن تعمیر) کی  شان کا مشاہدہ ہوتا ہے۔  اس لئے ، دلی میں منعقد ہورہے ’انڈیا آرٹ آرکیٹیکچر اور ڈیزائن بینالے‘ کی یہ تقریب کئی معنی میں خاص ہے۔ میں ابھی یہاں بنائے گئے پویلین کا مشاہدہ کررہا تھا،  اور میں آپ سے معافی کا طلبگار ہوں کہ میرے تاخیر سے پہنچنے کی وجہ بھی یہی ہے کیونکہ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک  دیکھنے اور سمجھنے  کے لائق چیزیں ہیں جس کی وجہ سے  مجھے آنے میں تاخیر ہوگئی۔ پھر بھی مجھے 2-3 مقامات چھوڑنے پڑے۔ ان پویلینوں میں رنگ بھی ہیں،   تخلیقیت بھی ہے۔  اس میں ثقافت بھی ہے اور کمیونٹی کنیکٹ بھی ہے۔ میں اس کامیاب  آغاز کے لئے ثقافت کی وزارت، اس کے سبھی افسران، اس میں حصہ لے رہے سبھی ممالک کو اور آپ سبھی کو مبارکباد  پیش کرتا ہوں۔ ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ کتاب، دنیا کو دیکھنے کی ایک چھوٹے ونڈو کے طور پرشروعات ہوتی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ فنون انسانی  ذہن کے اندر کے سفر کی شاہراہ ہے۔

بھارت ہزاروں سال پرانا ملک ہے۔ ایک وقت تھا جب بھارت کی معاشی خوشحالی کی داستانیں دنیا  بھرمیں سنائی جاتی تھیں۔ آج بھی بھاررت کی ثقافت، ہمارا قدیم ورثہ  پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ملک، آج اس فخر کو ایک بار پھر ’وراثت پر فخر‘ کے احساس کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے۔ آج آرٹ اور آرکیٹیکچر سے جڑے ہوئے ہر شعبے میں  عزت و وقار کے جذبے کےساتھ کام کیا جارہا ہے۔  چاہے کیدارناتھ اورر کاشی جیسے ہمارے ثقافتی مراکز کا فروغ ہو، مہاکال مہالوک جیسی تعمیر نو ہوں یا آزادی کے امرت کال میں، بھارت ثقافتی خوشحالی کی نئی جہتیں  تعمیر کررہا ہے ، اس کے لئے ٹھوس کوششیں کررہا ہے۔ بھارت میں ہونے والا یہ بینالے اس سمت میں ایک شاندار قدم ہے۔  اس سے پہلے ہم نے دیکھا ہے ، یہاں دلی میں ہی انٹرنیشنل میوزیم ایکسپو ہوا تھا۔ اگست میں فیسٹول آف لائبریریز  کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔ ان پروگراموں کے ذریعے ہماری کوشش ہے کہ بھارت میں گلوبل کلچرل اقدام کو ادارہ جاتی  شکل دی جائے، اس کو  منظم نظام کا حصہ بنایا جائے۔  ایک جدید نظام قائم کیا جائے۔  ہم چاہتے ہیں کہ وینس، ساؤ پاؤلو، سنگاپور، سڈنی، شارجہ  جیسے بینالے اور دبئی -لندن جیسے  آرٹ فیئرس کی طرح  بھارت میں منعقد پروگراموںکی بھی دنیا میں پہچان بنے۔ اور اس کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ آج انسانی زندگی پر ٹیکنالوجی کے اثر ات بہت بڑھ گئے ہیں اور کوئی بھی شخص جو مستقبل پر نظر رکھتا ہے وہ نہیں چاہے گا کہ اس کا معاشررہ روبوٹ ہوجائے۔ ہمیں انسانی شکل میں روبوٹ نہیں تیارکرنے، ہمیں انسان بنانے ہیں، اور اس کے لئے احساسات کی ضرورت ہے، امید  کی ضرورت ہے،  خیرسگالی، جوش اور ولولے کی ضرورت ہے۔ امید اورنامیدی کے درمیان زندہ رہنے کے طریقے چاہئیں۔ یہ تمام چیزیں فنون اور ثقافت کے ذریعے پیدا ہوتی ہیں۔ جوڑ توڑ کے لئے ٹیکنالوجی بہت تیز کام کرسکتی ہے۔  اور اس لئے اس طرح کی چیزں انسان  کی باطنی صلاحیتوں کو جاننے، پہچاننے  اور جوڑنے کے لئے بہت بڑا سہار ا ہوسکتی ہیں۔

 ساتھیوں،

اپنے ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے  آج ’آتم نربھر بھارت سینٹر فار رڈیزائن‘ کا افتتاح بھی ہوا ہے۔ یہ سینٹر بھارت کی منفرد اور نایاب  دستکارریوں کو ، نایاب  فنون کو آگے بڑھانے کے لئے ایک پلیٹ فارم دستیاب کرائے گا۔ یہ کاریگروں اور ڈیزائنروں کو ساتھ لانے، مارکیٹ کےمطابق انھیں اختراع کرنے میں تعاون دے گا۔ اس سے کاریگروں کو ڈیزائن  ڈویلپمنٹ کی جانکاری بھی حاصل ہوگی، اور وہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں بھی ماہر ہوجائیں گے۔  اور ہم جانتے ہیں کہ بھارتی کاریگروں کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ جدید جانکاری اور وسائل کے ساتھ پوری دنیا میں اپنی شناخت چھوڑ سکتے ہیں۔

دوستوں،

بھارت میں ، 5 شہروں میں کلچرل مقامات بنانے کا آغاز ہونا بھی ایک تاریخی قدم ہے۔  دلی کے ساتھ ساتھ کولکتہ، ممبئی،  احمدآباد اور وارانسی میں بننے والے یہ ثقافتی مقامات، ان شہروں کو ثقافتی طور  پر مزید مالامال کریں گے۔  یہ سینٹر مقامی آرٹ کو فروغ دینے کے لئے اختراعی  آئیڈیاز بھی پیش کریں گے۔  آپ سبھی نے اگلے سات دنوں کے لئے 7 اہم  موضوعات بھی  طے کئے ہیں۔ اس میں ہمیں ’دیشج بھارت ڈیزائن‘ اور ’سمَتو‘ جیسے موضوعات کو ایک مشن کے  طور پر  آگے بڑھانا ہوگا۔  دیشج یعنی دیسی،  دیسی ڈیزائن کو  فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے نوجوان مطالعہ اور تحقیق کو اپنائیں۔  سمَتو کا موضوع واستو کے شعبے  میں خواتین کی حصہ داری کا جشن ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ناری شکتی کی تخیلی اور تخلیقی صلاحیتیں اس شعبے کو  نئی اونچائیوں پر لے کر جائیں گی۔

ساتھیوں،

بھارت میں ،  آرٹ کو، رس اور رنگوں کو  زندگی کا متبادل، سنونم آف لائف سمجھا گیا ہے۔ ہمارے بزرگوں  نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ساہتیہ سنگیت کلا وہین:، ساکشات پشو: پُچھ وشان ہین:۔ یعنی انسان اور دوسرے جاندار وں میں  ادب، موسیقی اور فن کا ہی فرق ہے۔ یعنی سونے جاگنے اور پیٹ بھرنے کی عادتیں  فطری ہوتی ہیں۔  لیکن یہ آرٹ، ادب اور موسیقی ہے جو انسان کی زندگی میں رس گھولتے ہیں، اسے خاص بناتے ہیں۔ اس لئے ہمارے یہاں زندگی کی الگ الگ ضروریات کو الگ الگ  ذمہ داریوں کو  چتوشاسٹ کلا، 64 آرٹس سے جوڑا گیا ہے۔  جیسا کہ گیت  سنگیت کے  لئے ، موسیقی آلات، رقص اور  گلوکاری کے فن  ہیں۔ اس میں بھی واٹر ویووز (آبی لہروں) پر مبنی  ’اُدک وادیہ‘ یعنی   پانی پر مبنی موسیقی  جیسے مخصوصی فن بھی ہیں۔  ہمارے یہاں کتنے طرح کے عطر یا پرفیوم  بنانے کے لئے  ’گندھ یکتی:‘ یعنی خوشبو کی تدابیر کے فن ہیں۔ میناکاری اور نقاشی کے لئے ’تکش کرم‘ فن سکھایا جاتا ہے۔ کڑھائی  اور بنائی کی خوبصورتی کی باریکیوں کو سکھانے کے لئے  ’سوچی وان کرمانی‘ فن ہے۔ یہاں یہ سب کام کتنے  عمدہ طریقے سے کئے جاتے تھے، اس کا اندازہ آپ بھاررت میں بننے والے قدیم ملبوسات سے لگا سکتے ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ ململ کپڑے کا پورا تھان ایسا بنتا تھا کہ ایک انگوٹھی میں سے اس کو پکالا جاسکتا تھا۔ یعنی، یہ  طاقت تھی۔  بھارت میں میناکاری اور نقاشی جیسے کام بھی صرف سجاوٹ کی چیزوں تک ہی محدود نہیں تھے۔ بلکہ تلواروں، ڈھالوں، نیزوں جیسے جنگی ہتھیاروں پر بھی  متحیرکرنے والے فن پارے دیکھنے کو ملتے تھے۔  اتنا ہی نہیں ،  میں چاہوں گا کہ اگر کوئی اس تھیم پر  غور و خوض کرے ۔  ہمارےیہاں جانوروں کے لئے، گھوڑوں اور کتوں  بیل اور گایوں کے زیورات رکھے جاتے تھے، ان زیورات میں جو  تنوع تھا، آرٹ تھی یہ  اپنے آپ میں ایک عجوبہ تھا۔  اور کتنی عمدگی تھی کہ اس جانور کو کوئی جسمانی تکلیف نہ ہو، اس  بات کا پوری طرح خیال رکھ کر بنایا جاتا تھا۔ یعنی اگر ہم ان چیزوں کو ایک  ساتھ رکھ کر دیکھیں تو  معلوم ہوتا ہے کہ کتنی صلاحیت اس میں بھررری ہوئی ہیں۔

ساتھیوں،

 ایسی کتنی ہی آرٹس ہمارے ملک میں رہی ہے۔ اور یہی بھارت کی قدیم تاریخ ہے۔  اور آج بھی بھارت کے کونے کونے میں  اس کے نشان موجود ہیں۔ میں تو جس شہر کا ممبر پارلیمنٹ ہوں، کاشی، اس کی سب سے اعلیٰ مثال ہے۔ کاشی کو اویناشی کہتے ہیں۔ کیونکہ کاشی، گنگا کے ساتھ ساتھ ادب، موسیقی اور فنون  لطیفہ کے لازوال بہاؤ کی زمین ہے۔  روحانی طورپر  فنون کے موجد مانے جانے والے بھگوان شیو نے اپنے دل میں اسے قائم کیا ہے۔ یہ فنون، یہ دستکاری اورر ثقافت انسانی  تہذیب کے لئے توانائی کے منبع  کی طرح ہے۔  اورتوانائی لازوال ہوتی ہے۔  شعور  لافانی ہوتا ہے۔ اس لئے کاشی بھی لافانی ہے۔

 دوستوں،

بھارت کی اس  ثقافت کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے جو لوگ آتے ہیں، ان کے لئے کچھ ماہ پہلے ہم نے ایک نئی ابتدا کی تھی۔ ہم نے گنگا ولاس کروز چلایا تھا، جو دریائے گنگا میں ہی رہتے ہوئے مسافروں کو کاشی سے آسام تک لے کر گیا تھا۔ اس میں دنیا کے بہت سے سیاح شامل ہوئے تھے ۔ تقریباً 50-45 دن کا وہ پروگرام تھا، ایک ہی سفر کے دوران  گنگا کے کنارے  واقع  کئی شہروں اور گاؤوں اور علاقوں کا انھوں نے  تجربہ کیا۔  اور ہماری انسانی تہذیب کا تمدن بھی  دریاؤں کے ساحل پر ہوا ہے۔ اگر ایک بار کوئی دریا کے ساحل کا سفر کرتا ہے تو اس کے پاس  زندگی کی گہرائی کو جاننے کے لئے بہت بڑا موقع ہوتا ہے۔ اور اسی خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے گنگا کرروز کا آغاز کیا تھا۔

دوستوں،

فن کی جو بھی شکل کیوں نہ  ہو، وہ فطرت کے قریب ہوتی ہے۔ یہاں بھی جو کچھ میں نے دیکھا اس سے کہیں نہ کہیں فطرت کا عنصر فن سے جڑا ہو اہے، اس سے باہر کی کوئی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا، فن، فطرت کے لحاظ سے، فطرت کا حامی اور ماحولیات اور آب و ہوا کا حامی ہے۔ مثال کے طور پر دنیاکے ممالک میں ریور فرنٹ کے بارے میں  بہت  بحث ہے کہ فلاں  ملک میں  فلاں ریور فرنٹ وغیرہ وغیرہ۔ بھارت میں دریاؤں کے کنارے گھاٹوں کی روایت  ہزاروں سال  پرانی ہے۔  ہمارے بہت سے تہوار  اور تقریبات ان گھاٹوں سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح کوپ، سروور، باولی، اسٹیپ ویل کی ایک مالا مال ثقافت ہمارے ملک میں تھی۔ گجرات میں رانی کی واو ہو، راجستھان میں کئی جگہوں پر، یہاں تک کہ دلی میں آج بھی آپ کو کئی اسٹیپ ویلس دیکھنے کو ملیں گے۔  اور جو رانی  کی واو  ہے اس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ پورا اُلٹا ٹمپل ہے۔ یعنی اس زمانے کے فن تخلیق کے بارے میں سوچنے والوں نے  اسے کیسے تخلیق کیا ہوگا۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ پانی سے متعلق ہمارے یہ تمام ذخائر کے  مقام ہیں، ان کا آرکیٹیکچر آپ دیکھئے، ان کے ڈیزائن کو دیکھیں، دیکھنے  میں  یہ  کسی میگا مارول سے کم نہیں لگتے ہیں۔اسی طرح بھارت کے پرانے قلعوں اور درگوں کا فن تعمیر بھی دنیا بھر کے لوگوں کو حیران کرتا ہے۔  ہر قلعے کا اپنا آرکیٹیکچر ہے، اپنی سائنس ہے۔ میں کچھ دن پہلے ہی سندھو دُرگ  میں تھا، جو سمندر کے اندر بہت بڑا قلعہ بنا ہوا ہے۔  ہوسکتا ہے آپ میں سے کچھ لوگ جیسلمیر میں پٹووں کی حویلی گئے ہوں گے۔ پانچ حویلیوں کے اس گروپ کو  اس طرح بنایا گیا تھا، کہ وہ نیچر ائیر کنڈیشن کے طور پر کام کرتا ہےْ یہ تمام آرکیٹیکچر نہ صرف طویل  مدتی ہوتا تھا بلکہ ماحولیاتی لحاظ سے بھی پائیدارہوتا تھا۔  یعنی پوری دنیا کے پاس بھارت کے آرٹ اینڈ کلچر سے بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کے مواقع ہیں۔

دوستوں،

آرٹ، آرکیٹیکچر اور ثقافت، یہ انسانی تہذیب کے لئے  تنوع اور  اتحاد، دونوں کے  ماخذ رہے ہیں۔ ہم دنیاکی سب سے متنوع قوم ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ تنوع   ہی ہمیں  ایک دوسرے سے باندھ کے رکھتی ہے۔  جب میں ابھی قلعوں کی بات کررہا تھا۔ میں  ایک دو سال پہلے  پروگرام کے لئے  بندیل کھنڈ گیا تھا تو جھانسی کے قلعے پر ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا، پھر میں نے وہاں  حکومت سے بات چیت کی، کہ ہمیں بندیل کھنڈ کو فورٹ ٹورزم کے لئے فروغ دیا جانا چاہئے۔ بعد میں انھوں نے تمام تحقیق کی ، اس کا جو گرنتھ تیار ہوا ہے، آپ حیران رہ جائیں گے کہ صرف بندیل کھنڈ میں قلعوں پر منحصر اتنا مالا مال وررثہ ہے،  صرف جھانسی میں نہیں قرب و جوار کے  مختلف مقامات پر۔ یعنی اتنا  خوشحال ہے، میں تو چاہوں گا کہ ہمارے فائن آرٹس کے جو طلبا ہیں انھیں وہاں لے جاکر  انھیں آرٹ ورک  کرنے کا بہت  بڑا مقابلہ رکھا جاسکتا ہے۔ تبھی تو دنیا کو پتہ چلے گا کہ  ہمارے اجداد نے کیا کچھ تعمیرکیا ہے۔  کیا آپ نے سوچا ہے کہ بھارت کے اس تنوع کا  ماخذ کیا ہے؟ اس کا ماخذ ہے- مدر آف ڈیموکریسی  (جمہوریت کی ماں) کی شکل میں بھارت کا جمہور ی روایتی آرٹ،  آرکیٹیکچر اور کلچر تبھی پھل پھولتے ہیں جب سماج میں  خیالات کی آزاد ی ہو اور اپنے طورطریقے سے کام کرنے کی آزادی ملتی ہے۔  بحث و مباحثے  ککی اس روایت سے تنوع اپنے آپ  پرروان چڑھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ  آج بھی ہماری حکومت جب ثقافت کی بات کرتی ہے، تو ہم ہر قسم کے تنوع کا خیرمقدم اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم نے ملک کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں جی-20 کے انعقاد کے ذریعے اپنے اسی  تنوع کو دنیاکے سامنے پیش کیا ہے۔

ساتھیوں،

بھارت ’ایم نجے: پروویتی گننا لگھو چیت سام‘ اس خیال کو جینے والا ملک ہے۔ یعنی،  ہم اپنا پرایا  خیالات کے ساتھ جینے والے لوگ نہیں ہیں۔ ہم  وہ لوگ ہیں جو اپنی ذات کے بجائے خود پر یقین رکھتے ہیں۔  ہم وہ لوگ ہیں جو خود کی بجائے کائنات کی بات کرتے ہیں۔ آج جب بھارت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن کر ابھر  رہا ہے، پوری دنیا اس میں اپنے لیے بہتر مستقبل  دیکھ رہی ہے۔ مثلاً  بھارت کی اقتصادی ترقی سے پوری دنیا کی ترقی جڑی ہے۔ آتم نربھر بھارت کے ہمارے ویژن میں پوری دنیا کے لئے نئے مواقع جڑے ہیں، ویسے ہی آرٹ اور آرکیٹیکچر جیسے شعبوں میں بھی بھارت کے احیاء سے ، بھارت کے ثقافتی  ارتقا سے پوری دنیا کےمفادات جڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے یوگا جیسی اپنی وراثت کو آگے بڑھایا، تو آج اس کا فائدہ پوری دنیا کو مل رہا ہے۔

ہم نے آیوروید کو ، جدید سائنسی  معیارات پر مستحکم کرنے کے لئے کوشش  شروع کی تو اس کی اہمیت پوری دنیا سمجھ رہی ہے۔  ہم نے اپنی ثقافتی اقدار کو سامنے رکھ کر  پائیدار طرز زندگی کے لئے نئے متبادل، انتخاب کئے۔ آج مشن لائف جیسی مہمات کے ذریعے پوری دنیا کے بہتر مستقبل  کی امید حاصل ہورہی ہے۔ آرٹ،  آرکیٹیکچراور ڈیزائن کے شعبے میں بھارت جتنی مضبوطی کے ساتھ ابھرے گا، اس سے پوری انسانیت کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔

ساتھیوں،

تہذیبیں باہمی تعامل اور تعاون سے ترقی کرتی ہیں۔ اس لئے اس سمت میں دنیا کے دیگر تمام ممالک کی حصہ داری،  ان کے ساتھ ہماری شراکتداری بہت اہم ہے۔  میں چاہوں گا کہ اس طرح کے پروگرام کے  انعقاد میں مزید توسیع ہو،اس میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں ممالک ساتھ آئیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ  پروگرام اس سمت میں اہم آغاز ثابت ہوگا۔ اسی  جذبے کے ساتھ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ!اور اہل وطن سے میری گزارش ہے کہ مارچ کے مہینے تک یہ آپ کے لئے دستیاب ہے، پورا دن نکالیے، ایک ایک چیز کو دیکھیے کہ ہمارے یہاں کیسی کیسی صلاحیتیں ہیں، کیسی روایت ہے، فطرت کے تئیں ہمارا کتنا لگاؤ ہے، اس تمام باتوں کو ایک مقام پر محسوس کرسکتے ہیں۔ بہت بہت شکریہ۔

*******

ش ح۔ ن ر

U NO:2100



(Release ID: 1984444) Visitor Counter : 77