امور داخلہ کی وزارت
مرکزی وزیر داخلہ اور تعاون کے وزیر، جناب امت شاہ نے آج لوک سبھا میں بھارتیہ نیائے سنہتا بل 2023، بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہتا بل، 2023 اور بھارتیہ ساکشیہ بل، 2023 پیش کیا
Posted On:
11 AUG 2023 7:32PM by PIB Delhi
وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے ذریعہ 15 اگست کو ملک کے سامنے رکھے گئے پانچ وعدوں میں سے ایک وعدہ تھا –غلامی کی تمام نشانیوں کو ختم کرنا – آج کے یہ تینوں بل جناب مودی کے اس ایک وعدہ کو پورا کرنے جا رہے ہیں
انگریزوں کے ذریعہ وضع کیے گیے اور برطانوی پارلیمنٹ کے ذریعہ منظورتعزیرات ہند ، 1860، ضابطہ فوجداری (1898)، 1973 اور انڈین ایویڈینس ایکٹ، 1872 کو منسوخ کرکے 3 نئے بل لائے گئے ہیں
تعزیرات ہند، 1860 کی جگہ بھارتیہ نیا ئے سنہتا بل، 2023، ضابطہ فوجداری، 1898 کی جگہ اب ناگرک سرکشا سنہتا بل، 2023 اور انڈین ایویڈنس ایکٹ، 1872 کی جگہ بھارتیہ ساکشیہ سنہتا بل، 2023 متعارف ہو گا
یہ تینوں منسوخ ہونے والے قوانین برطانوی راج کو مضبوط اور تحفظ دینے کے لیے بنائے گئے تھے اور ان کا مقصد سزا دینا تھا، انصاف دینا نہیں تھا
یہ تینوں نئے قوانین کی روح آئین کے ذریعہ ہندوستانی شہریوں کو دیئے گئے تمام حقوق کا تحفظ کرنا ہوگی اور ان کا مقصد سزا دینا نہیں بلکہ انصاف دینا ہوگا
ہندوستانی روح کے ساتھ بنائے گئے یہ تین قوانین ہمارے فوجداری نظام انصاف میں بہت بڑی تبدیلی لائیں گے
مودی حکومت حکمرانی کے بجائے شہریوں کو مرکز میں لانے کا بہت اصولی فیصلہ لے کر یہ قانون لائی ہے
وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 2019 میں کہا تھا کہ تمام محکموں میں انگریزوں کے دور میں بنائے گئے تمام قوانین کو آج کے وقت کے مطابق اور کافی بحث اور غور و فکر کے بعد ہندوستانی سماج کے مفاد میں بنایا جانا چاہیے
18 ریاستوں، 6 مرکز کے زیر انتظام علاقوں، سپریم کورٹ، 16 ہائی کورٹ، 5 جوڈیشل اکیڈمیوں، 22 لاء یونیورسٹیوں، 142 ممبران پارلیمنٹ، تقریباً 270 ایم ایل اے اور عوام نے ان نئے قوانین پر اپنی تجاویز پیش کی ہیں
وزیر داخلہ نے کہا کہ 4 سال تک ان قوانین پر شدید بحث ہوئی اور وہ خود 158 مشاورتی اجلاسوں میں شریک رہے
بھارتی ناگرک شرکشا سنہتا بل، جو سی آر پی سی کی جگہ لے گا، اب اس میں 533 سیکشن ہیں، پرانے قانون کے 160 سیکشن کو تبدیل کیا گیا ہے، 9 نئے سیکشن شامل کیے گئے ہیں اور 9 سیکشن کو منسوخ کر دیا گیا ہے
تعزیرات ہند کی جگہ لینے والے بھارتیہ نیا ئے سنہتا بل 2023 میں پہلے کے 511 سیکشن کی بجائے 356 سیکشن ہوں گے، 175 سیکشن کو تبدیل کیا گیا ہے، 8 نئےسیکشن شامل کیے گئے ہیں اور 22 سیکشن کو منسوخ کر دیا گیا ہے
ایویڈنس ایکٹ کی جگہ لینے والا بھارتیہ ساکشیہ بل میں پہلے کی 167 کی بجائے اب 170 سیکشن ہوں گے، 23 سیکشن کو تبدیل کیا گیا ہے، ایک نیا سیکشن شامل کیا گیا ہے اور 5 کو منسوخ کر دیا گیا ہے
ان تینوں پرانے قوانین میں غلامی کی نشانیاں تھیں، یہ برطانوی پارلیمنٹ سے پاس ہوئے تھے، کل 475 جگہوں سے غلامی کی ان نشانیوں کو ہٹا کر آج ہم نئے قوانین لائے ہیں
قانون دستاویزات کی تعریف کو وسیع کرتا ہے جس میں الیکٹرانک یا ڈیجیٹل ریکارڈ، ای میل، سرور لاگ، کمپیوٹر، اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، ایس ایم ایس، ویب سائٹس، مقامی ثبوت، میل، آلات پر پیغامات شامل ہیں
اس قانون میں ایف آئی آر سے کیس ڈائری، کیس ڈائری سے چارج شیٹ اور چارج شیٹ سے لے کر فیصلے تک کے پورے عمل کو ڈیجیٹائز کرنے کا انتظام کیا گیا ہے
تلاشی اور قبضے کے وقت ویڈیو گرافی کو لازمی قرار دیا گیا ہے جو کیس کا حصہ ہو گا اور اس میں بے گناہ شہریوں کو ملوث نہیں کیا جائے گا، پولیس کی جانب سے ایسی ریکارڈنگ کے بغیر کوئی چارج شیٹ درست نہیں ہو گی
وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سزا کے تناسب کو بڑھانے کے لیے فارنسک سائنس کو فروغ دینے کے لیے نیشنل فارنسک سائنس یونیورسٹی کے قیام کا ایک تاریخی فیصلہ لیا
تین سال ہر سال 33 ہزارفارنسک ماہرین سائنس اور سائنسدان بعد ملک میں دستیاب ہوں گے، قانون میں سزا کے تناسب کو 90 فیصد سے اوپر لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے
7 سال یا اس سے زائد سزا کی دفعات والے جرائم کے جائے وقوعہ پرفارنسک ٹیم کا دورہ لازمی قرار دیا جا رہا ہے، اس کے ذریعہ پولیس کے پاس سائنسی ثبوت موجود ہوں گے، جس کے بعد عدالت میں مجرموں کی بریت کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے
مودی حکومت شہریوں کی سہولت یقینی بنانے کے لیے آزادی کے 75 سال بعد پہلی بارصفر ایف آئی آر شروع کرنے جا رہی ہے، اس قدم سے شہری اپنے تھانے کے باہر بھی شکایت درج کروا سکیں گے
پہلی بار ای ایف آئی آر کی فراہمی کی گنجائش رکھی جا رہی ہے، ہر ضلع اور پولیس اسٹیشن ایک پولیس افسر کو نامزد کرے گا جو گرفتار شخص کے اہل خانہ کو اس کی گرفتاری کے بارے میں آن لائن اور ذاتی طور پر باضابطہ طور پر مطلع کرے گا
جنسی تشدد کےمقدموں میں متاثرہ کا بیان لازمی قرار دیا گیا ہے اور جنسی ہراسانی کے مقدموں میں بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی لازمی قرار دی گئی ہے
پولس کے لیے 90 دن میں شکایت کا اسٹیٹس دینا اور اس کے بعد ہر 15 دن بعد شکایت کنندہ کو دینا لازمی ہوگا
کوئی بھی حکومت مظلوم کی بات سنے بغیر 7 سال یا اس سے زیادہ قید کا مقدمہ واپس نہیں لے سکے گی، اس سے شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہو گا
چھوٹے مقدمات میں سمری ٹرائل کا دائرہ بڑھا دیا گیا ہے ، اب 3 سال تک کی سزا والے جرم سمری ٹرائل میں شامل ہوں گے، صرف اس شق سے سیشن عدالتوں میں 40 فیصد سے زائد مقدمات ختم ہو جائیں گے
چارج شیٹ داخل کرنے کے لیے 90 دن کی مدت مقرر کی گئی ہے اور صورتحال کو دیکھتے ہوئے عدالت مزید 90 دن کی اجازت دے سکتی ہے، اس طرح 180 دن میں تفتیش مکمل کر کے ٹرائل شروع کیا جائے گا
عدالتیں اب ملزم کو فرد جرم عائد کرنے کا نوٹس 60 دن کے اندر دینے کی پابند ہوں گی، دلائل مکمل ہونے کے بعد 30 دن کے اندر معزز جج کو فیصلہ سنانا ہو گا، اس سے فیصلہ برسوں تک زیر التواء نہیں رہے گا اور فیصلہ 7 دنوں کے اندر آن لائن دستیاب کرانا ہوگا
سرکاری ملازم یا پولیس افسر کے خلاف مقدمے کی سماعت کے لیے حکومت کو 120 دن کے اندر اجازت کا فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ اسے اجازت سمجھا جائے گا اور ٹرائل شروع کر دیاجائے گا
اشتہاری مجرموں کی جائیداد قرق کرنے کی شق شامل کی گئی ہے، بین ریاستی گروہوں اور منظم جرائم کے خلاف سخت سزا کی نئی شق بھی اس قانون میں شامل کی جا رہی ہے
شادی، ملازمت، پروموشن کے جھوٹے وعدے اور غلط شناخت کے بہانے جنسی تعلقات کو پہلی بار جرم قرار دیا گیا ہے ، اجتماعی زیادتی کے تمام مقدمات میں 20 سال قید یا عمر قید کی سزا دی گئی ہے
18 سال سے کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جرم کی صورت میں سزائے موت کا بھی انتظام کیا گیا ہے، ہجومی تشدد پر بھی 7 سال قید، عمر قید اور سزائے موت کی تینوں دفعات رکھی گئی ہیں
اس سے قبل خواتین سے موبائل فون یا چین چھیننے کے خلاف کوئی قانون نہیں تھا لیکن اب اس کے لیے بھی انتظامات کر دیے گئے ہیں
مستقل معذوری یا برین ڈیڈ ہونے کی صورت میں 10 سال قید یا عمر قید کی سزا کا انتظام کیا گیا ہے
بچوں کے ساتھ جرم کرنے والے کی سزا 7 سال سے بڑھا کر 10 سال کر دی گئی، متعدد جرائم میں جرمانے کی رقم میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے
سزا معافی کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کے کئی معاملے سامنے آتے تھے ، اب سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، عمر قید کی سزا کم از کم 7 سال اور 7 سال سے کم از کم 3 سال ہو سکتی ہے، کوئی مجرم رہا نہیں ہو گا
مودی حکومت بغاوت کے قانون کو مکمل طور پر منسوخ کرنے جا رہی ہے کیونکہ ہندوستان ایک جمہوریت ہے اور ہر کسی کو بولنے کا حق ہے
پہلے دہشت گردی کی کوئی توضیح نہیں تھی، اب اس قانون میں مسلح شورش، تخریبی سرگرمیاں، علیحدگی پسندی، ہندوستان کے اتحاد، خودمختاری اور سالمیت کو چیلنج کرنے جیسے جرائم کی پہلی بار تشریح کی گئی ہے
غیرموجودگی میں مقدمے کی سماعت کے حوالے سے تاریخی فیصلہ کیا گیا ہے ، سیشن کورٹ کے جج کی جانب سے مفرور قرار دیے گئے شخص پر مقدمہ چلایا جائے گا اور اس کی غیر موجودگی میں سزا سنائی جائے گی، چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی روپوش کیوں نہ ہو، اگر مفرور کو سزا کے خلاف اپیل کرنی پڑی تو اسے ہندوستانی قانون پر عمل کرنا پڑے گا
اس قانون میں کل 313 تبدیلیاں کی گئی ہیں جس سے ہندوستان کے فوجداری نظام انصاف میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آئے گی، اب کوئی بھی شخص زیادہ سے زیادہ 3 سال کے اندر انصاف حاصل کر سکے گا
اس قانون میں خواتین اور بچوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے، اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ مجرموں کو سزا ملے اور پولیس اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کر سکے
ایک طرف غداری جیسے قوانین کو منسوخ کر دیا گیا ہے، دوسری طرف عورتوں کا دھوکہ دہی اور ہجومی تشدد جیسے گھناؤنے جرائم کے لیے سزا کا بندوبست کیا گیا ہے، منظم جرائم اور دہشت گردی کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے بھی دفعات رکھی گئی ہیں
مرکزی وزیر داخلہ اور تعاون کے وزیر، جناب امت شاہ نے آج لوک سبھا میں بھارتیہ نیا ئے سنہتا بل، 2023، بھارتیہ ناگری شرکشا سنہتا بل، 2023 اور بھارتیہ ساکشیہ بل، 2023 پیش کیا۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ آج آزادی کا امرت مہوتسو ختم ہو رہا ہے اور امرت کال شروع ہو رہا ہے۔ آزادی کا امرت مہوتسو 15 اگست کو ختم ہوگا اور 16 اگست سے آزادی کے 75 سے 100 سال کا سفر شروع ہوگا ،جس سے ایک عظیم ہندوستان کی تشکیل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 15 اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے اپنے خطاب میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پنچ پران (پانچ وعدوں) کو ملک کے عوام کے سامنے رکھا تھا، ان میں سے ایک غلامی کی تمام نشانیوں کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج متعارف کرائے گئے یہ تینوں بل ایک طرح سے مودی جی کے پانچ وعدوں میں سے ایک کو پورا کر رہے ہیں۔ ان تینوں بلوں میں فوجداری نظام انصاف کے لیے بنیادی قوانین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم تعزیرات ہند، 1860، کریمنل پروسیجر کوڈ، (1898)، 1973 اور انڈین ایویڈینس ایکٹ، 1872 کو انگریزوں کے بنائے ہوئے اور برطانوی پارلیمنٹ سے منظور تینوں قوانین کو ختم کر کے یہ تین نئے قوانین لائے ہیں۔ تعزیرات ہند، 1860 کی جگہ بھارتیہ نیا ئے سنہتا بل، 2023، ضابطہ فوجداری، 1898 کی جگہ بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہتا بل، 2023 اور انڈین ایویڈنس ایکٹ، 1872 کی جگہ بھارتیہ ساکشیہ سنہتا بل 2023 متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ تین ختم ہونے والے قوانین برطانوی راج کو مضبوط اور تحفظ دینے کے لیے بنائے گئے تھے اور ان کا مقصد سزا دینا تھا، انصاف دینا نہیں، ہم ان دونوں بنیادی پہلوؤں میں تبدیلیاں لانے جا رہے ہیں۔ ان تینوں نئے قوانین کی روح آئین کے ذریعہ ہندوستانی شہریوں کو دیئے گئے تمام حقوق کا تحفظ کرنا ہوگی۔ مقصد کسی کو سزا دینا نہیں بلکہ انصاف دینا ہوگا اور اس عمل میں جہاں جرم کی روک تھام کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا وہاں سزا دی جائے گی۔
مرکزی وزیر داخلہ نے لوک سبھا کو یقین دلایا کہ 1860 سے 2023 تک ہندوستان کا فوجداری انصاف کا نظام برطانوی پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کی بنیاد پر چلتا رہا، جو ہندوستانی روح کو متاثر کرتے ہیں، لیکن اب ان تینوں قوانین کی جگہ نئے قوانین بنائے جائیں گے جو ہمارے فوجداری نظام انصاف میں ایک بڑی تبدیلی لائے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ قوانین میں قتل یا خواتین کے خلاف جرائم جیسے گھناؤنے جرائم کو بہت کم رکھا گیا ہے اور غداری، ڈکیتی اور حکومتی اہلکار پر حملے جیسے جرائم کو ان سے اوپر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس نقطہ نظر کو تبدیل کر رہے ہیں اور ان نئے قوانین کا پہلا باب خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم پر ہو گا۔ دوسرا باب قتل/قتل اور انسانی جسم کے ساتھ جرائم پر ہوگا۔ ہم نے حکمرانی کے بجائے شہریوں کو مرکز میں لانے کا بہت اصولی فیصلہ لے کر یہ قانون لایا ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ان قوانین کو بنانے میں ایک طویل عمل کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2019 میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہم سب کی رہنمائی کی تھی کہ تمام محکموں میں انگریزوں کے دور حکومت میں بنائے گئے تمام قوانین پر موجودہ دور کے مطابق اور ہندوستانی سماج کے مفاد میں بحث کی جائے گی اور ان کا جائزہ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان قوانین کو بنانے کے لیے ہر جگہ وسیع مشاورت کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگست 2019 میں انہوں نے سپریم کورٹ کے تمام ججوں، ملک کی تمام ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ملک کی تمام لاء یونیورسٹیوں کو خطوط لکھے تھے۔ 2020 میں تمام ممبران پارلیمنٹ، وزرائے اعلیٰ، گورنروں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے منتظمین کو خط لکھے گئے تھے۔ وسیع مشاورت کے بعد آج یہ عمل قانون بننے جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18 ریاستوں، 6 مرکز کے زیر انتظام علاقوں، سپریم کورٹ، 16 ہائی کورٹ، 5 جوڈیشل اکیڈمیوں، 22 لاء یونیورسٹیوں، 142 ممبران پارلیمنٹ، تقریباً 270 ایم ایل ای اور عوام نے ان نئے قوانین کے بارے میں اپنی تجاویز پیش کی ہیں۔ جناب شاہ نے کہا کہ 4 سال تک ان پر گہرائی سے تبادلہ خیال کیا گیا اور وہ خود 158 میٹنگوں میں موجود تھے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہتا بل، جو سی آر پی سی کی جگہ لے گا، اب اس میں 533 سیکشن ہوں گے، 160 سیکشن کو تبدیل کیا گیا ہے، 9 نئے سیکشن کو شامل کیا گیا ہے اور 9 سیکشن کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ بھارتیہ نیا ئے سنہتا بل، جو آئی پی سی کی جگہ لے گا، اس میں پہلے کی 511 سیکشن کی بجائے 356 سیکشن ہوں گے، 175 سیکشن میں ترمیم کی گئی ہے، 8 نئے سیکشن شامل کئے گئے ہیں اور 22 سیکشن کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ بھارتیہ ساکشیہ بل، جو ایویڈنس ایکٹ کی جگہ لے گا، اب اس میں پہلے کے 167 سیکشن کی بجائے 170 سیکشن ہوں گے، 23 سیکشن کو تبدیل کیا گیا ہے، ایک نیا سیکشن شامل کیا گیا ہے اور 5 کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ یہ تینوں پرانے قوانین غلامی کی نشانیوں سے بھرے ہوئے تھے، انہیں برطانوی پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا اور ہم نے صرف انہیں اپنایا تھا۔ ان قوانین میں برطانوی پارلیمنٹ، صوبائی ایکٹ، کراؤن نمائندے کی طرف سے نوٹی فکیشن، لندن گزٹ، جیوری اور بیرسٹرز، لاہور حکومت، دولت مشترکہ کی قراردادیں، برطانیہ اور آئرلینڈ کی پارلیمنٹ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان قوانین میں ہر مجسٹی اور بائی دی پرائیوی کا حوالہ دیا گیا ہے۔ پوزیشن آف دی بریٹش کراؤن ، کورٹ آف جسٹس اِن انگلینڈ اور ہر مجسٹی اِن انگلینڈ کا بھی ذکر ان قوانین میں متعدد مقامات پر ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ غلامی کی ان 475 نشانیوں کو ختم کرکے آج ہم نئے قوانین لائے ہیں۔ ہم نے نئے دور کو ان قوانین سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے فوجداری نظام انصاف میں کافی وقت لگتا ہے، انصاف اتنی دیر سے ملتا ہے کہ انصاف کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے، لوگوں کا اعتماد ختم ہوچکا ہے اور عدالت سے رجوع کرنے سے ڈرتے ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ان قوانین میں جدید ترین ٹیکنالوجیوں کو شامل کیا گیا ہے۔ دستاویزات کی تشریح میں الیکٹرانک یا ڈیجیٹل ریکارڈ، ای میل، سرور لاگ، کمپیوٹر، اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، ایس ایم ایس، ویب سائٹس، لوکیشنل شواہد، میل اور آلات پر دستیاب پیغامات شامل کرنے کے لیے توسیع کی گئی ہے، جنہیں عدالتوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ کاغذات کے ڈھیر سے آزادی دلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون میں ایف آئی آر سے کیس ڈائری، کیس ڈائری سے چارج شیٹ اور چارج شیٹ سے لے کر فیصلے تک کے پورے عمل کو ڈیجیٹائز کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ فی الحال صرف ملزم کی عدالت میں پیشی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ہو سکتی ہے تاہم اب کراس پوچھ گچھ سمیت تمام ٹرائل ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ہو گا۔ شکایت کنندہ اور گواہوں کی جانچ، ٹرائل اور ہائی کورٹ ٹرائل میں شواہد کی تفتیش اور ریکارڈنگ اور اپیل کی پوری کارروائی اب ڈیجیٹل طور پر ممکن ہوگی۔ ہم نے اس موضوع پر نیشنل فارنسک سائنس یونیورسٹی اور ملک بھر کے دانشوروں اور تکنیکی ماہرین کے ساتھ بات چیت کے بعد اسے بنایا ہے۔ ہم نے تلاشی اور قبضے کے وقت ویڈیو گرافی کو لازمی قرار دیا ہے جو کہ کیس کا حصہ ہو گا اور اس سے معصوم شہری پھنسنے سے بچ جائیں گے۔ پولیس کی طرف سے اس طرح کی ریکارڈنگ کے بغیر کوئی چارج شیٹ درست نہیں ہوگی۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی ہماری سزا کی شرح بہت کم ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نےفارنسک سائنس کو فروغ دینے کے لیے کام کیا ہے۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے نیشنل فارنسک سائنس یونیورسٹی کے قیام کا تاریخی فیصلہ کیا ہے۔ تین سال کے بعد ملک کو ہر سال فارنسک سائنس کے 33 ہزار ماہرین اور سائنسدان ملیں گے۔ اس قانون میں، ہم نے سزا کے تناسب کو 90 فیصد سے اوپر لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس کے لیے ایک اہم شق شامل کی گئی ہے جس کے تحت 7 سال یا اس سے زیادہ سزا یافتہ جرائم کے لیے فارنسک ٹیم کا جائے وقوعہ کا دورہ لازمی ہوگا۔ اس کے ذریعہ پولیس کے پاس سائنسی ثبوت ہوں گے، جس کے بعد عدالت میں مجرموں کے بری ہونے کے امکانات کافی حد تک کم ہو جائیں گے۔ ہم 2027 سے پہلے ملک کی تمام عدالتوں کو کمپیوٹر سے لیش کر دیں گے۔اسی طرح موبائل فارنسک وین کا بھی تجربہ کیا گیا ہے۔ دہلی میں، ہم نے ایک کامیاب تجربہ کیا ہے کہ ایف ایس ایل ٹیم 7 سال سے زیادہ کی سزا کے ساتھ کسی بھی جرم کی جگہ کا دورہ کرتی ہے۔ اس کے لیے ہم نے موبائل ایف ایس ایل کا تصور شروع کیا ہے جو ایک کامیاب تصور ہے اور ہر ضلع میں 3 موبائل ایف ایس ایل ہوں گے اورجائے وقوعہ تک جائیں گے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ آزادی کے 75 سال بعد پہلی بار ہم شہریوں کی سہولت کو یقینی بنانے کے لیے زیرو ایف آئی آر شروع کر رہے ہیں۔ جرم جہاں بھی ہوا ہو، شہری اپنے تھانے کے باہر بھی شکایت درج کرا سکیں گے۔ جرم کے اندراج کے 15 دن کے اندر اسے متعلقہ تھانے کو بھجوانا ہوگا۔ پہلی بار ہم ای ایف آئی آر کی دفعات شامل کر رہے ہیں۔ ہر ضلع اور پولیس اسٹیشن ایک پولیس افسر کو نامزد کرے گا جو گرفتار شخص کے خاندان کو گرفتاری کے بارے میں آن لائن اور ذاتی طور پر مطلع کرے گا۔ جناب شاہ نے کہا کہ جنسی تشدد کے معاملے میں متاثرہ کا بیان لازمی قرار دیا گیا ہے اور جنسی ہراسانی کے معاملے میں بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پولیس کے لیے یہ لازمی ہو گا کہ وہ شکایت کنندہ کو 90 دنوں میں اور اس کے بعد ہر 15 دن میں شکایت کا سٹیٹس دے۔ کوئی بھی حکومت متاثرہ کو سنے بغیر 7 سال یا اس سے زیادہ قید کا مقدمہ واپس نہیں لے سکے گی، اس سے شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔ اس قانون کے تحت، ہم پہلی بار کمیونٹی سروس کو سزا کے طور پر لا رہے ہیں۔ چھوٹے مقدمات میں سمری ٹرائل کا دائرہ بھی بڑھا دیا گیا ہے، اب 3 سال تک کی سزا پانے والے جرائم کو سمری ٹرائل میں شامل کیا جائے گا، اس شق سے صرف سیشن عدالتوں میں 40 فیصد سے زائد مقدمات ختم ہو جائیں گے۔ چارج شیٹ داخل کرنے کے لیے 90 دن کی مدت مقرر کی گئی ہے اور حالات کے پیش نظر عدالت مزید 90 دن کی اجازت دے سکے گی۔ اس طرح 180 دنوں کے اندر تفتیش مکمل کر کے ٹرائل کے لیے بھیجی جائے گی۔ عدالتیں اب ملزم کو 60 دن کے اندر فرد جرم عائد کرنے کا نوٹس دینے کی پابند ہوں گی۔ معزز جج کو دلائل مکمل ہونے کے 30 دن کے اندر فیصلہ دینا ہوگا، اس سے فیصلہ برسوں تک زیر التوا نہیں رہے گا، اور فیصلہ 7 دن کے اندر آن لائن دستیاب کرنا ہوگا۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت کو 120 دنوں کے اندر کسی سرکاری ملازم یا پولیس افسر کے خلاف مقدمے کی اجازت کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا، بصورت دیگر اسے اجازت سمجھا جائے گا اور مقدمے کی سماعت شروع کردی جائے گی۔ ہم نے ایک اور بڑی انقلابی تبدیلی کی ہے، ایس پی جو اس وقت کام کر رہے ہیں، وہی فائل دیکھ کر گواہی دیں گے، پہلے متعلقہ افسر کو آنے کی ضرورت نہیں تھی، جو جلد گواہی دے گا اور انصاف بھی جلد ملے گا۔ اس کے علاوہ ہم اشتہاری مجرموں کی جائیداد قرق کرنے کا پروویژن بھی لائے ہیں۔ ہم اس قانون میں بین ریاستی گروہوں اور منظم جرائم کے خلاف مختلف قسم کی سخت سزاؤں کی نئی شق بھی شامل کر رہے ہیں۔ ہم نے خواتین کے خلاف جرائم اور سماجی مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی بہت سے انتظامات کیے ہیں۔ پہلی بار شادی، ملازمت اور ترقی کے جھوٹے وعدوں اور جھوٹی شناخت کی بنیاد پر جنسی تعلقات کو جرم قرار دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اجتماعی عصمت دری کے تمام واقعات میں 20 سال سزا یا عمر قید کی سزا کا بندوبست کیا گیا ہے، جس پر آج عمل نہیں ہو رہا۔ 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کے معاملے میں سزائے موت کا بھی انتظام رکھا گیا ہے۔ ماب لنچنگ کے لیے 7 سال، عمر قید اور سزائے موت کی تینوں دفعات رکھی گئی ہیں۔ خواتین سے موبائل فون یا چین چھیننے کے خلاف کوئی قانون نہیں تھا لیکن اب اس کے لیے بھی انتظامات کیے گئے ہیں ۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ سنگین چوٹوں اور معمولی چوٹ کی صورت میں 7 سال کی سزا کا انتظام تھا، ہم نے دونوں کو الگ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقل معذوری یا برین ڈیڈ ہونے کی صورت میں 10 سال یا عمر قید کی سزا کا بندوبست کیا گیا ہے۔ بچوں کے خلاف جرائم کی سزا 7 سال سے بڑھا کر 10 سال کر دی گئی ہے۔ کئی جرائم میں جرمانے کی رقم بڑھانے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ حراست سے بھاگنے والے مجرموں کے لیے 10 سال قید کی سزا بھی ہے۔ سزاؤں سے معافی کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کے کئی معاملے سامنے آئے ہیں ، اب سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، عمر قید کی سزا کم از کم 7 سال اور 7 سال سے کم از کم 3 سال ہو سکتی ہے، کسی مجرم کو بخشا نہیں جائے گا۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ مودی حکومت بغاوت کو مکمل طور پر ختم کرنے جا رہی ہے کیونکہ ہندوستان میں جمہوریت ہے اور ہر کسی کو بولنے کا حق ہے۔ پہلے دہشت گردی کی کوئی توضیح نہیں تھی لیکن اب اس قانون میں علیحدگی ، مسلح شورش، تخریبی سرگرمیاں، علیحدگی پسندی، ہندوستان کی یکجہتی، خودمختاری اور سالمیت کو چیلنج کرنے جیسے جرائم کی پہلی بار تشریح کی گئی ہے اور ان جرائم میں ملوث افراد کی جائیدادیں ضبط کرنے اختیار بھی دیا گیا ہے ۔ عدالت یہ حکم تفتیشی پولیس افسر کے نوٹس پر دے گی۔ جناب شاہ نے کہا کہ مودی حکومت نے غیرموجودگی میں ٹرائل کے سلسلے میں ایک تاریخی فیصلہ کیا ہے۔ سیشن کورٹ کے جج، مناسب کارروائی کے بعد، مقدمے کی سماعت کریں گے اور ایک شخص کو غیر موجودگی میں مفرور قرار دے کر سزا سنائیں گے، چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی چھپا ہوا ہو۔ اسے سزا کے خلاف اپیل کرنے کے لیے بھارتی قانون اور عدالت کا سہارا لینا پڑے گا۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ملک بھر کے تھانوں میں جائیدادوں کے معاملات بڑی تعداد زیر التواء رہتے ہیں ، ان کی ویڈیو گرافی اور تصدیق شدہ کاپی عدالت میں جمع کروا کرانہیں نمٹایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون میں کل 313 تبدیلیاں کی گئی ہیں جس سے ہمارے فوجداری نظام انصاف میں وسیع پیمانے پر تبدیلی آئے گی اور کوئی بھی شخص زیادہ سے زیادہ 3 سال میں انصاف حاصل کر سکے گا۔ جناب شاہ نے کہا کہ اس قانون میں خواتین اور بچوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے، اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ مجرموں کو سزا دی جائے اور پولیس کو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے سے روکنے کے لیے دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ ایک طرف تو بغاوت جیسے قوانین کو منسوخ کر دیا گیا ہے، دوسری طرف دھوکہ دہی کے ذریعہ خواتین کا استحصال کرنے اور موب لنچنگ جیسے گھناؤنے جرائم پر سزا کا بندوبست اور منظم جرائم اور دہشت گردی کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح ۔ رض ۔ ج ا (
8267
(Release ID: 1948121)
Visitor Counter : 415