وزیراعظم کا دفتر

دہلی یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات کے اختتامی پروگرام سے وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 30 JUN 2023 3:13PM by PIB Delhi

دہلی یونیورسٹی کے اس سنہرے پروگرام میں موجود ملک کے وزیر تعلیم جناب دھرمندر پردھان جی، ڈی یو کے وائس چانسلر محترم یوگیش سنگھ جی، سبھی پروفیسران، اساتذہ اور سبھی میرے نوجوان ساتھی۔ آپ لوگوں نے مجھے جب یہ دعوت دی تھی، تبھی میں نے طے کر لیا تھا کہ مجھے آپ کے یہاں تو آنا ہی ہے۔ اور یہاں آنا، اپنوں کے درمیان آنے جیسا ہے۔

اب سو سال کی یہ فلم ہم دیکھ رہے تھے، دہلی یونیورسٹی کی دنیا کو سمجھنے کے لیے۔ صرف دو  عظیم شخصیات کو دیکھ لیتے ہیں تو بھی پتہ چل جاتا کہ  دہلی یونیورسٹی نے کیا دیا ہے۔ کچھ لوگ میرے سامنے بیٹھے ہیں، جن کو میں طالب علمی کے زمانے سے جانتا ہوں، لیکن اب بہت بڑے بڑے لوگ بن گئے۔ اور مجھے اندازہ تھا کہ میں آج آؤں گا تو مجھے ان سب پرانے ساتھیوں سے ملنے کا ضرور موقع ملے گا۔ اور مجھے مل رہا ہے۔

ساتھیوں،

ڈی یو کا کوئی بھی اسٹوڈنٹ ہو، کالج فیسٹ چاہے اپنے کالج میں ہو یا دوسرے کالج میں، اس کے لیے سب سے امپارٹنٹ یہی ہوتا ہے کہ بس کی طرح اس فیسٹ کا حصہ بن جائیں۔ میرے لیے بھی یہ ایسا ہی موقع ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج جب دہلی یونیورسٹی کے 100 سال کا جشن منایا جا رہا ہے، تو جشن کے اس ماحول میں مجھے بھی آپ سب کے درمیان آنے کا موقع ملا ہے۔ اور ساتھیوں، کیمپس میں آنے کا مزہ بھی تبھی ہوتا ہے جب آپ کولیگس کے ساتھ آئیں۔ دو دوست چل دیے گپیں مارتے ہوئے، دنیا جہان کی باتیں کریں گے، اسرائیل سے لے کر مون تک کچھ چھوڑیں گے نہیں۔ کون سی فلم دیکھی… او ٹی ٹی پر وہ سیریز اچھی ہے…وہ والی ریل دیکھی یا نہیں دیکھی…ارے باتوں کا بے کراں سمندر ہوتا ہے۔ اس لیے، میں بھی آج آپ کی ہی طرح دہلی میٹرو سے اپنے نوجوان دوستوں سے گپ شپ کرتے کرتے یہاں پہنچا ہوں۔ اس بات چیت میں کچھ قصے بھی پتہ چلے، اور کئی دلچسپ جانکاریاں بھی مجھے ملیں۔

ساتھیوں،

آج کا موقع ایک اور وجہ سے بہت خاص ہے۔ ڈی یو نے ایک ایسے وقت میں اپنے 100 سال مکمل کیے ہیں، جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال پورے ہونے پر امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ کوئی بھی ملک ہو، اس کی یونیورسٹیز، اس کے تعلیمی ادارے اس کی حصولیابیوں کی سچی عکاسی کرتے ہیں۔ ڈی یو کے بھی اس 100 برسوں کے سفر میں کتنے ہی تاریخی موڑ آئے ہیں! اس میں کتنے پروفیسرز کی، کتنے اسٹوڈنٹس کی اور کتنے ہی دوسرے لوگوں کی زندگی جڑی رہی ہے۔ ایک طرح سے، دہلی یونیورسٹی صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ ایک تحریک رہی ہے۔ اس یونیورسٹی نے ہر تحریک کو جیا ہے۔ اس یونیورسٹی نے ہر تحریک میں جان بھر دی ہے۔ میں اس تاریخی موقع پر یونیورسٹی کے سبھی پرفیسرز اور اسٹاف کو، سبھی اسٹوڈنٹس کو اور ایلومنی کو  تہ دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیوں،

آج اس تقریب کے ذریعے یہاں نئے اور پرانے اسٹوڈنٹس بھی ساتھ مل رہے ہیں۔  ظاہر ہے، کچھ سدا بہار باتیں بھی ہوں گی۔ نارتھ کیمپس کے لوگوں کے لیے کملا نگر، ہڈسن لائن اور مکھرجی نگر سے جڑی یادیں، ساؤتھ کیمپس والوں کے لیے ستیہ نکیتن کے قصے، آپ چاہے جس سال کے پاس آؤٹ ہوں، دو ڈی یو والے مل کر ان پر کبھی بھی گھنٹوں نکال سکتے ہیں! ان سب کے درمیان، میں مانتا ہوں، ڈی یو نے 100 سالوں میں اگر اپنے احساسوں کو زندہ رکھا ہے، تو اپنی قدروں کو بھی تازہ رکھا ہے۔ ’’نشٹھا دھریتی ستیم‘‘، یونیورسٹی کا یہ موٹو اپنے ہر ایک اسٹوڈنٹ کی زندگی میں گائیڈنگ لیمپ کی طرح ہے۔

ساتھیوں،

ہمارے یہاں کہا جاتا ہے-

’’گیان وانین سکھوان، گیان وانیو جیوتی

گیان وانیو بلوان، تسمات گیان میو بھو‘‘

یعنی، جس کے پاس علم ہے وہی خوش ہے، وہی طاقتور ہے۔ اور  اصل میں وہی جیتا ہے، جس کے پاس علم ہے۔ اس لیے، جب ہندوستان کے پاس نالندہ جیسی یونیورسٹی تھی، تب ہندوستان آسائش اور خوشحالی کے عروج پر تھا۔ جب ہندوستان کے پاس تکشیلا جیسے ادارے تھے، تب ہندوستان کا سائنس دنیا کو گائیڈ کرتا تھا۔ ہندوستان کا شاندار تعلیمی نظام، ہندوستان کی خوشحالی کا محرک تھا۔

یہ وہ دور تھا جب دنیا کی جی ڈی پی میں بہت بڑا شیئر ہندوستان کا ہوتا تھا۔ لیکن، غلامی کے سینکڑوں برسوں  کے دور نے ہمارے تعلیم کے مندروں کو، ان ایجوکیشن سنٹرز کو تباہ کر دیا۔ اور جب ہندوستان کی علمی موج رکی، تو ہندوستان کی گروتھ بھی تھم گئی۔

لمبی غلامی کے بعد ملک آزاد ہوا۔ اس دوران، آزادی  کے جذباتی  تلاطم کو ایک ٹھوس شکل دینے میں ہندوستان کی یونیورسٹیز نے ایک اہم رول نبھایا تھا۔ ان کے ذریعے ایک ایسی نوجوان نسل کھڑی ہوئی، جو اس زمانے کی جدید دنیا کو للکار سکتی تھی۔ دہلی یونیورسٹی بھی اس تحریک کا ایک بڑا مرکز تھی۔ ڈی یو کے سبھی اسٹوڈنس، وہ چاہے کسی بھی کورس میں ہوں، وہ اپنے ادارہ کی ان جڑوں سے ضرور  واقف ہوں گے۔ ماضی کی یہ سمجھ ہمارے وجود کو شکل  دیتی ہے، اصولوں کو بنیاد عطا کرتی ہے، اور مستقبل کے وژن کو وسعت بخشتی ہے۔

ساتھیوں،

کوئی انسان ہو یا ادارہ، جب اس کے عزائم ملک کے لیے ہوتے ہیں، تو اس کی کامیابی بھی ملک کی کامیابیوں سے قدم ملا کر چلتی ہے۔ کبھی ڈی یو میں صرف 3 کالج تھے، آج 90 سے زیادہ کالج ہیں۔ کبھی ہندوستان کی معیشت خستہ حال تھی، آج ہندوستان دنیا کی  ٹاپ 5 معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے۔ آج ڈی یو میں پڑھنے والے لڑکوں کے مقابلہ میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ اسی طرح ملک میں بھی جینڈر ریشیو میں کافی بہتری آئی ہے۔ یعنی، تعلیمی اداروں کی جڑیں جتنی گہری ہوتی ہیں، ملک کی شاخیں اتنی ہی بلندیوں کو چھوتی ہیں۔ اور اس لیے مستقبل کے لیے بھی یونیورسٹی اور ملک کے عزائم میں یکسانیت ہونی چاہیے، انٹر کنکشن ہونا چاہیے۔

25 سال بعد، جب ملک اپنی آزادی کے 100 سال مکمل کرے گا، تب دہلی یونیورسٹی اپنے قیام کے 125 سال منائے گی۔ تب ہدف تھا ہندوستان کی آزادی، اب ہمارا ہدف ہے 2047 تک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر۔ پچھلی صدی کی تیسری دہائی نے، اگر پچھلی صدی کی تاریخ کی طرف نظر کریں تو پچھلی صدی کی تیسری دہائی نے جدوجہد آزادی کو نئی رفتار دی تھی۔ اب اس صدی کی یہ تیسری دہائی ہندوستان کی ترقی کے سفر کو نئی رفتار دے گا۔ آج ملک بھر میں بڑی تعداد میں یونیورسٹی، کالج بنائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں میں آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم، این آئی ٹی اور ایمس جیسے اداروں کی تعداد میں لگاتار اضافہ ہوا ہے۔ یہ سبھی ادارے نیو انڈیا کے بلڈنگ بلاکس بن رہے ہیں۔

ساتھیوں،

تعلیم صرف سکھانے کا عمل نہیں ہے، بلکہ یہ سیکھنے کا بھی عمل ہے۔ طویل عرصے تک تعلیم کا فوکس اسی بات پر رہا کہ طلباء کو کیا پڑھایا جانا چاہیے۔ لیکن ہم نے فوکس اس بات پر بھی شفٹ کیا کہ  طالب علم کیا سیکھنا چاہتا ہے۔ آپ سبھی کی مشترکہ کوششوں سے نئی تعلیمی پالیسی تیار ہوئی ہے۔ اب طلباء کو یہ بڑی سہولت ملی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی پسند کے موضوعات کا انتظاب کر سکتے ہیں۔

تعلیمی اداروں کا معیار بہتر بنانے کے لیے بھی ہم لگاتار کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں کو  مسابقتی بنانے کے لیے ہم نیشنل انسٹی ٹیوشنل رینکنگ فریم ورک لے کر آئے ہیں۔ اس سے ملک بھر کے اداروں کو ایک تحریک مل رہی ہے۔ ہم نے اداروں کی خود مختاری کو کوالٹی آف ایجوکیشن سے بھی جوڑا ہے۔ جتنی بہتر اداروں کی کارکردگی ہوگی، اتنی ہی انہیں خود مختاری مل رہی ہے۔

ساتھیوں،

تعلیم کی مستقبل نواز پالیسیوں اور فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج اڈین یونیورسٹیز کی گلوبل پہچان بڑھ رہی ہے۔ 2014 میں کیو ایس ورلڈ رینکنگ میں صرف 12 انڈین یونیورسٹیز ہوتی تھیں، لیکن آج یہ تعداد 45 ہو گئی ہے۔

ہمارے ایجوکیشن انسی ٹیوٹس دنیا میں اپنی الگ پہچان بنا رہے ہیں۔ ہمارے ادارے کوالٹی ایجوکیشن، اسٹوڈنٹ فیکلٹی ریشیو، اور رپیوٹیشن سب میں تیزی سے بہتری کر رہے ہیں۔ اور ساتھیوں، آپ جانتے ہیں ان سب کے پیچھے سب سے بڑی گائیڈنگ فورس کون سی کام کر رہی ہے؟ یہ گائیڈنگ فورس ہے – ہندوستان کی نوجوان طاقت۔ اس ہال میں بیٹھے ہوئے میرے نوجوانوں کی طاقت۔

ساتھیوں،

ایک زمانہ تھا جب اسٹوڈنٹس کسی انسٹی ٹیوٹ میں ایڈمشن لینے سے پہلے صرف پلیسمنٹ کو ہی ترجیح دیتے تھے۔ یعنی، ایڈمشن کا مطلب ڈگری، اور ڈگری کا مطلب نوکری، تعلیم یہیں تک محدود ہو گئی تھی۔ لیکن، آج نوجوان زندگی کو اس میں باندھنا نہیں چاہتا۔ وہ کچھ نیا کرنا چاہتا ہے، اپنی لکیر خود کھینچنا چاہتا ہے۔

2014 سے پہلے ہندوستان میں صرف کچھ سو اسٹارٹ اپ تھے۔ آج ہندوستان میں اسٹارٹ اپس کی تعداد ایک لاکھ کو بھی پار کر گئی ہے۔ 15-2014 کے مقابلے آج 40 فیصد سے زیادہ پیٹنٹ فائل ہو رہے ہیں۔ جو پیٹنٹ جاری ہو رہے ہیں، ان میں بھی 5 گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ گلوبل انوویشن انڈیکس، جس میں ہندوستان 81ویں مقام پر تھا، 80 سے بھی بعد۔ وہاں سے بڑھ کرکے آج ہم 46 پر پہنچ چکے ہیں، وہ مقام ہم نے حاصل کیا ہے۔

ابھی کچھ دن پہلے ہی میں امریکہ کے دورہ سے لوٹا ہوں۔ آپ سب نے دیکھا ہوگا، آج ہندوستان کی عزت کتنی بڑھی ہے،  وقار کتنا بڑھا ہے۔ کیا وجہ ہے، کیا وجہ ہے آج ہندوستان کا اتنا وقار بڑھا ہے؟ جواب وہی ہے۔ کیوں کہ، ہندوستان کی صلاحیت بڑھی ہے، ہندوستان کے نوجوانوں پر دنیا کا بھروسہ بڑھا ہے۔ اسی سفر میں ہندوستان اور امریکہ کے درمیان  انیشیٹو آن کریٹکل اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی یعنی، آئی سی ای ٹی ڈیل ہوئی ہے۔ اس ایک معاہدہ سے، ہمارے نوجوانوں کے لیے زمین سے لے کر خلاء تک، سیمی کنڈکٹر سے لے کر اے آئی تک، تمام فیلڈز میں نئے مواقع پیدا ہونے والے ہیں۔

جو ٹیکنالوجی پہلے ہندوستان کی پہنچ سے باہر ہوتی تھی، اب ہمارے نوجوانوں کو ان کی رسائی ملے گی، ان کا اسکل ڈیولپمنٹ ہوگا۔ امریکہ کی مائکرون، گوگل اور اپلائیڈ میٹریلز جیسے کمپنیوں نے ہندوستان میں بڑی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔ اور ساتھیوں، یہ آہٹ ہے کہ مستقبل کا ہندوستان کیسا ہونے والا ہے، آپ کے لیے کیسے کیسے مواقع دستک دے رہے ہیں۔

ساتھیوں،

انڈسٹری ’فور پوائنٹ او‘ کا انقلاب بھی ہمارے دروازے پر آ چکا ہے۔ کل تک اے آئی اور اے آر-وی آر کے جو قصے ہم سائنس فکشن فلموں میں دیکھتے تھے، وہ اب آج ہماری ریئل لائف کا حصہ بن رہے ہیں۔ ڈرائیونگ سے لے کر سرجری تک، روبوٹکس اب نیو نارمل بن رہا ہے۔ یہ سبھی سیکٹرز ہندوستان کی نوجوان نسل کے لیے، ہمارے اسٹوڈنٹس کے لیے نئے راستے بنا رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ہندوستان نے اپنے اسپیس سیکٹر کو کھولا ہے، ہندوستان نے اپنے ڈیفنس سیکٹر کو کھولا ہے، ہندوستان نے ڈرون سے جڑی پالیسیوں میں بہت بڑی تبدیلی کی ہے، ان سبھی فیصلوں سے ملک کے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملا ہے۔

ساتھیوں،

ہندوستان کی ترقی کے سفر سے، ہزاروں نوجوانوں کو، ہمارے اسٹوڈنٹس کا کیسے فائدہ ہو رہا ہے، اس کا ایک اور پہلو ہے۔ آج دنیا کے لوگ ہندوستان کو، ہندوستان کی پہچان کو، ہندوستان کی ثقافت کو جاننا چاہ رہے ہیں۔ کورونا کے دوران دنیا کا ہر ملک اپنی ضرورتوں کے لیے پریشان تھا۔ لیکن، ہندوستان اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کی بھی مدد کر رہا تھا۔

لہٰذا دنیا میں ایک تجسس پیدا ہوا کہ آخر ہندوستان کے  وہ کون سے اصول ہیں جو بحران میں بھی خدمت کا عزم پیدا کرتے ہیں۔ ہندوستان کی بڑھتی صلاحیت ہو، ہندوستان کی جی 20 صدارت ہو، یہ سبھی ہندوستان کے تئیں تجسس بڑھا رہے ہیں۔ اس سے ہمارے جو ہیومینٹیز کے اسٹوڈنٹس ہیں، ان کے لیے  بے شمار نئے مواقع پیدا ہونے لگے ہیں۔ یوگا جیسا ہمارا سائنس، ہماری ثقافت، ہمارے فیسٹیول، ہمارا لٹریچر، ہماری ہسٹری، ہمارا ہیرٹیج،  ہمارے ہنر، ہمارے پکوان، آج ہر کسی کی بات ہو رہی ہے۔ ہر کسی کے لیے نئی دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ اس لیے، ان ہندوستانی نوجوانوں کی ڈیمانڈ بھی بڑھ رہی ہے جو دنیا کو ہندوستان کے بارے میں بتا سکیں، ہماری چیزوں کو دنیا تک پہنچا سکیں۔ آج ڈیموکریسی، ایکویلٹی اور میوچوئل ریسپکٹ جیسی ہندوستانی اقدار دنیا کے لیے  انسانی پیمانہ بنا رہے ہیں۔ گورنمنٹ فارمس سے لے کر ڈپلومیسی تک، کئی شعبوں میں ہندوستانی نوجوانوں کے لیے لگاتار نئے موقعے بن رہے ہیں۔ ملک میں ہسٹری، ہیرٹیج اور کلچر سے جڑے شعبوں نے بھی نوجوانوں کے لیے  بے پناہ امکانات بنا دیے ہیں۔

آج ملک کی الگ الگ ریاستوں میں ٹرائبل میوزیم بن رہے ہیں۔ پی ایم میوزیم کے ذریعے آزاد ہندوستان کی ترقی کے سفر کےد رشن ہوتے ہیں۔ اور آپ کو یہ جان کر بھی اچھا لگے گا کہ دہلی میں دنیا کا سب سے بڑا ہیرٹیج میوزیم- ’یوگو یوگین بھارت‘ یہ بھی بننے جا رہا ہے۔ فن، ثقافت اور تاریخ سے جڑے نوجوانوں کے لیے پہلی بار پیشن کو پروفیشن بنانے کے اتنے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ اسی طرح، آج دنیا میں ہندوستانی ٹیچرز  کی الگ پہچان بنی ہے۔ میں گلوبل لیڈرز سے ملتا ہوں، ان میں سے کئی اپنے  کسی نہ کسی انڈین ٹیچر سے جڑے قصے بتاتے ہیں اور بڑے فخر سے بتاتے ہیں۔

ہندوستان کی یہ سافٹ پاور انڈین یوتھس کی سکسیس اسٹوری بن سکتی ہے۔ ان سب کے لیے ہماری یونیورسٹیز کو، ہمارے انسٹی ٹیوشنز کو تیار ہونا ہے، اپنے مائنڈ سیٹ کو تیار کرنا ہے۔ ہر یونیورسٹی کو اپنے لیے ایک روڈ میپ بنانا ہوگا، اپنے اہداف کو طے کرنا ہوگا۔

جب آپ اس ادارہ کے 125 سال منائیں، تب آپ کی گنتی ورلڈ کی ٹاپ رینکنگ والی یونیورسٹی میں ہو، اس کے لیے اپنی کوشش بڑھائیں۔ فیوچر میکنگ انوویشنز آپ کے یہاں ہوں، دنیا کے بیسٹ آئیڈیاز اور لیڈرز آپ کے یہاں سے نکلیں، اس کے لیے آپ کو لگاتار کام کرنا ہوگا۔

لیکن اتنے ساری تبدیلیوں کے درمیان، آپ لوگ پوری طرح مت بدل جائیے گا۔ کچھ باتیں ویسے ہی چھوڑ دیجئے گا بھائی۔ نارتھ کیمپس میں پٹیل چیسٹ کی چائے…نوڈلز…ساؤتھ کیمپس میں  چانکیاز کے موموز…ان کا ٹیسٹ نہ بدل جائے، یہ بھی آپ کو انشیور کرنا ہوگا۔

ساتھیوں،

جب ہم اپنی زندگی میں کوئی ہدف طے کرتے ہیں، تو اس کے لیے پہلے ہمیں اپنے ذہن و دل کو تیار کرنا ہوتا ہے۔ ایک  ملک کے ذہن و دل کو تیار کرنے کی یہ ذمہ داری اس کے ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹس کو نبھانی ہوتی ہے۔ ہماری نئی جنریشن فیوچر ریڈی ہو، وہ چیلنجز کو ایکسیپٹ کرنے اور فیس کرنے کا ٹیمپرامینٹ رکھی ہو، یہ تعلیمی ادارہ کے وژن اور مشن سے ہی ممکن ہوتا ہے۔

مجھے یقین ہے، دہلی یونیورسٹی اپنے اس سفر کو آگے بڑھاتے ہوئے ان عزائم کو ضرور پورا کرے گی۔ اسی کے ساتھ، آپ سبھی کو…اس سو سال کے سفر کو جس طرح سے آپ نے آگے بڑھایا ہے، اسے اور زیادہ مضبوطی سے، اور زیادہ شاندار طریقے سے، اور زیادہ خواب اور عزائم کو لے کر کے ہدف کو حاصل کرنے کا راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھیں،  کامیابیاں آپ کے قدم چومتی رہیں، آپ کی صلاحیت سے ملک بڑھتا رہے۔ اسی دعا کے ساتھ آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔

شکریہ!

*****

ش ح – ق ت – ت ع

U: 6642



(Release ID: 1936500) Visitor Counter : 235