وزارت خزانہ
azadi ka amrit mahotsav

گزشتہ چھ  برسوں کے دوران 4.6 فی صد کی سالانہ شرح نمو کے ساتھ زراعت کےشعبہ کی کارکردگی شاندار رہی


سال 22-2021 میں زرعی پیداوار کی برآمدا ت اب تک کی سب اونچی سطح50.2  بلین امریکی ڈالر تک پہنچی

اس شعبے کو ایم ایس پی میں اضافے، زرعی قرضے کی رقم  میں اضافے ، آمدنی بڑھانے کی اسکیموں اور زرعی بیمہ  جیسے کلیدی محرکات سے فروغ ملا

Posted On: 31 JAN 2023 1:21PM by PIB Delhi

ہندستان کے زرعی شعبے کی کارکردگی  شاندار رہی ہے ۔ گزشتہ چھ برسوں میں اوسط سالانہ  شرح نمو 4.6 فیصد رہی۔ آج پارلیمنٹ میں خزانہ اور کارپوریٹ امور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن کے ذریعہ پیش کئے گئے اقتصادی جائزے 23-2022 میں کہا گیا ہے کہ اس شاندار شرح نمو  کی وجہ سے زرعی اور  متعلقہ سرگرمیوں کے شعبے کا ملک کی مجموعی ترقی فروغ اور خوراک کے تحفظ میں اہم تعاون رہا ہے۔ اس کے علاوہ  حالیہ برسوں میں ملک زرعی پیداوار کے ایک خالص برآمد کار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔سال22-2021 کے دوران ملک کی برآمدات 50.2 امریکی بلین ڈالر کی  ریکارڈسطح تک پہنچی۔

جائزے کے مطابق ترقی اور شاندار کارکرگی کی وجہ ’’حکومت کے ذریعہ فصل اور مویشی پروری کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لئے کئے گئے اقدامات، امدادی قیمت (کم از کم امدادی قیمت)،فصلوں کی تنوع کاری  کے فروغ سے کسانوں کے منافع کو یقینی بنانا ‘‘اور ’’قرضوں کی دستیابی میں اضافہ ،مشینوں کی امداد اور باغبانی اور نامیاتی زراعت ‘‘کے مرکوز اقدامات رہے ہیں۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدامات کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے سے متعلق کمیٹی کی سفارشات کے مطابق کئےگئے ہیں۔

پیداواری لاگت پر منافع کو یقینی بنانے کے لئے کم از کم امداد ی قیمت (ایم ایس پی)

جائزے میں کہا گیا ہے کہ حکومت  زرعی سال 19-2018 سے کل ہندتخمینہ اوسط ، پیداواری لاگت کے کم از کم 50 فیصد مارجن کے ساتھ تمام 22 خریف ، ربیع اور دیگر کمرشیل فصلوں  کے ایم ایس پی میں  اضافہ کرتی رہی ہے۔کھانے پینے کے بدلتے ہوئے طور طریقوں  کا خیال رکھتے ہوئے اور خودکفیلی کا مقصد حاصل کرنے کے لئے دلہن اور تلہن کو نسبتاً  زیادہ ایم ایس پی دی گئی ہے۔

زرعی قرضے تک رسائی میں اضافہ

حکومت نے سال 23-2022 میں زرعی قرضے کی فراہمی میں 18.5لاکھ کروڑ روپے کا نشانہ مقرر کیا ہے۔ حکومت نے اس ہدف میں تواتر کے ساتھ ہر سال  اضافہ کیا ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے حکومت ہر سال طے شدہ ہدف کو عبور کرنے میں مسلسل کامیاب رہی ہے۔  سال 22-2021 میں 16.5 لاکھ کروڑ کے نشانےسےتقریباً  13فیصد زیادہ زرعی قرضے فراہم کرائےگئے۔

جائزے میں بتایا گیا ہے کہ یہ کامیابی اس وجہ سے ممکن ہوسکی کہ حکومت نے مسابقتی  شرح سود پرکسانوں کو بغیر پریشانی کے قرض فراہم  کرانے،  کسی بھی وقت قرض حاصل کرنے کے لئے  کسان کریڈٹ کارڈ  (کے سی سی)اسکیم اور رعایتی  سبسڈی والی شرح سود پر تین لاکھ روپے تک قلیل مدتی زرعی قرض  فراہم کرانے کے لئے ترمیم شدہ  انٹریسٹ سب وینشن اسکیم جیسے کئی اقدامات کئے ہیں۔  

دسمبر 2022 تک 3.89 کروڑ اہل کسانوں کو کسان کریڈٹ کارڈ جاری  کئے گئے ہیں جن کی کے سی سی حد 451672کروڑ روپے ہے۔سال ۔19-2018  حکومت ہند نے ماہی پروری کرنے والوں اور مویشی پروری کرنے والوں کو بھی کے سی سی کی ضرورت فراہم کرائی تھی۔  ا ب تک ماہی پروری  کے شعبے کے لئے 1.0 لاکھ (17 اکتوبر2022 تک)کے سی سی منظور کئے گئے اور مویشی پروری کے شعبے کے لئے 9.5 لاکھ (4نومبر 2022تک) منظور کئے گئے۔

آمدنی اور خطرے کے لئے مدد

جائزے میں بتایا گیا ہے کہ حکومت سےاپریل جولائی 23-2022 کی مدت کے دوران 11.3 کروڑ کسانوں نے پی ایم کسان کے تحت آمدنی کی مدد حاصل کی ہے ۔اس اسکیم کے تحت گزشتہ تین برسوں میں ضرورت مند کسانوں کو دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی مدد فراہم کرائی گئی ہے۔ہندستان کی زرعی  تحقیقی کونسل (آئی سی اے آر) اور انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ  (آئی ایف پی آر آئی) نے اپنے ایک آزمائشی مطالعے میں پایا ہے کہ اس اسکیم سے کسانوں کو زرعی مادخل کی خریداری میں  پیش آنے والی  دشواریوں  کو حل کرنے میں مدد ملی ہے اور چھوٹے اور حاشیہ کے کسانوں کو اپنی روزمرہ کی  کھپت  ، تعلیم ، صحت اور دیگر ضمنی اخراجات کو پورا کرنے میں خصوصی طو ر پر مدد ملی ہے۔

جائزےمیں بتایا گیا ہے کہ کسانوں کے اندراج کے معاملے میں پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فصل بیمہ فصل اسکیم ہے۔ جس میں ہر سال اوسطاً 5.5 کروڑ  درخواستیں موصول ہوئی ہیں اورحاصل ہونے والےپریمئم کے معاملے میں  تیسری سب سےبڑی اسکیم ہے۔ اسکیم کے نفاذ کے گزشتہ چھ برسوں کے دوران کسانوں نے 25186 کروڑ روپے کا پریمئم اد ا کیا ہے جبکہ انہوں نے 1.2 لاکھ کروڑ روپے کی رقم (31 اکتوبر 2022)  کی رقم کے دعوے موصول کئے ہیں۔  جائزے میں بتایا گیا ہے کہ کسانوں کے درمیان  اسکیم کی مقبولیت کا پتہ اس حقیقت سے لگتا ہے کہ 2016 میں اسکیم شروع کئے جانے سے لے کر اب تک اس اسکیم سے فائدہ حاصل کرنے والے قرضہ حاصل نہ کرنے ، حاشیے کے کسانوں اور چھوٹے کسانوں  کی تعداد میں 282 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔

کھیت میں مشینوں کا استعمال-پیداوار ی صلاحیت میں اضافہ کی کلید

کھیتوں کی گھریلو ملکیت کے اوسط سائز میں کمی کے رجحان کے ساتھ اقتصادی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ چھوٹے کھیتو ں کے لئے قابل عمل اور کارگر مشینیں ان کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کی وجہ ہیں۔سب مشن آن ایگریکلچرل  میکنزم (ایس ایم اے ایم)کے تحت دسمبر 2022 تک 21628کسٹم ہائیرنگ سینٹرز ،467ہائی ٹیک مراکزاور18306فارم مشینری بینک قائم کئے گئے۔اس کے علاوہ تربیت اور زرعی مشینری کے استعمال کےمظاہرے کے سلسلہ میں ریاستی حکومتوں کی مدد کی گئی ۔جائزے میں کہا گیا ہے کہ مشینوں کے استعمال سے   کھیتی کے کاموں میں لگنے والی  انسانی محنت میں بھی کمی آئی ہے۔

نامیاتی اور قدرتی زراعت

ہندستان میں نامیاتی کھیتی کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 44.3لاکھ ہے۔ جائزےمیں کہا گیا ہے کہ سال 22-2021 تک نامیاتی کھیتی کے تحت 59.1لاکھ ہیکٹیئر رقبے کو لایا گیا۔نامیاتی اور قدرتی زراعت سے نہ صرف لوگوں کوکیمیکل اور جراثیم کش ادویات سے پاک اناج اور فصلیں حاصل ہوتی ہیں بلکہ اس سے مٹی کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور ماحول کی آلودگی بھی کم ہوتی ہے۔

حکومت دو دہائیوں سے  کلسٹر اور فارمر پروڈیوسر تنظیمیں قائم کرکے پرمپراگت کرشی وکاس یوجنا (پی کے وی وائی)اورشمال مشرقی خطے کے لئے مشن آرگینک  ویلیو چین ڈیولپمنٹ (ایم او وی سی ڈی این ای آر)جیسی اسکیموں کے ذریعہ  نامیاتی زراعت کو فروغ دے رہی ہے۔ نومبر 2022 تک پی کے وی وائی کے تحت 32384کلسٹروں،  مجموعی طور پر 6.4 ہیکٹیئر رقبے اور 16.1 لاکھ کسانوں کو شامل کیا گیا ہے۔اسی طرح ایم او وی سی ڈی این ای آر کے تحت 177 ایف پی او/ایف پی سی تیار کئے گئے ،شمال مشرقی خطےمیں اہم فصلوں کی نامیاتی زراعت کو فروغ دینے کے لئے  1.5 لاکھ کسانوں اور 1.7 لاکھ ہیکٹیئر رقبے  کو شامل کیا گیا۔

زیر بجٹ قدرتی  زراعت (زیڈ بی این ایف) سمیت سبھی  طرح کے روایتی /ماحولیات کے موافق زراعتی طریقوں کو اختیار کرنے کے لئے کسانوں کی مدد کرنے کے واسطے  ایک اسکیم بھارتیہ پراکرتک پدھتی (بی پی  کے پی) کے تحت 4.09 لاکھ ہیکٹیئر زمین کو 8 ریاستوں میں قدرتی زراعت کے تحت لایا گیا ہے۔

.*****

 ش ح۔ا گ  ۔ ج

UNO-1021


(Release ID: 1895014) Visitor Counter : 229