وزیراعظم کا دفتر

ممبئی سماچار کے دوی شتابدی مہوتسو میں وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 14 JUN 2022 9:26PM by PIB Delhi

مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری جی، مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ جناب ادھو ٹھاکرے جی، مہاراشٹر میں اپوزیشن لیڈر جناب دیویندر فڑنویس جی، ممبئی سماچار کے ایم ڈی  جناب ایچ این کاما جی، جناب مہروان کاما جی، ایڈیٹر بھائی نلیش دیو جی، اخبار سے  وابستہ سبھی ساتھی،خواتین و حضرات!

پہلےتو  نیلیش بھائی نے جو کہا  اس پر میں اپنے اعتراض کا اظہار کرتا ہوں، انہوں نے کہا کہ  بھارت بھاگیہ ودھاتا، لیکن بھارت کے بھاگیہ ودھاتا یہاں کے عوام ہیں ، 130 کروڑ ہم وطن ہیں، میں تو سیوک  (خادم ) ہوں ۔

مجھے خیال آتا ہے  کہ میں آج نہیں آیا ہوتا تو، تو میں نے بہت کچھ گنوایا ہوتا، کیونکہ یہاں سے دیکھنے کا شروع کروں تو تقریباً سبھی جانے مانے چہرے دکھ رہے ہیں۔ اتنے سارے لوگوں کا دیدار کرنے کا موقع ملے اس سے زیادہ خوشی کا موقع اور کیا ہوسکتا ہے۔ وہاں سے کھچڑی ہاتھ اوپر کر-کر کے وندن کررہے ہیں۔

ممبئی سماچار کے سبھی  قارئین، صحافیوں اور ملازمین کو اس تاریخی اخبار کی 200 ویں سالگرہ پر دل سے مبارکباد!! ان دو صدیوں میں  کئی نسلوں کی زندگی کو، ان کے سروکاروں کو ممبئی سماچار نے آواز دی ہے۔ ممبئی سماچار نے آزادی کی تحریک کو بھی آواز دی اور پھر آزاد بھارت کے 75 برسوں کو بھی ہر عمر کے قارئین  تک پہنچایا۔ زبان کا ذریعہ ضرور گجراتی رہا، لیکن سروکار قومی تھا۔ غیرملکیوں کے زیراثر جب یہ شہر بامبے ہوا، بمبئی ہوا، تب بھی اس اخبار نے اپنا مقامی رابطہ نہیں چھوڑا،  اپنی جڑوں سے تعلق نہیں توڑا۔ یہ تب بھی ایک عام ممبئی کا اخبار تھا اور آج بھی وہی ہے - ممبئی  سماچار! ممبئی سماچار کے پہلے ایڈیٹر مہر جی بھائی کے مضامین  تواس وقت بھی بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ اس اخبار میں شائع ہونے والی خبر کی صداقت شک و شبہ سے بالاتر  رہی ہے۔ مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل بھی اکثر ممبئی  سماچار کا حوالہ دیتے تھے۔ آج یہاں جو پوسٹل اسٹیمپ جاری کیا گیا، بک کوور ریلیز ہوا ہے ، جو ڈاکیومنٹری دکھائی گئی ہے،  ان کے ذریعے آپ کا یہ شاندار سفر ملک و دنیا تک پہنچنے والا ہے۔

ساتھیو،

آج کے دور میں جب ہم یہ سنتے ہیں کہ  کوئی  اخبار 200 سال سے چل رہا ہے تو حیران ہونا فطری ہے۔ آپ  دیکھئے ، جب یہ اخبار شروع ہوا تو ریڈیو  کا ایجاد نہیں ہوا تھا، ٹی وی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پچھلے 2 برسوں میں، ہم سب نے کئی بار 100 سال پہلے پھیلے اسپینش فلو پر بات کی ہے۔ لیکن یہ اخبار اس عالمی وبا سے بھی  100 سال پہلے شروع ہوا تھا۔ تیزی سے بدلتے وقت میں جب اس طرح کے حقائق منظر عام پر آتے ہیں تو ہمیں آج ممبئی سماچار کے 200 سال کی اہمیت اور بھی زیادہ سمجھ میں آتی ہے۔ اور یہ بھی بہت خوشگوار ہے کہ ممبئی سماچار  کے  200 سال اور بھارت کی آزادی کے 75 سال  ہونے کا اتفاق اسی سال  ہی  ہوا ہے۔ اس لیے آج کے اس موقع پر ہم نہ صرف  بھارت  کی صحافت کے اعلیٰ معیار، حب الوطنی کی فکر سے وابستہ صحافت کا ہی اتسو نہیں منا رہے ہیں بلکہ یہ آزادی کے امرت  مہوتسو کی بھی رونق بڑھا رہا ہے۔ جن اقدار ، جن عہدبستگیوں  کے ساتھ آپ چل رہے ہیں ، مجھے یقین ہے کہ قوم کو  بیدار کرنے کا آپ یہ مہایگ، بلاتعطل جاری رہے گا۔

ساتھیو،

ممبئی سماچار صرف ایک خبر کا ذریعہ  بھر ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ورثہ ہے۔ ممبئی سماچار بھارت کا  فلسفہ ہے، بھارت  کا اظہارخیال ہے۔بھارت کیسے ہر مشکلات کے باوجود مضبوطی سے کھڑا ہے، اس کی جھلک ہمیں ممبئی سماچار میں بھی ملتی ہے۔ وقتاً فوقتاً حالات کی ہر تبدیلی کے ساتھ بھارت نے  خود کو بدلا ہے، اور اپنے بنیادی اصولوں کو  اور مضبوط کیا ہے۔ ممبئی سماچار نے بھی ہر نئی تبدیلی کو تسلیم کیا۔ ہفتے میں ایک بار، ہفتے میں دو بار، پھر روزانہ اور اب ڈیجیٹل، اس اخبار نے ہر دور کے نئے چیلنجز کو اچھی طرح ڈھال لیا ہے۔  اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے،  اپنی بنیاد پر فخر کرتے ہوئے،  کیسے تبدیلی کو اپنایا  جاسکتا ہے، ممبئی سماچار اس کا  بھی ثبوت ہے۔

ساتھیو،

ممبئی  سماچار  جب شروع ہوا تھا تب غلامی کااندھیرا گہرا ہو رہا تھا۔ ایسے دور میں گجراتی جیسی بھارتی زبان میں اخبار نکالنا اتنا آسان نہیں تھا۔ ممبئی سماچار نے اس دور میں لسانی صحافت کو وسعت دی۔ اس کی کامیابی نے انہیں ایک ذرائع بنایا۔  لوک مانیہ تلک جی نے کیسری اور مراٹھا ہفتہ وار اخبارات کے ذریعے آزادی کی تحریک کو آگےبڑھایا۔  سبرامنیم بھارتی کی نظموں، ان کی تحریروں نے غیر ملکی  اقتدار پر حملے کئے۔

ساتھیو،

گجراتی صحافت بھی آزادی کی جدوجہد کا ایک بہت موثر ذریعہ بن چکی تھی۔ فردون جی نے گجراتی صحافت کی مضبوط بنیاد رکھی تھی ۔ گاندھی جی نے  جنوبی افریقہ سے اپنا پہلا انڈین اوپینین شروع کیا  تھا، جس کے ایڈیٹر جوناگڑھ کے مشہور منسکھ لال  ناظر تھے۔ اس کے بعد پوجیہ باپو نے پہلی بار  ایڈیٹر کے طور پر گجراتی اخبار نوجیون کی کمان سنبھالی جسے اندو لال یاگنک جی نے ان کو  سونپا تھا۔ ایک زمانے میں اے ڈی گوروالا کی رائے دہلی میں اقتدار کے گلیاروں میں کافی مقبول تھی۔ ایمرجنسی کے دوران سنسر شپ کی وجہ سے پابندی عائد ہوئی تو اس کے سائکلو اسٹائل شائع ہونے لگ گئے تھے۔  آزادی کی لڑائی ہو یا  پھرجمہوریت کی بحالی، صحافت  کا ایک بہت اہم کردار رہا ہے۔ اس میں بھی گجراتی صحافت کا کرداراعلی درجے کا رہا ہے۔

ساتھیو،

آزادی کے امرت میں بھی  بھارتی زبانوں کا ایک اہم کردار رہنے والا ہے۔ جس زبان کو ہم جیتے ہیں، جس میں ہم سوچتے ہیں، اس کے ذریعے سے ہم  قوم کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنا چاہتے ہیں۔ اسی سوچ کے ساتھ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں میڈیکل  کی تعلیم ہو، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم ہو، وہ مقامی زبان میں کرانے کا  متبادل دیا گیا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ بھارتی  زبانوں میں دنیا کے بہترین مواد تیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔

ساتھیو،

لسانی صحافت نے ، بھارتی  زبانوں  کے  ادب نے  آزادی کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ عام لوگوں تک اپنی باتوں کو  پہنچانے کے لیے  پوجیہ باپو نے بھی صحافت کو اہم ستون بنایا۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس نے ریڈیو کو اپنا ذرائع بنایا۔

ساتھیو،

آج میں آپ سے ایک اور پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ  اس اخبار کو فردون جی مرزبان نے شروع کیا تھا اور جب کوئی بحران آیا تو اسے کاما خاندان نے سنبھالا۔ اس خاندان نے اس اخبار کو نئی بلندی تک پہنچایا ۔ جس  ہدف کے ساتھ اس کا آغاز کیا گیا تھا اس کو مضبوطی دی۔

ساتھیو،

بھارت  کی ہزاروں سال کی تاریخ ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے۔ یہاں جو بھی آیا، چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، کمزور ہو یا مضبوط،  سبھی کو ماں بھارتی نے اپنی گود میں پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع فراہم کیا اور پارسی برادری سے بہتر  اس کی کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ جو کبھی بھارت آئے تھے، آج وہ اپنے ملک کو ہر  شعبے میں بااختیار بنا رہے ہیں۔ آزادی کی  تحریک سے لے کر بھارت  کے نو نرمان تک پارسی بہن –بھائیوں  کا تعاون بہت بڑا ہے۔ تعداد کے لحاظ  یہ برادری  ملک کی سب سے چھوٹی آبادی میں سے ایک ہے،اس  طرح  سے  مائیکرو  مائنارٹی ہے، لیکن  قابل برداشت اور خدمات کے لحاظ سے بہت بڑی ہے۔ بھارتی صنعت، سیاست، سماجی خدمت، عدلیہ، کھیل اور صحافت حتیٰ کہ فوج میں ہر شعبے میں پارسی برادری کی ایک چھاپ نظر آتی ہے۔ ساتھیو، یہ بھارت کی روایت ہے، یہی اقدار ہے، جو ہمیں بہترین بناتے ہیں۔

ساتھیو،

جمہوریت میں چاہے وہ عوام کا نمائندہ ہو، سیاسی جماعت ہو، پارلیمنٹ ہو یا عدلیہ، ہر جزو کا اپنا کردار ہوتا ہے، اس کا اپنا ایک متعین کردار ہوتا ہے۔ اس کردار کی مسلسل تکمیل بہت ضروری ہے۔ گجراتی میں ایک کہاوت ہے – जेनु काम तेनु थाय; बिज़ा करे तो गोता खाय یعنی  جس کا جو کام ہے، اسی کو کرنا چاہئے۔ سیاست ہو، میڈیا ہو یا کوئی اور شعبہ، سبھی کے لئے یہ کہاوت  موزوں ہے۔ اخبارات کا ، میڈیا کا کام خبریں پہنچانا ہے، تعلیم  کو عام کرنا ہے، معاشرے اور حکومت میں اگر کچھ خامیاں ہیں تو ان کو سامنے لانا ہے۔ میڈیا کو تنقید کرنے کا جتنا حق ہے، اتنی ہی اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مثبت خبروں کو سامنے لائے۔ گزشتہ برسوں میں میڈیا کے ایک بڑے حصے نے قومی مفاد، سماجی مفاد سے متعلق مہمات کو بڑھ چڑھ کر اپنایا، اس کا مثبت اثر آج ملک محسوس کر رہا ہے۔ سوچھ بھارت مہم سے اگر ملک کے  گاؤں اورغریب کی زندگی، اس کی صحت بہتر ہو رہی ہے، تو اس میں میڈیا کے کچھ لوگوں نے بھی  بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، انہوں نے قابل ستائش کردار ادا کیا ہے۔ آج،  بھارت اگر  ڈیجیٹل ادائیگیوں کے معاملے میں دنیا میں آگے ہے، تو عوامی تعلیم کی جو مہم میڈیا نے چلائی ، اس سے ملک کی مدد ہوئی۔ آپ کو خوشی ہوگی،ڈیجیٹل لین دین  دنیا کا 40 فیصد کاروبار اکیلا بھارت کرتا ہے۔ گزشتہ 2 برسوں میں کورونا وبا کے دوران جس طرح ہمارے صحافی ساتھیوں نے ملک کے مفاد میں  ایک کرم یوگی کی طرح کام کیا، اس کو بھی ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ بھارت کے میڈیا کے مثبت تعاون  سے بھارت کو 100 سال کے اس سب سے بڑے بحران سے نمٹنے میں کافی مدد کی۔ مجھے یقین ہے کہ  آزادی کے امرت کال میں ملک کا میڈیا  اپنے مثبت رول کو مزید وسعت دے گا۔ یہ ملک ڈیبیٹ اور ڈسکشن  کے ذرائع سے آگے بڑھنے والی بھرپور روایت کا ملک ہے ۔ ہزاروں برسوں سے ہم نے صحت مند بحث، صحت مند تنقید کو، درست استدلال کو سماجی نظام کا حصہ بنایا ہے۔ ہم بہت مشکل سماجی موضوعات پر بھی کھل کر اور صحت مندانہ گفتگو کرتے ہیں۔ ہم بہت مشکل سماجی موضوعات پر کھلی اور صحت مندانہ گفتگو کرتے ہیں۔ یہ بھارت کا طرز عمل رہا ہے، جسے ہمیں تقویت بخشنا ہے۔

آج میں ممبئی سماچار کے مینیجرز، صحافیوں سے خصوصی  طور پر درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کے پاس 200 سال کا جو آرکائیو ہے، جس میں بھارت کی کی تاریخ کے کئی اہم  ٹرننگ پوائنٹ درج ہیں، اسے ملک اور دنیا کے سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ ممبئی سماچار، اپنے اس صحافت کے خزانے کو مختلف زبانوں میں کتابوں کی صورت میں، ضرور ملک کے سامنے لانے کی کوشش کرے۔ آپ نے مہاتما گاندھی کے بارے میں جو  رپورٹ  دی، سوامی وویکانند جی  کو رپورٹ کیا،  بھارت  کی معیشت کے اتار چڑھاؤ کو تفصیل سے بیان کیا۔ یہ سب اب محض رپورٹیں نہیں ہیں۔ یہ وہ لمحات ہیں جنہوں نے بھارت  کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی لیے  آنے والی نسلوں کو ترغیب دینے کا بہت بڑا ذریعہ، بہت بڑا خزانہ کاما صاحب آپ کے پاس ہے اور ملک اس کا انتظار کررہا ہے۔مستقبل میں صحافت کے لئے بھی ایک بڑا سبق آپ کی تاریخ میں پوشیدہ ہے۔ اس سمت میں آپ سبھی ضرور کوشش کریں اور  200 سال پہلے بھی یہ سفر کتنا اتار چڑھاؤ  والا ہوگا اور 200 سال تک مستقل چلنا، یہ بھی اپنے آپ میں ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ آپ سب نے مجھے اس اہم موقع پر بلایا، آپ سب کے  بیچ میں آنے کا موقع ملا، اتنی بڑی کمیونٹی سے ملنے کا موقع ملا اور میں  کبھی ایک بار یہاں ممبئی میں کسی ادب کے پروگرام میں آیا تھا، شاید ہمارے سورج بھائی دلال نے مجھے بلایا تھا۔ اس دن میں نے کہا تھا کہ ممبئی اور مہاراشٹر یہ  گجرات   کی زبان  کا ننیہال ہے۔  ایک  بار پھر آپ سبھی کو ممبئی سماچار کے 200 سال ہونے کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ کاما خاندان آپ نے ملک کی بہت بڑی خدمت کی ہے، آپ کا  پورا خاندان  مبارکباد کا مستحق ہے اور میں ممبئی سماچار کے تمام قارئین کو بھی دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کاما صاحب نے جو کہا وہ صرف الفاظ نہیں تھے، 200 سال تک ، نسل در نسل  ایک گھر میں ایک اخبار  مستقل پڑھا جائے، دیکھا جائے، سنا جائے، یہ اپنے آپ میں ہی اس اخبار کی بہت بڑی طاقت ہے جی۔ اور اسے طاقت دینے والے آپ سب لوگ ہیں اور اس لئے میں گجراتیوں کی اس طاقت کو مبارکباد دینا چاہوں گا۔ میں نام نہیں  لینا چاہتا ہوں،  آج بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک شہر میں، میں بیرون ملک کی بات کر رہا ہوں، سب سے زیادہ سرکولیشن والا اخبار گجراتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گجراتی لوگ شاید جلدی سمجھ جاتے ہیں کہ کس چیز میں کہاں طاقت ہے۔  چلئے ہنسی –خوشی کی شام کے ساتھ بہت بہت شکریہ!

************

 

 

ش ح۔س ک  ۔ م  ص

 (U: 6499)

                  



(Release ID: 1834155) Visitor Counter : 197