وزیراعظم کا دفتر

من کی بات   کی 89 ویں قسط میں وزیراعظم کے خطاب کا متن  (29.05.2022)

Posted On: 29 MAY 2022 11:07AM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار۔ آج ایک بار پھر ’من کی بات‘ کے ذریعے  آپ سبھی کوٹی کوٹی  میرے پریوار  کے لوگوں سے  ملنے کا موقع ملا ہے۔ ’من کی بات ‘ میں آپ سب کا خیرمقدم ہے۔ کچھ دن پہلے ملک نے ایک ایسا اعزاز حاصل کیا ہے جو ہم سھی کو تحریک دیتا ہے۔ بھارت  کی طاقت کے تئیں ایک نیا اعتماد پیدا کرتی ہے۔ آپ لوگ کرکٹ کے میدان پر ٹیم انڈیا کے کسی بلے بازی کی سنچری سُن کر خوشی ہوتے ہوں گے،لیکن بھارت نے ایک اور میدان میں سنچری لگائی ہے اور وہ بہت خاص ہے۔ اس مہینے 5 تاریخ کو ملک میں یونیکارن کی تعداد 100  کے اعدادوشمار تک پہنچ گئی ہے اور آپ کو تو پتہ ہی ہے، ایک یونیکارن ، یعنی ، کم از کم ساڑھے سات ہزار کروڑ روپئے کا اسٹارٹ اپ۔ ان یونیکارنز کا کل ویلیوایشن 330 بلین ڈالر ، یعنی 25 لاکھ کروڑ روپئے سے بھی زیادہ ہے۔ یقینی طور پر، یہ بات ، ہر بھارتی کے لئے فخر کرنے والی بات ہے۔ آپ کو یہ جانکر بھی حیرانی ہوگی، کہ ہمارے کل یونیکارن میں سے 44، پچھلے سال بنے تھے۔ اتنا ہی نہیں ، اس سال کے 3 سے 4 مہینے میں ہی 14 اور نئے یونیکارن بن گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمی وبا کے اس دور میں بھی ہمارے اسٹارٹ اپس، ویلتھ اور ویلیو کریٹ کرتے رہے ہیں۔ انڈین یونیکارن کا ایورج اینول گروتھ ریٹ، یو ایس اے ، یو کے اور دیگر کئی ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ اینالیسسٹس کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں اس تعداد میں تیزاچھال دیکھنے کو ملے گا۔ ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے یونیکارن ڈائیورسی فائنگ ہیں۔ یہ ای- کامرس، فن-ٹیک، ایڈ-ٹیک ، بایو ٹیک جیسے کئی شعبوں میں کام کررہے ہیں۔ ایک اور بات جسے میں زیادہ اہم مانتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسٹارٹ-اپس کی دنیا نیو انڈیا کی اسپرٹ کو رفلیکٹ کررہی ہے۔ آج، بھارت کا اسٹارٹ اپس ایکوسسٹم صرف بڑے شہروں تک ہی محدود نہیں ہے، چھوٹے -چھوٹے شہروں اور قصبوں سے بھی انٹرپرینورز سامنے آرہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں جس کے پاس انوویشن آئڈیا  ہے وہ، ویلتھ کریٹ کرسکتا ہے۔

ساتھیو، ملک کی اس کامیابی کے پیچھے، ملک کی نوجوان -طاقت ، ملک کے ٹیلینٹ اور سرکار، سبھی مل کر یہ کوشش کررہے ہیں، ہر کسی کا تعاون ہے، لیکن اس میں ایک اور اہم بات ہے، وہ ہے، اسٹارٹ-اپ ورلڈ میں، رائٹ مینٹرنگ ؛ یعنی، صحیح رہنمائی۔ ایک اچھا مینٹر اسٹارٹ-اپس کو نئی بلندیوں تک لے جاسکتا ہے۔ یہ فاؤنڈرز کو رائٹ ڈیسیزن  کے لئے ہر طرح سے گائیڈ کرسکتا ہے۔ مجھے، اس بات کا فخر ہے کہ بھارت میں ایسے بہت سے مینٹرز ہیں جنہوں نے اسٹارٹ-اپس کو آگے بڑھانے کے لئے خود کو وقف کردیا ہے۔

شری دھر ویمبوجی کو حال ہی میں پدم اعزاز ملا ہے۔ وہ خود ایک کامیاب انٹرپریونیور ہیں، لیکن اب انہوں نے، دوسرے انٹرپریونیور کو گروم کرنے کا بھی بیڑا اٹھایا ہے۔ شری دھر جی نے اپنا کام دیہی علاقوں سے شروع کیا ہے۔ وہ، دیہی نوجوانوں کی گاؤں میں ہی رہ کر اس شعبے میں کچھ کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔  ہمارے یہاں مدن پڑاکی جیسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے  رورل انٹرپریونیورز کو فروغ دینے کے لئے 2014 میں ون-برج نام کا پلیٹ فارم بنایا تھا۔ آج ، ون-برج جنوبی اور مشرقی بھارت کے 75 سے بھی زیادہ اضلاع  میں موجود ہیں۔ اس سے جڑے 9000 سے زیادہ رورل انٹرپریونیورز  دیہی صارفین کو اپنی خدمات مہیا کرا رہے ہیں۔ میرا شینائے جی بھی ایسی ہی ایک مثال ہیں۔ وہ رورل  ٹرائبل اور ڈزایبل یوتھ کے لئے مارکٹ لنکڈ اسکل ٹریننگ کے شعبے میں قابل ذکر کام کررہی ہیں۔میں نے یہاں تو کچھ ہی نام لئے ہیں، لیکن آج ہمارے بیچ مینٹرز کی کمی نہیں ہے ،  ہمارے لئے یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ اسٹارٹ-اپس کے لئے آج ملک میں ایک پورا سپورٹ سسٹم تیار ہورہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں ہمیں بھارت کے اسٹارٹ اپ ورلڈ کی ترقی کی نئی اڑان دیکھنے کو ملے گی۔

ساتھیو، کچھ  روز قبل مجھے ایک ایسی انٹریسٹنگ اور اٹریکٹیو چیز ملی، جس میں اہل وطن کی کریٹیوٹی اور ان کے آرٹسٹک ٹیلنٹ کا رنگ بھرا ہے۔ ایک تحفہ ہے، جسے تمل ناڈو  کے تھنجاور کے ایک سیلف-ہیلپ گروپ نے مجھے بھیجا ہے۔ اس تحفے میں بھارتیت کی خوشبو ہے اور ماترشکتی کے آشرواد- مجھ پر ان کی محبت کی بھی جھلک ہے۔ یہ ایک اسپیشل تھنجاور ڈول ہے، جسے جی آئی ٹیگ بھی ملا ہوا ہے۔ میں تھنجاور سیلف ہیلپ گروپ کا خا ص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے مقامی ثقافت میں رچے -بسے اس تحفے کو بھیجا۔ ویسے ساتھیو، یہ تھنجاور ڈول اتنی خوبصورت ہوتی ہے، اتنی ہی خوبصورتی سے ، یہ خواتین کو بااختیار بنانے کی نئی کہانی بھی لکھ رہی ہے۔ تھنجاور  میں خواتین کے سیلف ہیلپ گروپز کے اسٹور اور کیوسک بھی کھل رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے کتنے ہی غریب خاندانوں کی زندگی بدل گئی ہے۔ ایسے کیوسک اور اسٹورز کی مدد سے خواتین اب اپنے پروڈکٹ گاہکوں کو سیدھے فروخت کرپارہی ہیں۔ اس پہل کو ’تھارگئیگل کئی ونئی پورتکل ورپنئی انگاڑی  ‘نام دیا گیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس پہل سے 22 سیلف گروپ جڑے ہوئے ہیں۔ آپ کو یہ بھی جان کر اچھا لگے گا کہ خواتین سیلف ہیلپ گروپز، خواتین خود کی مدد آپ گروپ کے یہ اسٹور تھنجاور میں بہت ہی پرائم لوکیشن پر کھلے ہیں۔ ان کی دیکھ ریکھ کی پوری ذمہ داری بھی خواتین ہی اٹھا رہی ہیں۔ یہ خواتین سیلف ہیلپ گروپ تھنجاور ڈول اور برونز لیمپ جیسے جی آئی پروڈکٹ کے علاوہ کھلونے، میٹ اور آرٹیفیشل جیولری بھی بناتے ہیں۔ ایسے اسٹور کی وجہ سے جی آئی پروڈکٹ کے ساتھ ساتھ ہینڈی کرافٹ کے پروڈکٹ کی فروخت میں کافی تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔اس مہم کی وجہ سے نہ صرف کاریگروں کو فروغ ملا ہے بلکہ خواتین کی آمدنی بڑھنے  سے وہ بااختیار بھی ہورہی ہیں۔ میری ’ من کی بات ‘ کے سامعین سے بھی درخواست ہے۔آپ اپنے علاقے میں یہ پتہ لگائیں ، کہ کون سے خواتین سیلف ہیلپ گروپ کام کررہے ہیں۔ ان کے پروڈکٹ کےبارے میں بھی آپ جانکاری حاصل کریں اور زیادہ سے زیادہ ان پروڈکٹس کو استعمال میں لائیں۔ ایسا کرکے ، آپ سیلف ہیلپ گروپ کی آمدنی بڑھانے میں تو مدد کریں گی ہی ، ’آتم نربھر بھارت مہم ‘ کو بھی رفتار دیں گے۔

ساتھیو، ہمارے ملک میں کئی ساری زبان،  رسم الخط اور بولیوں کا بیشمار خزانہ ہے۔ الگ الگ علاقوں میں الگ الگ لباس، کھانا پینا اور ثقافت ، یہ ہماری پہچان ہے۔ یہ ڈائیورسٹی ، یہ تنوع ، ایک قوم کی شکل میں ہمیں مزید مضبوط کرتی ہے اور متحد رکھتی ہے۔ اس سے جڑی  ایک حوصلہ افزا مثال ہے ایک بیٹی کلپنا کی، جسے ، میں آپ سبھی کے ساتھ مشترک کرنا چاہتا ہوں۔ ان کا نام کلپنا ہے، لیکن ان کی کوشش، ’ ایک بھارت شریسٹھ بھارت‘ کے حقیقی جذبے سےمعمور  ہے۔ دراصل ، کلپنا نے حال ہی میں کرناٹک میں اپنا  10 ویں  کا امتحان پاس کیا ہے لیکن ان کی کامیابی کی بے حد خاص بات یہ ہے کہ کلپنا کو کچھ وقت پہلے تک کنڑ زبان ہی نہیں آتی تھی۔ انہوں نے ، نہ صرف  تین مہینے میں کنڑ زبان سیکھی  بلکہ 92 ویں نمبر بھی لاکر دکھایا۔ آپ کو یہ جانکر حیرانی ہورہی ہوگی، لیکن یہ سچ ہے۔ ان کے بارے میں اور بھی کئی باتیں ایسی ہیں جو آپ کو حیران بھی کریں  گی اور تحریک بھی دیں  گی۔ کلپنا، بنیادی طور پر اتراکھنڈ کے جوشی مٹھ کی رہنے والی ہیں۔ وہ پہلے ٹی بی سے متاثر رہی تھیں اور جب وہ تیسری کلاس میں تھیں تبھی  ان کی آنکھوں کی روشنی بھی چلی گئی تھی لیکن، کہتے ہیں نہ ، ’ جہاں  چاہ- وہاں راہ ‘۔ کلپنا بعد میں میسور کی رہنے والی پروفیسر تارامورتی کے رابطے میں آئیں، جنہوں نے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی ، بلکہ ہر طرح سے ان کی مدد بھی کی۔ آج ، وہ اپنی محنت سے ہم سب کے لئے  ایک مثال بن گئی ہیں۔ میں، کلپنا کو ان کے حوصلے کے لئے مبارکباد دیتا ہوں۔ اسی طرح، ہمارے ملک میں کئی ایسے لوگ بھی ہیں، جو ملک کی لسانی تنوع کو مضبوط کرنے کا کام کررہے ہیں۔ ایسے ہی ایک ساتھ ہیں، مغربی بنگال میں پرولیا کے شری پتی ٹوڈو جی۔ ٹوڈو جی ، پرولیا کی سدھو-کانو-برسا یونیورسٹی  میں سنتھالی  زبان کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے، سنتھالی سماج کے لئے ، ان کی اپنی ’اول چکی‘ رسم الخط میں ملک کے آئین کی کاپی تیار کی ہے۔ سری پتی ٹوڈو جی کہتے ہیں کہ ہمارا آئین ہمارے ملک کے ہر ایک شہری کو ان کے حقوق اور فرائض کا احساس دلاتا ہے۔ اس لئے ، ہر شہری کو کو اس سےمانوس ہونا ضروری ہے۔ اس لئے ، انہوں نے سنتھالی سماج کے لئے ان کے اپنی رسم الخط میں آئین کی کاپی تیار کرکے  تحفے -سوگات کے طور پر دی ہے۔ میں، شری پتی  جی کی اس سوچ اور ان کی کوششوں کی تعریف کرتا ہوں۔ یہ ’ایک بھارت ، شریٹھ بھارت‘ کے جذبے کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اس جذبے کو آگے بڑھانے والی ایسی بہت سی کوششوں کے بارے میں ، آپ کو ’ایک بھارت ، شریٹھ بھارت‘ کی ویب سائٹ پر بھی جانکاری ملے گی ۔ یہاں آپ کو کھان -پان، آرٹ، ثقافت، سیاحت سمیت ایسے کئی موضوعات پر  ایکٹیوٹیز کے بارے میں پتہ چلے گا۔ آپ ان ایکٹیویٹیز میں حصہ بھی لے سکتے ہیں۔  اس سے آپ کو ، اپنے ملک کے بارے میں جانکاری بھی ملے گی، اور آپ ملک کے تنوع کو محسوس بھی کریں گے۔

میرے پیارے اہل وطن ، اس وقت ہمارے ملک میں اتراکھنڈ کے ’چار -دھام‘ کی مقدس یاترا چل رہی ہے۔ ’چار -دھام‘ اور خاص طور پر کیدارناتھ میں ہر دن ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند وہاں پہنچ رہے ہیں۔ لوگ، اپنی ’چار دھام یاترا‘ کے اچھے احساس شیئر کررہے ہیں، لیکن ، میں نے، یہ بھی دیکھا کہ، عقیدت مند کیدارناتھ میں کچھ یاتریوں کے ذریعہ پھیلائی جارہی گندگی کی وجہ سے بہت  تکلیف میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی کئی لوگوں نے اپنی بات رکھی ہے ۔ ہم، مقدس یاترا میں جائیں اور وہاں گندگی کا ڈھیر ہو، یہ ٹھیک نہیں ۔ لیکن  ساتھیو، ان شکایات کے بیچ کئی اچھی تصویریں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ جہاں عقیدت ہے، وہاں ،تخلیقیت اور مثبت سوچ بھی ہے۔ کئی عقیدت مند ایسے بھی ہیں جو بابا کیدار کے دھام میں درشن -پوجن کے ساتھ ساتھ سوچھتا کی سادھنا بھی کررہے ہیں۔ کوئی اپنے ٹھہرنے کی جگہ کے پاس صفائی کررہا ہے، تو کوئی یاترا کے راستے سے کوڑا کچرا صاف کررہا ہے۔ سوچھ بھارت مہم کی ٹیم کے ساتھ مل کر کئی ادارے اور رضاکارتنظیمیں بھی وہاں کام کررہی ہیں۔ ساتھیو، ہمارے یہاں جیسے تیرتھ یاترا کی اہمیت ہوتی ہے ، ویسے ہی تیرتھ سیوا کی بھی اہمیت بتائی گئی ہے، اور میں تو یہ بھی کہوں گا، تیرتھ -سیوا کے بغیر، تیرتھ -یاترا بھی ادھوری ہے۔ دیوبھومی اتراکھنڈ میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو سوچتھا  اور سیوا کی سادھنا میں لگے ہوئے ہیں۔ رودر پریاگ کے رہنے والے  شری مان منوج بینجوال جی  سے بھی آپ کو بہت تحریک ملے گی۔ منوج جی نے پچھلے 25 برسو ں سے  ماحولیات کی دیکھ ریکھ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ وہ ، سوچھتا کی مہم چلانے کے ساتھ ہی ، مقدس مقامات کو ، پلاسٹک سے پاک کرنے میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ وہیں گپت کاشی میں رہنے والے -سریندر بگواڑی جی نے بھی سوچھتا کو اپنی زندگی کا منتر بنا لیا ہے۔ وہ ، گپت کاشی میں باقاعدہ طور پر صفائی پروگرام چلاتے ہیں ، اور مجھے پتہ چلا ہے کہ اس مہم کا نام بھی انہوں نے  ’من کی بات ‘ رکھ لیا ہے۔ ایسے ہی ،  دیور گاوں کی چمپادیوی پچھلے تین سال سے اپنے گاؤں کی خواتین کو کوڑے کے بندوبست ، یعنی ، ویسٹ مینجمنٹ سکھا رہی ہیں۔ چمپا جی نے سینکڑوں درخت بھی لگائے ہیں اور انہوں نے اپنی محنت سے ایک ہرابھراجنگل تیار کردیا ہے۔ ساتھیو، ایسے ہی لوگوں کی کوششوں سے دیوتاؤں کی سرزمین دیوبھومی اور تیرتھوں کا وہ دیویہ  احساس قائم ہے، جسے محسوس کرنے کے لئے ہم وہاں جاتے ہیں،اس دیوتو اور روحانیت کو قائم رکھنے کی ذمہ داری ہماری بھی تو ہے۔ ابھی ، ہمارے ملک میں، ’چار دھام یاترا‘ کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت میں ’امرناتھ یاترا‘، ’پنڈھرپور یاترا‘ اور ’جگن ناتھ یاترا‘ جیسی کئی یاترائیں ہوں گی۔ ساون ماہ میں تو شاید ہر گاوں میں کوئی نہ کوئی میلا لگتا ہے۔

ساتھیو، ہم جہاں کہیں بھی جائیں، ان تیرتھ مقامات  کا احترام قائم رہے۔ سوچیتا، صاف-صفائی ، ایک مقدس ماحول ہمیں اسے کبھی نہیں بھولناہے، اسے ضرور بنائے رکھیں اور اس لئے ضروری ہے ، کہ ہم سوچھتا کے عزم کو یاد رکھیں۔ کچھ دن بعد ہی ، 5 جون کو ’ماحولیات کا عالمی دن‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ماحولیات کے تعلق سے ہمیں اپنے آس پاس مثبت مہم چلانی چاہئے اور یہ مسلسل کرنے والا کام ہے۔ آپ ، اس بار سب کو ساتھ جوڑ کر سوچھتا اور شجرکاری کے لئے کچھ کوشش ضرور کریں ۔ آپ، خود بھی درخت لگائیں اور دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی کریں۔

میرے پیارے اہل وطن، اگلے مہینے 21 جون کو ہم آٹھواں ’ یوگ کا بین الاقوامی  دن ‘ منانے والے ہیں۔ اس بار ’یوگ کے دن ‘کا تھیم ہے -یوگا فار ہیومنٹی  ،میں آپ سبھی سےیوگ کے دن کو انتہائی جورش و خروش کے ساتھ منانے کی درخواست کروں گا ۔ ہاں ! کورونا سے متعلق احتیاط بھی برتیں، ویسے ، اب تو پوری دنیا میں کورونا کے تعلق سے حالات پہلے سے کچھ بہتر لگ رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ویکسینیشن کوریج کی وجہ سے اب لوگ پہلے سے کہیں زیادہ باہر بھی نکل رہے ہیں، اس لئے پوری دنیا میں ’یوگ دیوس‘ کے تعلق سے کافی تیاریاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کورونا وبا نے ہم سبھی کو یہ احساس بھی کرایا ہے کہ ہماری زندگی میں  صحت کی کتنی زیادہ اہمیت ہے، اور یوگ اس میں کتنا بڑا وسیلہ ہے ، لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ یوگ سے فزیکل ، اسپرچوئل اور انٹل ایکچوئل  ویل بیئنگ کو بھی فروغ ملتا ہے۔ دنیا کے ٹاپ بزنس پرسن سے لے کر فلم اور اسپورٹس پرسنیلٹیز تک ، اسٹوڈنٹ سے لے کر  عام انسان تک ، سبھی یوگ کو اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنارہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے  کہ دنیا بھر میں یوگ کی بڑھتی مقبولیت  کو دیکھ کر آپ سبھی کو بہت اچھا لگتا ہوگا۔ ساتھیو، اس بار  ملک اور بیرون ملک میں ’یوگ دیوس‘ پر ہونے والے کچھ انتہائی  انوویٹیو مثالوں  کے بارے میں مجھے علم ہوا ہے۔ ان ہی میں سے ایک ہے گارڈین رنگ- ایک بڑا ہی یونک پروگرام ہوگا۔ اس میں موومنٹ آف سن کو سیلیبریٹ کیا جائے گا، یعنی سورج جیسے جیسے سفر کرے گا ، زمین کے الگ الگ حصوں سے ، ہم یوگ کے ذریعہ، اس کا استقبال کریں گے۔ الگ الگ ملکوں میں انڈین مشنز وہاں کے لوکل ٹائم کے مطابق طلوع آفتاب کے وقت یوگ پروگرام منعقد کریں گے۔ ایک ملک کے بعد دوسرے ملک سے پروگرام شروع ہوگا۔ پورب سے پشچم تک مسلسل سفر چلتا رہے گا، پھر ایسے ہی یہ آگے بڑھتا رہے گا۔ ان پروگراموں کی اسٹریمنگ بھی اسی طرح ایک کے بعد ایک جڑتی جائے گی، یعنی یہ ، ایک طرح کا ریلیے یوگا اسٹریمنگ ایونٹ ہوگا۔ آپ بھی اسے ضرور دیکھئے گا۔

ساتھیو، ہمارے ملک میں اس بار ’امرت مہوتسو‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملک کے 75 اہم مقامات پر بھی ’بین الاقوامی یوگ دیوس‘ کا انعقاد ہوگا۔ اس موقع پر کئی تنظیمیں اور اہل وطن نے اپنی اپنی سطح پر اپنے اپنے علاقو ں کی خاص جگہوں پر کچھ نہ کچھ انوویٹیو کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ میں آپ سے بھی یہ درخواست کروں گا ، اس بار یوگ دیوس  منانے کے لئے، آپ اپنے شہر، قصبے یا گاوں کی کسی ایسی جگہ منتخب کریں، جو سب سے خاص ہو۔ یہ جگہ کوئی قدیم مندر اور سیاحتی مرکز ہوسکتا ہے، یا پھر ،کسی معروف ندی، جھیل یا تالاب  کا کنارہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے یوگ کے ساتھ ساتھ  آپ کے علاقے کی پہچان بھی بڑھے گی اور سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ اس وقت ’یوگ دیوس‘ کا 100 ڈے کاونٹ ڈاون بھی جاری ہے، یا یوں کہیں کہ نجی اور سماجی کوششوں سے جڑے پروگرام ، تین مہینے  پہلے ہی شروع ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ دہلی میں 100 ویں دن اور 75 ویں دن کے کاونٹ ڈاون پروگرامز ہوئے ہیں۔ وہیں، آسام کے شیوساگر میں 50 ویں اور حیدرآباد میں 25 ویں کاونٹ ڈاون ایونٹ منعقد کئے گئے۔ میں چاہوں گا کہ آپ بھی اپنے یہاں ابھی سے ’یوس دیوس‘ کی تیاریاں شروع کردیجئے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملئے، ہر کسی کو یوگ دیوس کے پروگرام  میں شامل ہونے کے لئے درخواست کیجئے، حوصلہ افزائی کیجئے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ سبھی ’یوگ دیوس‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے، ساتھ ہی یوگ  کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی اپنائیں گے۔

ساتھیو، کچھ دن پہلے میں جاپان گیا تھا۔اپنے کئی پروگراموں کے درمیان مجھے کچھ شاندار شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ میں ’ من کی بات ‘ میں ، آپ سے ان کے بارے میں ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ لوگ ہیں تو جاپان کے ، لیکن بھارت کے تئیں ان میں غضب کا لگاؤ اور محبت ہے۔ ان میں سے ایک ہیں ہیروشی کوئیکے جی، جو ایک معروف آرٹ ڈائرکٹر ہیں۔ آپ کو یہ جان کر  انتہائی خوشی ہوگی کہ انہوں نے مہابھارت پروجیکٹ کو ڈائریکٹ کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کی شروعات کمبوڈیا میں ہوئی تھی اور پچھلے 9 برسوں سے یہ مسلسل جاری ہے۔ ہیروشی کوئیکے جی ہر کام بہت ہی الگ طریقے سے کرتے ہیں۔ وہ ، ہر سال، ایشیا کے کسی ملک کا سفر کرتے ہیں۔ اور وہاں لوکل آرٹسٹ اور میوزیشین  کے ساتھ مہابھارت کے کچھ حصوں کو پرڈیوس کرتے ہیں۔ اس پروجیکٹ کے ذریعہ سے انہوں نے انڈیا کمبوڈیا اور انڈونیشیا  سمیت 9 ملکوں میں پروڈکشن کئے ہیں اور اسٹیج پرفارمنس بھی دی ہے۔ ہیروشی کوئیکے جی ان فنکاروں کو ایک ساتھ لاتے ہیں ، جن کا کلاسیکل اور ٹریڈیشنل ایشین پرفارمننگ آرٹ میں ڈائیورس بیک گراونڈ رہا ہے۔ اس وجہ سے ان کے کام میں مختلف رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ملیشیا اور جاپان کے پرفارمرز جاوا رقص، بالی رقص ، تھائی رقص  کے ذریعہ اسے اور پرکشش بناتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہر پرفامر اپنی ہی مادری زبان میں بولتا ہے اور کوریوگرافی بہت ہی خوبصورتی سے اس تنوع کو پیش کرتی ہے اور میوزک کی ڈائیورسٹی  اس پروڈکشن کو مزید زندگی عطا کردیتی ہے۔ ان کا مقصد اس بات کو سامنے لانا ہے کہ ہمارے سماج میں ڈائیورسٹی اور کو ایکزیسٹنس کی کیا اہمیت ہے اور امن  کی شکل حقیقت میں کیسی ہونی چاہئے۔ ان کے علاوہ میں، جاپان میں جن دیگر لوگوں سے ملا وہ ہیں، اتسوشی ماتسوو جی اور کینزی یوشی جی۔ یہ دونوں ہی ٹیم پروڈکشن کمپنی سے جڑے ہیں۔ اس کمپنی کا تعلق رامائن کی اس جاپانی اینی میشن فلم سے ہے، جو 1993 میں ریلیز ہوئی تھی ۔ یہ پروجیکٹ جاپان کے بہت ہی مشہور فلم ڈائریکٹر یوگو ساکو  جی سے جڑا ہوا تھا۔ تقریباً چالیس سال پہلے  1983 میں ، انہیں، پہلی بار رامائن کے بارے میں پتہ چلاتھا۔’ رامائن ‘ ان کے دل کو چھو گئی ، جس کے بعد انہوں نے اس پر گہرائی سے ری سرچ شروع کردی۔ اتنا ہی نہیں، انہوں نے جاپانی زبان میں رامائن کے 10 ورژن پڑھ ڈالے۔ اور وہ اتنے پر ہی نہیں رکے ، وہ اسے اینی میشن پر بھی اتارنا چاہتے تھے۔ اس میں انڈین اینی میٹرز نے بھی ان کی کافی مدد کی، انہیں فلم میں دکھائے گئے  بھارتی رسم ورواج  اور روایتوں کے بارے میں گائیڈ کیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ بھارت میں لوگ دھوتی کیسے پہنتے ہیں، ساڑی کیسے پہنتے ہیں، بال کیسے بناتے ہیں۔ بچے خاندان کے اندر ایک دوسرے کی عزت کیسے کرتے ہیں  ، آشرواد کی روایت کیا ہوتی ہے۔ صبح اٹھ کر اپنے گھر کے جو سینئر ہیں، ان کو پرنام کرنا ، ان کا آشرواد لینا، یہ ساری باتیں اب 30 برسوں کے بعد یہ اینی میشن فلم  پھر سے 4 کے  میں ری ماسٹر کی جارہی ہے۔ اس پروجیکٹ کے جلد ہی پورا ہونے کا امکان ہے۔ ہم سے ہزاروں کلومیٹر دور جاپان میں بیٹھے لوگ  جو نہ ہماری زبان جانتے ہیں ، جو نہ ہماری روایات کے بارے میں اتنا جانتے ہیں، ان کی ہماری ثقافت کے لئے اتنی لگن ، یہ عقیدت، یہ احترام ، بہت ہی قابل تعریف ہے۔ کون ہندوستانی اس پر فخر نہیں کرے گا؟

میرے پیارے اہل وطن، اپنی ذات سے بالاتر ہوکر سماج کی خدمت کا منتر، سیلف فار سوسائٹی کا منتر، ہماری تہذیب کا حصہ ہے ۔ ہمارے ملک میں بے شمار لوگ اس منتر کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہیں۔ مجھے، آندھراپردیش  میں، مرکاپورم میں رہنے والے ایک ساتھی ، رام بھوپال ریڈی جی کے بارے میں جانکاری ملی ۔ آپ جانکر حیران رہ جائیں گے رام بھوپال ریڈی جی نے ریٹائرمنٹ  کے بعد ملنے والی اپنی ساری کمائی  بیٹیوں کی تعلیم کے لئے عطیہ کردی ہے۔ انہوں نے تقریباً 100 بیٹیوں کے لئے ’ سُکنیا سمردھی یوجنا‘ کے تحت کھاتے کھلوائے اور اس میں اپنے 25 لاکھ سے زیادہ روپئے جمع کروادیئے۔ ایسی ہی خدمت کی ایک اور مثال یو پی میں آگرہ کے کچورا گاوں کی ہے۔ کافی سال سے اس گاوں میں میٹھے پانی کی قلت تھی۔ اس بیچ گاوں کے ایک کسان کنور سنگھ کو گاوں سے 6 سے 7 کلومیٹر دور  اپنے کھیت میں میٹھا پانی مل گیا۔ یہ ان کے لئے بہت خوشی کی بات تھی۔ انہوں نے سوچا کیوں نہ اس پانی سے باقی سبھی گاوں والوں کی بھی خدمت کی جائے۔لیکن کھیت سے گاوں تک پانی لے جانے کے لئے 32-30 لاکھ روپئے چاہئے تھے۔ کچھ  عرصے بعد کنور سنگھ کے چھوٹے بھائی شیام سنگھ فوج سے ریٹائرہوکر گاؤں آئے، تو انہیں یہ بات پتہ چلی۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ پر ملی اپنی پوری رقم اس کام کے لئے پیش کردی  اور کھیت سے گاوں تک پائپ لائن بچھا کر گاوں والوں کے لئے میٹھاپانی پہنچایا۔ اگر لگن ہو، اپنے فرائض کے تئیں  سنجیدگی ہو، تو ایک فرد بھی کیسے پورے سماج کا مستقبل بدل سکتا ہے، یہ یہ کوشش اس کی بڑی تحریک ہے۔ ہم  فرائض کی راہ  پر چلتے ہوئے ہی سماج کو بااختیاربناسکتے ہیں، ملک کو مضبوط بناسکتے ہیں۔ آزادی کے اس ’امرت مہوتسو‘ میں یہی ہمارا عزم ہونا چاہئے، اور یہی ہماری سادھنا بھی ہونا چاہئے۔ جس کا ایک ہی راستہ ہے - فرض، فرض اور فرض۔

میرے پیارے اہل وطن ، آج ’ من کی بات ‘ میں ہم نے سماج سے جڑے کئی اہم موضوعات پر بات چیت کی۔ آپ سب، الگ الگ موضوعات سے جڑی اہم تجاویز مجھے بھیجتے ہیں، اور انہی کی بنیاد پر ہماری بات آگے بڑھتی ہے۔ ’من کی بات‘ کے اگلے ایڈیشن کے لئے اپنی تجاویز بھیجنا بھی مت بھولئیے گا۔ اس وقت آزادی کے امرت مہوتسو سے جڑے جو پروگرام چل رہے ہیں، جن پروگرام میں آپ شامل ہورہے ہیں، ان کے بارے میں بھی مجھے ضرور بتائیے۔  نمو ایپ اور مائی گو پر مجھے آپ کی تجاویز کا انتظار رہے گا۔ اگلی بار ہم ایک بار پھر ملیں گے، پھر سے اہل وطن سے جڑے ایسے ہی موضوعات پر بات کریں گے۔ آپ ، اپنا خیال رکھئے اور اپنے آس پاس سبھی  جانداروں کا بھی خیال رکھئے۔ گرمیوں کے اس موسم میں، آپ جانوروں اور پرندوں کے لئے کھانا-پانی دینے کی اپنی انسانی ذمہ داری بھی نبھاتے رہیں - یہ ضرور یاد رکھئے گا، تب تک کے لئے بہت بہت شکریہ۔

 

 

************

 

 

ش ح ۔ ف ا  ۔  م  ص

 (U:5853)



(Release ID: 1829186) Visitor Counter : 246