امور داخلہ کی وزارت
داخلی امور اور تعاون کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ نے آج مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں 48ویں آل انڈیا پولیس سائنس کانگریس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا
Posted On:
22 APR 2022 6:20PM by PIB Delhi
مودی سرکار نےتین مسئلوں - کشمیر میں دہشت گردی، شمال مشرق میں بائیں بازو کی انتہا پسندی اور منشیات و مسلح گروپوں کا ایک مستقل حل نکالنے میں بڑی کامیابی حاصل کی
کئی مسلح گروپوں نے دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد ہتھیار ڈال کر اصل دھارے میں شمولیت اختیار کی، کشمیر میں جوش و جذبے اور ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے
یہ بہت اہم ہے جیساکہ اب جرائم کا ارتکاب اس طرح کیا جا رہا ہے کہ پولیس کو جدید بنانے ، تربیت دینے ، ریاستی پولیس سے تال میل رکھنے ، ریاست کے باہر پولیس سے تال میل رکھنے اور ٹکنالوجی کو اپنانے کے بغیر یہ لڑائی نہیں لڑی جاسکتی
پولیس کو پورے ملک میں ایک دوسرے کے ساتھ تال میل رکھتے ہوئے کام کرنا ہوگا
پولیس کو چاہیے کہ وہ مجرموں سے دو قدم آگے رہے اور اس کے لیے اسے جدید بننا ہوگا اور ٹکنالوجی سے لیس ہونا ہوگا
نظم و ضبط ریاست کی ذمہ داری ہے جس کی وجہ سے پولیس ریاست میں منتخبہ سرکاروں کی ہدایت میں کام کرتی ہے
اگر ریاستی پولیس الگ رہ کر کام کرتی ہے تو چیلنجوں سے ٹھیک ڈھنگ سے نہیں نمٹا جا سکے گا
وزیراعظم نریندر مودی نے پولیس ٹکنالوجی مشن کا اعلان کیا ، وزارت داخلہ نے اس مشن کے لیے خاکہ تیار کیا ہے
دو پہلو اہم ہیں - پولیس کے لیے سائنس اور پولیس کی سائنس، دونوں پر غور کرتے ہوئے ہم خود کو درپیش چیلنجوں سے مقابلہ کر سکیں گے
برطانوی انداز کی پولیسنگ کا دور ختم ہو گیا ہے ، اب معلومات پر مبنی، شواہد پر مبنی اور منطق پر مبنی پولیسنگ کا استعمال کرنا ہوگا اور ہمیں پولیس کی سائنس کو تبدیل کرنا ہوگا
داخلی اموراور تعاون کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ نے بھوپال میں آج 48ویں آل انڈیا پولیس سائنس کانگریس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا۔ اس موقعے پر مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب شیورج سنگھ چوہان، داخلی امور کے وزرائے مملکت جناب اجے کمار مشرا اور جناب نیشتھ پرمانک اور بی پی آر اینڈ ڈی کے ڈائریکٹر جنرل جناب بالاجی سریواستو بھی موجود تھے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آل انڈیا پولیس سائنس کانگریس نے دو زاویوں سے ملک کی پولیسنگ میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ ایک یہ کہ چیلنجز سے نمٹنے میں ملک بھر کی پولیس کو تعاون دیا ہے اور دوسری یہ کہ مجرموں سے دو قدم آگے رہنے کے لیے ٹکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ پولیس کو ہمارے آئین میں ریاست کی ذمہ داری مانا گیا ہے اور دوسری طرف نظم و ضبط ریاست کی ذمہ داری ہے کہ پولیس ملک کی منتخبہ حکومت کے ماتحت ہوتی ہے۔ پولیس کو مسلح گروپوں کی طرف سے ایک مشترک چیلنج کا سامنا ہوتا ہے ۔ بائیں بازو کی انتہاپسندی کے زون میں مختلف ریاستیں ہیں لیکن ان کو ایک طرح کے چیلنج کا سامنا ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تال میل ، پالیسی اور اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر ریاستی پولیس اکیلے کام کرے تو ہم ان سبھی چیلنجوں کا سامنا پوری طرح نہیں کر سکیں گے۔ آئین میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن آل انڈیا پولیس سائنس کانگریس اور ڈی جی سی کانفرنس جیسی میٹنگوں کے ذریعے کچھ ریاستیں اپنے علاقے کی پریشانیوں پر بات چیت کرنے اور ایک یکساں پالیسی پر بات چیت کرنے کے لیے یکجا ہوتی سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں پولیس کو منشیات ، حوالہ لین دین اور سائبر گھوٹالوں جیسے کچھ مشترک چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پولیس سائنس کانگریس ایک مشترک حکمت عملی اور تال میل پر بات چیت اور کام کرنے کے لیے مثالی فورم ہے جس کا اہتمام بی پی آر اینڈ ڈی کی سرپرستی میں کیا جا رہا ہے۔ اس سے ملک بھر کی پولیس کو ایک پلیٹ فارم فراہم ہوتا ہے کہ وہ ان کمیوں کو دور کریں اور مشترک چیلنجوں سے نمٹیں۔ وزیر داخلہ نے بی پی آر اینڈ ڈی سے زور دے کر کہا کہ وہ پورے ملک میں اس طرح کے چیلنجوں سے نمٹنے کے مقصد سے پولیس کے لیے ایک حکمت عملی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے پروگرام اور اجلاس ترتیب دیں۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ جرائم پیشہ افراد پوری دنیا کی نئی ٹکنالوجی سے لیس ہو رہے ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ پولیس مجرموں سے دو قدم آگے رہے اور اس کے لیے پولیس کو جدید ، تکنیک کی ماہر ہونا پڑے گا اور بیٹ کی سطح تک ٹکنالوجی کا استعمال کرنا پڑے گا۔ مجرموں کا چھوٹ جانا ایک فطری عمل ہے۔ جب تک ٹکنالوجی ایک کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل تک نہیں پہنچے گی ہم نئے قسم کے جرائم سے نہیں لڑ سکتے۔ اس کے لیے بی پی آر اینڈ ڈی نے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ پولیس کانگریس ان دونوں مقاصد کے لیے بہت اہم ہے اور اس کے بغیر ہم اندرون ملک سکیورٹی کو یقینی نہیں بنا سکتے۔
مرکزی داخلہ سکریٹری نے کہا کہ حکومت نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں پچھلے آٹھ سال کے دوران تین مسائل کے ایک مستقل حل میں کامیابی حاصل کی ہے – کشمیر میں دہشت گردی، بائیں بازو کی انتہا پسندی اور شمال مشرق میں منشیات اور مسلح گروپ، جو کئی برسوں سے بین الاقوامی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہے ، اس طرح ان سے نمٹ کر اس سلسلے میں بڑی کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ جناب مودی نے اس کے لیے پولیس ٹکنالوجی مشن کا اعلان کیا ہے ۔ داخلی امور کی وزارت نے ایک خاکہ تیار کیا ہے جسے ہم تجاویز کے لیے بی پی آر اینڈ ڈی کے ذریعے ریاستی پولیس کو بھیجیں گے۔ اس کے ذریعے پورے ملک کی پولیس کو اسی طرح سے سازو سامان اور ٹکنالوجی سے لیس کیا جائے گا۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت نے کئی سہولیات فراہم کی ہیں لیکن ان کا استعمال کچھ زیادہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اعداد و شمار اکٹھا کرنے کی موجودہ صورتحال سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ پولیس پر کبھی کبھی کام نہ کرنے کا الزام عائد ہوتا ہے اور کبھی کبھی انتہائی درجے کی کارروائی کا الزام لگتا ہے۔ لیکن ہمیں اس فطری رد عمل پر جذباتی نہیں ہونا چاہیے اور ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب کوئی فرد کسی نظام پر منحصر ہوتا ہے نہ کہ کوئی نظام کسی فرد پر ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس سائنس کے دو پہلو ہیں۔ پولیس کے لیے سائنس اور پولیس کی سائنس۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ پورے ملک کی پولیس کو سی سی ٹی این ایس کے تحت سبھی نو شہری خدمات کو استعمال کرنے کےلیے کام کرنا چاہیے اور ان خدمات کو ہر پولیس اسٹیشن میں فراہم کیا جانا چاہیے۔ دہشت گردی کی روک تھام کے اسکوائڈز کو ایف آئی آر اور ڈیٹا کے مطالعہ کے لیے سرگرم کیا جانا چاہیے۔ این سی بی سے کہا گیا ہے کہ وہ منشیات کے کیسز پر ایک ڈیٹا بیس تیار کرے اور بین الاقوامی فوجداری انصاف کے نظام میں بھی بڑے پیمانے پر اعداد شمار اکٹھا کرے اور جنسی مجرموں کے قومی اعداد و شمار بھی تیار کرے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی حکومت میں نیشنل فارنسک سائنس یونیورسٹی اور رکشا شکتی یونیورسٹی قائم کر کے دو بڑے اقدامات کیے ہیں۔ جناب شاہ نے کہا کہ برطانوی دور کی پولیسنگ کا وقت اب ختم ہو گیا ہے ۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ بی پی آر اینڈ ڈی جرائم کا ارتکاب کرنے کے طریقوں سے متعلق ایک بیورو تشکیل دے رہا ہے جسے آئندہ دنوں میں کافی اچھے ڈھنگ سے استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے قانونی اصلاحات کی بھی پہل کی ہے۔ قیدیوں کی شناخت سے متعلق ایک نیا بل پارلیمنٹ کی طرف سے پاس کیا گیا ہے جس پر عمل درآمد ہونا ہے۔ ماڈل جیل قانون بھی بھیجا گیا ہے جس پر عمل درآمد ہونا ہے۔ ایف سی آر اے پر سختی سے عمل درآمد کے لیے بھی ضابطے تشکیل دیئے جا رہے ہیں۔ ہم فوجداری قانون ، آئی پی سی اور شواہد سے متعلق قانون میں بھی اصلاحات کر رہے ہیں۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک اور دنیا نے سبھی کی بدترین وبا کا سامنا کیا ہے ۔ لاکھوں لوگوں کی دنیا بھر میں جانیں چلی گئی پولیس اور سی اے پی ایف کا چار لاکھ سے زیادہ عملہ انفیکشن سے متاثر ہوا اور عملے کے 2700 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔ اسی مدت کے دوران لوگوں نے پولیس کا انسانیت والا چہرہ بھی دیکھا اور سبھی فوجوں نے پولیس کی عمدہ اور قبال ستائش کارکردگی کی بھی مثال دیکھی کہ پولیس قدرتی آفات کے دوران کیا کر سکتی ہے۔ میں اُن 2712 جوانوں کو عاجزی کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے فرائض کی پیش پیش رہتے ہوئے انجام دہی کے دوران وبا سے لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دی۔
۔۔۔
ش ح ۔ اس۔ ت ح ۔
U –4569
(Release ID: 1819154)
Visitor Counter : 211