وزیراعظم کا دفتر

گجرات کے دیودر میں بناس ڈیری میں ترقیاتی اقدامات کے آغاز کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 19 APR 2022 5:37PM by PIB Delhi

نمستے،

آپ سب مزے میں ہیں۔ اب آپ سے معافی مانگ کر مجھے شروع میں تھوڑی ہندی بولنی پڑے گی۔ کیونکہ میڈیا کے دوستوں کی درخواست تھی کہ ہندی میں بات کریں تو بہتر رہے گا، اس لیے مجھے لگا کہ سب نہیں، ان کی کچھ باتیں تو مان لی جائیں۔

گجرات کے مقبول وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، پارلیمنٹ میں میرے سینیئر ساتھی، جناب سی آر پاٹل، گجرات پردیش بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر، گجرات حکومت کے وزیر جناب جگدیش پنچال، اس سرزمین کے بچے، جناب کیرتی سنگھ واگھیلا، جناب گجیندر سنگھ پرمار، ممبران پارلیمنٹ جناب پربت بھائی، جناب بھرت سنگھ ڈابھی، دنیش بھائی اناودیا، بناس ڈیری کے چیئرمین میرے ساتھی بھائی شنکر چودھری، دیگر معززین، بہنو اور بھائیو!

میں ماں نریشوری اور ماں امباجی کی اس پاک سرزمین کو سلام کرتا ہوں۔ آپ سبھی کو میرا سلام! میری زندگی میں شاید پہلی بار ایسا موقع آیا ہو گا کہ ایک ساتھ ڈیڑھ دو لاکھ مائیں بہنیں آج یہاں مجھے آشیرواد دے رہی ہیں، ہم سب پر احسان کر رہی ہیں۔ اور جب آپ بلیاں لے رہے تھے تو میں اپنے احساس پر قابو نہ رکھ سکا۔ آپ کا آشیرواد، ماں جگدمبا کی سرزمین کی ماؤں کا آشیرواد، میرے لیے ایک انمول نعمت ہے، انمول طاقت کا مرکز، انمول توانائی کا مرکز۔ میں بناس کی تمام ماؤں اور بہنوں کے سامنے احترام کے ساتھ جھکتا ہوں۔

بھائیو اور بہنوں،

پچھلے ایک دو گھنٹے میں، میں یہاں کے مختلف مقامات پر گیا ہوں۔ میں نے ڈیری سیکٹر سے متعلق سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والی مویشی پالنے والی بہنوں سے بھی تفصیلی بات چیت کی ہے۔ مجھے اس نئے کمپلیکس کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ میں نے جو کچھ دیکھا، جو بات چیت ہوئی، اس پورے وقت میں مجھے دی گئی معلومات سے بہت متاثر ہوا اور میں ڈیری کے تمام ساتھیوں اور آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ہندوستان میں گاؤں کی معیشت کو کس طرح مضبوط کیا جا سکتا ہے، ماؤں بہنوں کو با اختیار بنایا جا سکتا ہے، کوآپریٹو تحریک کس طرح خود کفیل ہندوستان کی مہم کو تقویت دے سکتی ہے، یہ سب یہاں براہ راست تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ کچھ مہینے پہلے مجھے اپنے پارلیمانی حلقہ وارانسی میں بناس کاشی سنکول کا سنگ بنیاد رکھنے کا موقع ملا۔

میں بناس ڈیری کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ میرے علاقے کاشی میں آ کر بھی وہاں کے کسانوں کی خدمت، مویشی پالنے والوں کی خدمت کے لیے گجرات کی سرزمین سے بناس ڈیری نے تہیہ کر لیا ہے اور اب اسے مجسم کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے میں کاشی کے ایم پی کی حیثیت سے آپ سب کا مقروض ہوں، میں آپ سب کا مقروض ہوں اور اس لیے میں خاص طور پر بناس ڈیری کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج یہاں بناس ڈیری سنکول کے لانچ پروگرام کا حصہ بن کر میری خوشی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

آج یہاں جو بھی افتتاح کیا گیا اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے وہ ہماری روایتی طاقت کے ساتھ مستقبل کی تعمیر کی بہترین مثال ہے۔ بناس ڈیری کمپلیکس، چیز پلانٹس جو ڈیری سیکٹر کی توسیع میں اہم ہیں، بناس ڈیری نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مقامی کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے دیگر وسائل بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

اب بتاؤ کیا آلو اور دودھ کا کوئی تعلق ہے، کیا کوئی تعامل ہے؟ لیکن بناس ڈیری نے یہ رشتہ بھی جوڑا۔ دودھ، چھاچھ، دہی، پنیر، آئس کریم کے ساتھ ساتھ آلو ٹکی، آلو ویج، فرنچ فرائز، ہیش براؤن، برگر پیٹیز، جیسی مصنوعات کو بھی بناس ڈیری نے کسانوں کی طاقت بنا دیا ہے۔ یہ ہندوستان کے لوکل کو گلوبل بنانے کی طرف بھی ایک اچھا قدم ہے۔

ساتھیوں،

آج بناس کنٹھا میں ہم اس کا ماڈل دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح کانکریج گائے، مہسانی بھینس اور آلو کسانوں کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ بناس ڈیری کسانوں کو آلو کا بہترین بیج بھی فراہم کرتی ہے اور آلو کی بہتر قیمت بھی دیتی ہے۔ اس سے آلو کے کاشتکاروں کے لیے کروڑوں روپے کمانے کا ایک نیا میدان کھل گیا ہے۔ اور یہ صرف آلو تک محدود نہیں ہے۔ میں نے مسلسل میٹھے انقلاب کے بارے میں بات کی ہے، جس میں کسانوں کو اضافی آمدنی کے ساتھ شہد سے جوڑنے کے لیے کہا جاتا ہے، جسے بناس ڈیری نے بھی سنجیدگی سے اپنایا ہے۔ میں یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ بناس کنٹھا کی ایک اور طاقت - یہاں کی مونگ پھلی اور سرسوں کو لے کر بھی ڈیری نے ایک زبردست منصوبہ بنایا ہے۔ آپ کی تنظیم خوردنی تیل میں خود کفالت کے لیے حکومت کی مہم کو تیز کرنے کے لیے آئل پلانٹس بھی لگا رہی ہے۔ یہ تیل بیج کے کاشتکاروں کے لیے ایک بڑی ترغیب ہے۔

ساتھیوں،

آج گجرات جس کامیابی کی بلندی پر ہے، ترقی کی جس بلندی پر ہے، ہر گجراتی کو فخر سے بھر دیتا ہے۔ میں نے کل گاندھی نگر کے ودیا سمیکشا کیندر میں بھی اس کا تجربہ کیا۔ گجرات کے بچوں، ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے ودیا سمیکشا کیندر ایک بڑی طاقت بن رہا ہے۔ ہمارے سرکاری پرائمری اسکول کے لیے اتنی بڑی ٹیکنالوجی کا استعمال دنیا کے لیے ایک عجوبہ ہے۔

حالانکہ میں اس شعبے سے پہلے بھی وابستہ رہا ہوں، لیکن کل گجرات حکومت کی دعوت پر خصوصی طور پر گاندھی نگر میں اسے دیکھنے گیا۔ میں ودیا سمیکشا کیندر کے کام کی وسعت، اس میں ٹیکنالوجی کے بہترین استعمال کو دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ ہمارے مقبول وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی کی قیادت میں یہ ودیا سمیکشا مرکز پورے ملک کو سمت دکھانے والا مرکز بن گیا ہے۔

آپ سوچیں، پہلے مجھے وہاں صرف ایک گھنٹے کے لیے جانا تھا، لیکن میں وہاں کی ہر چیز کو دیکھنے اور سمجھنے میں اس قدر مگن تھا کہ ایک گھنٹے کے پروگرام کے ڈھائی گھنٹے وہیں پھنس گیا۔ تو میں نے اس میں دلچسپی لی۔ میں نے اسکول کے بچوں اور اساتذہ کے ساتھ بھی طویل گفتگو کی۔ بہت سے بچے بھی مختلف جگہوں سے منسلک تھے - جنوبی گجرات، شمالی گجرات، کچھ سوراشٹرا سے۔

آج یہ ودیا سمیکشا مرکز توانائی کا مرکز بن گیا ہے، ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ اساتذہ اور گجرات کے 54 ہزار سے زیادہ اسکولوں کے 1.5 کروڑ سے زیادہ طلبا کی کی طاقت کا مرکز بن گیا ہے۔ یہ سنٹر مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، بگ ڈیٹا اینالیسس وغیرہ جیسی جدید سہولیات سے آراستہ ہے۔

ودیا سمیکشا کیندر ہر سال 500 کروڑ ڈیٹا سیٹ کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس میں اسسمنٹ ٹیسٹ، سیشن اینڈ ایگزام، اسکول کی پہچان، بچوں اور اساتذہ کی حاضری سے متعلق کام کیے جاتے ہیں۔ ایک طرح کا ٹائم ٹیبل، سوالیہ پرچہ، پوری ریاست کے اسکولوں میں چیکنگ، ودیا سمیکشا کیندر کا ان سب میں بڑا رول ہے۔ اس سنٹر کی وجہ سے اسکولوں میں بچوں کی حاضری میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

تعلیمی میدان میں یہ جدید مرکز پورے ملک میں بڑی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ میں حکومت ہند کی متعلقہ وزارتوں اور حکام سے بھی کہوں گا کہ وہ ودیا سمیکشا کیندر کا مطالعہ کریں۔ مختلف ریاستوں کی متعلقہ وزارتیں بھی گاندھی نگر آئیں، اس کے انتظامات کا مطالعہ کریں۔ ملک کے جتنے زیادہ بچے ودیا سمیکشا کیندر جیسے جدید نظام کا فائدہ حاصل کریں گے، ہندوستان کا مستقبل اتنا ہی روشن ہوگا۔

اب مجھے لگتا ہے کہ مجھے بناس کی طرح آپ سے بات کرنی چاہیے، سب سے پہلے جب بناس ڈیری میں شامل ہو کر بناس کی سرزمین پر آنا ہو تو جناب گالبا کاکا کے لیے میرا سر احترام سے جھکتا ہے۔ اور 60 سال پہلے کسان کے بیٹے گالبا کاکا نے ایک خواب دیکھا تھا، وہ آج برگد کا ایک بہت بڑا درخت بن چکا ہے، اور اس نے بناس کنٹھا کے گھر گھر ایک نئی معاشی طاقت پیدا کی ہے، اس کے لیے سب سے پہلے میں گالبا کاکا کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میرا بناس کنٹھا کی ماں بہنوں کو دوسرا سلام، میں نے جانور پالنے کا کام دیکھا ہے، میرے بناس کنٹھا کی مائیں بہنیں اپنے جانوروں کی دیکھ بھال اس سے زیادہ پیار سے کرتی ہیں جتنا وہ گھر میں بچوں کو سنبھالتی ہیں۔ جانوروں کو چارہ یا پانی نہ ملے تو خود میرے بناس کنٹھا کی مائیں بہنیں پانی پینے سے کتراتی ہیں۔ کبھی شادی، تہوار کے لیے گھر سے باہر نکلنا ہو، تو بناس کی مائیں بہنیں رشتہ داروں کی شادیاں چھوڑ دیتی ہیں، لیکن جانوروں کو اکیلا نہیں چھوڑتی۔ تو یہ ماؤں بہنوں کی تپسیا کا نتیجہ ہے کہ آج بناس پروان چڑھا ہے۔ اس لیے میرا دوسرا خراج بناس کنٹھا کی ماؤں اور بہنوں کو ہے، میں ان کے سامنے احترام کے ساتھ جھکتا ہوں۔ بناس ڈیری نے کورونا کے دور میں بھی اہم کام کیا، گالبا کاکا کے نام پر میڈیکل کالج بنایا اور اب میری بناس ڈیری کو آلو کی فکر ہے، جانوروں کی فکر ہے، دودھ کی فکر، گائے کے گوبر کی فکر ہے، شہد کی فکر ہے، اور اب بچوں کی تعلیم کا بھی خیال ہے۔ ایک طرح سے بناس ڈیری بناس کنٹھا کی کوآپریٹو تحریک پورے بناس کنٹھا کے روشن مستقبل کا مرکز بن گئی ہے۔ آج بناس ڈیری یوپی، ہریانہ، راجستھان اور اڈیشہ میں سومناتھ کی سرزمین سے جگن ناتھ، آندھرا پردیش، جھارکھنڈ کی سرزمین تک کام کر رہی ہے تاکہ ان کے مویشی پالنے والوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے۔ آج دنیا کے سب سے بڑے دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں جب کروڑوں کسانوں کی روزی روٹی دودھ پر چلتی ہے، تو سال میں کتنی بار اعداد و شمار دیکھے جائیں، کچھ لوگ، بڑے بڑے ماہرین اقتصادیات بھی اس پر توجہ نہیں دیتے۔ ہمارے ملک میں ایک سال میں ساڑھے آٹھ لاکھ کروڑ کا دودھ تیار ہوتا ہے۔ اور ڈیری سیکٹر کا سب سے زیادہ فائدہ چھوٹے کاشتکاروں کو ملتا ہے، جن کے پاس دو بیگھہ، تین بیگھہ، پانچ بیگھہ اراضی ہے، اگر بارش کے آثار نہ ہوں، پانی کی قلت ہو جائے تو ہمارے کسان بھائیوں کا جینا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر جانور پال کر خاندان کا پیٹ پالتے ہیں، اس ڈیری نے چھوٹے کاشتکاروں کا بھی خیال رکھا ہے۔ اور چھوٹے کسانوں کی بڑی فکر کے ساتھ، میں اس سنسکار کے ساتھ دہلی گیا، دہلی میں بھی میں نے پورے ملک کے چھوٹے کسانوں کی بڑی ذمہ داری اٹھانے کا کام کیا۔ اور آج، سال میں تین بار، میں کسانوں کے کھاتوں میں براہ راست دو ہزار روپے جمع کرتا ہوں۔ آج جب حکومت ہند، گجرات کی حکومت، گجرات کی کوآپریٹو موومنٹ یہ سب مل کر ایسے کئی کام کر رہے ہیں، تو میں ان تمام تحریکوں کو دل سے مبارکباد دیتا ہوں۔ اور میں بناس ڈیری کا بھی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے اس موقع کے لیے پسند کیا۔ میرے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اونچی آواز میں کہیں گے، بھارت ماتا کی، آواز زور دار ہونی چاہیے آپ کی۔

 

بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے!

بہت شکریہ!

 

**************

 

ش ح۔ ف ش ع- ج

U: 4440



(Release ID: 1818141) Visitor Counter : 225