صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت
کووڈ – 19 مفروضات بمقابلہ حقائق
میڈیا کی وہ رپورٹیں، جن میں کووڈ – 19 کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد کم بتانے کی بات کی گئی ہے،قطعی غیر درست، بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں
ہندوستان میں ، گرام پنچایت، ضلع اور ریاستی سطح پر جنم اور موت کی جانکاری کے لئے باقاعدہ ایک جامع نظام ہے
بہت سی ریاستوں نے باقاعدگی کے ساتھ اپنے یہاں ہونے والی اموات کی تعداد کو، دوبارہ منظم کیا ہے اور وسیع تر شفاف طریقے سے، اموات کا درست اعداد وشمار فراہم کیا ہے
Posted On:
14 JAN 2022 2:22PM by PIB Delhi
میڈیا میں کچھ ایسی خبریں آرہی ہیں، جن میں یہ الزام لگایا ہے کہ اُن لوگوں کی اصل تعداد کو نمایاں طور پر کم کر کے ظاہر کیا جا رہا ہے، جو کووڈ - 19 کی پہلی دو لہروں میں اس بیماری سے ہندوستان میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ ان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حتمی تعداد وسیع طور پر زیادہ ہو سکتی ہے، جو تقریبا 3 ملین سے بھی تجاوز کرسکتی ہے۔
یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ اس طرح کی خبریں گمراہ کن اور بے بنیاد ہیں۔ وہ حقائق پر مبنی نہیں ہیں اور نوعیت کے اعتبار سے ضرر رساں ہیں۔ ہندوستان میں جنم اور موت کی رپورٹنگ کا ایک انتہائی جامع نظام موجود ہے، جو گرام پنچایت سطح سے ضلع سطح نیز ریاست کی سطح تک باقاعدگی کے ساتھ کام کرتا ہے ۔ یہ تمام مشق ہندوستان کے رجسٹرار جنرل (آر جی آئی) کی مجموعی نگرانی کے تحت کی جاتی ہے۔ مزید بر آں حکومت ہند کووڈ سے ہونے والی اموات کی زمرہ بندی کے لئے ایک جامع تشریح رکھتی ہے، جسے مرکزی طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ کووڈ – 19 سے ہونے والی اموات میں اعداد بقایا جاتا کا اعداد وشمار بڑے پیمانے پر مختلف اوقات میں ریاستوں کے ذریعہ پیش کیا جاتا ہے، جسے باقاعدگی کی بنیادی حکومت ہند کے اعداد شمار کے ساتھ منظم کیا جا رہا ہے۔ ریاستوں کی بڑی تعداد نے باقاعدگی کے ساتھ اپنے یہاں ہونے والی اموات کی تعداد کو دوبارہ منظم کیا ہے اور بقایا اموات کی ایک وسیع شفاف طریقے سے خبریں فراہم کی ہیں۔ لہذا اس طرح کی اموات کو کم تعداد میں رپورٹ سے تعبیر کرنا، بے بنیاد اور بلا توجیح ہے ۔
یہ واضح کیا جاتا ہے کہ ہندوستانی ریاستوں کے درمیان کووڈ کے معاملات کے لوڈ اور منسلک اموات میں واضح فرق ہے۔ تمام ریاستوں کو ایک ہی زمرے میں رکھنے کے مفروضے کا مطلب کم اموات کی خبریں دینے والی اُن ریاستوں کے ساتھ دیگر کے اعداد وشمار کو منسلک کرنا ، جن میں یہ تعداددوبارہ منظم کر کے تبدیل کی جاسکتی ہے، جب کہ غلط نتائج کو درست کیا جاتا ہے۔
مزید بر آں ہندوستان میں کووڈ کی اموات کی خبر دینے کے لئے ترغیب بھی فراہم کی جاتی ہے اور اس طرح ایسے لوگ مالیاتی معاوضے کے لئے اہل ہو تے ہیں۔ لہذا کم تعداد کی رپورٹ کرنے کا موقع کم ہے۔ وبا جیسی پریشان کُن صورت حال کےد وران اصل اموات کی تعداد رپورٹ کی گئی اموات کے مقابلے میں کئی وجوہات کے باعث زیادہ بھی ہوسکتی ہیں اور یہ صحت کے انتہائی جامع نظاموں میں بھی پیش آتا ہے، البتہ ہندوستانی ریاستوں میں سے انتہائی مختلف طرح کے کیسوں کی تعداد اور ماحصل صورت حال سے جمع کردہ معلومات کو تنقید کے نظریئے سے کسی طرح کا تجزیہ کرنا نامکمل اور قطعی غیر درست ہے۔
ہندوستان میں اُن افراد کی اصل تعداد کے بارے میں ، جو ہندوستان میں فوت ہوئے ہیں، نمایاں طور پر کم تعداد بتانے سے متعلق میڈیا کی حالیہ رپورٹس ایک مطالعہ پر مبنی ہیں ، جو نوعیت کے اعتبار سے تفریقی ہے ، کیونکہ کووڈ - 19 بیماری کی علامات کے ساتھ صرف بالغوں کا ہی اس میں احاطہ کیا گیا ہے، لہذا یہ عام آبادی کی نمائندگی نہیں کر سکتا ۔ اس میں انتخاب سے متعلق تفریق بھی سامنے آتی ہے ، چونکہ یہ سروے محدود حیثیت کا اور ایسے لوگوں کے ساتھ کیا گیا ہے، جن کے پاس ٹیلی فون دستیاب ہے اور جو جامع سوالات کا جواب لینے کے لئے وقت نکال سکتے ہیں۔ اسی اعتبار سے اس امر کو شہری علاقوں کی طرف بھی موڑا جا سکتا تھا، جہاں زیادہ تعداد میں معاملات کی خبر فراہم کی گئی اور لہذا بڑے پیمانے پر اس کی رپورٹنگ ہوئی ہے۔ وہ اس طرح کے لوگ ہیں جو مزید آگاہی والے اور وسیع پیمانے پر رپورٹنگ کی تفریق کرنے والے ہیں ۔
میڈیا کی رپورٹوں میں اس مطالعے کو بیان کیا گیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ہر ہفتے تقریبا 2100 بالغ افراد کو اچانک منتقل کیا جاتا تھا، ان رپورٹوں میں یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ انہیں بالغان سے بار بار سوالات کئے گئے تھے یا ان کی تعداد کو بار بار بڑھا کر ایک لاکھ 37000 تک پہنچا دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں معاملات میں نتائج بالکل مختلف ہوں گے۔ میڈیا رپورٹ میں مزید بیان کیا گیا ہے کہ جواب دہی کی شرح 55 فیصد تھی۔ اس سے یہ بات صاف نہیں ہے کہ آیا لوگوں نے بات کرنے سے انکار کردیا اور یا اس کا یہ مطلب ہے کہ ان میں کوئی علامات ہی نہیں تھیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر اعداد وشمار کووڈ کی علامات سے متاثر بالغان سے متعلق ہی جمع کیا گیا ہے ، اس سے مطالعے کی تفریق سامنے آتی ہے اور لہذا یہ عام آبادی کی نمائندگی نہیں کرسکتی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بیان کردہ مطالعہ کا بیانیہ 2020 کے لئے یو این ڈی پی کا تخمینہ ہے۔ یہ اپنے آپ میں سروے ، مردم شماری ، ماڈلس کا ایک مجموعہ ہے، لہذا اس طرح یہ ایک تخمینہ ہے۔ اس پر مبنی یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 3.4 فیصد گھرانے موت کی خبر دیں گے، اسے ہندوستان کے رجسٹرار جنرل (آر جی آئی) کے اعداد وشمار کے ساتھ تقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، جو کہ اس مطالعے میں نہیں کیا گیا ہے۔ مطالعے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جون 2020 سے مارچ 2021 تک صفر سے 0.7 فیصد گھرانے نے کووڈ سے ہونے والی اموات کی خبر دی ، جب کہ وسط اپریل سے جون 2021 تک رپورٹ شدہ اموات 6 فیصد کی اونچائی تک پہنچ گئی۔ اس قلیل مدت کو جون 2020 سے جولائی 2021 تک ہونے والی مجموعی اموات کی تعداد کے پیمانے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ واضح طور پر یہ حساب کتاب کرنے کا واضح درست طریقہ نہیں ہے، کیونکہ یہ ماہانہ جغرافیائی تبدیلیوں کا احاطہ نہیں کرتا۔
علاوہ ازیں میڈیا رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’ہم نے 13500 گھرانوں میں رہنے والے تقریبا اُن 57000 افراد سے اس بات کو یقینی بنایا ہے جو یکم جنوری 2019 کے مطابق قریب ترین گھرانوں میں رہتے ہیں اور جو فوت ہو گئے اور اس صورت حال میں کیا جواب دینے والے نے اس بات کا دھیان رکھا کہ یہ موت کووڈ کے باعث تھی یا پھر یہ کووڈ کے باعث نہیں ہوئی‘‘۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اولین تو نمونے کا سائز بہت کم ہے اور دوئم یہ کہ کسی بھی گھرانے کے ارکان کو کیسے پتہ چلے گا کہ موت کووڈ کے باعث ہوئی ہے۔ اس طرح کے سوالات کو غیر درست طریقے پر پیش کرنا مبہم جواب کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس کے مصنفین نے تخمینے کے تقابل کے لئے تین مختلف وسائل استعمال کئے ہیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ جو وسائلی اعداد وشمار استعمال کیا جا رہا ہے، وہ ذاتی رپورٹنگ کی نمائندگی کرتا ہے اور 10 ریاستوں کے وہ تخمینی اعداد وشمار ، جو دوسرا تخمینہ بنانے کے لئے کار گر ہوں گے اور وہ اصل صورت حال کے کسی بھی صورت میں عکاسی نہیں کریں گے۔ کووڈ ٹریکر سروے کو ، جو خود رپورٹ دینے والا ہے ، زیادہ بہتر قومی نمائندگی اعداد وشمار کے طور پر سمجھنا ، بڑے پیمانے پر غیر درست ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی محسوس کی گئی ہے کہ اس رپورٹ میں تضاد موجود ہے، جس میں مصنفین نے غیر کووڈ کے معاملات میں غیر درجہ بندی کا حوالہ دیا ہے۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ’’2019 کے مقابلے میں ستمبر سے اکتوبر 2020 کے دوران رپورٹ شدہ غیر کووڈ کی اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن اپریل سے جون 2021 کے دوران اس کی واپسی درست تھی‘‘۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ کس طرح غیر کووڈ کی اموات ، جو کہ مجموعی اموات کا ایک ذیلی حصہ ہے، وہ مجموعی اموات سے کس طرح زیادہ ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ کو امریکی اعداد سے ماخذ کیا گیا ہے اور یہ بات واضح نہیں ہے کہ اسے ہندوستانی منظر نامے پر کیسے فٹ کیا جا رہا ہے۔ طبی توجہ کے بغیر دیہی علاقوں میں اموات کے امکانات کے بارے میں بیان وسیع پیمانے پر غیر درست ہے۔ بہت سی ریاستوں میں دیہی علاقوں میں کافی طویل مدت تک کے لئے مرض سے متاثر ہونے کی بہت کم شرح رہی۔ اس مذکورہ مطالعہ میں تخمینوں کو پیش کرنے کے لئے اس امر کا قطعی دھیان نہیں رکھا گیا ہے۔
مزید بر آں خبروں کے مطابق بڑھتی ہوئی اموات کووڈ کے زیادہ اثر والے مدتوں کے مخصوص وقت میں نوٹ کی گئی ہیں، جو کہ تقابلی اعداد کی عکاسی نہیں کرسکتیں، کیونکہ یہ وبا اب بھی جاری ہے۔ اس کے لئے جامع تقابل اور ایسے تخمینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے جو حالیہ اعداد وشمار پر مبنی ہو، اگر دستیاب ہو تواس کے لئے ، بیماری کے پھیلاؤ اور ماضی کے مرض سے متاثر ہونے کے بعد اسپتال میں داخلے اور بیماری کی روک تھام، بیماری کے اثر کی تشخیصی شرح ، بیماری سے متاثر ہونے والی شرح اموات(کووڈ کے باعث ہونے والی اموات کی شرح)،خام شرح اموات وغیرہ جیسے مختلف عناصر ہو سکتے ہیں، جنہیں اعدادسے متعلق بہتر وضاحت کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔
بعض وجوہات کی بنا پر زیادہ اموات کا موضوع صحت عامہ کے نقطہ نظر سے درست اور بہت اہم ہے اور اس کے ضمن میں بہتر پالیسی اقدام اور وسیع نیز پائیدار صحت کے اقدامات کو اختیار کرنے کی نمایاں ضرورت ہے۔ البتہ ایک جاری صورت حال کے دوران کسی بھی وقت زیادہ اموات کے مفروضے قائم کرنے میں تیزی دکھانا ، عوامی صحت نیز اعداد وشمار کے سائنٹسٹوں کی معلو مات کی قیادت والی اکادمی کی مشق سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ انتظامی اور پالیسی سازی کے زمروں کے لئے زیادہ منطقی اور قابل قبول اقدام یہ ہوگا کہ اسے آئندہ مہینوں میں ایس آر ایس یا مردم شماری کے اعداد وشمار جیسی مشقوں سے ابھرنے والے مزید جامع سرکاری اعداد وشمار سے تیار کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۰۰۰۰۰۰۰۰
(ش ح- ا ع- ق ر)
U-472
(Release ID: 1790467)
Visitor Counter : 314