وزیراعظم کا دفتر
پنڈھر پور میں قومی شاہراہ پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب میں وزیر اعظم کی تقریر کا متن
Posted On:
08 NOV 2021 6:24PM by PIB Delhi
رام کرشنا ہری
رام کرشنا ہری
پروگرام میں ہمارے ساتھ موجود مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری جی ، مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ جناب ادھو ٹھاکرے جی، وزارتی کابینہ کے میرے ساتھی جناب نتن گڈکری جی، میرے دیگر ساتھی نارائن رانے جی، راؤ صاحب دانوے جی، رام داس اٹھاولے جی، کپل پاٹل جی، ڈاکٹر بھاگوت کراڑجی، ڈاکٹر بھارتی پوارجی، جنرل وی کے سنگھ جی، مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار جی، مہاراشٹر اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور میرے دوست جناب دیویندر فڑنویس جی، قانون ساز کونسل کے چیئرمین رام راجے نائک جی، مہاراشٹر سرکار کے تمام معزز وزراء، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی پارلیمنٹ ارکان ، مہاراشٹر کے ارکان اسمبلی ، دیگر تمام عوامی نمائندے ، یہاں ہمیں آشرواد دینے کے لئے موجود ہمارے تمام پوجیہ سادھو سنت اور عقیدت مند ساتھیو!
دو دن پہلے مجھے ایشور کی مہربانی سے کیدار ناتھ میں آدی شنکر اچاریہ جی کی نوتعمیر شدہ سمادھی کی سیوا کا موقع ملا اور آج بھگوان وٹھل نے اپنے استھان پنڈھرپور سے مجھے آپ سب کے بیچ جوڑلیا۔اس سے زیادہ خوشی کی اور بھگوان کی کرپا کی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ آدی شنکر اچاریہ جی نے خود کہا ہے۔
مہایوگ پیٹھے/تٹے بھیم رتھیام/ورم پنڈری کائے/داتم مونیندرے/سماگتیہ تیسٹھنتم/ آنند کنند/پربرہما لنگم/ بھجے پانڈورنگم۔
اس کا مطلب ہے کہ شنکر اچاریہ جی نے کہا ہے کہ پنڈھرپور کی اس مقدس زمین میں وٹھل بھگوان سراپا مسرت ہیں۔ اس لئے پنڈھر پور تو آنند کی ہی علامت ہے۔ اور آج تو اس میں سیوا کا آنند بھی ساتھ میں جڑرہا ہے۔ ملااتشے آنند ہوتو آہیں کی، سنت گیا نوباماؤلی انڈی سنت تکوبارا یانچیا،پالکھی مارگاچے آج اود گھاٹن ہوتے آہے۔وارک یاننا ادھک سودھا ترمٹھنارآہے تچ،پڑآپڑ جسے مہڑتوکی ، رستے ہے وکاساچے دوار استے۔ تسے پنڈھری- کڑے جاڑارے ہے مارگ بھاگوت دھرماچی پتا کا آڑکھی اونچ فڈکویڑارے مہامارگ ٹھرتیل۔ پوترمارگ کڑے نیڑارے تے مہادوار ٹھریل۔
ساتھیو! آج یہاں شری سنت گیا نیشور مہاراج پالکھی مارگ اور سنت تکارام مہاراج پالکھی مارگ کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، شری سنت گیانیشور مہاراج پالکھی مارگ کی تعمیر ابھی آپ نے ویڈیو میں بھی دیکھی ہے۔ نتن جی کی تقریر میں بھی سنا ہے، یہ پانچ مرحلوں میں ہوگا اور سنت تکارام مہاراج پالکھی مارگ کی تعمیر تین مرحلوں میں مکمل کی جائے گی۔ ان سبھی مرحلوں میں 350 کلو میٹر سے زیادہ لمبائی کے ہائی وے بنیں گے۔اور اس پر گیارہ ہزار کروڑ روپے سے بھی زیادہ کا خرچ آئے گا۔ اس کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان شاہراہوں کے دونوں طرف پالکھی یاترا کے لئے پیدل چلنے والے عقیدت مندوں کے لئے مخصوص راستے بنائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ آج پنڈھر پور کو جوڑنے والی تقریبا سوا دو سو کلو میٹر طویل قومی شاہراہ کا بھی مبارک آغازہوا ہے۔ اس کی تعمیر پر تقریبا بارہ سو کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ ستارا، کولیارپور، سانگلی،بیجا پور، مراٹھواڑہ کا علاقہ، ان سبھی مقامات سے پنڈھر پور آنے والے عقیدت مندوں کو یہ قومی شاہراہیں بہت مدد پہنچائیں گی۔ایک طرح سے یہ شاہراہیں بھگوان وٹھل کے بھکتوں کی سیوا کے ساتھ ساتھ اس پورے علاقہ کی ترقی کا بھی وسیلہ بنیں گی۔ خاص طورسے اس کے ذریعہ جنوبی ہندوستان کے لئے کنکٹوٹی اور بہتر ہوگی۔ اس سے اب اور زیارہ شردھالو یہاں آسانی سے آسکیں گے اور اس خطے کی ترقی سے متعلق سرگرمیاں بھی تیز ہوں گی۔ میں ان مقدس کاموں سے جڑے ہر شخص کا ابھینندن کرتا ہوں۔ یہ ایسی کوششیں ہیں جو ہمیں روحانی سکون بخشتی ہیں اور ہمیں زندگی کے معنیٰ پتہ چلتے ہیں۔ میں بھگوان وٹھل کے تمام بھکتوں کو اس علاقے سے جڑے سبھی لوگوں کو پنڈھرپور علاقے کی ترقی کی اس مہم کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتاہوں۔ می سرووارک یاننا نمن کرتو، تیانا کوٹی کوٹی ابھیوادن کرتو۔ میں اس کرپا کے لئے بھگوان وٹھل جی کے چرنوں میں اپنا نمن کرتا ہوں، انھیں پوری عقیدت کے ساتھ پرنام کرتا ہوں۔ میں تمام سنتوں کے چرنوں میں بھی اپنا نمن کرتا ہوں۔
ساتھیو!
ماضی میں ہمارے بھارت پر کتنے ہی حملے ہوئے ہیں۔ سیکڑوں سال کی غلامی میں یہ ملک جکڑگیا۔ قدرتی آفات آئیں،آزمائشوں کا سامنا ہوا۔ دشواریاں سامنے آئیں، لیکن بھگوان وٹھل دیو میں ہماری آستھا ایسے ہی ملتی رہی آ ج بھی یہ یاترا دنیا کی قدیم ترین اور سب سے بڑی عوامی یاتراؤں کی شکل میں عوامی تحریک کے طورپر دیکھی جاتی ہے۔ آشاڑھ ایکادشی پر پنڈھر پور یاترا کا نادر منظرکون بھول سکتا ہے۔ ہزاروں لاکھوں شردھالو بس کھنچے چلے جاتے ہیں۔ ہر طرف رام کرشن ہری، پنڈلک وردے ہاری وٹھل اور گیانباتکارام کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ پورے 21 دن تک ایک انوکھا نظم وضبط ایک غیر معمولی تحمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ یاترائیں الگ الگ پالکھی راستوں سے چلتی ہیں لیکن سب کی منزل مقصود ایک ہی ہوتی ہے۔ یہ ہندوستان کی اس عظیم تعلیم کی علامت ہے جو ہماری آستھا کو باندھتی نہیں بلکہ آزاد کرتی ہے، جو ہمیں سکھاتی ہے کہ راستے الگ الگ ہوسکتے ہیں۔ طور طریقے اور سوچ الگ الگ ہوسکتی ہے لیکن ہمارا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ آخر میں تمام پنتھ بھگوان پنتھ ہی ہیں اور اس لئے ہمارے یہاں تو بڑے یقین کے ساتھ شاستروں میں کہا گیا ہے۔ایک ست وپرا:بہودھاودنتی۔
ساتھیو!
سنت تکارام مہاراج جی نے ہمیں منتر دیا ہے اور تکارام مہاراج جی نے کہا ہے :۔وشنومے جگ ویشناوانچا دھرم، بھیدابھید بھرم امنگٹھ ایکاجی تمہی بھگت بھاگوت، کرال تیں ہت ستیہ کرا۔ کونا ہی جواچانہ گھڑو متسر، ورم سرویشور پوجناچے۔
یعنی دنیا میں سب کچھ وشنو مے ہے، اس لئے جیو جیو میں فرق کرنا، بھید بھاؤ رکھنا ہی غلط ہے۔ آپس میں حس نہ ہو، ناراضگی نہ ہو، ہم تمام لوگوں کو برابر مانیں، یہی سچا دھرم ہے۔ اس لئے دنڈی میں کوئی ذات پات نہیں ہوتی، کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا، ہر وار کری یکساں ہے۔ ہروار کری ایک دوسرے کا گروبھاؤہے، گروبہن ہے۔ سب ایک وٹھل کی اولاد ہیں اس لئے سب کی ایک ذات ہے ایک گوتر ہے۔ وٹھل گوتر، بھگوان وٹھل کا دربار سب کے لئے یکساں طور پر کھلا ہوا ہے اور جب میں سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس کہتا ہوں تو اس کے پیچھے بھی تو اسی عظیم روایت کی تحریک ہے، یہی جذبہ ہے۔ یہی جذبہ ہمیں ملک کی ترقی کے لئے ترغیب دیتا ہے۔
ساتھیو!
پنڈھرپور کی آبھااور پنڈھر پور کا تجربہ، سب کچھ ماورائی ہے۔ آپن مہونتو، ماجھے ماہیر پنڈھری ، آہے بھیوریچیا تیری، واقعی پنڈھر پور ماں کے گھر کی طرح ہے۔ لیکن میرے لئے پنڈھر پور سے دو اور بھی بہت خاص رشتے ہیں اور میں سنتوں کے سامنے کہنا چاہتا ہوں، میرا خاص رشتہ ہے۔ میرا پہلا رشتہ ہے گجرات کا، دوارکا کا۔ بھگوان دوارکا دھیش ہی یہاں آکروٹھل کی شکل میں براجمان ہوئے ہیں اور میرا دوسرا رشتہ ہے کاشی کا۔ میں کاشی سے ہوں اور یہ پنڈھر پور ہماری جنوبی کاشی ہے۔اس لئے پنڈھر پور کی خدمت میرے لئے شری نارائن ہری کی خدمت ہے۔ یہ وہ زمین ہے جہاں بھکتوں کے بھگوان آج بھی مجسم براجتے ہیں۔ یہ وہ زمین ہے جس کے بارے میں سنت نام دیوجی مہاراج نے کہا ہے کہ پنڈھر پور تب سے ہے جب دنیا بھی نہیں بنی تھی۔ ایسا اسلئے کہ پنڈھر پور مادی طور سے ہی نہیں بلکہ روحانی طور سے بھی ہمارے اندر بستا ہے۔ یہ وہ زمین ہے جس نے سنت گیانیشور ، سنت نام دیو، سنت تکارام اور سنت ایک ناتھ جیسے کتنے ہی سنتوں کو یُگ سنت بنایا ہے۔ اس زمین نے ہندوستان کو ایک نئی توانائی دی، ہندوستان کو پھر سے بیدار کیا اور ہندوستان کی سرزمین کی یہ خاصیت ہے کہ وقتاً فوقتاً، الگ الگ علاقوں میں ایسی عظیم ہستیاں ظاہر ہوتی رہیں، ملک کو راہ دکھاتی رہیں۔ آپ دیکھئے جنوب میں مدھوا چاریہ ، نمباکارچاریہ، رامانجاچاریہ ہوئے، مغرب میں نرسی مہتا، میرا بائی دھیروبھگت، بھوجا بھگت پریتم ، توشمال میں رامانند، کبیر داس، گوسوامی، تلسی داس، سورداس، گورونانک دیو، سنت ریداس ہوئے۔ مشرق میں چیتنیہ ماپربھو اور شنکر دیو جیسے سنتوں کے خیالات کےمالک کو مالا مال کیا، الگ الگ مقامات، الگ الگ زمانے ، لیکن ایک ہی مقصد۔ سب نے ہندوستان کے عوام میں ایک نئی چیتنا پھونکی۔پورے ہندوستان کو بھکتی کی شکتی سے واقف کرایا۔ اسی جذبے میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ متھرا کے کرشن، گجرات میں دواریکا دھیش بنتے ہیں، اڈپی میں بال کرشن بنتے ہیں اور پنڈھرپور میں آکر وٹھل کے روپ میں پدھارتے ہیں۔ وہی بھگوان وٹھل جنوبی ہندوستان میں کنک داس اور پرندرداس جیسے سنت شاعروں کے ذریعہ ہر شخص سے جڑجاتے ہیں یہی تو بھکتی ہے۔ جس کی طاقت جوڑنے والی طاقت ہے۔ یہی تو ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی بے مثال نظیر ہے۔
ساتھیو!
وارکری آندرلن کی ایک اور خاصیت رہی اور وہ ہے مردوں کے قدم سے قدم ملا کر واری میں چلنے والی ہماری بہنیں، ملک کی ماتر شکتی ، ملک کی استری شکتی پنڈھر کی واری مواقع کی مساوات کی علامت ہے۔ وارکری آندولن کا خاص جملہ ہے ’’بھیدبھاؤامنگٹھ‘‘۔ یہ سماجی ہم آہنگی کا مقصد ہے اور اس یکجہتی میں عورت اور مرد برابر ہیں۔ بہت سے وار کری مردوعورت بھی ایک دوسرے کو ماؤلی نام سے پکارتے ہیں۔ بھگوان وٹھل اور سنت گیانیشور کا روپ ایک دوسرے میں دیکھتے ہیں۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ ماؤلی کا مطلب ہے’ماں‘۔ یعنی ماتر شکتی کا بھی اعتراف ہے۔
ساتھیو!
مہاراشٹر کی زمین میں مہاتما پھولے ویرساورکر جیسے عظیم انسان اپنے کام کو کامیابی کے ساتھ جس مقام تک پہنچاپائے۔ اس سفر میں وارکری آندولن نے جو زمین بنائی تھی اس کا بہت بڑا رول رہا ہے۔ وارکری آندولن میں کون نہیں تھے؟ سنت ساوتا مہاراج، سنت چوکھا، سنت نام دیو مہاراج، سنت گوروبا،سین جی مہاراج، سنت نرہری مہاراج، سنت کانہوپاترا، سماج کا ہر طبقہ وارکری آندولن کا حصہ تھا۔
ساتھیو!
پنڈھر پور انسانیت کو نہ صرف بھگتی اور راشٹر بھگتی کی راہ دکھاتی ہے بلکہ شکتی کی شکتی سے انسانیت کا تعارف بھی کرایا ہے۔ یہاں اکثر لوگ بھگوان سے کچھ مانگنے نہیں آتے۔ یہاں وٹھل بھگوان کا درشن ان کی شکتی ہی زندگی کا مقصد ہے۔ تبھی تو بھگوان یہاں خود بھکتوں کی ہدایت پر صدیوں سے کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہیں۔ بھکت پنڈولیک نے اپنے ماں باپ میں ایشور کو دیکھا تھا۔ ’نرسیوا نارائن سیوا ‘مانا تھا۔ آج تک وہی آدرش ہمارا سماج جی رہا ہے۔ سیوادنڈی کے ذریعہ انسان کی خدمت کو عبارت مان کر چل رہا ہے۔ ہروارکری جس بے لوث جذبے سے بھکتی کرتا ہے اسی جذبے سے بے لوث سیوا بھی کرتا ہے۔’ امرت کلش دان- انّ دان ‘سے غریبوں کی سیوا کا سلسلہ تو یہاں چلتا ہی رہتا ہے، تعلیم اور صحت کے میدان میں آپ سبھی کی سیوا سماج کی طاقت کی ایک مثال ہے ۔ ہمارے یہاں آستھا اور بھکتی کس طرح راشٹر سیوا اور راشٹر بھکتی سے جڑی ہے۔ سیوا دِنڈی اس کی بھی بہت بڑی مثال ہے۔ گاؤں کی ترقی گاؤں کی بہتری، اس کے لئے بھی سیوا دِنڈی بہت بڑا وسیلہ بن چکی ہے۔ ملک آج گاؤں کی ترقی کے لئے جتنے بھی عزم لے کر آگے بڑھ رہا ہے، ہمارے وارکری بھائی بہن اسکی بہت بڑی طاقت ہیں۔ ملک نے سوچھ بھارت ابھیان شروع کیا تھا تو آج وٹھووا کے بھکت نرمل واری ابھیان کے ساتھ اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسی طرح بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ ابھیان ہو، پانی بچانے کے لئے ہماری کوششیں ہوں، ہماری روحانی چیتنا ہمارے قومی ارادوں کو توانائی دے رہی ہے ، اور آج جب میں اپنے وار کری بھائی بہنوں سے بات کررہا ہوں تو آپ سے آشرواد کی شکل میں تین چیزیں مانگنا چاہتا ہوں، مانگ لوں کیا؟ ہاتھ اوپر کرکے بتایئے، مانگ لو ں کیا؟ آپ دیں گے؟ دیکھئے جس طرح سے آپ سب نے ہاتھ اونچا کرکے ایک طرح سے مجھے آشروار دیئے ہیں، آپ کا ہمیشہ مجھ سے اتنا پیار رہا ہے، کہ میں خود کو روک نہیں پارہا ۔ مجھے پہلا آشرواد وہ چاہئے کہ ایک شری سنت گیا نیشور پالکھی مارگ کی تعمیر ہوگی، جس سنت تکارام مہاراج پالکھی مارگ کی تعمیر ہوگی، اس کے کنارے جو خصوصی پیدل راستہ بن رہا ہے اس کے دونوں طرف ہر کچھ میٹر پر سایہ دار درخت ضروری لگائے جائیں۔ یہ کریں گے کیا آپ کام؟ میرا تو سب کی کوشش منتر ہی ہے۔ جب یہ سڑکیں بن کر تیار ہوں گی تو یہ پیڑ بھی اتنے بڑے ہوجائیں گے کہ پورا پیدل راستہ درختوں کے سائے تلے ہوگا۔ میرا ان پالکھی مارگوں کے کنارے پڑنے والے گاؤوں سے اس آندولن کی قیادت کرنے کی درخواست ہے۔ ہرگاؤں اپنے علاقے سے گزرنے والے پالکھی مارگ کی ذمہ داری سنبھالے، وہاں پڑے لگائے، تو بہت جلد یہ کام کیا جاسکتا ہے۔
ساتھیو!
مجھے آپ کا دوسرا آشرواد چاہئے اور دوسرا ٓشرواد مجھے یہ چاہئے کہ اس پیدل مارگ پر ہر کچھ دوری پر پینے کے پانی کی اور وہ بھی پینے کے صاف پانی کی سہولت دی جائے۔ ان مارگوں پر بہت سے پیاؤ بنائے جائیں ، بھگوان وٹھل کی بھکتی میں غرق شردھالو جب پنڈھر پور کی طرف بڑھتے ہیں تو 21 دن تک اپنا سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ پینے کے پیاؤ ایسے بھکتوں کے بہت کام آئیں گے، اور تیسرا ٓشرواد مجھے آج آپ سے ضرور لینا ہے اور مجھے آپ مایوس کبھی نہیں کریں گے۔ تیسرا آشرواد مجھے جو چاہئے وہ پنڈھر پور کے لئے ہے۔ میں مستقبل میں پنڈھر پور کو ہندوستان کے سب سے صاف ستھرے تیرتھ مقام کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہندوستان میں جب بھی کوئی دیکھے کہ بھائی سب سے صاف ستھرا تیرتھ ستھان کون سا ہے تو سب سے پہلے نام میرے وٹھوباکا، میرے وٹھل کی بھومی کا ، میرے پنڈھر پور کا ہونا چاہئے۔ یہ چیز میں آپ سے چاہتا ہوں اور یہ کام بھی جن بھاگیداری سے ہی ہوگا، جب مقامی لوگ صفائی ستھرائی کی مہم کی قیادت اپنی کمان میں لیں گے تبھی ہم اس سپنے کو پورا کرسکیں گے اور میں ہمیشہ جس بات کی وکالت کرتا ہوں ، سب کا پریاس کہتا ہوں، اس کا حصول ایسے ہی ہوگا۔
ساتھیو!
ہم جب پنڈھر پور جیسے اپنے تیرتھ ستھانوں کی ترقی کرتے ہیں۔تو اس سے صرف تہذیبی ترقی ہی نہیں ہوتی بلکہ پورے علاقہ کی ترقی کی راہ کھلتی ہے۔ جو سڑکیں یہاں چوڑی ہورہی ہیں، جو نئی شاہراہیں فروغ دی جارہی ہیں، اس سے یہاں مذہبی سیاحت بڑھے گی، نئے روزگار آئیں گے اور سیوا ابھیان کو بھی رفتار ملے گی۔ہم سبھی کے لئے عقیدت کا مرکز جناب اٹل بہاری واجپئی جی مانتے بھی تھے کہ جہاں ہائی وے پہنچ جاتے ہیں، سڑکیں پہنچ جاتی ہیں وہاں ترقی کا نیا باب کھل جاتا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ انھوں نے سورنم چتر بھج کی شروعات کرائی ، ملک کے گاؤں کو سڑکوں سے جوڑنے کی مہم شروع کی۔ آج اپنے اصولوں پر ملک میں جدید ترین بنیادی ڈھانچے پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ ملک میں صحت کے بنیادی ڈھانچےکو بڑھاوا دینے کے لئے ویلنیس سینٹر کھولے جارہے ہیں، میڈیکل کالج کھولے جارہے ہیں، ڈیجیٹل نظام کو بڑھایا جارہا ہے۔ ملک میں آج نئے ہائی ویز، واٹرویز، نئی ریل لائنیں ، میٹرو لائنیں، جدید ریلوے اسٹیشن، نئے ہوائی اڈے نئے ہوائی راستوں کا ایک بڑا وسیع نیٹ ورک بن رہا ہے۔ ملک کے ہر گاؤں تک آپٹکل فائبر نیٹ ورک پہنچانے کے لئے بھی تیزی سے کام ہورہا ہے۔ ان سارے پروجیکٹوں میں اور تیزی لانے کے لئے پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کی بھی شروعات کی گئی ہے۔ آج ملک سو فی صد کوریج کے ویژن کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہر غریب کو پکامکان، ہر گھر میں بیت الخلاء، ہر کنبے کو بجلی کنکشن، ہر گھر کو نل سے جل اور ہماری ماؤں بہنوں کو گیس کنکشن، یہ سپنے آج سچ ہورہے ہیں، سماج کے غریب ، محروم، دلت ، پسماندہ، درمیانی طبقے کو ان کا سب سے زیادہ فائدہ مل رہا ہے۔
ساتھیو!
ہمارے زیادہ تر وارکری گرو بھاؤتو کسان کنبوں سے آتے ہیں ۔ گاؤں غریب کے لئے ملک کی کوششوں سے آج عام آدمی کی زندگی میں کس طرح سے تبدیلیاں آرہی ہیں آپ سب اسے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے گاؤں غریب سے، زمین سے جڑا ان داتا ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ دیہی اقتصادی بندوبست کا بھی سارتھی ہوتا ہے اور سماج کی ثقافت، قوم کی ایکتا کو بھی مضبوطی دیتا ہے۔ ہندوستان کی سنسکرتی کو، ہندوستان کے آدرشوں کو صدیوں سے یہاں کے دھرتی کے سپوت ہی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایک سچا ان داتا سماج کو جوڑتا ہے ، سماج کو جیتاہے۔ سماج کے لئے جیتا ہے۔آپ سے ہی سماج کی ترقی ہے اور آپ ہی کی ترقی میں سماج کی ترقی ہے۔ اس لئے امرت کال میں ملک کے قراردادوں میں ہمارے ان داتا ہماری ترقی کی اہم بنیاد ہیں۔ اسی جذبے کے ساتھ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔
ساتھیو!
سنت گیانیشور جی نے ایک بہت بڑھیا بات ہم سب کو کہی ہے۔ سنت گیانیشور مہاراج نے کہا ہے۔
دری تانچے تمرجاوو،وشوسرودھرم سوریو پاہو۔ جو جے وانچھل تو تیں لاہو،پرانی جات۔
یعنی کہ دنیا سے برائیوں کا اندھیرا ختم ہو، دھرم کا ، فرض کا سورج پوری دنیا میں طلوع ہو اور ہرجاندار کی خواہش پوری ہوں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم سب کی بھکتی ، ہم سب کی کوشش سنت گیانیشور جی کے ان جذبوں کو ضرور ثابت کریں گے۔ اسی یقین کے ساتھ میں پھر ایک بار سبھی سنتوں کو نمن کرتے ہوئے وٹھوبا کے چرنوں میں نمن کرتے ہوئے آپ تمام لوگوں کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
جے جے رام کرشن ہری
جے رام کرشن ہری
****
U.No:12633
ش ح۔رف۔س ا
(Release ID: 1770166)
Visitor Counter : 281
Read this release in:
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Bengali
,
Manipuri
,
Assamese
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam