وزیراعظم کا دفتر
سورت میں سوراشٹر پٹیل سیوا سماج کی جانب سے تعمیر کردہ ہاسٹل مرحلہ -1 کی بھومی پوجن تقریب میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
15 OCT 2021 2:04PM by PIB Delhi
نئی دہلی۔ 15 اکتوبر نمسکار !
پروگرام میں موجود گجرات کے وزیر اعلی جناب بھوپندر بھائی پٹیل ، مرکزی حکومت میں میرے رفیق کار جناب من سکھ منڈویا، جناب پروشوتھم بھائی روپالا ، درشنا بین ، لوک سبھا کے رکن اور بھارتیہ جنتا پارٹی ، گجرات کے صدر جناب سی آر پاٹل جی ، سوراشٹر پٹیل سیوا سماج کے صدر ، جناب کانجی بھائی ، سیوا سماج کے تمام معزز ممبران ، اور بڑی تعداد میں موجود میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں! 'سوراشٹر پٹیل سیوا سماج' کی جانب سے آج وجے دشمی کے موقع پر ایک نیک کام کی شروعات ہو رہی ہے۔ میں آپ سب کو اور پورے ملک کو وجے دشمی کی بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیوں ،
رام چرتر مانس میں بھگوان شری رام کے عقیدت مندوں کے بارے میں ، ان کے پیروکاروں کے بارے میں بہت ہی درست بات کہی گئی ہے۔ رام چرترمانس میں کہا گیا ہے:
"پربل اودیا تم میٹی آئی
ہار ہیں سکل سلبھ سمودائی "
یعنی بھگوان رام کے آشیرواد سے ، ان کی پیروی سے ، جہالت اور اندھیرے مٹ جاتے ہیں ۔ جو بھی منفی قوتیں ہیں ، انہیں شکست ہوتی ہے۔ اور بھگوان رام کی اتباع کا مطلب ہے – انسانیت کی اتباع ، علم کی اتباع! یہی وجہ ہے کہ گجرات کی سرزمین سے ، باپو نے رام راج کے نظریات پر مبنی معاشرے کا تصور کیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ گجرات کے لوگ ان اقدار کی مضبوطی سے پیروی کر رہے ہیں ، انہیں مضبوط کر رہے ہیں۔ 'سوراشٹر پٹیل سیوا سماج' کے ذریعہ تعلیمی میدان میں آج کی گئی پہل بھی اسی سلسلہ کا ایک حصہ ہے۔آج مرحلہ – 1 ہاسٹل کا بھومی پوجن ہوا ہے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ سال 2024 تک دونوں مرحلوں کا کام مکمل ہو جائے گا۔ کتنے ہی نوجوان ، بیٹے اور بیٹیاں آپ کی ان کوششوں سے نئی سمت حاصل کریں گے ، انہیں اپنے خوابوں کو سچ کرنے کا موقع ملے گا۔ میں ان کوششوں کے لیے سوراشٹر پٹیل سیوا سماج اور خاص طور پر صدر جناب کانجی بھائی اور ان کی پوری ٹیم کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں اس بات سے بھی مطمئن ہوں کہ خدمت کے ان کاموں میں معاشرے کے ہر طبقے کو ساتھ لےکر چلنے کی کی کوشش ہے۔
ساتھیوں ،
جب میں مختلف شعبوں میں خدمات کے اس طرح کے کاموں کو دیکھتا ہوں تو مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ گجرات کس طرح سردار پٹیل کی وراثت کو آگے بڑھا رہا ہے۔ سردار صاحب نے کہا تھا اور ہمیں سردار صاحب کے جملوں کو اپنی زندگی میں باندھ کر رکھنا ہے۔ سردار صاحب نے کہا تھا – ہمیں ذات اور مسلک کو رکاوٹ نہیں بننے دینا ہے۔ ہم سب ہندوستان کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ ہم سب کو اپنے ملک سے محبت کرنی چاہیے ، باہمی پیار اور تعاون سے اپنا مقدر بنانا چاہیے۔ ہم خود اس کے گواہ ہیں کہ کس طرح گجرات نے سردار صاحب کے ان جذبات کو ہمیشہ مضبوط کیا ہے۔ قوم اول ، یہ سردار صاحب کے بچوں کی زندگی کا منتر ہے۔ آپ ملک اور دنیا میں جہاں بھی جائیں ، آپ کو گجرات کے لوگوں میں ہر جگہ یہ زندگی کا منتر نظر آئے گا۔
بھائیو اور بہنو ،
ہندوستان اس وقت اپنی آزادی کے 75 ویں سال میں ہے۔یہ امرت کال ہمیں نئے عزم کے ساتھ ساتھ ان شخصیات کو یاد کرنے کی بھی ترغیب دیتا ہے جنہوں نے عوامی شعور بیدار کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ آج کی نسل کے لیے ان کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ گجرات آج جن بلندیوں پر پہنچا ہے ، اس کےلیے بہت سے ایسے لوگوں کی کفایت شعاری اور تپسیا رہی ہے۔ خاص طور پر تعلیمی میدان میں ، ایسی شخصیات ،جنہوں نے گجرات کے تعلیمی نظام کو مضبوط بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔
ہم سب شاید جانتے ہیں ، وہ شمالی گجرات میں پیدا ہوئے تھے ، اور آج انہیں گجرات کے ہر کونے میں یاد کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک عظیم انسان شری چھگن بھا تھے۔ انہیں پختہ یقین تھا کہ تعلیم ہی معاشرے کو بااختیار بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں ، آج سے 102 سال پہلے ، 1919 میں ، انہوں نے' کڈی' میں' سرو ودیالیہ کیلونی منڈل' کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ چھگن بھائی کی دور اندیشی کا کام تھا، ان کی دور اندیشی تھی ، ان کا وژن تھا ۔ ان کی زندگی کا منتر تھا – کر بھلا ، ہوگا بھلا اور اسی ترغیب کے ساتھ ، وہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو سنوارتے رہے۔ جب گاندھی جی 1929 میں چھگن بھاجی کے منڈل میں آئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ چھگن بھا بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے بچوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد چھگن بھا کے ٹرسٹ میں پڑھنے کے لیے بھیجیں۔
ساتھیوں ،
ملک کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے اپنا حال صرف کرنے دینے والی ایسے ہی ایک اور شخصیت کا ذکر میں کرنا چاہوں گا – وہ تھے بھائی کاکا ۔ بھائی کاکا نے آنند اور کھیڑا کے آس پاس کے علاقے میں تعلیمی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے بہت کام کیاتھا۔ بھائی کاکا خودتو ایک انجینئر تھے ، ان کا کیریئر اچھا چل رہا تھا ، لیکن سردار صاحب کے ایک بار کہنے پر انہوں نے نوکری چھوڑ کر احمد آباد بلدیہ میں کام کرنے آگئےتھے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ چروتر چلے گئے تھے جہاں انہوں نے آنند میں چروتر ایجوکیشن سوسائٹی کا کام سنبھال لیا۔ بعد میں انہوں نے چروتر ودیا منڈل میں بھی شمولیت اختیار کی۔ بھائی کاکا نے اس دور میں ایک دیہی یونیورسٹی کا خواب بھی دیکھا تھا۔ ایک ایسی یونیورسٹی جو گاؤں میں ہو اور جس کے مرکز میں دیہی نظام کے موضوع ہوں ۔ اسی ترغیب کے ساتھ ، انہوں نے سردار ولبھ بھائی ودیا پیتھ کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیاتھا ۔ ایسے ہی بھیکا بھائی پٹیل بھی تھے جنہوں نے بھائی کاکا اور سردار پٹیل کے ساتھ کام کیا تھا ۔
ساتھیوں ،
جو لوگ گجرات کے بارے میں کم جانتے ہیں ، انہیں آج میں ولبھ ودیا نگر کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں کو پتہ نہیں ہوگا ، یہ جگہ کرمسد – باکرول اور آنند کے درمیان واقع ہے۔ یہ جگہ اس لیے تیار کی گئی تھی تاکہ تعلیم کو پھیلایا جاسکے ، گاؤں کی ترقی سے متعلق کاموں میں تیزی لائی جاسکے۔ تجربہ کار سول سروس آفیسر ایچ ایم پٹیل بھی ولبھ ودیا نگر سے وابستہ تھے۔ جب سردار صاحب ملک کے وزیر داخلہ تھے ، تو ایچ ایم پٹیل جی کا شمار ان کے بہت قریبی لوگوں میں ہوتا تھا۔ بعد میں وہ جنتا پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ بھی بنے۔
ساتھیوں ،
ایسے بہت سے نام ہیں جو آج مجھے یاد آ رہے ہیں۔ اگر ہم سوراشٹر کی بات کریں تو ہمارے موہن لال لال جی بھائی پٹیل جنہیں ہم مولا پٹیل کے نام سے جانتے تھے۔ مولا پٹیل نے ایک بہت بڑا تعلیمی کمپلیکس تعمیر کروایا تھا۔ ایک اور موہن بھائی ویرجی بھائی پٹیل جی نے سو سال پہلے 'پٹیل آشرم' کے نام سے ہاسٹل قائم کر کے امریلی میں تعلیمی نظام کو مضبوط بنانے کا کام کیا تھا۔ جام نگر میں کیشوجی بھائی ارجی بھائی ویرانی اور کرشن بھائی بیچر بھائی ویرانی نے کئی دہائیوں پہلے بیٹیوں کی تعلیم کے لیے اسکول اور ہاسٹل بنوائےتھے۔ نگین بھائی پٹیل ، ساکل چند پٹیل ، گنپت بھائی پٹیل جیسے لوگوں کے ذریعہ کی گئی کوششوں کی توسیع آج ہم گجرات کی مختلف یونیورسٹیوں کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ آج کایہ مبارک موقع بھی ان کو یاد کرنے کے لیے بہترین دن ہے۔ اگر ہم ایسے تمام لوگوں کی زندگی کی کہانی پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ انہوں نےکس طرح چھوٹی چھوٹی کوششوں سے کیسے بڑے مقاصد حاصل کیے۔ کوششوں کی یہی اجتماعیت بڑے سے بڑے نتائج لا کر دکھاتی ہے۔
ساتھیوں ،
آپ سب کے آشیرواد سے ، میرے جیسے ایک بہت ہی عام شخص کو ، جس کا کوئی خاندانی یا سیاسی پس منظر نہیں تھا ، جس کے پاس ذات پات کی سیاست کی کوئی بنیاد نہیں تھی ، ایسے مجھ جیسے عام لوگ کو آپ نے آشیرواد دے کر گجرات کی خدمت کرنے کا موقع 2001 میں دیاتھا۔ آپ کے آشیرواد کی طاقت اتنی بڑی ہے کہ آج بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے ، پھر بھی پہلے گجرات کی اور آج پورے ملک کی بے لوث خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے ۔
ساتھیوں ،
'سب کا ساتھ ، سب کا وکاس' کی طاقت کیا ہوتی ہے ، یہ بھی میں نے گجرات سے ہی سیکھا ہے۔ ایک زمانے میں گجرات میں اچھے اسکولوں کی کمی تھی ، اچھی تعلیم کے لیے اساتذہ کی کمی تھی۔ امیہ ماتا کا آشیرواد لے کر ، کھوڑل دھام کا درشن کر کے ، میں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے لوگوں سے تعاون مانگا ، لوگوں کواپنے ساتھ جوڑا۔ آپ کو یاد ہو گا ، گجرات نے اس صورتحال کو بدلنے کے لیے پرویش اتسو کی شروعات کی تھی ۔ اسکولوں میں تعلیم کے معیار کو بڑھانے کے لیے ساکشر دیپ اور گن اتسو شروع کیا گیاتھا۔
اس وقت گجرات میں بیٹیوں کے ڈراپ آؤٹ کا بھی ایک بڑا چیلنج تھا۔ ابھی ہمارے وزیر اعلیٰ بھوپندر بھائی نے اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس کی بہت سی سماجی وجوہات تو تھیں ، لیکن کئی عملی وجوہات بھی تھیں۔ جیسے کتنی بیٹیاں چاہ کر بھی اس لیے اسکول نہیں جا سکتی تھیں کیونکہ اسکولوں میں بیٹیوں کے لیے بیت الخلا نہیں ہوتے تھے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے گجرات نے پنچ شکتیوں سے تحریک حاصل کی – پنچ امرت ، پنچ شکتی یعنی علم کی طاقت ، افرادی قوت ، پانی کی طاقت ، توانائی کی طاقت ، اور دفاعی طاقت! اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے بیت الخلا بنائے گئے۔ ودیا لکشمی بانڈ ، سرسوتی سادھنا یوجنا ، کستوربا گاندھی بالیکا ودیالیہ ایسی کئی کوششوں کا انجام یہ ہوا کہ گجرات میں نہ صرف تعلیم کا معیار بہتر ہوا بلکہ ا سکول چھوڑنے کی شرح میں بھی تیزی سے کمی آئی۔
مجھے خوشی ہے کہ آج بیٹیوں کی تعلیم ، ان کے مستقبل کے لیے کوششیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے ، یہ آپ ہی لوگ تھے جنہوں نے سورت سے پورے گجرات میں بیٹی بچاؤ مہم شروع کی تھی ، اور مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں آپ کے سماج کے لوگوں کے درمیان آتا تھا تو میں اس تلخ بات کو بتائے بغیر کبھی چوکتا نہیں تھا ۔ آپ متفق ہوں ، ناراض ہوں ، اس کی پرواہ کیے بغیر ، میں نے ہمیشہ بیٹیوں کو بچانے کی تلخ بات بتائی تھی۔ اور آج مجھے اطمینان کے ساتھ کہنا ہے کہ آپ سب نے میری بات مان لی ۔ اور جو سفر آپ نے سورت سے شروع کیا تھا ، پورے گجرات میں جا کر ، سماج کے ہر گوشے میں جا کر ، گجرات کے ہر کونے میں جا کر لوگوں سے بیٹی بچانے کی شپتھ دلائی تھی ۔ اور مجھے بھی آپ کی اس عظیم کوشش میں آپ کے ساتھ شامل ہونے کا موقع ملا۔ آپ لوگوں نے بڑی کوشش کی تھی ۔ گجرات نے ، رکشا شکتی یونیورسٹی ، ابھی ہمارے بھوپندر بھائی بہت تفصیل سے یونیورسٹی کا ذکر کر رہے تھے ، لیکن میں بھی اسے دہرانا چاہتا ہوں ، تاکہ آج ہمارے ملک کے لوگ اس پروگرام کو دیکھ رہے ہوں ، تو وہ بھی جان لیں۔ اتنے کم عرصے میں گجرات نے رکشا شکتی یونیورسٹی ، دنیا کی پہلی فارنسک سائنس یونیورسٹی ، لاء یونیورسٹی ، اور دین دیال انرجی یونیورسٹی ، نیز دنیا کی پہلی چلڈرن یونیورسٹی ، ٹیچر ٹریننگ یونیورسٹی ،ا سپورٹس یونیورسٹی ، کامدھینو یونیورسٹی وغیرہ جیسی بہت سے اختراعاتی کام کی شروعات کرکے ملک کو نیا راستہ دکھایا ہے۔ آج گجرات کی نوجوان نسل ان تمام کوششوں کا فائدہ حاصل کر رہی ہے۔ میں جانتا ہوں ، آپ میں سے بیشتر ان سے واقف ہیں اور ابھی بھوپندر بھائی نے بھی یہ بتایا ہے ، لیکن آج میں یہ باتیں آپ کے سامنے اس لیے دہرارہا ہوں کیونکہ آپ نے جن کوششوں میں میرا ساتھ دیا ، آپ میرے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلے ، آپ نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ اس سے حاصل کردہ تجربات آج ملک میں بڑی تبدیلیاں لا رہے ہیں۔
ساتھیوں ،
آج نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ ملک کے تعلیمی نظام کو بھی جدید بنایا جا رہا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں پیشہ ورانہ کورسز کو مقامی زبان میں ، مادری زبان میں پڑھانے کا آپشن بھی دیا گیا ہے۔ بہت کم لوگ سمجھ پا رہے ہیں کہ اس کا کتنا بڑا اثر پڑنے والا ہے۔ گاؤں کا ایک غریب بچہ بھی اپنے خوابوں کو سچ کر سکتا ہے۔ زبان کی وجہ سے اب ان کی زندگی میں رکاوٹ نہیں آئے گی۔ اب تعلیم کا مطلب صرف ڈگریوں تک محدود نہیں ہے بلکہ تعلیم کو مہارت سے جوڑا جا رہا ہے۔ ملک اپنی روایتی صلاحیتوں کو جدید امکانات سے بھی جوڑ رہا ہے۔
ساتھیوں ،
مہارت کی کیا اہمیت ہے ، اسے آپ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ ایک دفعہ آپ میں سے بیشتر لوگ، سوراشٹر میں اپنا گھر چھوڑ کر، کھیت کھلیان، اپنے دوستوں ، رشتہ داروں کو چھوڑ کر ہیرے رگڑنے کے لیے سورت آئے تھے۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں 8-8 ، 10-10 لوگ رہتے تھے۔ لیکن یہ آپ کی مہارت ہی تھی ، یہ آپ کی ہنر مندی ہی تھی ، جس کی وجہ سے آپ لوگ آج اتنی بلندی پر پہنچے ہیں۔ اور اسی لیے پانڈورنگ شاستری جی نے آپ کے لیے کہا تھا – رتن کلاکار۔ ہمارے کانجی بھائی تو اپنے آپ میں ایک مثال ہیں۔ اپنی عمر کی پرواہ کیے بغیر ، اپنی پڑھائی جاری رکھی ، نئی نئی مہارتیں اپنے ساتھ جوڑتے چلے گئے تھے اور شاید آج بھی آپ کانجی بھائی سے پوچھیں گے ، کیا کوئی تعلیم جاری ہے تو ہو سکتا ہے کچھ نہ کچھ تو پڑھتے ہی ہوں گے۔ یہ بہت بڑی بات ہے جناب۔
ساتھیوں ،
ہنر اور ماحولیاتی نظام ،یہ مل کر آج نئے ہندوستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اسٹارٹ اپ انڈیا کی کامیابی ہمارے سامنے ہے۔ آج ہندوستان کے اسٹارٹ اپ پوری دنیا میں اپنی شناخت بنا رہے ہیں ، ہمارے یونیکورنس کی تعداد ریکارڈ بنا رہی ہے۔ کورونا کی مشکل گھڑی کے بعد ہماری معیشت جس تیز رفتاری سے بحال ہوئی ہے اس سے پوری دنیا ہندوستان سے امیدیں وابستہ کیے ہوئی ہے۔ ابھی حال ہی میں ، ایک عالمی ادارے نے بھی کہا ہے کہ ہندوستان ایک بار پھر دنیا کی سب سے تیزرفتار معیشت بننے جا رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ گجرات ہمیشہ کی طرح قوم کی تعمیر کے لیے سب سے آگے رہے گا۔ اب تو بھوپندر بھائی پٹیل جی اور ان کی پوری ٹیم ایک نئی توانائی کے ساتھ گجرات کی ترقی کے اس مشن سے وابستہ ہوگئی ہے۔
ساتھیوں ،
ویسے ، بھوپندر بھائی کی قیادت میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ، آج پہلی بار مجھے گجرات کے لوگوں سے اتنی تفصیل سے خطاب کرنے کا موقع ملا ہے۔ بھوپندر بھائی سے میری شناسائی بطور ساتھی کارکن 25 سال سے زیادہ پرانی ہے۔ یہ ہم سب کے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ بھوپندر بھائی ایک ایسے وزیر اعلیٰ ہیں جو ٹیکنالوجی کی بھی جانکاری رکھتے ہیں اور زمین سے یکساں طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ مختلف سطحوں پر کام کرنے کا ان کا تجربہ گجرات کی ترقی میں بہت مفید ثابت ہوگا۔ کبھی ایک چھوٹی سی بلدیہ کے رکن ، پھر بلدیہ کے چیئرمین ، پھر احمد آباد میٹروپولیٹن بلدیہ کا کارپوریٹر ، پھر احمد آباد میونسپل کارپوریشن کی قائمہ کمیٹی کا چیئرمین ، پھراے یو ڈی اے جیسے معروف ادارے کا چیئرمین تقریبا 25 سالوں تک مسلسل انہوں نے زمینی سطح پر حکمرانی اور انتظامیہ کو دیکھا ہے ، اس کا تجربہ کیا ہے ، اس کی قیادت کی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج ایسا تجربہ کارشخص گجرات کی ترقی کے سفر کو تیز رفتاری سے آگے لے جانےکے لیے گجرات کی قیادت کر رہا ہے۔
ساتھیوں ،
آج ہر گجراتی کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ اتنے طویل عرصے تک عوامی زندگی میں رہنے کے باوجود ، اتنے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کے بعد ، 25 سال تک کام کرنے کے بعد بھی بھوپندر بھائی کے حصے میں کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ بھوپندر بھائی بہت کم بولتے ہیں لیکن اپنے کام میں کبھی کوئی کمی نہیں آنے دیتے۔ایک خاموش ملازم کی طرح، ایک خاموش خدمتگار کی طرح کام کرنا ان کے کام کرنے کا طریقہ ہے۔ بہت کم لوگ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ بھوپندر بھائی کا خاندان ہمیشہ سے روحانیت سے وابستہ رہا ہے۔ ان کے والد روحانی میدان سے وابستہ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اتنے بہترین اقدار کےحامل بھوپندر بھائی کی قیادت میں گجرات ہمہ جہت ترقی کرے گا۔
ساتھیوں ،
آزادی کے امرت مہوتسو کے حوالے سے میری آپ سب سے ایک درخواست ہے۔ اس امرت مہوتسو میں ، آپ سب کو بھی کچھ عہد کرنا چاہیے ، ملک کو کچھ دینے والا مشن شروع کرنا چاہیے۔ یہ مشن ایسا ہوجس کا اثر گجرات کے ہر گوشے میں نظر آنا چاہئے۔ جتنی آپ کی صلاحیت ہے ، میں جانتا ہوں کہ آپ سب مل کر یہ کام کر سکتے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو ملک کے لیے ، معاشرے کے لیے جینا سیکھنا چاہیے ، اس کی ترغیب بھی آپ کی کوششوں کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔ 'سیوا سے سدھی' کے منتر پر عمل کرتے ہوئے ، ہم گجرات اور ملک کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔ مجھے ایک طویل عرصے کے بعد آپ سب کے درمیان آنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ یہاں میں ورچوئل طریقے سے سب کو دیکھ رہا ہوں۔ تمام پرانے چہرے میرے سامنے ہیں۔
اسی نیک خواہشات کے ساتھ ، آپ سب کا بہت بہت شکریہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح ۔ رض ۔ ج ا (
U-1009
(Release ID: 1764246)
Visitor Counter : 224
Read this release in:
English
,
Hindi
,
Marathi
,
Manipuri
,
Bengali
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam