وزیراعظم کا دفتر

پی ایم کسان سماّن ندھی کے تحت مالی فائدے کی قسط کی تقسیم کے موقع پر وزیراعظم کی تقریر  کا متن

Posted On: 09 AUG 2021 3:20PM by PIB Delhi

نئی دہلی،  9  اگست 2021،  

نمسکارجی ،

 گزشتہ کئی روز سے میں حکومت کی الگ الگ اسکیموں کے استفادہ کنندگان سے  بات چیت کر رہا ہوں۔ حکومت نے جو اسکیمیں بنائی ہیں، ان کا فائدہ لوگوں تک کیسے پہنچ رہا ہے، یہ اور بہتر طریقے سے ہمیں پتہ چلتا ہے۔ عوام سے ڈائریکٹ کنکشن کا یہی فائدہ ہوتا ہے۔ اس پروگرام میں حاضر کابینہ کے میرے تمام ساتھیو، ملک بھر کی کئی ریاستوں سے حاضر معزز وزرائے اعلیٰ، لیفٹی ننٹ گورنر اور نائب وزرائے اعلیٰ، ریاستی حکومتوں کے وزراء، دیگر معززین، ملک بھر سے جڑے کسان اور  بھائیو اور بہنو،

آج ملک کے تقریباً 10 کروڑ کسانوں کے بینک کھاتوں میں 19 ہزار 500 کروڑ  روپئے سے بھی زیادہ کی رقم براہ راست ان کے کھاتے میں ٹرانسفر ہو گئی ہے۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کئی اپنے موبائل میں چیک کر رہے ہیں آیا ہے کیا؟  اور پھر ایک دوسرے کو تالی دے رہے ہیں ۔ آج جب بارش کا موسم ہےاور بوائی بھی زوروں پر ہے تو یہ رقم چھوٹے کسانوں کے بہت کام آئے گی۔آج ایک لاکھ کروڑ روپئے کے زرعی انفرااسٹرکچر فنڈ کو بھی ایک سال پورا ہو گیا ہے۔  اس کے ذریعہ سے ہزاروں کسان تنظیموں کو مدد مل رہی ہے۔

بھائیو اور بہنو،   

حکومت کسانوں کو فاضل آمدنی کے ذرائع فراہم کرانے کے لئے نئی نئی فصلوں کو فروغ دینے کے لئے پوری طرح عہد بند ہے۔ مشن ہنی بی ایسی ہی ایک مہم ہے۔ مشن ہنی بی کی وجہ سے ہم نے گزشتہ سال تقریباً 700 کروڑ روپئے کے شہد کا ایکسپورٹ کیا ہے، جس سے کسانوں کو فاضل آمدنی ہوئی ہے۔ جموں و کشمیر کا زعفران تو ویسے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اب حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جموں و کشمیر کا زعفران ملک بھر میں نیفیڈ کی دکانوں پر  دستیاب ہوگا۔ اس سے جموں و کشمیر میں زعفران کی کھیتی کو بہت فروغ ملنے والا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

آپ سبھی سے یہ بات چیت ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔ اب سے چندروز بعد ہی 15اگست آنے والا ہے۔ اس بار ملک اپنا 75 واں یوم آزادی منانے جا رہا ہے۔ یہ اہم مرحلہ ہمارے لئے شان کی بات تو ہے ہی، یہ نئے عزائم، نئے نشانے طے کرنے  کا بھی ایک بہت بڑا موقع ہے۔

اس موقع پر ہمیں یہ طے کرنا ہےکہ آنے والے 25 بر سوں میں ہم بھارت کو کہاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک جب آزادی کے 100سال مکمل کرے گا 2047 میں ،  اس وقت بھارت کی صورت حال کیا ہوگی، یہ طے کرنے میں ہماری زراعت، ہمارے گاؤں، ہمارے کسانوں کا بہت بڑا رول ہے۔ یہ وقت بھارت کی زراعت کو ایک ایسی سمت دینےکا  ہے، جو نئے چیلنجوں کا سامنا کر سکے اور نئے مواقع کا بھر پور فائدہ اٹھا سکے۔

بھائیو اور بہنو،

اس دور میں بہت تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کے ہم سب سبھی گواہ ہیں۔ چاہے موسم اور قدرت سے متعلق تبدیلیاں ہوں، کھانے پینے سے متعلق تبدیلیاں ہوں یا پھر عالمی وبا کے باعث پوری دنیا میں ہونے والی تبدیلیاں ہوں۔ ہم نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں کورونا عالمی وبا کے دوران اس کو محسوس بھی کیا ہے۔ اس دور میں ملک میں ہی کھانے پینے کی عادتوں کے معاملے میں بہت بیداری پیدا ہوئی ہے۔ موٹے اناج کی، سبزیوں اور پھلوں  کی،  مصالحوں  کی، آرگینک  پیداوار کی مانگ میں اب تیزی سےاضافہ ہو  رہا ہے۔ اس لئے ہندوستانی زراعت کو بھی اب بدلتی  ہوئی ضرورتوں اور بدلتی ہوئی مانگ کے حساب سے بدلنا ہی ہے۔ اور مجھے ہمیشہ سے یقین ہے کہ ہمارے ملک کے کسان ان تبدیلیوں کو ضرور اختیار کریں گے۔ 

ساتھیو،

ہم نے اس عالمی کے دوران بھی ہم نے بھارت کے کسانوں کی طاقت دیکھی ہے۔ ریکارڈ پیداوار کے درمیان ،  حکومت نے بھی کوشش کی ہے کہ کسانوں کی پریشانی کم سے کم ہوں۔ حکومت نے زراعت اور اس سے متعلق ہر شعبہ کو  بیج ،  کھاد سے لے کر اپنی پیداوار کو مارکیٹ تک پہنچانےکے لیے ہر ممکن کوشش کی، تدبیر کی۔ یوریا کی سپلائی بلا روک ٹوک رکھی۔ ڈی اے پی،  جس کی قیمتیں میں بین الاقوامی بازار میں اس کورونا کی وجہ سے کئی گنا اضافہ ہوا، اس کا بوجھ بھی ہماری حکومت نے کسانوں پر پڑنے نہیں دیا۔ حکومت نے اس کے لیے فوری طور پر 12 ہزار کروڑ روپے کا انتظام کیا۔

ساتھیو،

حکومت نے خریف ہو یا ربیع سیزن، کسانوں سے  ایم  ایس پی پر اب تک کی سب سے بڑی خریداری کی ہے ۔ اس سے دھان کسانوں کے کھاتے میں تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار کروڑ روپے اور گیہوں کسانوں کے کھاتے میں تقریباً 85 ہزار کروڑ روپے براہ راست پہنچے ہیں۔ کسان اور حکومت کی اس شراکت داری کی وجہ سے  آج  بھارت کے  اناج کے ذخیرے بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن ساتھیوں،  ہم نے دیکھا ہے کہ  صرف گیہوں،  چاول،  چینی میں ہی خود کفیلی  کافی نہیں ہے ،  بلکہ دالوں اور تیل میں بھی خود کفیلی بہت ضروری ہے۔ اور بھارت کے کسان یہ کر کے دکھا سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے جب ملک میں دالوں کی بہت قلت ہوگئی تھی  تو  میں نے ملک کے کسانوں سے دالوں کی پیداوار بڑھانے کی اپیل کی تھی۔ میری اس اپیل کو ملک کے  کسانوں نے تسلیم کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ 6 سالوں میں  دال کی پیداوار میں تقریباً  50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جو کام ہم نے دلہن میں کیا ،  یا ماضی میں گیہوں اور دھان کے ساتھ کیا ،  اب ہمیں وہیں عزم خوردنی تیل کی پیداوار کے لیے بھی کرنا ہوگا۔  خوردنی تیل کے معاملے میں ہمارا ملک  خود کفیل ہو، اس کے لیے ہمیں تیزی سے کام کرنا ہے۔

بھائیو اور بہنو ،

خوردنی تیل کے معاملے خود کفیلی کے لئے اب  قومی خوردنی تیل مشن-آئل پام کا عزم کیا گیا ہے۔ آج ملک بھارت چھوڑو تحریک کو یاد کر رہا ہے ،  تو اس تاریخی دن یہ عزم ہمیں نئی ​​توانائی سے بھر دیتا ہے۔ اس مشن کے ذریعے خوردنی تیل سے  متعلق ایکو سسٹم  پر  11 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ حکومت یہ یقینی بنائے گی کہ کسانوں کو اچھے بیج سے لے کر ٹیکنالوجی، اس کی  ہر سہولیات دستیاب ہو۔ اس مشن کے تحت آئل پام کی کھیتی کو فروغ دینے کے ساتھ  ہی ہماری دیگر  جو روایتی تلہن فصلیں  ہیں ان کی زراعت  کو بھی وسعت دی جائے گی۔

ساتھیو،

آج بھارت زرعی برآمدات کے معاملے میں ، پہلی بار دنیا کے ٹاپ 10 ممالک میں پہنچا ہے۔ کورونا  کے دور میں ہی ملک میں زرعی پیداوار  کی برآمدات کے نئے  ریکارڈ بنائے ہیں۔ آج   جب بھارت پہنچان ایک بڑے زرعی برآمد کار ملک کی بن گئی ہے،  تب ہم خوردنی تیل کی اپنی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کریں، یہ قطعی مناسب نہیں ہے۔ اس میں بھی درآمد شدہ آئل پام کا حصہ 55 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس صورتحال کو ہمیں بدلنا ہے۔ خوردنی تیل خریدنے کے لیے ہمیں جو  ہزاروں کروڑ بیرونی ممالک میں  دوسروں کو دینے پڑتے ہیں، وہ ملک کے کسانوں کو ہی ملنے  چاہیں۔ بھارت میں پام آئل کی زراعت کے لیے تمام ضروری امکان موجود ہیں۔ شمال مشرق اور انڈومان-نیکوبار جزائر میں،  خاص طور پر اس میں  بہت اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں آسانی  سے پام کی کھیتی ہوسکتی ہے۔ پام آئل کی پیدا ہوسکتی  ہے۔

ساتھیو،

خوردنی تیل میں خود کفیلی کے اس مشن کے کئی فوائد ہیں۔ اس سے کسانوں کو تو براہ راست  فائدہ ہوگا ہی،  غریب اور متوسط ​​طبقے کے خاندانوں کو سستا اور اچھی کوالٹی کا تیل بھی ملے گا۔ یہی نہیں ،  یہ مشن بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرے گا ،  فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کو فروغ دے گا۔ خصوصی طور پر فریش فروٹ بنچ  پروسیسنگ سے جڑی  صنعتوں کی توسیع ہوگی۔ جن ریاستوں میں پام آئل کھیتی ہوگی،  وہاں ٹرانسپورٹ سے لے کر فوڈ پروسیسنگ یونٹس میں نوجوانوں کوبہت سے روزگار ملیں گے۔

بھائیو اور بہنو ،

آئل پالم  کی  کھیتی کا بہت بڑا فائدہ ملک کے چھوٹے کسانوں کو ملے گا۔ آئل پام کی فی ہیکٹر پیداوار باقی تلہن فصلوں کے مقابلے میں بہت زیادہ  ہوتی ہے، یعنی آئل پام مشن سے بہت چھوٹے سے حصے میں زیادہ فصل لے کر چھوٹے کسان بڑا منافع کما سکتے ہیں۔

ساتھیو،

یہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ملک کے 80 فیصد سے زیادہ کسانوں کے پاس 2 ہیکٹر تک ہی زمین ہے۔ آنے والے 25 برسوں میں ملک کی زراعت کو فروغ دینے میں ان چھوٹے کسانوں کا بہت بڑا رول رہنے والا ہے۔ اس لیے اب ملک کی زرعی پالیسیوں میں ان چھوٹے کسانوں کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ  پچھلے برسوں میں  چھوٹے کسانوں کو سہولت اور تحفظ فراہم کرانے کی ایک سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے۔ پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت اب تک ایک لاکھ 60 ہزار کروڑ روپے کسانوں کو دیے گئے ہیں۔ اس میں تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے تو کورونا کے مشکل وقت میں ہی چھوٹے کسانوں تک پہنچے ہیں۔ یہی نہیں ،  کورونا کے دوران میں ہی 2 کروڑ سے زیادہ کسان کریڈٹ کارڈ جاری کیے گئے ہیں ،  جن میں سے  زیادہ تر چھوٹے کسان ہیں۔ ان کے ذریعے سے کسانوں نے ہزاروں کروڑ روپے کے قرضے بھی لیے ہیں۔ تصور کیجئے ،  اگر  مدد چھوٹے کسانوں کو نہ ملتی، تو 100 سال کی اس سب سے بڑی آف میں ان کی کیا  حالت ہوتی؟ انہیں چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے کہاں  کہا نہیں بھٹکنا  پڑتا۔

بھائیو اور بہنو ،

آج ،  جو زرعی انفراسٹرکچر بن رہا ہے ،  جو کنکٹی وٹی کا انفراسٹرکچر بن رہا ہے یا جو بڑے فوڈ پارکس  لگ رہے ہیں ،ان کا بہت بڑا فائدہ  چھوٹے کسانوں کو ہی ہورہا ہے۔ آج ملک میں اسپیشل کسان ریل چل رہی ہے۔ ان ٹرینوں سے ہزاروں کسانوں نے اپنی پیداوار کم قیمت میں، ٹرانسپورٹ کا خرچ بہت کم کرکے ملک کی بڑی بڑی منڈیوں تک پہنچا کر زیادہ قیمت میں مال فروخت کیا ہے۔ اسی طرح جو خصوصی انفراسٹرکچر فنڈ  ہے، اس کے تحت چھوٹے کسانوں کے لیے جدید ذخیرے کی  سہولیات تیار ہو رہی ہیں۔ گزشتہ سال ساڑھے چھ ہزار  سے زیادہ پروجیکٹ  منظور ہوچکے ہیں۔ یہ پروجیکٹ جن کو ملے ہیں، ان میں کسان بھی ہیں ،  کسانوں کی سوسائٹی اور کسان پروڈیوسر ایسوسی ایشن بھی ہے ،  سیلف ہیلپ گروپ بھی ہے اور اسٹارٹ اپس بھی ہے۔ حال ہی میں  ایک اور بڑا فیصلہ لیتے ہوئے ،  حکومت نے طے  کیا ہے کہ جو ریاستوں میں ہماری سرکاری منڈیاں ہیں، ان کو بھی اس فنڈ سے مدد مل سکے۔ اس فنڈ کا استعمال کرکے ہماری سرکاری منڈیاں بہتر ہوں گی، زیادہ مضبوط ہوں گی اور جدید ہوں گی۔

بھائیو اور بہنو ،

انفراسٹرکچر فنڈ ہو یا پھر 10 ہزار کسان پروڈیوسر ایسو سی ایشنوں کی تشکیل،  کوشش یہی ہے کہ چھوٹے کسانوں کی طاقت میں اضافہ کیا جائے۔ چھوٹے کسانوں کی بازار تک رسائی بھی زیادہ ہو اور بازار میں سودے بازی کرنے کی ان کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہو۔ جب ایف پی او کے ذریعے  سے  کوآپریٹیو سسٹم سے سیکڑوں چھوٹے کسان  متحد ہوں گے ،  تو ان کی طاقت میں سینکڑوں گنا اضافہ ہو جائے گی۔ اس سے فوڈ پروسیسنگ ہو یا پھر برآمدات، اس میں کسانوں کا دوسروں پر انحصار کم ہوگا ، وہ خود بھی براہ راست بیرونی ممالک میں اپنی پیداوار  فروخت کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ بندھنوں سے آزد ہوکر ملک کے کسان اور تیزی سے آگے بڑھ سکیں گے، اسی جذبے کے ساتھ ،  ہمیں آنے والے 25 سال کے عزائم  کی تکمیل کرنی ہے۔ تہل میں خود کفیلی کے مشن میں ہمیں ابھی سے لگ جانا ہے۔ ایک بار پھر پی ایم کسان سمان ندھی کے تمام استفادہ کنندگان کو میری بہت بہت نیک خواہشات۔ بہت بہت  شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ا گ۔ن ا۔

U-7635

                          


(Release ID: 1744193) Visitor Counter : 285