صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت

بالغ حضرات کے لئے یہ بہت اہم ہے کہ وہ بچوں کی ،ان سے تعلق رکھنے والے مختلف معاملات کے حوالے سے ان کے خیالات اور نظریات پر کھل کر گفتگو کرنے کے لئے ہمت افزائی کریں – ڈاکٹر راجیش ساگر ، پروفیسر ڈپارٹمینٹ آف سائکیٹری ، ایمس اور ممبر ، سینٹرل مینٹل ہیلتھ اتھارٹی


ایک مثبت ماحول ، ترغیب اور سماجی گفتگو کے فقدان سے بچوں پر برا اثر پڑ سکتا ہے

سرپرستوں کو چاہیئے کہ بچوں سے گفتگو کرتے وقت نرمی سے پیش آیئں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اپنے اندر ہونے والی تبدلیوں سے بچے واقف نہ ہوں

ایک محفوظ ماحول بچوں کو موجودہ دماغی صحت سے متعلق تشویشات سے محفو ظ رکھ سکتا ہے – ڈاکٹر راجیش ساگر

Posted On: 23 JUL 2021 11:22AM by PIB Delhi

آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ  آف میڈیکل سائنسز ( ایمس) نئی دہلی کے پروفیسر  اور سینٹرل مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کے رکن  ڈاکٹر راجیش ساگر نے اس بات کی وضاحت کی ہے  کہ عالمی وبا نے کس طرح بچوں کی دماغی صحت کومتاثر کیا ہے اور کس طرح اس کا علاج کیا جا سکتا ہے ۔

 

بچوں کی دماغی صحت کو وبا نے کس طرح متاثر کیا ہے؟

بچے جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے بہت نازک ہوتے ہیں  کسی بھی قسم کا دباؤ، فکر  یا صدمہ ان پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے  جس کے دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔ وبا نے  ان کی معمول کی سرگرمیوں کو یکسر بدل دیا ہے – ان کے اسکول بند ہو چکے ہیں ، تعلیم آن لائن ہو گئی ہے، ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ  ان کی گفتگو  محدود ہو گئی ہے ۔  اس کے علاوہ ایسے بچے بھی ہیں جو اپنے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں ہی کو ،یا رشتےداروں ، یا سرپرستوں کو کھو چکے ہیں ۔

یہ تمام عوامل  بچوں کی دماغی صحت کو متاثر کر سکتے ہیں  جس سے وہ اس جذباتی ماحول  سے محروم ہو جایئں گے  جو ان کی فطری  نشو نما اور ترقی کے لئے لازمی ہے ۔

 

ذہنی دباؤ کے شکار بچوں کو سنبھالنے میں آپ کے سامنے سب سے بڑی پریشانی کیا ہوتی ہے ؟

بالغ افراد کے برعکس   ،  ذہنی دباؤ کا شکار بچے مختلف  طرح کا رد عمل ظاہر کرتے ہیں ۔ کچھ بچوں کا رویہ اڑیل قسم کا ہو جاتا  ہے ، کچھ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ، کچھ کے مزاج میں  جارحیت  آ جاتی ہے جبکہ کچھ ڈیپریشن کا شکار  ہو جاتے ہیں ۔ اس بنا پر بچوں کی دماغی  حالت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم جو کچھ جانتے ہیں وہ یہ حقیقت ہے کہ بچوں کے ارد گرد کا ماحول ان کے جذبات اور مزاج پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اکثر اوقات  کوئی واقعہ  بچوں کے دل میں گھر کر جاتا ہے ۔ گھبراہٹ ، بیماری یا کسی عزیز و قریب کی موت ان پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور اکثرو بیشتر وہ اپنے خوف ، بے چینی اور تشویش کو  بیان کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔

اس بنا پر ، بالغ افراد کے لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ بچوں کے رویے پر نگاہ رکھیں ۔ موجودہ بحران میں  بالغ حضرات کے لئے یہ بہت اہم ہے کہ وہ بچوں کی ،ان سے تعلق رکھنے والے مختلف معاملات کے حوالے سے  ان کے خیالات اور نظریات پر کھل کر گفتگو کرنے کے لئے ہمت افزائی کریں۔  اپنی بات کو کھل کر بیان کرنے میں بچوں کی مدد ، انہیں ایک معاون ماحول فراہم کرکے کی جا سکتی ہے ۔  اگر وہ کھل کر گفتگو نہیں کر سکتے تو ڈرائنگ ، پینٹنگ اور دیگر وسائل کے ذریعہ  اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے ان کی ہمت افزائی کی جا سکتی ہے ۔ بچوں پر وبا کے اثرات کا ازالہ  سیدھے سوالوں کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ۔  سرپرستوں کو چاہیئے  کہ بچوں سے گفتگو کرتے وقت نرمی سے پیش آیئں کیونکہ یہ ممکن ہے  کہ اپنے اندر ہونے والی تبدلیوں سے بچے واقف نہ ہوں۔ اس بنا پر انہیں  خود کوسمجھنے میں  خلا قانہ طرز اختیار کرنے کے لئے انہیں ترغیب دی جانی چاہیے ،لیکن بیماری ، موت اور اسی طرح کے دیگر  مشکل موضوعات پر گفتگو کرتے وقت ان کے ساتھ براہ راست  بات چیت ہونا چاہیے ۔

 

کسی بچے کی زندگی میں ابتدائی پانچ چھ سال بنیاد سازی کا دور کہلاتے ہیں ، جس میں بچے کو اپنے فطری نشو نما اور ترقی کے لئے مختلف قسم کےمحرکات  کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وبا آپ کے بچوں پر کس طرح اثر انداز ہو رہی ہے اور آپ کے خیال  میں اس ا ثر کو  کس طریقے سے کم سے کم کیا جا سکتا ہے ؟

حقیقتاً کسی بچے کی زندگی میں ابتدائی پانچ سال بہت نازک ہوتے ہیں اور ہمیں ان کو ایک ایسا پر مسرت ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں وہ مختلف تفریحی سرگرمیوں میں دلچسپی لیں ۔یہاں تک کہ آن لائن پڑھائی  میں بھی ان کی سرگرمیوں پر مبنی  تعلیم پر توجہ رہنی چاہیے۔ مجھے شدت کے ساتھ اس بات کا احساس ہے  کہ ہمیں ایسے طریقے وضع کرنے چاہیے جو ان کے لئے مسرت بخش اور بے ضرر ہوں تاکہ  ان کے  ذہنوں پر پڑنے والے وبا  کے اثر کو کم سے کم  کیا جا سکے ۔

 

بڑی عمر کے بچے بھی تعلیمی صورت حال کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں ۔ آپ ان کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے ؟

ایسی صورت حال میں ان کا تذبذب کا شکار ہو  جانا  معمول کی بات ہے ۔ وبا نے ان کی تعلیم اور کیرئر کے منصوبوں  کو درہم برہم کر دیا ہے ۔ اس مرحلے پر والدین  ، سرپرستوں اور اساتذہ کا کردار انتہائی اہمیت کاحامل ہو جاتاہے ۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو یہ سمجھایئں کہ اس صورت حال میں وہ ان کے لئے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے ، نیز یہ کہ وہی تنہا اس صورتحال سے دو چار نہیں ہیں  بلکہ دنیا بھر میں بہت سے بچے اسی قسم کی کشمکش کا سامنا کر رہے ہیں ۔ ماں باپ کے لئے اس حقیقت کا اعتراف کرنا اور اس پورے عمل کے دوران بچوں کی مدد کرتے ہوئے  اسے ان تک منتقل کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے  ۔ تعلیمی اداروں نے  بچوں کے امتحانات  کے سلسلے میں کچھ نرمی اختیار کی ہے اور اس بنا پر مجھے امید ہے کہ ہم جلد ہی  اس وقت کو دیکھیں گے جب یہ وائرس بچوں کی تعلیم اور ان کے کیرئر سے متعلق منصوبوں پر منفی طور پر اثر انداز نہیں  ہوگا ۔

 

وبا سے والدین کے کردار پر بھی خاص اثر پڑا ہے ۔ آپ والدین کو کس طرح مشورہ دینا پسند کریں گے ؟

آج کے دور میں ، جبکہ دفتر اور گھر کا درمیانی فاصلہ گھٹتا چلا جا رہا ہے  ، والدین کے لئے  اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات کا دھیان رکھنے کی اضافی ذمہ داری سے عہدہ برآ  ہونا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ مختلف عمر کے بچوں کی ضروریات بھی مختلف ہوتی ہیں ۔ انہیں ماں باپ کی طرف سے وقت ، توجہ ، گفتگو، وسائل اور ایک پر مسرت ماحول درکار ہوتا ہے ۔گھر کا تناؤ بھرا ماحول بچے کی ذہنی حالت پر اثر انداز ہو سکتا ہے ، لیکن ایک بے ضرر اور پر سکون ماحول انہیں ذہنی حالت سے متعلق   موجودہ تشویشات  سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔

بچوں کے ساتھ  کامیابی سے رابطہ  قایم رکھنے کے لئے ماں باپ کے لئے ضروری ہے  کہ وہ اپنے مزاج میں اعتدال برقرار رکھیں ۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو پر سکون رکھنے کے لئے کوشش کریں ۔ انہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ وہ اپنی معمول کی سرگرمیوں میں اس طرح کا توازن پیدا کریں کہ جس سے انہیں بچوں کو مناسب وقت دینے کا موقع مل سکے  ۔

وہ لوگ جو دباؤ کے اثر سے نکلنے میں ناکام رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے کنبے ، دوستوں اور ماہرین کا تعاون حاصل کریں ۔

*************

ش ح۔ س ح۔ ر ب

U. NO. 6892



(Release ID: 1738112) Visitor Counter : 238