وزیراعظم کا دفتر

من کی بات پروگرام کے 78 ویں ایپیسوڈ میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن ( 27 جون ، 2021 ء )

Posted On: 27 JUN 2021 11:43AM by PIB Delhi

نئی دلّی ، 27 جون /  میرے پیارے ہم وطنو  ، نمسکار ! اکثر 'من کی بات' میں ، آپ کے سوالوں کی بوچھاڑ رہتی ہے ۔ اس بار میں نے سوچا کہ کچھ الگ  کیا  جائے ۔ میں آپ سے سوال کروں ۔ تو آپ دھیان سے سنیئے میرے سوال ۔

.... اولمپکس میں انفرادی گولڈ جیتنے والا پہلا ہندوستانی کون تھا؟

.... اب تک کس اولمپک کھیل میں ہندوستان زیادہ سے زیادہ میڈلز جیت چکا ہے؟

... اولمپکس میں کس کھلاڑی نے سب سے زیادہ تمغے جیتے ہیں؟

ساتھیو ،  آپ مجھے  MyGov پر جواب بھیجیں ، جس میں اولمپک پر ، جو کوئز ہے ، اُس میں سوالوں کے جواب دیں گے تو کئی سارے انعام جیتیں گے ۔ ایسے  بہت سارے سوال  MyGov  کے  'روڈ ٹو ٹوکیو کوئز' میں موجود ہیں ۔ آپ 'روڈ ٹو ٹوکیو کوئز' میں حصہ لیں ۔ بھارت نے پہلے کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ؟ ہماری ٹوکیو اولمپک کے لئے کیا تیاری  ہے ؟ یہ سب خود جانیں اور دوسروں کو بھی بتائیں ۔  میں آپ سب سے اپیل کرنا  چاہتا ہوں کہ آپ اس کوئز مقابلے  میں ضرور حصہ لیں۔

ساتھیو ، ، جب بات ٹوکیو اولمپکس کی ہو  رہی ہے تو  بھلا  ملکھا سنگھ جی جیسے لیجنڈری ایتھلیٹ کو کون بھول سکتا ہے! کچھ دن پہلے ہی ، کورونا نے انہیں ہم سے چھین لیا۔ جب وہ اسپتال میں تھے تو مجھے ان  سے بات کرنے کا موقع ملا تھا ۔

 بات کرتے ہوئے میں نے اس سے اپیل کی ،  میں نے کہا تھا کہ آپ نے 1964 ء میں ٹوکیو اولمپکس میں ہندوستان کی نمائندگی کی تھی  ۔  لہٰذا ، اس بار ، جب ہمارے کھلاڑی اولمپکس کے لئے ٹوکیو جارہے ہیں ، آپ کو ہمارے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی ، انہیں اپنے پیغام سے  تحریک دلانا ہے۔ وہ  کھیل کو لے کر  اتنے سرشار اور پرجوش تھے کہ بیماری میں بھی  انہوں نے فوراً ہی اس کے لئے حامی بھردی لیکن بدقسمتی سے قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔  مجھے آج  بھی یاد ہے ،  وہ 2014 ء میں سورت آئے تھے ۔ ہم لوگوں نے ایک نائٹ میراتھن کا افتتاح کیاتھا ۔ اُس وقت اُن سے جو بات چیت ہوئی ، کھیلوں کے بارے میں بات ہوئی  ، اس سے مجھے بھی بہت تحریک ملتی تھی ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ملکھا سنگھ جی کا پورا کنبہ کھیلوں کے لئے وقف رہا ہے ، بھارت کا سر بلند کر تا رہا ہے ۔

ساتھیو ، جب صلاحیت  ، ڈیڈیکیشن ، مستحکم عہد اور اسپورٹس مین اسپرٹ اکٹھے ہوجاتے ہیں ، تب  جاکر کوئی چیمپئن بنتا ہے۔ ہمارے ملک میں ، زیادہ تر کھلاڑی چھوٹے شہروں ، قصبوں ، دیہاتوں سے آتے ہیں۔ ٹوکیو جانے والےہمارے اولمپک دستے میں بھی کئی ایسے کھلاڑی شامل ہیں ، جن کی زندگی بہت تحریک دلاتی ہے ۔ ہمارے پروین جادھو  جی کے بارے میں آپ سنیں گے تو آپ کو بھی محسوس ہوگا کہ آپ کو بھی لگے گا کہ کتنی سخت جدو جہد سے گزرتے ہوئے پروین جی یہاں پہنچیں ہیں ۔ پروین جادھو جی مہاراشٹر  کے ستارا ضلع کے ایک گاؤں  کے رہنے والے ہیں ۔ وہ تیر اندازی کے بہترین کھلاڑی ہیں ۔ ان کے والدین مزدوری کرکے خاندان چلاتے ہیں اور اب ان کا بیٹا اپنا پہلا اولمپکس کھیلنے ٹوکیو جارہا ہے۔ یہ نہ صرف ان کے والدین بلکہ ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے۔ اسی طرح ، ایک اور کھلاڑی ہیں  ، ہماری نیہا گوئل جی۔ نیہا ٹوکیو جانے والی خواتین ہاکی ٹیم کی رکن ہیں۔ ان کی والدہ اور بہنیں فیملی کی کفالت کے لئے سائیکل فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ نیہا کی طرح ، دپیکا کماری کی زندگی کا سفر بھی اتار چڑھاؤ سے بھرپور ہے ۔ دیپیکا کے والد آٹو رکشہ چلاتے ہیں اور ان کی والدہ ایک نرس ہیں اور اب دیکھیں کہ دپیکا اب ٹوکیو اولمپکس میں ہندوستان کی طرف سے اکلوتی خاتون  تیر انداز ہیں۔  کبھی دنیا کی نمبر ایک  تیر انداز رہی دیپکا کے ساتھ ہم سب کی نیک خواہشات ہیں ۔

ساتھیو  ، زندگی میں جہاں بھی ہم پہنچتے ہیں ، جو بھی اونچائی ہم حاصل کرتے ہیں ، زمین کے ساتھ یہ ربط ، ہمیشہ ، ہماری جڑوں سے باندھے رکھتا ہے۔ جدوجہد کے دنوں بعد حاصل ہونے والی کامیابی کی خوشی بھی کچھ اور ہے ۔ہمارے کھلاڑیوں کو ٹوکیو جاتے ہوئے بچپن میں وسائل کی ہر کمی کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن انہوں نے استقامت  کا مظاہرہ کیا۔ اترپردیش کے مظفر نگر کی پرینکا گوسوامی جی کی زندگی بھی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ پرینکا کے والد بس کنڈکٹر ہیں۔ بچپن میں ، پرینکا کو وہ بیگ پسند تھا جو تمغہ جیتنے والوں کو ملتا تھا۔ اس  کی چاہت میں ، انہوں نے پہلی بار ریس واکنگ مقابلے میں حصہ لیا۔ اب ، آج وہ اس کی بڑی چیمپئن ہے۔

بھالا پھینک مقابلے میں حصہ لینے والے شیو پال سنگھ جی بنارس کے رہنے والے ہیں  ۔ ان کا تو پورا خاندان ہی اس کھیل سے جڑا ہوا ہے ۔ ان کے والد، چاچا اور بھائی ، سبھی بھالا پھنکنے کے ماہر ہیں ۔ خاندانی روایت اُن کے لئے ٹوکیو اولمپک میں کام آنے والی  ہے ۔ ٹوکیو اولمپکس  کے لئے جارہے چراغ شیٹی  اور ان کے پارٹنر ساتوِک سائیراج کا حوصلہ بھی ترغیب دینے والا ہے ۔ حال ہی میں چراغ کے نانا جی کا کورونا سے انتقال ہو گیا ہے ۔ ساتوِک بھی خود پچھلے سال کورونا سے متاثر ہو گئے تھے لیکن ان مشکلوں کے بعد بھی یہ دونوں مردوں کے ڈبلز مقابلے میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں  ۔

ایک اور کھلاڑی سے میں آپ کا تعارف کرانا چاہوں گا ۔  یہ ہیں  ہریانہ کے بھیوانی کے منیش کوشک  جی ۔ منیش جی  کھیتی کسانی والے خاندان سے آتے ہیں ۔ بچپن میں کھیتوں میں کام کرتے ہوئے  منیش کو باکسنگ کا شوق ہوگیا۔ آج یہ شوق اسے ٹوکیو لے جا رہا ہے۔ ایک اور کھلاڑی ہیں ، سی اے۔ بھوانی دیوی جی ۔ نام بھوانی ہے اور یہ  تلوار بازی  میں ماہر ہیں ۔ چنئی کی رہنے والی بھوانی  پہلی ہندوستانی فینسر ہیں ، جنہوں نے اولمپک کے لئے کوالیفائی کیا ہے ۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بھوانی جی کی ٹریننگ جاری رہے ، اس کے لئے ان کی والدہ نے اپنے زیورات بھی گروی  رکھ دیئے تھے ۔

ساتھیو  ، ایسے تو اَن گنت نام ہیں لیکن من کی بات میں  ، میں آج صرف چند ناموں کا ہی تذکرہ کروں گا  ۔ ٹوکیو جانے والے ہر کھلاڑی کی اپنی جدوجہد ، برسوں کی محنت ہے۔ وہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ ملک کے لئے جارہے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کو بھارت  کا سر فخر سے بلند کرنا ہوگا اور پھر لوگوں کا دل بھی جیتنا ہے اور اسی  طرح سے ہم اپنے ملک کے شہریوں کو آپ کی صلاح بھی دینا چاہتے ہیں ۔  ہمیں انجانے میں بھی ہمارے اِن  کھلاڑیوں  پر دباؤ نہیں بنانا ہے بلکہ کھلےدل سے ان کا ساتھ دینا ہے ، ہر کھلاڑی کی ہمت افزائی کرنی ہے ۔

سوشل میڈیا پر آپ  #چیئر  4 انڈیا کے ساتھ اپنے ان کھلاڑیوں کو نیک تمنائیں پیش کر سکتے ہیں ۔ اگر آپ کچھ اختراعی کام کرنا چاہتے ہیں  وہ بھی ضرورت مندوں کے لئے دستیاب ہے ۔  ہم سب مل کر ٹوکیو جانے والے اپنے کھلاڑیوں کا تعاون کریں گے ۔ چیئر 4 انڈیا !!! چیئر 4 انڈیا!!!

میرے  ہم وطنوں ،  کورونا کے خلاف ہماری لڑائی جاری ہے لیکن اس لڑائی میں مل کر ہم بہت سارے غیر معمولی سنگ میل بھی حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی ہمارے ملک نے ایک بے مثال کام کیا ہے۔ ویکسین مہم کا اگلا مرحلہ 21 جون کو شروع ہوا اور اسی دن ملک نے بھی 86 لاکھ سے زائد افراد کو مفت ویکسین فراہم کرنے کا ریکارڈ بنایا اور وہ بھی ایک دن میں۔ اتنی بڑی تعداد میں حکومت ہند کی ویکسی نیشن اور وہ بھی ایک دن میں! فطری بات ہے کہ اس پر  بہت  بات چیت ہوئی ہے۔

ساتھیو ،  ایک سال پہلے سب کے سامنے سوال تھا کہ ویکسین کب آئے گی؟ آج ہم ایک دن میں لاکھوں لوگوں کو مفت میں 'میڈ اِن انڈیا' ویکسین دے رہے ہیں اور یہی نیو انڈیا کی طاقت ہے۔

ساتھیو ،  ملک کے ہر شہری کو ویکسین کا تحفظ  حاصل ہونا چاہئے ، ہمیں مسلسل  کوشش کرتے رہنا ہے ، کئی جگہوں پر ویکسین سے متعلق ہچکاہٹ کو ختم کرنے کے لئے کئی ادارے ، سول سوسائٹی کے لوگ آگے آئے ہیں اور سب مل کر بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ چلئے ، ہم بھی آج ایک گاؤں میں چلتے ہیں اور ان لوگوں سے بات کرتے ہیں  ۔ ویکسین کے بارے میں مدھیہ پردیش کے  بیتول ضلع کے  دلاریہ گاؤں چلتے ہیں ۔

وزیر اعظم: ہیلو!

راجیش: نمسکار !

وزیر اعظم: نمستے جی  ۔

راجیش: میرا نام راجیش ہیراوے ، گرام پنچایت ڈُلاریہ ، بھیم پور بلاک  ۔

وزیر اعظم: راجیش جی ، میں نے فون اِس لئے کیا کہ میں جاننا چاہتا تھا کہ ابھی آپ کے گاؤں میں کورونا کی کیا  صورتِ حال ہے؟

راجیش: سر ، یہاں  پر کورونا کی صورتحال تو ابھی ایسا کچھ نہیں ہے یہاں ۔

وزیر اعظم: ابھی لوگ بیمار نہیں ہیں؟

 راجیش : جی ۔

وزیر اعظم: گاؤں کی آبادی کتنی ہے؟  کتنے لوگ ہیں گاؤں میں ؟

راجیش:  گاؤں میں 462 مرد اور 332 خواتین ہیں سر ۔

وزیر اعظم: اچھا ! راجیش جی  آپ نے ویکسین لے لی ہےکیا ؟

راجیش: نہیں سر ، ابھی نہیں لی ہے۔

وزیر اعظم: ارے ! کیوں نہیں لیا؟

راجیش: سر جی ، یہاں پر کچھ لوگ نے ، کچھ واٹس ایپ پر ایسی افواہ ڈال دی کہ اس سے لوگ ڈر گئے  ہیں سر جی ۔

وزیر اعظم: تو کیا آپ کے دل میں بھی ڈر  ہے؟

راجیش: جی سر  ، پورے  گاؤں میں ایسی افواہ  پھیلا دی تھی سر ۔

وزیر اعظم: ارے رے رے ، یہ کیا بات کی آ پ نے ؟ دیکھئے راجیش جی...

 راجیش : جی ۔

وزیر اعظم : میرا آپ کو بھی اور میرے سبھی گاؤں کے بھائی بہنوں کو یہی کہنا ہے کہ ڈر ہے تو نکال دیجئے ۔

راجیش  : جی ۔

وزیر اعظم: ہمارے پور ے  ملک میں 31 کروڑ سے بھی زیادہ لوگوں نے ویکسین کا ٹیکہ لگوا لیا ہے ۔

 راجیش : جی ۔ 

وزیر اعظم: آپ جانتے ہو  نا ، میں نے خود نے بھی دونوں ڈوز لگوا لی  ہیں۔

راجیش: جی سر ۔

وزیر اعظم: ارے میری ماں تو قریب قریب 100 سال کی ہیں ۔ انہوں نے بھی دونوں ڈوز لگوا لی ہیں  ۔کبھی کبھی کسی کو  ، اِس سے بخار وغیرہ آجاتا ہے  لیکن وہ بہت  معمولی ہوتا  ہے ۔ کچھ گھنٹوں کے لئے ہی ہوتا ہے ۔ دیکھئے ویکسین نہیں لینا بہت خطرناک ہو سکتا ہے ۔

 راجیش : جی ۔

وزیر اعظم: اس سے آپ خو د کو تو خطرے  میں ڈالتےہی  ہیں، ساتھ ہی میں اپنے کنبے اور اپنے گاؤں کو بھی خطرے  میں ڈال سکتے ہیں۔

 راجیش : جی ۔

وزیر اعظم: اور راجیش جی ، اس لئے جتنا جلدی ہو سکے ، ویکسین لگوا لیجئے اور گاؤں میں سب کو بتائیے کہ بھارت سرکار کی طرف سے مفت ویکسین دی جا رہی ہے اور 18 سال کی عمر  سے  اوپر کے سبھی لوگوں کے لئے یہ مفت ویکسینیشن ہے ۔

راجیش: جی جی۔

وزیر اعظم: تو آپ بھی لوگوں کو گاؤں میں یہ بتائیے اور گاؤں میں اِس طرح کے   ڈر کی تو کوئی وجہ ہی نہیں ہے   ۔

راجیش: وجہ یہی ہے سر ، کچھ لوگوں نے ایسی غلط افواہ پھیلا دی ، جس سے لوگوں میں بہت ہی خوف پھیل گیا ہے ۔ مثلاً ، جیسے ویکسین کو لگانے سے بخار کا آنا ، بخار سے اور بیماری پھیل جانا  ، مطلب آدمی کی موت ہو جانے تک کی افواہ پھیلائی گئی ہے ۔

وزیر اعظم: اوہ ہو ہو .... دیکھئے آج تو ریڈیو پر ، ٹی وی پر اتنی ساری خبریں ملتی ہیں اور اس لئے لوگوں کو سمجھانا بہت آسان ہو جا تا ہے  اور دیکھئے ، میں آپ کو بتاؤں ، بھارت کے بہت سے گاؤں ایسے ہیں ، جہاں سبھی لوگ ویکسین لگوا چکے ہیں یعنی گاؤں کے صد فی صد لوگوں نے ویکسین لگوا لی ہے ۔ جیسے میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں ۔

راجیش : جی ۔

وزیر اعظم: کشمیر میں باندی پورہ ضلع ہے ۔  اس باندی پورہ ضلع میں ایک  ویان گاؤں کے لوگوں نے مل کر 100 فی صد ویکسین کا ہدف بنایا اور اُسے پورا بھی کر لیا ۔ آج کشمیر کے اِس گاؤں کے 18 سال سے زیادہ عمر کے سبھی لوگ ویکسین لگوا چکے ہیں ۔ ناگالینڈ کے بھی تین گاؤوں کے بارے میں مجھے پتہ چلا ہے کہ وہاں بھی سبھی لوگوں نے 100 فی صد ٹیکہ لگوا لیا ہے ۔

راجیش: جی ... جی ...

وزیر اعظم: راجیش جی ، آپ کو بھی اپنے گاؤں ، اپنے آس پاس کے گاؤوں میں یہ بات پہنچانی چاہیئے اور جیسا کہ آپ بھی کہتے ہیں یہ  افواہ ہے ، بس یہ افواہ ہی ہے ۔

راجیش: جی ...  جی ...

وزیر اعظم: تو افواہ کا جواب  یہی ہے کہ آپ خود کو ٹیکہ لگواکر دوسروں کو سمجھائیں  سب کو ۔ کریں گے نا آپ ؟

راجیش: جی سر ۔

وزیر اعظم: پکاّ کریں گے ؟

راجیش: جی  سر ، جی  سر۔ آپ سے بات کرنے سے مجھے ایسا لگا کہ میں خود بھی ٹیکہ  لگواؤں  اور لوگوں کو بھی  اس کے بارے میں بتاؤں ۔

وزیر اعظم: اچھا  ، گاؤں میں اور بھی کوئی ہے ، جن سے میں بات کرسکتا ہوں؟

راجیش: جی ہے سر ۔

وزیر اعظم: کون بات کرے گا؟

کشوری لال: ہیلو سر  ... نمسکار !

وزیر اعظم: نمستے جی  ، کون بول رہے ہیں؟

کشوری لال: سر  ، میرا نام ہے کشوری لال دُروے ۔

وزیر اعظم: تو کشوری لال جی ،  ابھی راجیش جی سے بات ہو رہی  تھی۔

کشوری لال: جی سر ۔

وزیر اعظم: اور وہ تو بڑے دکھی ہو کر کے بتا رہے تھے کہ ویکسین کولے کر لوگ الگ الگ باتیں کرتے ہیں ۔

کشوری لال: جی ۔

وزیر اعظم: آپ نے بھی ایسا سنا ہےکیا؟

کشوری لال: ہاں ... سناتو ہے سر ویسے ...

وزیر اعظم: کیا  سنا ہے؟

کشوری لال: چونکہ یہ ہے سر  ،  یہ پاس میں مہاراشٹر ہے ، اُدھر سے کچھ رشتہ دار سے جڑے لوگ ، مطلب کچھ افواہ پھیلاتے ہیں کہ ویکسین لگانے سے لوگ سب مر رہے ہیں ۔ کوئی بیمار ہورہا ہے ۔ افواہوں کی وجہ سے ، لوگ ویکسین نہیں لگوا رہے ہیں۔

وزیر اعظم: نہیں ..  کہتے کیا ہیں ؟ اب کورونا چلا گیا  ،  ایسا کہتے ہیں؟

کشوری لال: جی ۔

وزیر اعظم:  کورونا سے  کچھ نہیں ہوتا ہے، ایسا کہتے ہیں ؟

کشوری لال: نہیں ، کورونا چلا گیا ، نہیں بولتے سر ، کورونا تو  ہے  بولتے ہیں ، لیکن ویکسین لینے سے بیماری ہو رہا ہے ، سب مر رہے ہیں ۔  یہ صورتحال بتاتے ہیں سر وہ ۔

وزیر اعظم: اچھا ویکسین کی وجہ سے مر رہے ہیں ؟

کشوری لال: اپنا علاقہ قبائلی علاقہ ہے سر ، ایسے بھی لوگ یہاں جلد ی  خوفزدہ  ہوجاتے ہیں .. اس لئے افواہ پھیلنے کی وجہ سے لوگ ویکسین نہیں لگوا رہے سر ۔

وزیر اعظم: دیکھئے  کشوری لال  جی ...

کشوری لال: جی ہاں  سر ...

وزیر اعظم: یہ افواہیں پھیلانے والے لوگ تو افواہیں پھیلاتے رہیں گے۔

کشوری لال: جی ۔

وزیر اعظم: ہمیں تو زندگی تو  بچانی ہے ، ہمیں اپنے گاؤں کے لوگوں کو بچانا ہے ، ہمیں اپنے ہم وطنوں کو بچانا ہے اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ کورونا چلا گیا ہے ، تو اس افواہ   میں مت آیئے ۔

کشوری لال: جی ۔

وزیر اعظم: یہ بیماری ایسی ہے ، جو شکل بدلتی ہے ۔

کشوری لال: جی سر ۔

وزیر اعظم: یہ اپنی شکل بدلتی ہے ... یہ نئی شکلیں لینے کے بعد پہنچ جاتی ہے۔

کشوری لال: جی ۔

وزیر اعظم: اور اس سے بچنے کے لئے ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ ایک تو کورونا کے لئے بنایا ہوا پروٹوکول ، ماسک پہننا ، صابن سے بار بار ہاتھ دھونا، فاصلہ رکھنا اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ویکسین کا ٹیکہ بھی لگوایا جائے ، یہ بھی ایک اچھی حفاظتی شیلڈ ہے ، پھر اس کی فکر کریں۔

کشوری لال: جی ۔

وزیر اعظم: اچھا کشوری لال جی ، یہ بتائیے ۔

کشوری لال: جی سر ۔

وزیر اعظم: جب لوگ آپ سے بات کرتے ہیں تو آپ لوگوں کو کیسے سمجھاتے ہیں؟ کیا آپ سمجھانے کا کام  کرتے ہیں کہ آپ بھی افواہوں میں پڑ جاتے ہیں؟

کشوری لال: سمجھائیں کیا  ،  وہ لوگ زیادہ  ہو  جاتے ہیں  تو سر ہم بھی  ڈر جاتے  ہیں نا سر ۔

وزیر اعظم: دیکھئے  کشوری لال جی ، آج میں نے آپ سے بات کی ہے ، آپ میرے ساتھی ہیں۔

کشوری لال: جی سر ۔

وزیر اعظم: آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور آپ کو لوگوں کا خوف  بھی دور کرنا ہے۔ نکالوگے ؟

کشوری لال: جی سر ۔  نکالیں گے سر ، لوگوں کا  خوف  بھی دور کریں گے  سر ۔ خود بھی  لگواؤں گا ۔

وزیر اعظم: دیکھئے  ، افواہوں پر بالکل  دھیان نہ دیں۔

کشوری لال: جی ۔

وزیر اعظم: آپ جانتے ہیں  ، ہمارے سائنسدانوں نے کتنی محنت کرکے ، یہ ویکسین بنائی ہے ۔

کشوری لال: جی سر ۔

وزیر اعظم: سال بھر ، رات اور دن  ، بڑے بڑے سائنسدانوں نے کام کیا ہے اور اس لئے ہمیں سائنس پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔ سائنس دانوں پر بھروسہ کرنا چاہیئے اور ان جھوٹ پھیلانے والے لوگوں کو بار بار سمجھانا  چاہئے کہ دیکھئے بھائی  ، ایسا نہیں ہوتا ہے ، اتنے  لوگوں نے ویکسین لی ہے ، کچھ نہیں ہوتا ہے۔

کشوری لال: جی ۔

وزیر اعظم: اور  افواہوں سے ب بچنا  چاہئے ، گاؤں کو بھی بچانا چاہئے۔

کشوری لال: جی

وزیر اعظم: اور راجیش جی ، کشوری لال جی ،  آپ جیسے اپنے ساتھیوں سے  میں کہوں گا کہ آپ ،  اپنے گاؤں میں ہی  نہیں ، اور گاؤوں میں  بھی ، ان افواہوں کو روکنے کا کام کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ  مجھ سے  بات  ہوئی  ہے۔

کشوری لال: جی سر ۔

وزیر اعظم: بتا دیجئے ، میر انام بتا دیجئے ۔

کشوری لال:  بتائیں گے  سر اور  لوگوں کو سمجھائیں گے  اور خود بھی لیں گے ۔

وزیر اعظم: دیکھئے  ، آپ کے پورے گاؤں کو میری  طرف سے نیک خواہشات دیجئے ۔

کشوری لال: جی سر ۔

وزیر اعظم: اور سب کو بتائیں کہ جب بھی آپ کا نمبر آئے گا ...

کشوری لال: جی ...

وزیر اعظم: ویکسین ضرور لگوائیں ۔

کشوری لال: ٹھیک ہے سر ۔

وزیر اعظم: میں چاہوں گا کہ گاؤں کی خواتین کو ، ہماری ماؤں اور بہنوں کو  ...

کشوری لال: جی سر

وزیر اعظم: اس کام میں زیادہ سے زیادہ جوڑیئے اور انہیں  فعال طور پر اپنے  ساتھ رکھیئے ۔

کشوری لال: جی

وزیر اعظم: بعض اوقات مائیں بہنیں باتیں کرتی ہیں اور لوگ جلدی سے راضی ہوجاتے ہیں۔

کشوری لال: جی

وزیر اعظم: آپ کے گاؤں میں ، جب ٹیکہ کاری پوری ہو جائے گی تو مجھے بتائیں گے آپ ؟

کشوری لال: ہاں ، بتائیں گے سر ۔

وزیر اعظم: پکاّ  بتائیں  گے؟

کشورہ لال: جی

وزیر اعظم: دیکھئے  ، میں انتظار کروں گا آپ کے خط کا ۔

کشوری لال:  جی سر ۔

وزیر اعظم: چلئے راجیش جی ، کشور جی بہت بہت شکریہ۔ آپ سے بات کرنے کا موقع ملا۔

کشوری لال: شکریہ  سر  ، آپ نے ہم سے بات کی ہے۔ آپ کا بھی بہت شکریہ۔

 

ساتھیو ، کبھی نہ کبھی  ، اس دنیاکے لئے کیس اسٹڈی کا موضوع بنے گا   کہ اس کورونا دور میں ہندوستان کے دیہاتوں ، ہمارے جنگل میں رہنے والے قبائلی بھائیوں اور بہنوں نے کس طرح اپنی صلاحیت  اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ گاؤں کے لوگوں نے قرنطینہ مرکز بنائے ،  مقامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کووڈ پروٹوکول بنائے ، گاؤں کے لوگوں نے کسی کو بھوکا نہیں سونے دیا ۔ کھیتی کا کام بھی نہیں رکنے دیا ۔ نزدیک کے شہروں میں دودھ ، سبزیاں ہر روز پہنچاتے رہے ۔ گاؤں نے یہ بھی یقینی بنایا ، خود کو سنبھالا اور دوسروں کو بھی سنبھالا ۔  اسی طرح ، ہمیں ویکسی نیشن مہم میں یہی کام جاری رکھنا ہے۔ ہمیں  بیدار رہنا ہو گا  اور ہمیں بیدار کرنا  بھی ہوگا۔گاؤوں  میں ہر ایک شخص کو ٹیکہ لگ جائے ، یہ ہر گاؤں کا ہدف ہونا چاہئے۔ یاد رکھئے  ، اور میں آپ کو خاص طور پر بتانا چاہتا ہوں۔ آپ اپنے ذہن میں ایک سوال پوچھئے  - ہر کوئی کامیاب ہونا چاہتا ہے لیکن فیصلہ کن کامیابی کا منتر کیا ہے؟ فیصلہ کن کامیابی کی کلید مستقل مزاجی ہے ۔ لہٰذا ، ہمیں سست روی کی ضرورت نہیں ہے ، کسی بھی فریب میں مبتلا نہ ہوں۔ ہمیں کوشش کرتے رہنا ہے ، ہمیں کورونا پر فتح حاصل کرنا ہوگی۔

   میرے پیارے ہم وطنو ، اب ہمارے ملک میں مانسون کا موسم بھی آگیا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو نہ صرف ہمارے لئے بارش ہوتی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے  بھی بارش ہوتی ہے۔ بارش کا پانی زمین میں بھی جمع ہوتا ہے ، اس سے زمین کے اندر پانی کی سطح  بھی بہتر ہوتی ہے۔ اور اسی لئے میں پانی کے تحفظ کو قوم کی خدمت کی ایک شکل سمجھتا ہوں۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا ، ہم میں سے بہت سے لوگ اس خوبی کو اپنی ذمہ داری سمجھ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص اتراکھنڈ کے پوڑی گڑھوال کے سچیدانند بھارتی جی ہیں۔ بھارتی جی ایک استاد ہیں اور انہوں نے اپنے کاموں کے ذریعہ لوگوں کو بہت اچھی تعلیم دی ہے۔ آج ، ان کی محنت کی وجہ سے ، پوڑی گڑھوال کے علاقے  افریں کھال علاقے میں پانی کا بڑا بحران ختم ہوگیا ہے۔ جہاں لوگ پانی کےلئے ترستے تھے ، ، آج وہاں سارا سال پانی کی فراہمی رہتی ہے۔

ساتھیو ،  پہاڑوں میں پانی کے تحفظ کا ایک روایتی طریقہ رہا ہے ، جسے  ‘ چال کھال ’ بھی کہتے ہیں ، یعنی پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ایک بڑا گڑھا کھودنا۔ اس روایت میں ،  بھارتی  جی نے کچھ نئے طریقوں کو بھی شامل کیا۔ انہوں نے لگاتار  بڑے اور چھوٹے تالاب تعمیر کیے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف افریں کھال  کی پہاڑی ہری بھری  ہوگئی ، بلکہ لوگوں کے پینے کے پانی کا مسئلہ بھی دور ہوگیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بھارتی جی  ایسے 30 ہزار سے زیادہ  چھوٹے بڑے تالاب بنوا چکے ہیں 30 ہزار! ان کا یہ  ساجھیداری کا کام آج بھی جاری ہے اور بہت سے لوگوں کو تحریک دے رہے ہیں ۔

ساتھیو ،  اسی طرح یوپی کے باندا ضلع کے اندھاو گاؤں کے لوگوں نے بھی ایک مختلف کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنی مہم کو ایک بہت ہی دلچسپ نام دیا ہے۔ '' کھیت کا پانی کھیت میں ، گاؤں کا پانی گاؤں  میں ''۔ اس مہم کے تحت گاؤں کے کئی سو بیگھا کھیتوں میں اونچی  اونچی میڑھ بنائی گئی ہیں۔ اس وجہ سے بارش کا پانی کھیت میں جمع ہونا شروع ہوگیا ، اور زمین میں جانے لگا۔ اب یہ  لوگ کھیتوں کے میڑھوں پر  درخت لگانے کا بھی منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یعنی ، اب کسانوں کو پانی ، درخت اور پیسہ تینوں  ملے  گا ۔ اپنے اچھے کاموں سے ، پہچان  تو اُن کے گاؤں کی  ویسے بھی دور ور تک ہو ہی رہی ہے ۔

ساتھیو  ، ان سب سے متاثر ہوکر ، ہم اپنے ارد گرد پانی کی ، جس طرح بھی بچت کرسکتے ہیں ، ہمیں اسے بچانا چاہئے۔ مانسون کے  اس اہم موسم کو ہمیں گنوانا نہیں  چاہئے۔

میرے پیارے ہم وطنو  ، ہمارے شاستروں میں  کہا گیا ہے –

‘‘ ناستی مولم  انوشدھم ’’

یعنی،  زمین پر ایسا کوئی پودا نہیں ہے ، جس میں کوئی نہ کوئی  دواؤں  کی خصوصیات نہ ہو! ہمارے آس پاس ایسے بہت سے درخت اور پودے ہیں، جن کی حیرت انگیز خصوصیات ہیں  لیکن کئی بار ہمیں ان کے بارے میں پتہ ہی نہیں ہوتا ۔ مجھے نینی تال سے ایک ساتھی ، بھائی پریتوش نے اسی موضوع پر ایک خط بھیجا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ  انہیں گلوئے اور دوسرے کئی پودوں کی  اتنی معجزاتی طبی خصوصیات کےبارے میں  کورونا آنے کے بعد ہی پتہ چلا ہے! پریتوش نے مجھ سے  زور دے کر کہا ہے  کہ میں 'من کی بات' کے تمام  سامعین سے کہوں کہ آپ اپنے آس پاس موجود پودوں کے بارے میں جانیئے  اور دوسروں کو بھی بتائیے ۔ حقیقت میں  یہ ہمارا  قدیم  ورثہ ہے ، جس کا ہمیں احترام کرنا ہے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کے ستنا کے ایک ساتھی ہیں ، جناب رام لوٹن کشواہا جی ۔ انہوں نے ایک بہت ہی قابل ستائش کام کیا ہے۔ رام لوٹن جی نے اپنے  کھیت میں ایک دیسی  میوزیم بنایا ہے۔ اس میوزیم میں انہوں نے  سینکڑوں  طبی  پودے اور بیج اکٹھے کیے ہیں۔ وہ انہیں دور دراز سے یہاں لائے ہیں۔ اس کے علاوہ ، وہ ہر سال کئی طرح کی بھارتی  سبزیاں  بھی اگاتے ہیں۔  رام لوٹن جی کے اس باغ کو   ، اس دیسی میوزم کو لوگ  دیکھنے کے لئے بھی آتے ہیں  اور اس سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔ درحقیقت ، یہ ایک بہت اچھا تجربہ ہے ،جسے ملک کے مختلف  حصوں  میں بھی کیا جا سکتا  ہے۔ میں چاہوں گا ، آپ میں سے ، جو لوگ یہ اس طرح کی کوشش کر سکتے ہیں ، وہ ضروری کریں ۔ اس سے آپ کی آمدنی کے نئے وسائل میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے ۔ ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ مقامی پودوں کے ذریعے سے آپ کے علاقے کی پہچان بھی  بڑھے گی ۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج سے کچھ دنوں بعد یکم جولائی کو ہم ڈاکٹروں کا قومی دن منائیں گے۔ یہ دن ملک کے عظیم ڈاکٹر اور اسٹیٹس مین ڈاکٹر بی سی رائے کی یوم پیدائش کے موقع سے منایا جاتا ہے۔ کورونا کے دور میں ہم سب ڈاکٹروں کے تعاون کے شکر گزار ہیں۔ ہمارے ڈاکٹروں نے اپنی زندگی کی پروا نہ کرتے ہوئے ہماری خدمت کی ہے۔ اس لئے اس بار ‘نیشنل ڈاکٹرز ڈے’ اور بھی خاص ہو جاتا ہے۔

ساتھیو، طب کے میدان میں دنیا کے سب سے معزز لوگوں میں سے ایک ہپوکریٹس نے کہا ہے:

‘‘جہاں کہیں بھی فن طب سے محبت پائی جاتی ہے وہاں انسانیت سے محبت بھی پائی جاتی ہے۔ ’’

یعنی جہاں آرٹ آف میڈیسن سے محبت ہے وہیں انسانیت سے بھی محبت ہے۔ ڈاکٹر اسی محبت کی طاقت کے ساتھ ہماری خدمت کرپاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بھی اسی محبت کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ تاہم ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ڈاکٹروں کی مدد کے لئے آگے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ مجھے سری نگر سے اسی طرح کی ایک کوشش کے بارے میں پتہ چلا ہے۔ یہاں ڈل جھیل پر ایک بوٹ ایمبولینس سروس شروع کی گئی ہے۔ اس سروس کا آغاز سری نگر کے طارق احمد پتلو جی نے کیا جو ایک ہاؤس بوٹ کے مالک ہیں۔ انہوں نے خود کوویڈ-19 کے لئے جدوجہد کی ہے اور اس سے انہیں ایمبولینس سروس شروع کرنے کی تحریک ملی۔ وہ اس ایمبولینس سے لوگوں کو حساس بنانے کی مہم بھی چلا رہے ہیں اور وہ ایمبولینس سے مسلسل اعلان بھی کر رہے ہیں۔ کوشش یہی ہے کہ لوگ ماسک پہننے سے لے کر تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

ساتھیو، ڈاکٹرز ڈے کے ساتھ ساتھ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس ڈے بھی یکم جولائی کو منایا جاتا ہے۔ میں نے چند سال قبل ملک کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس سے عالمی سطح کی بھارتی آڈٹ فرموں سے ایک تحفہ مانگا تھا۔ آج میں انہیں اس کی یاد دلانا چاہتا ہوں۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس معیشت میں شفافیت لانے کے لئے بہت اچھا اور مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ میں تمام چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس اور ان کے خاندان کے افراد کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، کورونا کے خلاف بھارت کی جنگ کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ملک کے ہر شخص نے اس لڑائی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ میں نے اکثر ‘من کی بات’ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں اتنی بات نہیں ہوپاتی ہے۔ بہت سے لوگ خواہ وہ بینک کا عملہ ہوں، اساتذہ ہوں، چھوٹے تاجر ہوں، دوکاندار ہوں، دکانوں کے ملازم ہوں، گلیوں میں کام کرنے والے ہوں، ریہڑی پٹری والے بہن بھائی ہوں، سیکورٹی چوکیدار ہوں، یا ڈاکیے اور ڈاک خانے کے ملازمین ہوں—یہ فہرست بہت طویل ہے اور ہر ایک فرد نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ انتظامیہ و حکومت میں بھی کتنے ہی لوگ مختلف سطحوں پر جٹے ہوئے ہیں۔

ساتھیو، آپ نے گرو پرساد مہاپاترا جی کا نام سنا ہوگا جو بھارت سرکار میں سکریٹری تھے۔ میں آج ‘من کی بات’ میں ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ گروپرساد جی کو کورونا ہوگیا تھا، انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا اور وہ وہاں بھی اپنا فرض ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے ملک میں آکسیجن کی پیداوار بڑھانے، دور دراز علاقوں تک پہنچانے کے لئے دن رات کام کیا۔ ایک طرف کورٹ کچہری کا چکر، میڈیا کا دباؤ، وہ بیک وقت کئی محاذوں پر لڑتے رہے، انہوں نے بیماری کے دوران کام کرنا بند نہیں کیا۔ منع کرنے کے بعد بھی انہوں نے آکسیجن سے متعلق ویڈیو کانفرنس میں شرکت پر اصرار کیا۔ انہیں اہل وطن کی فکر تھی۔ وہ اسپتال کے بستر پر اپنی پروا کیے بغیر ملک کے لوگوں کو آکسیجن پہنچانے کے لئے انتظام میں جٹے رہے۔ یہ ہم سب کے لئے نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس کرم یوگی سے بھی ملک محروم ہوگیا، کورونا نے انہیں ہم سے چھین لیا ہے۔ ایسے بے شمار لوگ ہیں جن پر کبھی بات نہیں کی گئی۔ اس طرح ہر ایک کو ہمارا خراج تحسین یہ ہوگا کہ کوویڈ پروٹوکول پر مکمل طور پر عمل کیا جائے، ویکسین ضرور لگوائیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، من کی بات کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں مجھ سے زیادہ آپ سب کا حصہ ہوتا ہے۔ ابھی میں نے مائی گوو (MyGov) پر ایک پوسٹ دیکھی جو چنئی کے ترو آر گروپرساد جی کی ہے۔ اسے جان کر آپ کو بھی اچھا لگے گا کہ انہوں نے کیا لکھا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ‘من کی بات’ پروگرام کو باقاعدگی سے سنتے ہیں۔ اب میں گروپرساد جی کی پوسٹ کی کچھ سطروں کو کوٹ کر رہا ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے:

جب بھی آپ تمل ناڈو کے بارے میں بات کرتے ہیں تو میری دل چسپی مزید بڑھ جاتی ہے۔

آپ نے تمل زبان اور تمل ثقافت، تمل تہواروں اور تمل ناڈو کے نمایاں مقامات کی عظمت کے بارے میں بات کی ہے۔

گرو پرساد جی مزید لکھتے ہیں کہ: ‘من کی بات’ میں میں نے تمل ناڈو کے لوگوں کی کام یابیوں کے بارے میں بھی کئی بار ذکر کیا ہے۔ تروکورل سے آپ کی محبت اور تروولور جی کے لئے آپ کے احترام کا تو کیا کہنا ہے۔ چناں چہ میں نے تمل ناڈو کے بارے میں آپ کی تمام باتوں کو 'من کی بات' سے مرتب کیا ہے اور ایک ای بک تیار کی ہے۔ کیا آپ اس ای کے بارے میں کچھ کہیں گے اور اسے نمو ایپ پر ریلیز بھی کریں گے؟ شکریہ۔ '

میں آپ کے سامنے گروپرساد جی کا خط پڑھ رہا تھا۔

گروپرساد جی، آپ کی یہ پوسٹ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ آپ اپنی ای بک میں اب ایک اور صفحہ شامل کرلیجئے۔

..' نان تمل کلا چارکتن پیریے ابھیمانی

نان اُلگتلئے پلمایاں تمل میلین پیریے ابھیمانی...'

تلفظ اور ادائیگی میں ضرور کوئی خامی رہی ہوگی تاہم میری کوشش اور میری محبت کبھی کم نہیں ہوگی۔ میں ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں جو تمل بولنے والے لوگ نہیں ہیں کہ میں نے گروپرساد جی سے کہا ہے:

میں تمل ثقافت کا بہت بڑا مداح ہوں۔

میں تمل زبان کا بہت بڑا مداح ہوں جو دنیا کی سب سے پرانی زبان ہے۔

ساتھیو، دنیا کی سب سے پرانی زبان ہمارے ملک کی ہے، اس پر ہر بھارتی کو فخر محسوس کرنا چاہیے۔ مجھے تمل پر بھی بہت فخر ہے۔ گرو پرساد جی، آپ کی کوشش مجھے ایک نیا وژن دینے والی ہے۔ کیوں کہ جب میں 'من کی بات' کرتا ہوں تو میں سادہ انداز میں بات کرتا ہوں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا بھی ایک عنصر تھا۔ جب آپ نے تمام پرانی چیزیں اکٹھا کیں تو میں نے اسے ایک بار نہیں بلکہ دو بار پڑھا۔ گروپرساد جی، میں آپ کی کتاب کو نمو ایپ پر ضرور اپ لوڈ کروں گا۔ آپ کی مستقبل کی کوششوں کے لئے آپ کو نیک خواہشات۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم نے کورونا کی مشکلات اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں بات کی، ہم نے ملک اور اہل وطن کی بہت سی کام یابیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ اب ہمارے پاس ایک اور بڑا موقع ہے۔ 15 اگست بھی آنے والا ہے۔ آزادی کا 75 سالہ امرت مہوتسو ہمارے لئے ایک بہت بڑی تحریک ہے۔ آئیے ہم ملک کے لئے جینا سیکھیں۔ جنگ آزادی ملک پر جان نچھاور کرنے والوں کی داستان ہے۔ ہمیں آزادی کے بعد کے اس دور کو ان لوگوں کی داستان بنانا ہے جو ملک کے لئے جیتے ہیں۔ ہمارا منتر انڈیا فرسٹ ہونا چاہیے۔ ہمارے ہر فیصلے ہر ارادے کی بنیاد ہونا چاہیے—انڈیا فرسٹ۔

ساتھیو، امرت مہوتسو میں بھی ملک نے کئی اجتماعی اہداف مقرر کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں اپنے مجاہدین آزادی کو یاد کرکے ان سے وابستہ تاریخ کو زندہ کرنا ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 'من کی بات' میں میں نے نوجوانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ تحریک آزادی کی تاریخ لکھیں، تحقیق کریں۔ خیال یہ تھا کہ نوجوان ٹیلنٹ کو آگے آنا چاہیے، نوجوانوں کی سوچ، نوجوانوں کے خیالات کو آگے آنا چاہیے، نوجوانوں کا قلم نئی توانائی کے ساتھ لکھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ بہت کم وقت میں ڈھائی ہزار سے زیادہ  نوجوان اس کام کو کرنے کے لئے آگے بڑھے ہیں۔ ساتھیو، دل چسپ بات یہ ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی کی جنگ کی بات تو عام طور پر ہوتی رہتی ہے لیکن یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی میں جو نوجوان پیدا ہوئے ہیں، میرے ایسے نوجوان ساتھیوں نے انیسویں اور بیسویں صدی کی جنگ آزادی کو عوام کے سامنے رکھنے میں پیش قدمی کی ہے۔ ان تمام لوگوں نے مائی گوو (MyGov) پر مکمل تفصیلات بھیجی ہیں۔ یہ لوگ ہندی، انگریزی، تمل، کنڑ، بنگالی، تیلگو، مراٹھی، ملیالم، گجراتی جیسی ملک کی مختلف زبانوں میں جدوجہد آزادی پر لکھیں گے۔ کوئی آزادی کی جدوجہد سے وابستہ اپنے ارد گرد کے مقامات کے بارے میں معلومات اکٹھا کر رہا ہے، تو کوئی آدیباسی مجاہدین آزادی پر کتاب لکھ رہا ہے۔ یہ ایک اچھی شروعات ہے۔ میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ امرت مہوتسو میں جیسے بھی شامل ہوسکتے ہوں، ضرور ہوں۔ آزادی کی 75 ویں سالگرہ کا گواہ بننا ہمارے لیے  اعزاز کی بات ہے۔ چناں چہ اگلی بار جب ہم 'من کی بات' میں ملیں گے تو ہم امرت مہوتسو کے لئے مزید تیاریوں پر بھی بات کریں گے۔ آپ سب صحت مند رہیں، کورونا سے متعلق احتیاطی اصولوں پر عمل کریں، آگے بڑھیں، اپنی نئی نئی کوششوں سے ملک کو ایسے ہی رفتار دیتے رہیں۔ انھی نیک خواہشات کے ساتھ۔ بے حد شکریہ۔

 

۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔

( ش ح ۔ و ا  ۔  ع ا  ۔ ع ر ۔ ع ا ۔27.06.2021 )

U.No. 5943


(Release ID: 1730727) Visitor Counter : 1059