وزیراعظم کا دفتر

پیداوار سے مربوط مراعات کی اسکیم کے موضوع پر ویبینار میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 05 MAR 2021 3:28PM by PIB Delhi

 

نمسکار!

اتنی بڑی تعداد میں بھارت کے ہر کونے سے اس اہم ویبینار میں آپ کی شرکت اپنے آپ میں اس ویبینار کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ میں آپ سب کا تہ دل سے استقبال کرتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس بار بجٹ کے نفاذ کے حوالے سے ایک خیال ذہن میں آیا، ہم ایک نیا تجربہ کررہے ہیں ، اور اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو شاید مستقبل میں بھی اس کا بہت فائدہ ہوگا۔ اب تک ایسے بہت سارے ویبینار ہوچکے ہیں۔ مجھے بجٹ کے سلسلے میں ملک کے ایسے ہزاروں افراد سے گفت و شنیدکا موقع ملا ہے۔

ویبینار دن بھر چلے ہیں، اور بہت اچھا روڈ میپ، نفاذ کے لیے بہت اچھی تجاویز آپ سب کی طرف سے آئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت سے زیادہ آپ لوگ بہت تیزی سے دو قدم  اور آگے بڑھنے کے موڈ میں ہیں۔ یہ بذات خود میرے لیے بہت خوش گوار خبر ہے،  اور مجھے یقین ہے کہ آج کی بحث میں بھی ہم  نے یہ یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ ملک کی بجٹ سازی اور ملک کے لیے پالیسی سازی محض ایک حکومتی عمل نہیں ہونےچاہئیں۔ ملک کی ترقی میں شامل ہر فریق کی اس میں موثر شمولیت ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں  یہ گفت و شنید آپ تمام اہم ساتھیو کے ساتھ ہو رہی ہے جنھوں نے مینوفیکچرنگ شعبے میک ان انڈیا کو توانائی بخشی ہے۔ پچھلے ہفتوں میں، جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا، مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ بہت نتیجہ خیز بات چیت ہوئی ہے، بہت اہم اختراعی تجویز یں آئی ہیں۔ آج کے ویبینار کا فوکس خاص طور پر پروڈکشن لنکڈ مراعات پر ہے۔

ساتھیو،

پچھلے چھ سات برسوںمیں، میک ان انڈیا کی مختلف سطحوں پر حوصلہ افزائی کے لیے متعدد کامیاب کوششیں کی گئیں ہیں۔ ان سب کے لیے آپ کا تعاون قابل تحسین ہے۔ اب  ان کوششوں کو اگلی سطح تک لے جانے کے لیے مزید بڑے بڑے اقدامات کرنا ہوں گے، جن سے ہماری رفتار اور بہت کچھ بڑھ جائے گی۔ اور کورونا کے پچھلے ایک سال کے تجربے کے بعد  مجھے یقین ہے کہ یہ صرف بھارت کے لیے ہی ایک موقع نہیں ہے۔ یہ بھارت کے لیے دنیا کی ذمہ داری ہے، یہ دنیا پر بھارت کی ذمہ داری ہے۔ اور اس لیے ہمیں بہت تیزی سے اس سمت میں آگے بڑھنا ہے۔ آپ سبھی بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح مینوفیکچرنگ معیشت کے ہر جز میں تبدیلی لاتی ہے، یہ کس طرح ان پر اثرات  مرتب کرتی ہے، ایکو سسٹم کس طرح تشکیل پاتا ہے۔ ہمارے پاس پوری دنیا سے ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں مختلف ممالک نے اپنی مینوفیکچرنگ کی صلاحیتوں میں اضافہ کرکے ملک کی ترقی کو مہمیز کیا ہے۔ مینوفیکچرنگ کی صلاحیتوں میں اضافہ  ملک میں روزگار کے مواقع کو بھی بڑھاتا ہے۔

بھارت بھی اب اس اپروچ کے ساتھ بہت تیزی سے کام کرنا چاہتا ہے، آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ ہماری حکومت اس شعبے میں مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے یکے بعد دیگرے اصلاحات کررہی ہے۔ ہماری پالیسی اور حکمت عملی ہر لحاظ سے واضح ہے۔ ہماری سوچ ہے کہ کم سے کم حکومت ہو، اور زیادہ سے زیادہ حکم رانی ہو، اور ہماری توقع زیرو ایفیکٹ، زیرو ڈیفیکٹ  والی ہے۔ بھارت کی کمپنیاں اور بھارت میں کی جارہی مینوفیکچرنگ کو عالمی طور پر مسابقتی بنانے کے لیے ہمیں دن رات ایک کرنا ہوگا ۔ ہماری پیداواری لاگت، مصنوعات کے معیار اور کارکردگی کو عالمی منڈی میں تسلیم کروانے کے لیے ہمیں مل  جل کر کام کرنا ہوگا۔ اور ہماری مصنوعات کو صارف دوست بھی ہونا چاہیے، ٹکنالوجی میں انھیں جدید ترین ہونا چاہیے، سستا ہونا چاہیے، ایک طویل وقت کے لیے پائیدار ہونا چاہیے۔ ہمیں بنیادی صلاحیت والے شعبوں میں زیادہ سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔ اور ظاہر ہے،  انڈسٹری میں آپ سبھی ساتھیو ں کی فعال شرکت اتنی ہی اہمیت کی حامل  ہے۔ حکومت آپ سب کو اس فوکس کے ساتھ لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔  خواہ یہ کاروبار میں آسانی پر زور دینا ہو، تعمیلات کے بوجھ کو کم کرنا ہو، لاجسٹک کی لاگت کو کم کرنے کے لیے ملٹی موڈل بنیادی ڈھانچہ بنانا ہو یا ضلعی سطح پر برآمداتی ہب کی تعمیر ہو، ہر سطح پر کام ہو رہا ہے۔

ہماری حکومت کا ماننا ہے کہ ہر کام میں حکومتی مداخلت کرنے سے حل کے بجائے مزید پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اور اسی وجہ سے ہمارا زور خود انضباطی (سیلف ریگولیشن)، خود توثیقی (سیلف اٹیسٹنگ)، خود استنادی (سیلف سرٹیفیکیشن) پر ہے، یعنی ملک کے شہریوں پر ایک طرح سے بھروسا کرنے پر ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ رواں سال مرکزی اور ریاستی سطح پر 6 ہزار سے زیادہ تعمیلات کو کم کیا جائے۔ اس سلسلے میں، آپ کی رائے، آپ کے مشورے بہت اہم ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو ویبینار میں اتنا وقت نہ ملے، آپ مجھے تحریری طور پر بھی رائیں بھیج سکتے ہیں۔ ہم اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں کیونکہ تعمیل کا بوجھ کم کرنا ضروری ہے۔ ٹکنالوجی آگئی ہے، بار بار یہ فارم پُر کریں، وہ فارم پُر کریں، مجھے خود ان چیزوں سے آزاد ہونا ہے۔ اسی طرح مقامی سطح پر برآمدات کو فروغ دینے کے لیے آج حکومت بہت سے علاقوں میں برآمد کنندگان اور پروڈیوسروں کو عالمی پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ چاہے وہ ایم ایس ایم ایز  ہوں، کاشتکار  ہوں، چھوٹے دستکار ہوں،  سب کو اس سے برآمد کے لیے بہت مدد ملے گی۔

ساتھیو،

ہمارے یہاں پروڈکشن لنکڈ انوینسیٹیو اسکیم کے پیچھے مینوفیکچرنگ اور برآمدات بڑھانے کا بھی احساس ہے۔ دنیا بھر کی مینوفیکچرنگ کمپنیاں بھارت کو اپنا اڈہ بنائیں اور ہماری گھریلو صنعت، ہمارے ایم ایس ایم ای کی تعداد اور صلاحیت کو  توسیع ملے ، اگر اس سوچ کے ساتھ ہم اس ویبینار میں ٹھوس منصوبے مرتب کرسکتے ہیں تو  جس فلسفہ سے بجٹ آیا ہے، وہ نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ اس اسکیم کا مقصد مختلف شعبوں میں بھارتی صنعتوں کی بنیادی قابلیتوں اور برآمدات میں عالمی سطح پر موجودگی کے دائرہ کار میں اضافہ کرنا ہے۔ محدود جگہ پر، محدود ممالک میں، محدود اشیاء  کے ساتھ، اور بھارت کے دو چار کونوں سے ہی ایکسپورٹ کیا جانا، اس صورت حال کو بدلنا ہوگا۔ بھارت کے ہر ضلع کو برآمد کنندہ کیوں نہیں ہونا چاہیے؟ دنیا کا ہر ملک بھارت سے درآمد کیوں نہیں کرتا، دنیا کے ہر ملک اور ہر خطے میں کیوں نہیں ہو؟ ہر طرح کی چیزیں کیوں نہیں برآمد ہونی چاہئیں؟ آپ نے پہلے کے منصوبوں اور موجودہ منصوبوں کے درمیان واضح فرق بھی دیکھا ہوگا۔ اس سے قبل صنعتی ترغیبات  میں ایک کھلے ان پٹ پر مبنی سبسڈی فراہم کرنے کا التزام ہوتا تھا۔ مسابقتی عمل کے ذریعے اب اسے ہدفی، کارکردگی  اساس بنایا گیا ہے ۔ پہلی بار   13 شعبوں کو اس قسم کی اسکیم کے دائرہ کار میں لانا ہمارے عزم کا عکاس ہے۔

ساتھیو،

جس شعبے کے لیے یہ پی ایل آئی ہے، وہ تو فائدہ اٹھا  ہی رہا ہے، اس سے اس شعبے سے وابستہ پورے ایکو سسٹم کو بہت فائدہ ہوگا۔ آٹو اور فارما میں پی ایل آئی کے ساتھ، آٹو پارٹس، طبی سازوسامان اور دوائیوں کے خام مال پر غیر ملکی انحصار بہت کم ہوجائے گا۔ ایڈوانسڈ سیل بیٹریاں، سولر پی وی ماڈیولز اور اسپیشلٹی اسٹیل کی مدد سے ملک میں توانائی کے شعبے کو جدید تر بنایا جائے گا۔ ہمارا اپنا خام مال، اپنی محنت، اپنی مہارت، اپنی صلاحیت، ہم کتنی بڑی چھلانگ لگا سکتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل اور فوڈ پراسیسنگ کے شعبے کو فراہم کی جانے والی پی ایل آئی سے ہمارے پورے زراعت کے شعبے کو فائدہ ہوگا۔ اس سے ہمارے کسانوں، مویشیوں پرورں،، ماہی گیروں، یعنی پوری دیہی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، جو آمدنی بڑھانے میں معاون ثابت ہوں گے۔

آپ نے کل ہی دیکھا کہ بھارت کی تجویز کے بعد اقوام متحدہ نے سال 2023  کو یعنی دو سال بعد،باجرے کا بین الاقوامی سال قرار دیا ہے۔ 70 سے زیادہ ممالک بھارت کی اس تجویز کی حمایت میں آگے آئے تھے۔ اور پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس تجویز کو متفقہ طور پر قبول کر لیا گیا۔ یہ ملک کے فخر کو بڑھانے والی بات ہے۔ یہ ہمارے کاشتکاروں اور خصوصی طور پرچھوٹے کاشتکاروں کے لیے بھی یہ ایک بہت بڑا موقع ہے، جہاں آب پاشی کی سہولیات کم ہیں، اور جہاں موٹے اناج کی پیداوار ہوتی ہے، اقوام متحدہ کے ذریعہ، اس موٹے اناج کو دنیا میں بھیجنے کا کام، جس کی ہم نے تجویز پیش کی  ہے، اس کو 2023 کے لیے منظوری دے دی گئی ہے۔  بھارت کے چھوٹے کاشتکاروں کے لیے، جہاں آبپاشی دستیاب نہیں ہے، ایسے ناقابل رسائی خطے کی کاشت کرنا، ہمارے غریب کسان کے لیے، اس موٹے اناج کی کتنی طاقت ہے، کتنی غذائیت ہے، اس میں کتنی اقسام ہوسکتی ہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ دنیا میں سستی ہو، اتنا بڑا موقع ہمارے سامنے ہے۔ جس طرح ہم نے دنیا میں یوگا کی تشہیر ، فروغ اور نظام قائم کیا ہے، اسی طرح ہم سب مل کر، خاص طور پر زرعی پراسیسنگ کرنے والے افراد باجرے، یعنی موٹے موٹے اناج کے لیے پوری دنیا میں پہنچ سکتے ہیں۔

ہمارے پاس سال 2023  کی تیاری کے لیے ابھی وقت ہے، ہم پوری تیاری کے ساتھ دنیا بھر میں مہم شروع کرسکتے ہیں۔ جس طرح کورونا سے بچنے کے لیے میڈ ان انڈیا ویکسین موجود ہے، لوگوں کو بیماری سے بچانے کے لیے، بھارت میں پیدا ہونے والی ملٹس کے علاوہ موٹے اناج بھی، اس کی غذائیت بھی اتنی ہی کارآمد ہوگی۔ ہم سب باجرا یا موٹے اناج کی غذائی صلاحیت سے واقف ہیں۔ پہلے ملٹس رسوئی میں بہت نمایاں  ہوا کرتے تھے۔ اب یہ رجحان لوٹ رہا ہے۔ بھارت کے اس اقدام کے بعد  2023 کو اقوام متحدہ کے ذریعہ ملٹس کے بین الاقوامی سال کے اعلان سے، اندرون اور بیرون ملک  میں باجرے کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ اس سے ہمارے کسانوں اور خاص طور پر ملک کے چھوٹے کسانوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ لہذا، میں زراعت اور فوڈ پراسیسنگ کے شعبے سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ آپ کے ویبینار سے بہت ساری تجاویز نکلتی ہیں، ایک چھوٹی سی ٹاسک فورس تشکیل دی جانی چاہیے جس میں سرکاری- نجی شراکت داری کا ماڈل ہو، اور ہم اس ملٹس مشن کو دنیا میں کس طرح آگے لے جا سکتے ہیں،اس پر سوچ سکتے ہیں۔ کون سی ایسی قسمیں بنائی جاسکتی ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک کے ذائقوں کے اعتبار سے بھی موزوں ہوں اور صحت کے لیے بھی بہت طاقت ور ہوں ۔

ساتھیو،

اس سال کے بجٹ میں پی ایل آئی اسکیم سے متعلق ان سکیموں کے لیے قریباً 2 لاکھ کروڑ روپے کی فراہمی کی گئی ہے۔ اوسطاً 5 فیصد پیداوار مراعات کے طور پر دی جاتی ہے۔ یعنی، صرف پی ایل آئی اسکیم سے آنے والے 5 برسوںمیں بھارت میں تقریبا ً520 بلین ڈالر کی پیداوار متوقع ہے۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ جن شعبوں کے لیے پی ایل آئی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، ان شعبوں میں کام کرنے والے کارکنوں کی تعداد تقریباً دوگنی ہوجائے گی۔ پی ایل آئی اسکیم روزگار پیدا کرنے میں بہت زیادہ اثر ڈالنے والی ہے۔ پیداوار اور برآمد میں نہ صرف صنعت کو فائدہ ہوگا بلکہ ملک میں آمدنی میں اضافے کے ساتھ جو مانگ بڑھ جائے گی، اس سے بھی فائدہ ہوگا، یعنی منافع دوگنا ہوگا۔

ساتھیو،

پی ایل آئی سے متعلق اعلانات  پر تیزی سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔ آئی ٹی ہارڈویئر اور ٹیلی کام سامان سازی سے متعلق دو پی ایل آئی اسکیموں کو بھی کابینہ نے منظور کرلیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان شعبوں سے وابستہ ساتھیوں نے اب تک اپنا جائزہ  لے لیا ہوگا۔ آئی ٹی ہارڈویئر کی صورت میں، اگلے 4 برسوںمیں پیداوار تقریباً سوا تین ٹریلین روپے کی مالیت کی پیدوار کا تخمینہ ہے۔ اس منصوبے کے ساتھ، آئی ٹی ہارڈ ویئر میں گھریلو قدر افزائی صرف 5 سال میں 5-10 فیصد سے بڑھ کر 20-25 فیصد ہوجائے گی۔ اسی طرح  ٹیلی کام کے سازوسامان کی تیاری میں بھی آنے والے 5 برسوںمیں تقریبا ً ڈھائی لاکھ کروڑ روپے کا اضافہ ہوگا۔ اس میں بھی ہم تقریباً 2 لاکھ کروڑ روپے مالیت کا سازوسامان برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ فارما سیکٹر میں بھی  آنے والے 5-6 برسوںمیں، ہم پی ایل آئی کے تحت لاکھوں کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے امکان کو رد نہیں کرسکتے۔ ہم ایک بڑے نشانے کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ اس میں فارما سیلز میں تقریبا ً 3 لاکھ کروڑ روپے اور برآمدات میں تقریبا 2 لاکھ کروڑ روپے کے اضافے کی توقع ہے۔

ساتھیو،

آج، بھارت سے جو طیارے  ویکسین کی لاکھوں خوراکوں کو لے کر دنیا بھر میں جارہے ہیں، وہ خالی نہیں آرہے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ بھارت کے تئیں بڑھا ہوا بھروسا، بھارت کے ساتھ وابستگی، ان ممالک کے عوام سے پیار اور بیمار افراد سے جذباتی لگاؤ ​​لے کر آرہے ہیں۔ اور جو بھروسا، بحران کے دور میں پیدا ہوتا ہے، وہ نہ صرف اثرات مرتب کرتا ہے، بلکہ یہ اعتماد ابدی، لافانی  اور  پراثر ہوتا ہے۔ آج جس طرح  بھارت انسانیت کی خدمت کر رہا ہے، اور عاجزی کے ساتھ انجام دے رہا ہے… ہم تکبر کے ساتھ کچھ نہیں کر رہے ہیں… ہم اسے فرض کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ 'سیوا پرمو دھرم' ہماری روایت ہے۔ اس کے ساتھ، بھارت پوری دنیا میں ایک بہت بڑا برانڈ بن گیا ہے۔ بھارت کا سہرا، بھارت کی شناخت مسلسل نئی بلندیوں کو پہنچ رہی ہے۔ اور یہ بھروسا صرف ویکسین کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ صرف فارما سیکٹر کی چیزوں کے بارے میں نہیں ہے۔ جب ایک ملک برانڈ بن جاتا ہے تو، دنیا  کے ہر شخص کا اس کے تئیں احترام بڑھ جاتا ہے، ان کی وابستگی بڑھ جاتی ہے اور وہ ان کی پہلی پسند بن جاتاہے۔

ہماری ادویات، ہمارے میڈیکل پروفیشنلز، بھارت میں بنے طبی سازوسامان، ان سب کے تئیں بھی آج اعتماد بڑھا ہے۔ اس اعتماد کو وقار بخشنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے، ہماری  دو ررس پالیسی کیا ہو، ہماری طویل مدتی حکمت عملی کیا ہو، اس پر فارما شعبے کو کام کرنا ہوگا۔ اور دوستو، بھارت پر قائم یہ اعتماد، ہر شعبے میں  اس کے  سہارے آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی کرنے کا موقع نہیں کھونا چاہیے۔ اور اسی لیے ان مثبت حالات کے تحت ہر شعبے کو اپنی حکمت عملی پر غور کرنا شروع کردینا  چاہیے۔ یہ وقت ضائع کرنے کے لیے نہیں ہے، یہ وقت حاصل کرنے کا ہے، ملک کے لیے حاصل کرنا ہے، اپنی کمپنی کے لیے مواقع حاصل کرنا ہے۔ اور ساتھیو، ان کاموں کو کرنا کچھ مشکل نہیں ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔ پی ایل آئی اسکیم کی سکسیس اسٹوری بھی اس کی تائید کرتی ہے کہ ہاں یہ سچ ہے، ممکن ہے۔ ایسی ہی ایک سکسیس اسٹوری الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ شعبے کی ہے۔ پچھلے سال  ہم نے موبائل فون اور الیکٹرانکس کے اجزاء تیار کرنے کے لیے پی ایل آئی اسکیم کا آغاز کیا تھا۔ وبائی امراض کے دوران  بھی اس شعبے نے پچھلے سال 35 ہزار کروڑ روپے  کی پیداوار کی تھی۔ صرف یہی نہیں  کورونا کے اس دور میں، اس شعبے میں تقریبا ً1300 کروڑ روپئے کی نئی سرمایہ کاری آئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس شعبے میں ہزاروں نئی ​​ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔

ساتھیو،

پی ایل آئی اسکیم کا ملک کے ایم ایس ایم ای ایکو سسٹم پر بڑا اثر پڑنے والا ہے۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ ہر شعبے میں جو اینکر یونٹ بنیں گے،  ان کو پوری ویلیو چین میں نئے سپلائر  بیس کی ضرورت پڑے گی۔ یہ ذیلی یونٹ زیادہ تر ایم ایس ایم ای سیکٹر میں ہوں گے۔ اسی طرح کے حالات کے لیے ایم ایس ایم ای تیار کرنے کے لیے پہلے ہی کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ایم ایس ایم ایز کی تعریف کو تبدیل کرنے سے لے کر سرمایہ کاری کی حد بڑھانے تک کے فیصلوں سے اس شعبے کو بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ آج  جب ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں  تو ہم آپ کی فعال شرکت کی بھی توقع کرتے ہیں۔ اگر آپ کو پی ایل آئی میں شامل ہونے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اگر اس میں کچھ بہتری آسکتی ہے تو، آپ کو جو باتیں ضروری لگتی ہیں آپ یہاں ضرور رکھیں، مجھ تک بھی پہنچائیں۔

ساتھیو،

مشکل اوقات میں، ہم نے دکھایا ہے کہ اجتماعی کوششوں سے ہم بڑے اہداف حاصل کرسکتے ہیں۔ باہمی تعاون کا یہ طریقہ ایک آتم نربھر بھارت تشکیل دے گا۔ اب آپ سبھی صنعت کے ساتھیو ں کو آگے بڑھنا ہوگا اور نئے مواقع پر کام کرنا ہوگا۔ صنعت کو اب ملک اور دنیا کے لیے بہترین معیار  کے سامان بنانے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ صنعت کو تیز رفتار، تیز ی سے رفتار بدلتی ہوئی دنیا کی ضروریات کے مطابق اختراع کرنا ہوگی، تحقیق و ترقی میں اپنی حصہ داری میں اضافہ کرنا ہوگا۔ افرادی قوت کی ہنرمندی کو بہتر بناکر اور نئی ٹکنالوجی کے استعمال سے آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا، تبھی ہم عالمی سطح پر مسابقت کے اہل ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آج کے تبادلہ خیال میں، 'میک ان انڈیا، میک فار دی ورلڈ' کا سفر آپ سب کے خیالات، تجاویز سے نئی طاقت، نیا زور، نئی رفتار  اور نئی توانائی ملے گی۔

میں ایک بار پھر گزارش کروں گا کہ آپ جن پریشانیوں کا بھی سامنا کر رہے ہیں، اصلاحات کے لیے آپ کے جو مشورے بھی ہیں، براہ کرم مجھ تک کھلے ذہن سے رابطہ کریں۔ حکومت آپ کے ہر مشورے، ہر مسئلے کو حل کرنے کے لیے تیار ہے۔ میں ایک اور بات کہوں گا، حکومت کے مراعات میں جو بھی انتظامات ہوں، کیا آپ کو کبھی ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں جو سامان ہے اس سے ہمارا سامان تو سستا بکے گا۔ یہ اپنی جگہ تو ٹھیک ہوگا، لیکن یہ فرض کرتے ہوئے  چلیے کہ ان سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے  معیار کی ۔ اگر ہماری مصنوعات معیار کے لحاظ سے مقابلہ میں آگے ہیں تو پھر دنیا دو روپے زیادہ ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ آج بھارت ایک برانڈ بن گیا ہے۔ اب آپ کو صرف اپنے مصنوعات کی شناخت کرنا ہے۔ آپ کو زیادہ محنت نہیں کرنی ہوگی۔ اگر آپ کو سخت محنت کرنیہے، تو معیار ی  پیداوار پر کرنی ہے۔ پی ایل آئی کا فاءڈہ اس میں نہین ہے کہ آپ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ملےبلکہ اس کا فائدہ زیادہ سے زیادہ پیداوار کے معیار پر زور دینے میں مضمر ہے۔ اسے بھی آج کی بحث میں پیش نظر رکھا جائے گا، اس سے بڑا فائدہ ہوگا۔

آپ اتنی تعداد میں اس بار شامل ہو رہے ہیں، آپ سارا دن بیٹھنے والے ہیں،  میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ میری طرف سے آپ سب کو ڈھیروں نیک خواہشات ۔ اس تقریب میں آنے کے لیے میں تہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

شکریہ!    

 

*****

ش ح۔ ع ا۔ م ف

 

 


(Release ID: 1702747) Visitor Counter : 298