وزیراعظم کا دفتر

گجرات کے کچھ میں متعدد ترقیاتی پروجیکٹوں کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 15 DEC 2020 7:05PM by PIB Delhi

 گجرات کے وزیراعلی جناب وجے  روپانی جی، نائب وزیراعلی جناب نتن پٹیل جی،گجرات حکومت کے وزراء، ارکان پارلیمنٹ اور میرے پیارے بھائیو اور بہنو، کی ایو کچھی ما ڈوو؟ شی کیڑو آئے؟ شیارو انے کورونا، بوئے میں دھیان رکھجا! آج کچھ اچی، مکے، بیوڑی خوشی تھئ رہی آئے، بیوڑی ایٹلے آئے، کے کچھڑوں مجھے دھل جے بورو وٹے آئے، بیو اترے کے، اج، کچھ گجرات جن، پن، دیش جی اوکھڑ میں پن، ہکڑو تارو، جوڈےلائے وینے تو!

ساتھیو،

آج گجرات  اور  ملک کے عظیم سپوت سردار ولبھ بھائی پٹیل جی کی برسی بھی ہے۔ ماں نرمدا کے پانی سے گجرات کی تصویر بدلنے کا خواب دیکھنے والے سردار صاحب کا خواب تیزی سے پورا ہورہا ہے۔ کیوڑیا میں ان کا دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ، ہمیں دن رات متحد ہو کر ملک کے لئے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ سردار صاحب کو یاد کرتے ہوئے ہمیں اسی طرح ملک اور گجرات کا فخر بڑھاتے ہی رہنا ہے۔

ساتھیو،

آج کچھ میں بھی نئی توانائی کی ترسیل ہورہی ہے۔ سوچئے، ہمارے کچھ میں دنیا کا سب سے بڑا ہائی برڈ  رینویبل انرجی  پارک۔ اور یہ کتنا بڑا ہے؟ جتنا بڑا سنگا پور ملک ہے، بحرین ملک ہے، تقریباً اتنے بڑے خطے میں کچھ کا یہ رینویبل انرجی پارک ہونے والا ہے۔ اب آپ کو اندازہ ہوتا ہوگا کہ کتنا عظیم ہونے والا ہے۔70 ہزار ہیکٹیر، یعنی بھارت کے بڑے بڑے شہروں سے بھی بڑا یہ کچھ کا رینویبل  انرجی پارک۔یہ جب سنتے ہیں نا،یہ لفظ کان میں پڑتے ہیں یہ سن کر ہی کتنااچھا لگتا ہے کہ نہیں لگتا ہے کچھ والوں کو، دل کتنا فخر سے بھر جاتا ہے۔

ساتھیو،

 آج کچھ میں نیو ایج ٹیکنالوجی اور نیو ایج اکانومی، دونوں ہی سمت میں بہت بڑا قدم اٹھایا ہے۔ کھاوڑا میں رینویبل انرجی پارک کو، مانڈیو میں ڈی- سیلی نیشن پلانٹ ہو، اور انجار میں سرحد ڈھیری کے نئے آٹو میٹک پلانٹ کا سنگ بنیاد، تینوں ہی کچھ  کی ترقی کے سفر میں نئے باب لکھنے والے ہیں اور اس کا بہت بڑا فائدہ یہاں میرے کسان بھائیو اور بہنوں کو، مویشی پالنے والے بھائیو بہنو ں کو، یہاں کے عام شہریوں کو اور خاص طور پر ہماری ماں بہنو ں کو ہونے والا ہے۔

 ساتھیو،

میں کچھ کی ترقی کی بات کرتا ہوں تو دل میں بہت ساری پرانی یادیں ، ساری تصویریں ایک ساتھ آنے لگتی ہیں۔ایک وقت کہا جاتا تھا کہ کچھ کتنی دور ہے، ترقی کا نام ونشان نہیں ہے، رابطہ کاری نہیں ہے، بجلی ، پانی، سڑک چیلنج کا ایک طرح سے دوسرا نام ہی یہ تھا، حکومت میں بھی  ایسا کہاجاتا تھا کہ اگر کسی کو پنشمنٹ پوسٹنگ دینا ہے تو کچھ میں بھیج دو اور لوگ بھی کہتے تھے کالا پانی کی سزا ہوگئی۔ آج صورتحال ایسی ہے لوگ سفارش کرتے ہیں ،مجھے کچھ وقت کچھ میں موقع مل جائے کام کرنے کا، کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے تھے کہ اس علاقے میں ترقی کبھی ہوہی نہیں سکتی، ایسے ہی حالات میں کچھ میں زلزلے کا المیہ بھی آیا۔ جو بھی بچا کچھا تھا زلزلے نے وہ بھی تباہ کردیا تھا۔ لیکن ایک طرف ماتا آشا پورا دیوی اور کوٹیشور مہا دیو کا آشیرواد،تو دوسری طرف کچھ کے میرے لوگوں کا حوصلہ، ان کی محنت، ان کی قوت ارادی۔ کچھ کے لوگوں نے نا امیدی  کو امید میں بدلا۔ مجھے سمجھتا ہو کہ ماتا آشا پورا دیوی کا آشیرواد ہے۔یہاں مایوسی کا نام نہیں، امید ہی امید ہوتی ہے۔زلزلہ نے بھلے ہی ان کے گھر گرا دیے تھے لیکن اتنا بڑا زلزلہ بھی کچھ کے لوگوں کے حوصلہ کو بھی گرا نہیں پایا۔ کچھ کے میرے بھائی بہن پھر کھڑے ہوئے اور آج دیکھئے، اس علاقے کو انہوں نے کہا ں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔

ساتھیو،

آج کچھ کی شناخت بدل گئی ہے، آج کچھ کی شان  اورتیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آج کچھ ملک کے تیزی سے ترقی ہوتے ہوتے علاقوں میں سے ایک اہم علاقہ بن گیا ہے۔ یہاں کی رابطہ کاری دن بہ دن بہتر ہوتی جارہی ہے۔ اس سرحدی علاقے میں  مسلسل نقل ومکانی، اور پہلے تو آبادی کا حساب دیکھ لیجئے، مائنس گروتھ ہوتا تھا ۔ اور جگہ پر آبادی بڑھتی تھی یہاں کم ہوتی تھی کیونکہ لوگ چلے جاتے تھے اور زیادہ تر سرحدی علاقےسے لوگ ہجرت کرجاتے تھے اور اس کے سبب سیکوریٹی کے لئے بھی مشکل پیدا ہونا فطری تھا۔ اب جب ہجرت ہوتی ہے، جو گاؤں کبھی خالی ہورہے تھے ان میں رہنے کے لئے لوگ واپس آتے جارہے ہیں۔ اس کا بہت بڑا مثبت اثر قومی سلامتی پر بھی پڑا ہے۔

ساتھیو،

جو کچھ کبھی ویران رہتا تھا وہی کچھ ملک اور دنیا کے  سیاحوں کا اہم مرکز بن رہا ہے۔ کورونا نے ضرور مشکلات پیدا کی ہیں، لیکن کچھ کا سفید رن، کچھ کا رن اْتسو پوری دنیا کو راغب کرتا رہا ہے۔ اوسطاً 4 سے5 لاکھ سیاح رن اْتسو کے دوران یہاں آتے ہیں، سفید ریگستان اور نیلے آسمان کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کے بڑے پیمانے پر ثقافتی پروگرام، کچھ کے مقامی سامان کی اتنی بڑے پیمانے پر فروخت، یہاں روایتی کھانے پینے کی مقبولیت، ایک زمانے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا آج مجھے کئی میرے پرانے جان پہچان والوں سے بات چیت کرنے کا موقع مل گیا۔ وہ ایسے ہی مجھے بتا رہے تھے۔ بولے اب تو ہمارے بچے انگریزی بولنا سیکھ گئے ہیں ،میں نے کہا  کیسے، بولے اب تو ہم ہوم اسٹے کرتے ہیں۔ تو ہوم اسٹے کے لئے لوگ رہتے ہیں۔ تو ہمارے بچے بھی بولتے بولتے بہت کچھ سیکھ گئے ہیں۔ کچھ نے پورے ملک کو دکھایا ہے کہ اپنے وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے اس طرح آتم نربھرتا کی طرف بڑھا جاسکتا ہے۔ میں دنیا کے ڈیولپمنٹ ایکسپرٹس،یونیورسٹیز ریسرچرس  اس سے جڑے لوگوں سے کہوں گا کہ زلزلے کے بعد جس طرح کچھ کی چوطرفہ ترقی ہوئی ہے، مجھے لگتا ہے یہ کیس اسٹڈی ہے، اس کی اسٹڈی کی جانی چاہئے۔ ریسرچ کرنی چاہئے اور یہ کس طرح سے ماڈل کام کررہا ہے۔ اتنے بڑے بھیانک زلزلہ حادثے کے دو دہائی کے اندر اندر اتنی بڑی ترقی ہر علاقے میں وہ بھی جہاں زیادہ تر زمین صرف صرف ریگستان ہے۔یہ مطالعے کا موضوع ہے۔

 ساتھیو،

میں ہمیشہ مانتا ہوں،  بھگوان کی مجھ پر کئی مہربانیاں رہی ہیں اور بھگوان کی مہربانی کا ہی سبب ہوگا  شاید مجھے بھی اس زلزلے کے وقت خاص طور پر کچھ کے لوگوں کی خدمت کرنے کا بھگوان نے موقع دیا۔اسے اتفاق  ہی کہیں گے کہ زلزلے کے اگلے سال بعد جب ریاست میں الیکشن ہوئے تو جس دن نتائج آئے وہ تاریخ بھی 15 دسمبر تھی اور آج 15 دسمبر ہے ۔کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ اتنے بڑے زلزلے کے بعد یہاں پر ہماری پارٹی کو لوگ آشیر واد دیں گے۔ بڑی منفی چرچا چل رہی تھی۔ اس الیکشن میں جب 15 دسمبر کو رزلٹ آیا تو دیکھا  کچھ نے جو پیار برسایا، آشیر واد دیئے، وہ آج بھی اسی روایت پر چل رہی ہے۔ آج بھی دیکھئے، آپ کے آشیرواد۔ ویسے ساتھیو، آج 15 دسمبر  کی تاریخ کے ساتھ ایک اتفاق جڑا ہوا ہے۔ شاید کئی لوگوں کے لئے جانکاری خوشگوار حیرت ہوگی۔ دیکھئے ہماری آباواجداد بھی کتنی لمبی سوچ رکھتے تھے۔ کتنی دور کا سوچتے تھے، آج  کل  کبھی کبھی نئی نسل  کی سوچ والے لوگ، پرانا سب نکما ہے، بیکار ہے، ایسی باتیں کرتے ہیں نا۔ میں ایک واقعہ سناتا ہوں۔ آج سے118 سال پہلے آج ہی کے دن 15 دسمبر کو ہی احمد آباد میں  ایک صنعتی نمائش کاافتتاح کیا گیا تھا۔ اس نمائش کی طرف  جو چیز رغبت دلاتی تھی۔ بھانوتاپ ینتر۔یعنی 118 سال پہلے یہاں کے ہمارے صنعت کار کی سوچ تھی کہ بھانو تاپ ینتر یعنی سوریہ تاپ ینتر۔ یہ توجہ کھینچنے کا سب سے بڑا  سبب تھا۔ بھانو تاپ ینتر سے سورج کی گرمی سے چلنے والا ینتر۔ اور ایک طرح سے سولر کوکر کی طرح انہوں نے تیار کیا۔ آج 118 سال کے بعد اب آج 15دسمبر کو بھی سورج کی گرمی سے چلنے والے اتنے بڑے رینویبل انرجی پارک کاافتتاح کیا گیا ہے۔ اس پارک میں سولر کے ساتھ ساتھ پن بجلی، دونوں سے قریب 30 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہوگی۔اس رینویبل انرجی پارک میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہوگی۔ سوچئے، ریگستان کی کتنی بڑی زمین کا استعمال ہوگا۔ عام لوگوں کا  بجلی کا بل کم کرنے کے جس  ہدف کو لے کر ملک چل رہا ہے۔ اس سے بھی مدد ملے گی۔ اس پروجیکٹ سے کسانوں اور صنعتوں دونوں کو بہت بڑا فائدہ ہوگا اور سب سے بڑی بات اس سے آلودگی کم ہوگی، ہماری ماحولیات کو بھی فائدہ ہوگا۔ اس رینویبل انرجی پارک میں جو بجلی بنیں گی وہ ہرسال 5 کروڑ کا کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کو روکنے میں مدد کرے گی اور یہ جو کام ہونے والا ہے، اگر اس کو ماحولیات کے حساب سے دیکھنا ہے تو یہ کام تقریبا 9 کروڑ پیڑ لگانے کے برابر ہوگا۔ یہ انرجی پارک، بھارت میں فی کس کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کو بھی کم کرنے میں بہت بڑا تعاون کرے گا۔ اس سے تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو روزگار کے مواقع  بھی دستیاب ہوں گے۔ اس کا بہت بڑا فائدہ کچھ کے میرے نوجوانوں کو ہوگا۔

ساتھیو،

 ایک وقت تھا جب گجرات کے لوگوں کی مانگ ہوتی تھی کہ کم سے کم رات میں کھانا کھاتے وقت تو کچھ دیر بجلی مل جائے۔ آج گجرات  ملک کی ان  ریاستوں میں سے ایک ہے۔ جہاں شہر ہو یا گاؤں چوبیس گھنٹے بجلی یقینی بنائی جاتی ہے۔ آج جو بیس سال کا نوجوان ہوگا اسے پتہ نہیں ہوگا کہ پہلے کیا حالت تھی۔ اسے تو اندازہ بھی نہیں ہوگا  کہ اتنی بڑی  تبدیلی آئی ہے۔ یہ تبدیلی گجرات کے لوگوں کی سخت کوششوں سے ہی ممکن ہوپائی ہے۔ اب تو کسانوں کے لئے کسان سرودیہ یوجنا کے تحت الگ سے پورا نیٹ ورک بھی تیار کیاجارہا ہے۔ کسانوں کو رات میں سینچائی کی مجبوری نہ ہو، اس کے لئے خصوصی لائنیں بچھائی جارہی ہیں۔

بھائیو اور بہنوں،

گجرات ملک کی پہلی ریاست ہے جس نے شمسی توانائی کو دھیان میں رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائیں، فیصلے لئے۔ہم نے نہروں تک  پر شمسی پینل لگا دیئے جس کی چرچا بیرون ملکوں تک ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ گجرات میں شمسی بجلی کو فروغ دینا شروع کیا تھا تو یہ بات بھی آئی تھی کہ اتنی مہنگی بجلی کا کیا کریں گے؟ کیونکہ جب گجرات نے اتنا بڑا قدم اٹھایا تھا تب شمسی بجلی اس سے جو بجلی تھی  وہ 16 روپے یا 17 روپے فی یونٹ  بجلی ملنے کی بات تھی۔ لیکن مستقبل کے امکانات کے پیش نظر گجرات نے اس پر کام جاری رکھا۔ آج وہی بجلی گجرات ہی نہیں پورے ملک میں 2 روپے 3 روپے فی یونٹ فروخت ہورہی ہے۔گجرات نے جب جو کام کیا تھا اس کے تب کے تجربے آج ملک کو سمت دکھا رہے ہیں۔ آج بھارت رینویبل انرجی  پروڈکشن کے معاملے میں دنیا کی چوتھی بڑی طاقت ہیں۔ ہر ہندوستانی کو فخر ہوگا دوستوں، پچھلے 6 سال میں  ہماری توانائی، اس کی ہماری صلاحیت 16 گنا بڑھ گئی ہیں۔ حال میں ایک کلین انرجی انویسٹمنٹ رینکنگ آئی ہیں۔ اس کلین انرجی انویسٹمنٹ رینکنگ جو ہے 104 ملکوں کا اندازہ لگایا گیا ہے اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا کے 104 ملکوں میں پہلے تین میں بھارت نے اپنی جگہ بنا لی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف لڑائی میں اب بھارت پوری دنیا کو سمت دکھا رہا ہے۔

ساتھیو،

اکیسوی صدی بھارت کے لئے جس طرح انرجی سیکورٹی ضروری ہے، اسی طرح واٹر سیکوریٹی بھی اہم ہے اور میرا شروع سے یہ کمٹمنٹ رہا ہے کہ پانی کی کمی کی وجہ سے نہ لوگوں کی ترقی رکنی چاہئے اور نہ کسی شعبے کی ترقی رکنی چاہئے۔ پانی کو  لے کر بھی گجرات نے جو  کام کیا ہے وہ آج ملک کے لئے رہنمائی کرنے والا بنا ہے۔ ایک وقت تھا جب کچھ میں ماں نرمدا کا پانی پہنچانے کی بات کی جاتی تھی تو کچھ لوگ مذاق اڑاتے تھے۔ وہ یہ کہتے تھے  یہ تو سیاسی باتیں ہیں، ہونے والا کچھ نہیں ہے۔کبھی کبھی لوگ کہتے تھے 6 سو 7 سو کلو میٹر دور ماں نرمدا وہاں  سے پانی یہاں کیسے پہنچ سکتا ہے۔یہ کبھی بھی نہیں ہوگا، آج کچھ میں نرمدا کا پانی بھی پہنچ رہا ہےاور ماں نرمدا کا آشیر واد بھی مل رہا ہے۔ کچھ کا کسان ہو یا سرحد پر کھڑا جوان دونوں کے لوگوں کی پانی کی فکر دور ہوئی ہے۔ میں یہاں کے لوگوں کی خصوصی ستائش کروں گا جنہوں نے آبی تحفظ ایک عوامی تحریک میں بدل دیا۔گاؤں گاؤں میں لوگ آگے آئے، پانی کمیٹیاں بنیں، خواتین نے بھی مورچہ سنبھالا، چیک ڈیمس بنائے، پانی کی ٹنکیاں بنائیں، نہریں بنانے میں مدد کی، میں وہ دن کبھی بھول نہیں سکتا جب نرمدا کا پانی یہاں پہنچا تھا۔ وہ دن مجھے برابر یاد تھا، جس دن ماں نرمدا کا پانی پہنچا۔ شاید دنیا میں کہیں پر بھی کچھ ہی ہوگا۔ جب نرمدا ماں یہاں کی کچھ کی زمین پر پہنچی تھی۔ ہر کسی کے آنکھ میں آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ منظر میں نے دیکھا تھا ، پانی کیاں ہے، یہ کچھ کے لوگ جتنا سمجھ سکتے ہیں، شاید کوئی سمجھ سکتا ہے۔گجرات میں پانی کے لئے جو خصوصی گرڈ بنائے گئے، نہروں کا جال بچھایا گیا۔ اس کا فائدہ اب کروڑوں لوگوں کو ہورہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی کوشش، قومی سطح پر جل جیون مشن کی بھی بنیاد بنے ہیں۔  ملک میں ہر گھر میں پائپ سے  پانی پہنچانے کی مہم تیز رفتاری سے جاری ہے۔ صرف سوا سال کے اندر اس مہم کے تحت تقریباً  تین کروڑ گھروں تک پانی کا پائپ پہنچایا گیا ہے۔یہاں گجرات میں بھی 80 فیصد سے زیادہ گھروں میں نل سے پانی کی سہولت پہنچتی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اگلے کچھ وقت میں ہی گجرات کے ہر ضلع میں پائپ سے پانی کی سہولت دستیاب ہوجائے گی۔

 بھائیو اور بہنوں’

پانی کو گھروں  تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ پانی کے نئے ذرائع بنانا بھی بہت ضروری ہے۔ اسی ہدف کے ساتھ ہی سمندر کے نمکین پانی کو خالص کرکے استعمال کرنے کے وسیع منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔ مانڈوی میں تیار ہونے والا ڈسیلینشن پلانٹ، نرمدا گرڈ، سونی نیٹ ورک اور ویسٹ واٹر ٹریمنٹ جیسی کوششوں کو اور توسیع دے گا۔پانی صفائی کا یہ پلانٹ جب تیار ہوجائے گا۔ تو اس سے مانڈوی کے علاوہ مندرا، نکھات رانا، لکھپت رائے اورابداسا کے   لاکھوں کنبوں کو فائد  ہ ہوگا۔ اس پلانٹ سے ان علاقوں کے تقریباً آٹھ لاکھ لوگوں کو روزانہ کل ملا کر دس کروڑ لیٹر صاف پانی کی سپلائی ہوسکے گی۔

 ساتھیو،

کچھ کے علاوہ دہیز، دوارکا، گھوگھا بھاؤ نگر، گیر سومناتھ وہاں پر بھی  ایسے پروجیکٹ آنے والے وقت میں شروع ہونے جارہے ہیں مجھے یقین ہے سمندر کے کنارے آباد دوسری ریاستوں کو بھی مانڈوی کے پلانٹ نئی ترغیب دیں گے۔

 بھائیو اور بہنوں’

وقت اور ضرورت کے ساتھ تبدیلی کرنا یہی کچھ کی گجرات کی طاقت ہے، آج گجرات کے کسان یہاں کے مویشی پالنے والے ، یہاں کے ہمارے ماہی گیر ساتھی، پہلے سے کہیں بہتر حالت میں ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہاں کی کھیتی کی روایت کو جدید کاری سے جوڑا گیا۔ فصلوں کے تنوع پر توجہ دی گئی۔ کچھ سمیت گجرات میں  کسان  زیادہ مانگ، اور زیادہ قیمت والی فصلیں، اس کی طرف مڑ گئے اور آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب یہیں ہمارے کچھ میں سے دیکھئے، یہاں کے کھیت پیداوار، بیرون ملک میں ایکسپورٹ ہوں ،کیا کبھی کسی نے سوچا تھا۔ آج ہورہے ہیں، یہاں کھجور، یہاں کملم اور  ڈریگن فروٹ جیسی مصنوعات کی کھیتی  زیادہ ہونے لگی ہے۔ صرف ڈیڑھ دہائی میں  زرعی پیداوار میں ڈیڑھ گنا سے زیادہ کااضافہ درج کیا گیا ہے۔

 بھائیو  اوربہنوں،

گجرات میں زرعی شعبے میں مضبوط ہونے کا ایک اور بڑا سبب یہ رہا کہ یہاں باقی صنعتوں کی طرح ہی کھیتی سے منسلک کاروبار میں بھی سرکار رکاوٹ نہیں ڈالتی۔ دخل نہیں کرتی ہے، حکومت اپنی دخل کو محدود رکھتی ہے۔ کھلا چھوڑ دیا ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ڈیری اور مچھلی پالن اس سے جڑے دو شعبوں ایسے ہیں جو ملک میں سب سے تیزی سے ترقی ہورہی ہے۔ بہت کم لوگوں کو اس کی اسٹڈی  کی ہے۔ بہت کم لوگ اس کو لکھتے ہیں۔گجرات میں بھی دودھ پر مبنی صنعتوں  کا  وسیع  پھیلاؤ اس لئے ہوا کیونکہ اس میں حکومت کی طرف سے پابندیاں کم سے کم رہیں۔ حکومت  ضروری سہولت دیتی ہے۔ باقی کا کام یا تو کو آپریٹیو سیکٹر والے کرتے ہیں یا ہمارے کسان بھائی بہن کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے۔ کچھ میں ڈیری ہونی چاہئے اس بات کو لے کر کے شروع میں بات کرتا تھا تو جس سے ملوں سب نا امیدی کی بات کرتے تھے۔ یہاں کیا ٹھیک ہے تھوڑا بہت ادھر ادھر کردیتے ہیں۔ میں نے کہا بھائی چھوٹے سے بھی شروع کرنا ہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، وہ چھوٹا سا کام آج کہا پہنچ گیا۔ دیکھئے، اس ڈیری نے کچھ کے مویشی پالنے والوں کی زندگی بدلنے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔کچھ سال پہلے تک کچھ سے اور  وہ بھی بہت  کم مقدار میں دودھ کو پروسیسنگ کے لئے گاندھی نگر کی ڈیری میں لایا جاتا تھا لیکن اب وہی پروسیسنگ  انجار کے ڈیری پلانٹ میں ہورہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہاں کا ڈیری پلانٹ ہر دن دو لاکھ لیٹر زیادہ دودھ کی پروسیسنگ کرے گا۔ اس کا اطراف کا اضلاع کے مویشی پالنے والوں کو فائدہ ہوگا۔

 ساتھیو،

ڈیری شعبے میں جن مویشی پالنے والوں کو فائدہ ہورہا ہے اس میں زیادہ تر چھوٹے کسان ہے، کسی کے پاس تین چار جانور ہیں، کسی کے پاس پانچ سات، اور ایسا تقریباً پورے ملک میں ہی ہیں۔ یہاں کچھ کی بننی بھینس تو دنیا میں اپنا نام کما رہی ہیں۔ کچھ میں درجہ حرارت چاہے 45 ڈگری ہو یا پھر صفر کے نیچے ہو، بننی بھینس آرام سے سب کچھ برداشت کرتی ہیں اور بہت موج سے رہتی ہیں۔ اسے پانی کم چاہئے اور چارے کے لئے دور دور تک جانے میں بھینس کوئی دقت نہیں ہوتی ہے۔ ایک دن میں یہ بھینس اوسطاً تقریباً 15 لیٹر دودھ دیتی ہیں اور  اس سے سالانہ کمائی دو سے تین لاکھ روپے تک کی ہوتی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ابھی حال ہی میں ایک بننی بھینس پانچ لاکھ روپے سے بھی زیادہ میں فروخت ہوئی ہے۔ ملک کے اور لوگ سنتے ہوں گے ان کو تعجب ہوگا، بننی کی بھینس پانچ لاکھ روپیہ یعنی جتنے میں  دو چھوٹی کار خریدیں اتنے میں بننی   کی ایک بھینس  ملتی ہے۔

ساتھیو،

سال 2010 میں بننی بھینس کو قومی  طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ آزادی کے بعد بھینس کی یہ پہلی نسل تھی۔ جسے قومی سطح پر اس طرح کی  منظوری ملی۔

 ساتھیو،

 بننی بھینس کےدودھ کا کاروبار اور اس کے لئے بنا سسٹم یہاں کچھ میں بہت کامیاب رہا ہے۔ ملک میں باقی جگہوں پر بھی دودھ پیداوار اور دودھ کا کاروبار کرنے والا، پرائیویٹ  اور کو آپریٹیو سیکٹر دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور ا یک بہترین سپلائی چین انہوں نے کھڑی کی ہے۔

 ساتھیو،

یہ مثال  میں تفصیل سے اس لئے دے رہا ہوں کیونکہ آج کل دہلی کے اطراف کسان کو ورغلانے کی بڑی سازش  چل رہی ہے۔ انہیں ڈرایا جارہا ہےکہ نئے زرعی  اصلاحات کے بعد کسانوں کی زمین پر دوسرے قبضہ کرلیں گے۔

 بھائیو اور بہنوں،

میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں، کیا کوئی ڈیری والا آپ سے دودھ لینے کا کانٹریکٹ کرتا ہے۔  تو آپ کی گائے بھینس لے جاتا ہے کیا؟ کوئی پھل سبزی خریدنے کا کاروبار کرتا ہے، تو کیا آپ کی زمین لے جاتا ہے۔ کیا آپ کی پراپرٹی اٹھا کر لے جاتا ہے کیا؟

 ساتھیو،

ہمارے ملک میں ڈیری صنعت کا تعاون، زرعی معیشت کی کل ویلیو میں 25 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ یہ تعاون تقریباً آٹھ لاکھ کروڑ روپے ہوتا ہے۔ دودھ پیداوار کی کوئی قیمت ، اناج اور دال کی کل قیمت سے بھی زیادہ ہوتی ہے ، آج ملک پوچھ رہا ہے کہ ایسی ہی  آزادی اناج اوردال پیدا کرنے والے چھوٹے کسانوں کو کیوں نہیں ملنی چاہئے؟

 ساتھیو،

حال میں ہوئے زرعی اصلاحات کی مانگ برسوں سے کی جارہی تھی، کئی کسان تنظیمیں بھی پہلے ہی مانگ کرتی تھی کہ  اناج کو کہیں بھی بیچنے کا متبادل دیاجائے۔ آج جو لوگ اپوزیشن میں بیٹھ کر کسانوں کوبھڑکا رہے ہیں۔ وہ بھی اپنی حکومت کے وقت ان زرعی اصلاحات کی حمایت میں تھے۔ لیکن اپنی حکومت کے رہتے وہ فیصلہ نہیں کرپائے۔  کسانوں کو جھوٹے دلاسے دیتے رہیں۔ آج جب ملک نے یہ تاریخی قدم اٹھا لیا تو یہی لوگ کسانوں کوبھڑکانے میں جٹ گئے ہیں۔ میں اپنے کسان بھائی بہنوں سے ایک بار پھر کہہ رہا ہوں، بار بار دہراتا ہوں، کہ ان کے دور  اندیشے کے حل کے لئے سرکار چوبیسو ں گھنٹے تیار ہے۔کسانوں کا مفاد پہلے دن سے ہماری حکومت کی اعلی ترجیحات میں سے ایک رہا ہے۔ کھیتی پر کسانوں کا خرچ کم ہو، انہیں نئے نئے متبادل ملے، ان کی آمدنی بڑھے، کسانوں کی مشکلیں کم ہوں، اس کے لئے ہم نے مسلسل کام کیا ہے۔ مجھے یقین ہے ہماری حکومت کی نیک نیتی، ہماری حکومت کی ایمان دارانہ کوشش اور جس کو تقریباً پورے ملک نے آشیر واد دیئے ہیں، ملک کے ہرگوشے کے کسانوں نے آشیر واد دیئے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ملک بھر کے کسانوں کے آشیر واد کی یہ طاقت ، جو بھرم پھیلانے والے لوگ ہیں، جو سیاست کرنے پر آمادہ ہوئے لوگ ہیں، جو کسانوں کے کندھوں پر بندوقیں پھوڑ رہے ہیں، ملک کے سارے بیدار کسان ان کو بھی شکست دے کر رہیں گے۔

 بھائیو اور بہنوں،

اسی کے ساتھ میں ایک بار پھر کچھ کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، ابھی کچھ دیر میں جب میں یہاں آیا ہوں تو پرلوتسو کے تئیں میرا لگاؤ تو رہتا ہی ہے، کچھ کی وراثت یہاں کی ثقافت کو سلام کررہے ایک اور پروگرام پر لوتسو کا بھی حصہ لوں گا۔ پھر سے ایک بار تھوڑا اس لمحہ کو جینے کی کوشش کروں گا۔ کچھ کے عالمی شہرت یافتہ  وائٹ ڈیزرٹ کی یادیں بھی اپنے ساتھ ایک بار پھر دہلی لے جاؤں گا۔ کچھ ترقی کی نئی بلندیاں چھوتا رہے، میری ہمیشہ یہی تمنا رہے گی۔ میں  ایک بار پھر آپ سب کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ!
 

******

م ن۔  ن ا۔ ر ض

U-NO.8122



(Release ID: 1681021) Visitor Counter : 401