وزیراعظم کا دفتر

من کی بات 2.0 کی 18ویں قسط میں وزیراعظم کے خطاب کا متن (29.11.2020)

Posted On: 29 NOV 2020 11:50AM by PIB Delhi

 

نئی دہلی:29 نومبر، 2020:

میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ ‘من کی بات’ کی شروعات میں آج میں، آپ سب کے ساتھ ایک خوشخبری ساجھا کرنا چاہتا ہوں۔ ہر ہندوستانی کو یہ جانکر فخر ہوگا کہ دیوی انّ پورناکی ایک بہت پرانی مورتی، کینیڈا سے واپس ہندوستان آرہی ہے۔ یہ مورتی لگ بھگ 100 سال پہلے، 1913 کے قریب، وارانسی کے ایک مندر سے چرا کر ملک سے باہر بھیج دی گئی تھی۔ میں، کینیڈا کی حکومت اور اس نیک کام کو ممکن بنانے والے سبھی لوگوں کا اس بڑے دل کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ماتا انّ پورنا کا کاشی سے بہت ہی خاص رشتہ ہے۔ اب، ان کی مورتی کا واپس آنا، ہم سبھی کیلئے خوشی کی بات ہے۔ ماتا انّ پورنا کی مورتی کی طرح ہی ہماری وراثت کے متعدد انمول ورثے بین الاقوامی گروہوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ یہ گروہ بین الاقوامی بازار میں، انہیں بہت اونچی قیمت پر بیچتے ہیں۔ اب ان پر سختی تو لگائی جارہی ہے ان کی واپسی کیلئے ہندوستان نے اپنی کوششیں بھی بڑھائی ہیں۔ ایسی کوششوں کی وجہ سے پچھلے کچھ برسوں میں ہندوستان کئی مورتیوں اور فن پاروں کو واپس لانے میں کامیاب رہا ہے۔ ماتا انّ پورنا کی مورتی کی واپسی کے سا تھ، ایک اتفاق یہ بھی جڑا ہے کہ کچھ دن پہلے ہی عالمی ورثہ کا ہفتہ منایا گیا ہے۔ عالمی ورثہ ہفتہ، ثقافت کے محبین کیلئے، پرانے وقت میں واپس جانے، ان کی تاریخ کے اہم سنگ میل کا پتہ لگانے کا ایک شاندار موقع فراہم کرتا ہے۔ کورونا کے دور کے باوجود بھی اس بار ہم نے اختراعی طریقے سے لوگوں کو یہ ورثہ ہفتہ مناتے دیکھا۔ بحران کے دور میں ثقافت بڑے کام آتی ہے۔ اس سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے توسط سے بھی ثقافت ایک جذباتی ریچارج کی  طرح کام کرتی ہے۔ آج ملک میں کئی میوزیم  اور لائبریریاں اپنے کلیکشن کو پوری طرح ڈیجیٹل بنانے پر کام کررہی ہیں۔ دہلی میں ہمارے قومی میوزیم نے اس سلسلے میں قابل ستائش کوششیں کی ہیں۔ قومی میوزیم کے ذریعے تقریباً 10 ورچوول گیلریوں کو متعارف کرانے کی سمت میں کام چل رہا ہے۔ ہے نا مزیدار! اب آپ گھر بیٹھے نیشنل میوزیم گیلریز کا ٹور کرپائیں گے، جہاں ایک جانب ثقافتی ورثے کو ٹیکنالوجی کے توسط سے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا اہم ہے وہیں ان ورثوں کے تحفظ کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال بھی اہم ہے۔ حال ہی میں ایک دلچسپ پروجیکٹ کے بارے میں پڑھ رہا تھا، ناروے کے شمال میں سولباڈ نام کا ایک جزیرہ ہے ، اس جزیرے میں ایک پروجیکٹ آرکٹک ورلڈ آرکائیو بنایا گیا ہے۔  اس آرکائیو میں بیش قیمتی ہیریٹیج ڈاٹا کو اس طرح سے رکھا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کے قدرتی یا انسانی پیدا کردہ مصیبتوں سے متاثر نہ ہوسکیں۔ ابھی حال ہی میں یہ بھی جانکاری آئی ہے کہ اجنتا گپھاؤں کے ورثے کو بھی ڈیجیٹائز کرکے اس پروجیکٹ میں محفوظ کیا جارہا ہے۔ اس میں اجنتا گپھاؤں کی پوری جھلک دیکھنے کو ملے گی۔ اس میں ڈیجیٹلائزڈ اور ریسٹورڈ پینٹنگ کے  ساتھ ساتھ اس سے متعلق دستاویز اور اقتباسات بھی شامل ہوں گے۔ ساتھیو،وبا نے ایک جانب جہاں ہمارے کام کرنے کے طور طریقوں کو بدلا ہے تو دوسری جانب فطرت کا نئے ڈھنگ سے تجربہ کرنے کا بھی موقع دیا ہے۔ فطرت کو دیکھنے کے ہمارے نظریے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب ہم سردیوں کے موسم میں قدم رکھ رہے ہیں، ہمیں فطرت کے الگ الگ رنگ دیکھنے کو ملیں گے۔ پچھلے کچھ دنوں سے انٹرنیٹ، چیری بلوزم کی وائرل تصویروں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے جب میں چیری بلوزم کی بات کررہا ہوں تو جاپان کے اس اہم شناخت کی بات کررہا ہوں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ جاپان کی تصویریں نہیں ہیں، یہ اپنے میگھالیہ کے شیلانگ کی تصویریں ہیں۔ میگھالیہ کی خوبصورتی کو ان چیری بلوزم نے اور بڑھادیا ہے۔

ساتھیو، اس مہینے 12 نومبر سے ڈاکٹر سلیم علی جی کی 125ویں سالگرہ کی تقریبات شروع ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم نے چڑیوں کی دنیا میں  برڈ واچنگ کو لیکر قابل ذکر کام کیا ہے۔ دنیا کے برڈ واچرس کو ہندوستان کے تئیں راغب بھی کیا ہے۔ میں ہمیشہ سے برڈ واچنگ کے شوقین لوگوں کا مداح رہا ہوں۔ بہت دلجمعی کے ساتھ وہ گھنٹوں تک صبح سے شام تک برڈ واچنگ کرسکتے ہیں۔ فطرت کے انوکھے نظاروں کا لطف اٹھا سکتے ہیں اور اپنی معلومات کو ہم لوگوں تک بھی پہنچاتے رہتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی بہت سی برڈ واچنگ سوسائٹی سرگرم ہیں۔ آپ بھی ضرور اس موضوع کے ساتھ جڑیے۔ میری بھاگ دوڑ کی زندگی میں مجھے بھی پچھلے دنوں کیواڈیا میں چڑیوں کے ساتھ وقت گزارنے کا بہت ہی یادگار موقع ملا۔ چڑیوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت آپ کو فطرت سے بھی جوڑے گااور ماحولیات کے لئے بھی تحریک دیگا۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان کا کلچر اور شاسترہمیشہ سے ہی پوری دنیا کیلئے توجہ کے مرکز رہے ہیں۔ کئی لوگ تو ان کی تلاش میں ہندوستان آئے اور ہمیشہ کیلئے یہیں کے ہوکر رہ گئے، تو کئی لوگ واپس اپنے ملک جاکر اس کلچر کے محافظ بن گئے۔ مجھے جونس میسیٹی  کے کام کے بارے میں جاننے کا موقع ملا جنہیں وشوناتھ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جونس برازیل میں لوگوں کو ویدانت اور گیتا سکھاتے ہیں، وہ وشوویدھانام کا ایک ادارہ چلاتے ہیں جو ریوڈی جنیروں سے  ایک گھنٹے کی دوری پر پیٹرو پولیس کے پہاڑوں میں واقع ہے۔  جونس نے میکنیکل انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے کے بعد  اسٹاک مارکٹ میں اپنی کمپنی میں کام کیا۔ بعد میں ان کا رجحان ہندوستانی ثقافت اور بالخصوص ویدانت کی طرف ہوگیا۔ اسٹاک سے لیکر کے اسپریچولٹی (روحانیت )تک حقیقت میں ان کا ایک طویل سفر ہے۔ جونس نے بھارت میں ویدانت درشن کا مطالعہ کیا اور چار سال تک وہ کوئمبٹور کے ارشا ودیا گروکولم میں رہے ہیں۔ جونس میں ایک اور خاصیت ہے وہ اپنے میسیج کو آگے پہنچانے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے آن لائن پروگرام کرتے ہیں۔ وہ ہردن پوڈکاسٹ کرتے ہیں۔ پچھلے سات برسوں میں جونس نے ویدانت پر اپنے فری اوپن کورسیز کے ذریعے  ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ طلباء کو پڑھایا ہے۔ جونس نہ صرف ایک بڑا کام کررہے ہیں بلکہ اسے ایک ایسی زبان میں کررہے ہیں جسے سمجھنے والوں کی تعدا دبھی بہت زیادہ ہے۔ لوگوں میں اس کو لیکر کافی دلچسپی ہے کہ کورونا اور کوارنٹائن کے اس وقت میں ویدانت کیسے مدد کرسکتا ہے۔ من کی بات کے توسط سے، میں جونس کی ان کی کوششوں کیلئے مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے مستقبل کی کوششوں کیلئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو، اسی طرح ابھی ایک خبر پر آپ کا دھیان ضرور گیا ہوگا۔ نیوزیلینڈ میں وہاں کے نومنتخب ایم پی ڈاکٹر گورو شرما نے دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک سنسکرت زبان میں حلف لیا ہے۔ ایک ہندوستانی کے طور پر ہندوستانی ثقافت کی یہ ترویج واشاعت ہم سب کو فخر سے بھردیتی ہے۔ من کی بات کے توسط سے میں گورو شرما جی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ہم سبھی کی تمنا ہے، وہ نیوزیلینڈ کے لوگوں کی خدمت میں نئی حصولیابیاں حاصل کریں۔

میرے پیارے ہم وطنو، کل 30 نومبر کو ہم شری گرونانک دیوجی کا 551واں پرکاش پرو منائیں گے۔ پوری دنیا میں گرونانک دیو جی کا اثر واضح طور سے دکھائی دیتا ہے۔

وینکوور سے  ویلنگٹن تک، سنگاپور سے ساؤتھ افریقہ تک ان کے پیغامات ہر طرف سنائی دیتے ہیں۔ گروگرنتھ صاحب میں کہا گیا ہے-‘‘سیوک کو سیوا بن آئی’’، یعنی سیوک کا کام سیوا کرنا ہے، پچھلے کچھ برسوں میں کئی اہم پڑاؤ آئے اور ایک سیوک کے طور پر ہمیں بہت کچھ کرنے کا موقع ملا۔ گروصاحب نے ہماری سیوا لی۔ گرونانک دیو جی کی 550واں پرکاش پرو شری گروگوبند سنگھ جی کا 350واں پرکاش پرو اگلے برس شری گروتیغ بہادر جی کا 400واں پرکاش پرو بھی ہے، مجھےمحسوس ہوتا ہے کہ گرو صاحب کی مجھ پر خصوصی مہربانی رہی جو انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنے کاموں میں بہت قریب سے جوڑا ہے۔

ساتھیو، کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ میں ایک گرودوارہ ہے، لکھپت گرودوارہ صاحب۔ شری گرونانک جی اپنے اداسی کے دوران لکھپت گرودوارہ صاحب میں رُکے تھے۔ 2001 کے زلزلے سے اس گرودوارہ کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ یہ گرو صاحب کی مہربانی ہی تھی کہ میں اس کی بازیابی وتزئین کاری کو یقینی کرپایا۔ نہ صرف گرودوارہ کی مرمت کی گئی بلکہ اس کے فخر اور شان کو بھی پھر سے قائم کیا گیا۔ ہم سب کو گروصاحب کا بھرپور  آشیرواد بھی ملا۔ لکھپت گرودوارہ کے تحفظ کی کوششوں کو 2004 میں یونیسیکو ایشیا پیسیفک ہیریٹیج ایوارڈ میں ایوارڈ آف ڈسٹنکشن دیا گیا۔ ایوارڈ دینے والی جیوری نے یہ پایا کہ مرمت کے دوران آرٹ اور آرکیٹیکچر سے جڑی باریکیوں کا خصوصی دھیان رکھا گیا۔ جیوری نے یہ بھی نوٹ کیا کہ گرودوارہ کے تعمیر نو کے کام میں سکھ برادری کی نہ صرف سرگرم شراکت داری رہی بلکہ ان کی ہی رہنمائی میں یہ کام ہوا۔ لکھپت گرودوارہ جانے کا خوش نصیبی مجھے تب بھی ملی تھی جب میں وزیراعلیٰ بھی نہیں تھا۔ مجھے وہاں جاکر بے پناہ توانائی ملتی تھی، اس گرودوارے میں جاکر ہر کوئی خود کو خوش نصیب محسوس کرتا ہے۔  میں اس بات کیلئے بہت شکر گزار ہوں کہ گرو صاحب نے مجھ سے مسلسل خدمت لی  ہے۔ پچھلے سال نومبر میں ہی  کرتاپور صاحب کوریڈور کا کھلنا بہت ہی تاریخی رہا۔ اس بات کو میں زندگی بھر اپنے دل میں محفوظ کرکے رکھوں گا۔ یہ ہم سبھی کی خوش قسمتی ہے کہ ہمیں شری دربار صاحب کی سیوا کرنے کا ایک اور موقع ملا۔ بیرون ملک رہنے والے ہمارے سکھ بھائی بہنوں کیلئے اب دربار صاحب کی سیوا کیلئے رقم بھیجنا اور آسان ہوگیا ہے۔ اس قدم سے دنیا بھر کی سنگت دربار صاحب کے اور قریب آگئی ہے۔

ساتھیو، یہ گروناک دیوجی ہی تھے جنہوں نے لنگر کی روایت شروع کی تھی اور آج ہم نے دیکھا کہ دنیا بھرمیں سکھ فرقہ نے کس طرح کورونا کے اس دور میں لوگوں کو کھانا کھلانے کی اپنی روایت کو جاری رکھا ہے۔ انسانیت کی خدمت کی یہ روایت ہم سبھی کیلئے مسلسل ترغیب دینے کاکام کرتی ہے۔ میری تمنا ہے ہم سبھی سیوک کی طرح کام کرتے رہیں، گرو صاحب مجھ سے اور ملک کے باشندوں سے اسی طرح خدمت لیتے رہیں۔ ایک بار پھر بھی گروناک جینتی پر  میری بہت بہت نیک خواہشات۔

میرے پیارے ہم وطنو، پچھلے دنوں مجھے ملک بھر کی کئی یونیورسٹیوں کے طلباء کے ساتھ بات چیت کا ان کی تعلیمی سفر کے اہم پروگراموں میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے میں آئی آئی ٹی گوہاٹی، آئی آئی ٹی دہلی، گاندھی نگر کی دین دیال پٹرولیم یونیورسٹی، دہلی کی جے این یو، میسور یونیورسٹی اور لکھنؤ یونیورسٹی کے طلباء سے کنیکٹ ہوپایا۔  ملک کے نوجوانوں کے درمیان ہونا بیحد تروتازہ کرنے والا اور توانائی سے بھرنے والا ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے کیمپس تو ایک طرح سے منی انڈیا کی طرح ہوتے ہیں۔ ایک طرف جہاں ان کیمپسوں میں ہندوستان کی کثرت کے درشن ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف وہاں نیو انڈیا کے لئے بڑے بڑے بدلاؤ کا جذبہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ کورونا سے پہلے کے دنوں میں جب میں روبرو کسی ادارے کے پروگرام میں جاتا تھا تو یہ گزارش بھی کرتا تھا کہ آس پاس کے اسکولوں سے غریب بچوں کو بھی اس پروگرام میں مدعو کیا جائے۔ وہ بچے اس پروگرام میں، میرے خصوصی مہمان بن کر آتے رہے ہیں۔ ایک چھوٹا سا بچہ اس پُررونق پروگرام میں  کسی نوجوان کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ  بنتے دیکھتا ہے، کسی کو میڈل لیتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس میں نئے سپنے جگتے ہیں، میں بھی کرسکتا ہوں، یہ خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ عہد کے لئے تحریک ملتی ہے۔

ساتھیو، اس کے علاوہ ایک اور بات جاننے میں میری ہمیشہ دلچسپی رہتی ہے کہ اس ادارے کے ایلومنی کون ہے، اس ادارے کے اپنے ایلومنی سے ریگولر انگیجمنٹ کا انتظام ہے کیا؟ ان کا ایلومنی نیٹ ورک کتنا متحرک ہے۔

میرے نوجوان دوستو، آپ سب تک ہی کسی ادارے کے طالب علم ہوتے ہیں جب تک آپ وہاں پڑھائی کرتے ہیں، لیکن وہاں کے ایلومنی ، آپ زندگی بھر بنے رہتے ہیں۔ اسکول، کالج سے نکلنے کے بعد دو چیزیں کبھی ختم نہیں ہوتی ہیں۔ ایک آپ کی تعلیم کا اثر، اور دوسرا آپ کا اپنے اسکول کالج سے لگاؤ۔ جب کبھی ایلومنی آپس میں بات کرتے ہیں تو اسکول کالج کی ان کی یادوں میں کتابوں اور پڑھائی سے زیادہ کیمپس میں گزارا گیا وقت اور دوستوں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے ہوتے ہیں، اور انہیں یادوں میں سے جنم لیتا ہے ایک جذبہ ادارے کیلئے کچھ کرنے کا۔ جہاں آپ کی شخصیت کا ارتقاء ہوا ہے، وہاں کی ترقی کیلئے آپ کچھ کریں ، اس سے بڑی خوشی اور کیا ہوسکتی ہے۔ میں نے کچھ ایسی کوششوں کے بارے میں پڑھا ہے، جہاں سابق طالب علموں نے اپنے پرانے اداروں کو بڑھ چڑھ کر کے دیا ہے۔ آج کل ایلومنی اس کو لیکر بہت سرگرم ہیں۔ آئی آئی ٹی کے فارغ التحصیل افراد نے اپنے اداروں کو کانفرنس سینٹر، مینجمنٹ سینٹر، انکیوبیشن سینٹر جیسے کئی الگ الگ انتظامات خود بناکر دیے ہیں۔ یہ ساری کوشش موجودہ طالب علموں کے لرننگ تجربے کو بہترکرتے ہیں۔ آئی آئی ٹی دہلی نے ایک عطیہ فنڈ کی شروعات کی ہے، جو کہ ایک شاندار تصور ہے۔ دنیا کی جانی مانی یونیورسٹی میں اس طرح کے عطیات قائم کرنے کا کلچر رہا ہے، جو طلبا کی مدد کرتا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کی یونیورسٹیاں بھی اس کلچر کو ادارہ جاتی بنانے میں اہل ہیں۔

جب کچھ لوٹانے کی بات ہوتی ہے تو کچھ بھی بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی مدد بھی  معنی رکھتی ہے۔  ہر کوشش اہم ہوتی ہے۔ اکثر سابق طلباء اپنے اداروں کے ٹیکنالوجی کی جدیدکاری میں، عمارتوں کی تعمیر میں، ایوارڈس اور اسکالر شپ شروع کرنے میں، ہنرمندی کے فروغ کے پروگرام شروع کرنے میں، بہ تاہم کردار نبھاتے ہیں۔ کچھ اسکولوں کی اولڈ اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن نے مینٹرشپ پروگرامشروع کئے ہیں۔ اس میں وہ الگ الگ بیچ کے طلباء کو گائیڈ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی تعلیمی پہلوؤں پر چرچا کرتے ہیں۔ کئی اسکولوں  میں خاص طور سے رہائشی اسکولوں کی ایلومنی  ایسوسی ایشن بہت مضبوط ہے، جو اسپورٹس ٹورنامنٹ اور کمیونیٹی سروس جیسی سرگرمیوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ میں سابق طلباء سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے جن اداروں میں پڑھائی کی ہے وہاں سے اپنے رشتے کو مزید مضبوط کرتے رہیں۔ چاہے وہ اسکول ہو، کالج ہو یا یونیورسٹی۔ میرا اداروں سے بھی گزارش ہے کہ ایلومنی انگیجمنٹ کے نئے اور اختراعی طریقوں پر کام کریں۔ کریٹیو پلیٹ فارم ڈیولپ کریں تاکہ ایلومنی کی فعال شراکت داری ہوسکے۔ بڑے کالج اور یونیورسٹیز ہی نہیں، ہمارے گاؤں کے اسکول کا بھی اسٹرانگ وائبرینٹ ایکٹیو ایلومنی نیٹ ورک ہو۔

میرے پیارے ہم وطنو، 5دسمبر کو شری اربندو کی برسی ہے۔ شری اربندو کو ہم جتنا پڑھتے ہیں، اتنی ہی گہرائی ہمیں ملتی جاتی ہے۔ میرے نوجوان ساتھی شری اربندو کو جتنا جانیں گے، اتنا ہی اپنے آپ کو جانیں گے، خود کو مضبوط کریں گے۔ زندگی کے جس دور میں آپ ہیں، جن  عہدوں کو حقیقت بنانے کے لئے آپ  کوشش کررہے ہیں،ان کے درمیان آپ ہمیشہ سے ہی شری اربندو کو ایک نئی تحریک دیتے پائیں گے، ایک نیا راستہ دکھاتے ہوئے پائیں گے۔ جیسے، آج، جب ہم ‘لوکل کے لئے ووکل’ اس ابھیان کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں تو شری اربندو کا سودیشی کا درشن ہمیں راہ دکھاتا ہے۔ بنگلہ میں ایک بڑی ہی مؤثر نظم ہے۔

‘چھوئی شوتو پائے۔ مانتو آشے تُنگ ہوتے۔

دیا۔شلائی کاٹھی، تاؤ آسے پوتے۔۔

پرو۔ دپیتی  جالتے کھوتے، شوتے، جوتے۔

کچھوتے لوک نائے شادھین۔۔

یعنی ہمارے یہاں سوئی اور دیا سلائی تک ولایتی جہاز سے آتے ہیں۔ کھانے۔ پینے ، سونے، کسی بھی بات میں، لوگ آزاد نہیں ہیں۔

وہ کہتے بھی تھے سودیشی کا مطلب ہے کہ ہم، اپنے ہندوستانی مزدوروں، کاریگروں کی بنائی ہوئی چیزوں کو ترجیح دیں۔ ایسا بھی نہیں کہ شری اربندو نے غیرملکوں سے کچھ سیکھنے کا بھی کبھی مخالفت کی ہو۔ جہاں جو نیا ہے وہاں سے ہم سیکھیں۔  جو ہمارے ملک میں اچھا ہوسکتا ہے اس کا ہم تعاون اور حوصلہ افزائی کریں۔ یہی تو آتم نربھر بھارت ابھیان میں ‘‘ووکل فار لوکل’’منتر کی بھی بھاؤنا ہے۔ خاص کر سودیشی اپنانے کو لیکر انہوں نے جو کچھ کہا وہ آج ہر ملک کے شہری کو پڑھناچاہئے۔ ساتھیو، اسی طرح تعلیم کو لیکر بھی  شری اربندو کے خیالات بہت واضح تھے۔ وہ تعلیم کو صرف کتابی معلومات، ڈگری اور نوکری تک ہی محدود نہیں مانتے تھے۔ جناب اروبندو کہتے تھے ہماری قومی تعلیم ہماری نوجوان نسل کے دل اور دماغ کی تربیت ہونی چاہئے۔ یعنی ذہن کی سائنٹفک ترقی ہو اور دل میں ہندوستانی جذبات بھی ہوں، تب ہی ایک نوجوان  ملک کا ایک بہتر شہری بن پاتا ہے۔ شری اربندو نے قومی تعلیم کو لیکر جو بات تب کہی تھی ، جو امید کی تھی آج ملک اسے نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے پورا کررہا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان میں کھیتی اور اس سے جڑی چیزوں کے ساتھ نئی جہتیں جڑی رہی ہیں۔ پچھلے دنوں  ہوئے زرعی اصلاحات میں کسانوں کے لئے نئے امکانات کے دروازے بھی کھولے ہیں۔ برسوں سے کسانوں کی جو مانگ تھی، جن مانگوں کو پورا کرنے کیلئے کسی نہ کسی وقت میں ہر سیاسی پارٹی نے ان سے وعدہ کیا تھا، وہ مانگیں پوری ہوئی ہیں۔ کافی غور وخوض کے بعد ہندوستان کے پارلیمنٹ نے زرعی اصلاحات کو قانونی شکل دیا۔ ان اصلاحات سے نہ صرف کسانوں کو متعدد بندھن ختم ہوئے ہیں، بلکہ انہیں نئے حقوق بھی ملے ہیں، نئے مواقع بھی ملے ہیں۔ ان حقوق نے بہت ہی کم وقت میں، کسانوں کی پریشانیوں کو کم کرنا شروع کردیا ہے۔ مہاراشٹر کے دھولے ضلع کے کسان، جتیندر بھوئی جی نے، نئے زرعی قوانین کا استعمال کیسے کیا وہ  آپ کو بھی جاننا چاہئے۔ جتیندر بھوئی جی نے مکے کی کھیتی کی تھی اور صحیح داموں کیلئے اسے کاروباریوں کو بیچنا طے کیا۔ فصل کی کُل قیمت طے ہوئی  قریب تین لاکھ بتیس ہزار روپئے۔ جتیندر بھوئی کو پچیس ہزار روپئے پیشگی بھی مل گئے تھے۔ طے یہ ہوا تھا کہ باقی کا پیسہ انہیں پندرہ دن میں چکا دیا جائیگا۔ لیکن بعد میں حالات ایسے بنے کہ انہیں باقی کا پیمنٹ نہیں ملا۔ کسان سے فصل خرید لو، مہینوں- مہینوں پیمنٹ نہ کرو، ممکنہ طور پر مکاّ خریدنے والے برسوں سے چلی آرہی اسی روایت کو نبھا رہے تھے۔ اسی طرح چار مہینے تک جتیندر جی کا پیمنٹ نہیں ہوا۔ اس صورتحال میں ان کی مدد کی ستمبر میں جو پاس ہوئے ہیں، جو نئے زرعی قوانین بنے ہیں، وہ ان کے کام آئے۔ اس قانون میں یہ طے کیا گیا ہے کہ فصل خریدنے کے تین دن میں ہی، کسان کو پورا پیمنٹ کرنا پڑتا ہے اور اگر پیمنٹ نہیں ہوتا ہے، تو کسان شکایت درج کرسکتا ہے۔ قانون میں ایک اور بہت بڑی بات ہے، اس قانون میں یہ التزام کیا گیا ہے کہ علاقے کے ایس ڈی ایم کو ایک مہینے کے اندر ہی کسان کی شکایت کا نپٹارہ کرنا ہوگا۔ اب، جب، ایسے قانون کی طاقت ہمارے کسان بھائی کے پاس تھی، تو ان کے مسئلے کا حل تو ہونا ہی تھا، انہوں نے شکایت کی اور چند ہی دن میں ان  کا بقایہ چکا دیا گیا۔ یعنی کہ قانون کی صحیح اور پوری جانکاری ہی جتیندر جی کی طاقت بنی۔ علاقہ کوئی بھی ہو، ہر طرح کی افواہوں سے دور، صحیح جانکاری ہر شخص کیلئے بہت بڑاسمبل ہوتی ہے۔ کسانوں میں بیداری بڑھانے کا ایسا ہی ایک کام کررہے ہیں، راجستھان کے باراں ضلع میں رہنے والے محمد اسلم جی۔ یہ ایک کسان پروڈیوسر تنظیم کے  سی ای او بھی ہیں۔ جی ہاں، آپ نے صحیح سنا۔ کسان پروڈیوسر تنظیم کے سی ای او ۔ امید ہے، بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ای اوکو یہ سن کر اچھا لگے گا کہ اب ملک کے دور دراز والے علاقوں میں کام کررہے کسان تنظیموں میں بھی  سی ای او ہونے لگے ہیں۔ تو ساتھیو، محمد اسلم جی نے اپنے علاقے کے متعدد کسانوں کو ملاکر ایک وہاٹس ایپ گروپ بنالیا ہے۔ اس گروپ پر وہ ہر روز، آس پاس کی منڈیوں میں کیا قیمت چل رہی ہے، اس کی جانکاری کسانوں کو دیتے ہیں۔ خود  ان کا ایف پی او بھی کسانوں سے فصل خریدتا ہے، اس لئے ، ان کی اس کوشش سے کسانوں کو فیصلہ لینے میں مدد ملتی ہے۔

ساتھیو، بیداری ہے تو زندگی ہے۔ اپنی بیداری سے ہزاروں لوگوں کی زندگی متاثر کرنے والے ایک زرعی صنعتکار جناب ویریندر یادو جی ہیں۔ ویریندر یادو جی، کبھی آسٹریلیا میں رہا کرتے تھے۔ دو سال پہلے ہی وہ ہندوستان آئے اور اب ہریانہ کے کیتھل میں رہتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کی طرح ہی، کھیتی میں پرالی ان کے سامنے بھی ایک بڑا ایشو تھا۔ اس کے حل کے لئے بہت وسیع سطح پر کام ہورہا ہے، لیکن، آج، من کی بات میں، میں ویریندر جی کو خصوصی طور پر ذکر اس لئے کررہا ہوں، کیوں کہ ان کی کوشش الگ ہے، ایک نئی راہ دکھاتی ہے۔ پرالی کا حل کرنے کیلئے ویریندر جی نے پوال کی گانٹھ بنانے والی اسٹرابیلر مشین خریدی۔ اس کے لئے انہیں محکمہ زراعت  سے مالی مدد بھی ملی۔ اس مشین سے انہوں نے پرالی کے گٹھے بنانا شروع کردیا۔ گٹھے بنانے کے بعد انہوں نے پرالی کو ایگروانرجی پلانٹ اور پیپر مل کو بیچ دیا۔ آپ جانکر حیران رہ جائیں گے کہ ویریندر جی نے پرالی سے صرف دو برس میں ڈیڑھ کروڑ روپئے سے زیادہ کا کاروبار کیا ہے اور اس میں بھی لگ بھگ 50 لاکھ روپئے منافع کمایا ہے۔ اس کا فائدہ ان کسانوں کو بھی ہورہا ہے جن کے کھیتوں سے ویریندر جی پرالی اٹھاتے ہیں۔ ہم نے کچرے سے کنچن کی بات تو بہت سنی ہے، لیکن،پرالی کا نپٹارہ کرکے پیسہ اور ثواب کمانے کی یہ انوکھی مثال ہے۔ میرا نوجوانوں، خاص کر زراعت کی پڑھائی کررہے طلباء سے گزارش ہے کہ وہ اپنے آس پاس کے گاؤں میں جاکر کسانوں کو جدید ترین زراعت کے بارے میں، حال میں ہوئے زرعی اصلاحات کے بارے میں بیدار کریں۔ ایسا کرکے آپ ملک میں ہورہے بڑے بدلاؤ کے معاون بنیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو،

‘من کی بات’ میں ہم الگ الگ،  طرح طرح کے متعدد موضوعات پربات کرتے ہیں۔ لیکن ایک ایسی بات کو بھی ایک سال ہورہا ہے، جس کو ہم  کبھی خوشی سے یاد نہیں کرنا چاہیں گے۔ قریب قریب ایک سال ہورہے ہیں، جب دنیا کو کورونا کے پہلے کیس کے بارے میں پتہ چلا تھا۔ تب سے لیکر اب تک، پوری دنیا نے متعدد اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دور سے باہر نکل کر، اب، ویکسین پر بحث ہونے لگی ہے۔ لیکن کورونا کو لیکر کسی بھی طرح کی لاپرواہی اب بھی بہت نقصاندہ ہے۔ ہمیں، کورونا کے خلاف اپنی لڑائی کو مضبوطی سے جاری رکھنا ہے۔

ساتھیو، کچھ دنوں بعد ہی، 6دسمبر کو بابا صاحب امبیڈکر کی برسی بھی ہے۔ یہ دن بابا صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ہی ملک کے تئیں اپنے عہدوں، آئین نے ایک شہری کے طور پر اپنے فرض کو نبھانے کی جو سیکھ ہمیں دی ہے، اسے دوہرانے کا ہے۔ ملک کے بڑے حصے میں سردی کا موسم بھی زور پکڑ رہا ہے۔ متعدد جگہوں پر برف باری ہورہی ہے۔ اس موسم میں ہمیں  خاندان کے بچوں اور بزرگوں کا، بیمار لوگوں کا خاص دھیان رکھنا ہے، خود بھی احتیاط برتنی ہے، مجھے خوشی ہوتی ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنے آس پاس کے ضرورتمندوں کی بھی فکر کرتے ہیں۔ گرم کپڑے دیکر ان کی مدد کرتے ہیں۔ بے سہارا جانوروں کیلئے بھی سردیاں بہت مشکلات لیکر آتی ہیں۔ ان کی مدد کیلئے بھی بہت لوگ آگے آتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل اس طرح کے کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ ساتھیو، اگلی بار جب ہم ‘من کی بات’ میں ملیں گے تو 2020 کا یہ برس اختتام کی جانب ہوگا۔ نئی امیدوں، نئے اعتماد کے ساتھ ہم آگے بڑھیں گے۔ اب، جو بھی تجاویز ہوں، افنکار ونظریات ہوں، انہیں مجھ تک ضرور ساجھا کرتے رہیے۔ آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات۔ آپ سب صحتمند رہیں، ملک کے لئے سرگرم رہیں۔ بہت بہت شکریہ۔

 

 

-----------------------

م ن۔م ع۔ ع ن

U NO:7666


(Release ID: 1676988) Visitor Counter : 370