صدر جمہوریہ کا سکریٹریٹ

یوم آئین کے افتتاح کے موقع پر صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند کا خطاب

Posted On: 26 NOV 2020 7:46PM by PIB Delhi

یوم آئین کے موقع پر آپ سے خطاب کرنے میں مجھے خوشی محسوس ہورہی ہے۔ میں اور زیادہ خوشی محسوس کرتا ، اگر ہم لوگ باالمشافہ ہوتے، لیکن وباء نے ہم پر بہت سے پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔

آج  اپنے آئین کو اختیار کرنے کی 71ویں سالگرہ ہے۔1979ء سے قانونی برادری 26 نومبر کو ‘یوم قانون کے طورپر ہر سال مناتی ہے، جو کہ سپریم کورٹ کی بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر منایا جاتا ہے۔2015ء میں بابا صاحب امبیڈکر کی 125ویں یوم پیدائش منانے کے موقع پر سرکار نے فیصلہ کیا تھا کہ 26 نومبر کو یوم آئین کے طورپر منایا جائے گا۔

میرا اعتقاد ہے کہ ہماری جدوجہد آزادی کے عظیم دانشور لیڈروں کے ذریعے تیار کردہ ہمارے وجود میں لانے والی دستاویز ہمارے لئے ایک عنایت ہے۔وہ حضرات اس حقیقت کو جانتے تھے کہ وہ قوم کا اجتماعی مستقبل عوام الناس کی طرف سے ہی تحریر کررہے ہیں۔آئین میں نہ صرف جمہوریت اس کی دل کی حیثیت رکھتی ہے، بلکہ آئین ساز اسمبلی کو بھی ایک جمہوری طریقے پر تشکیل دیا گیا تھا۔ اس میں ملک بھر سے یکساں نمائندگی رکھی گئی تھی اور اس کے اراکین کے مابین کچھ دانشور خواتین کو بھی شامل کیا گیا تھا۔عوام نے بھی آئین ساز اسمبلی کے زندہ مباحثوں میں وسیع دلچسپی دکھائی۔ ریکارڈوں کے مطابق 53000 سے زیادہ شہری وزیٹر ز گیلری میں تقریباً 3 سال سے زیادہ کی مدت تک موجود تھے اور بحث و مباحثے کا مشاہدہ کرتے تھے۔

لہٰذا اب ہمارے سامنے کیا ہے-اگر میں ایسا کہوں تو –ایک ایسی دستاویز جو حقیقتاً عوام الناس کی ، عوام کے ذریعے اور عوام کے لئےہے۔ اگر میں ابراہم لنکن کی کہاوت کی یاددہانی کرواؤں تو میں یہ پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ دستاویز، جو کہ ہندوستانی دانشمندی اور دانشوری کی ایک ایجاد تھی، یہ ارضی نہیں تھی، کیونکہ تمام شہریوں کا اس میں مکمل اعتقاد ہے۔

خواتین و حضرات!

ہمارے آئین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے طرز کی طویل ترین دستاویز ہے، لیکن پھر بھی قانون ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے راجن بابو نے دُرست کہا تھا کہ اس کی طوالت کوئی مسئلہ نہیں، اگر اس کی گنجائشوں میں خیر اندیشی ہے۔ہمارے دور کی کہانیوں کا یہ جذبہ ، البتہ سرنامہ (پری ایمبل)میں نمایاں طور پرشامل کیا گیا ہے۔صرف 85الفاظ میں ہی یہ ان کلیدی اقدار کو اجُاگر کرتا ہے، جن کی وجہ سے جدوجہد آزادی کو جلا ملی، ہماری قوم کے بانیوں کے نظریے  اور ہرہندوستانی کے خواب اور خواہشات  کا مظہر ہے۔ان عمیق الفاظ میں سے بہت سوں پر 17 اکتوبر1949ء کو قابل ممبران کے ذریعے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

سرنامہ کو آئین کے دل کے طورپر صحیح دیکھا جاتا ہے اور اسے بہت سے اقدار کی کلید سمجھا جاتا ہے۔ان میں انصاف، آزادی، مساوات، بھائی چارہ اور اخوت شامل ہیں۔ایک شاندار مستقبل کے لئے ساتھ مل کر ہمارے سفر کی یہ ایک اخلاقی کمپاس ہے۔مسودہ  تیار کرنے والی کمیٹی کے صدر نشین کی حیثیت سے ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنے اختتامی خطاب میں ان کی اہمیت کی گوناگونیت کے بارے میں بات کی تھی۔‘‘سماجی جمہوریت کے کیا معنی ہیں؟اس کے معنی ہیں زندگی گزارنے کا طریقہ، جس میں آزادی ، مساوات ، بھائی چارہ اور اخوت کو زندگی کے اصولوں کے طورپر تسلیم کیا جاتا ہے۔آزادی ، مساوات ، بھائی چارہ اور اخوت کے یہ اصول کسی بھی ضمن میں علیحدہ علیحدہ اشیاء کے طورپر نہیں سمجھنی چاہئے۔وہ اس لحاظ سے ایک مثلث کی تشکیل دیتے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے علیحدہ کرنے  کا مطلب جمہوریت کے اصل مقصد کو زک پہنچانا ہے۔’’

خواتین و حضرات!

ہمارے سامنے جو سب سے اہم امر ہے وہ زندگی کے ایک طریقے کے طورپر ان نیک خیالات کو تسلیم کرنا ہے، جو کہ روز مرہ کے عوامل میں ان الفاظ کی عکاسی کرنے کے مترادف ہے۔عدلیہ کے لئے یہ کس بات پر زور دیتاہے۔سرنامہ میں اس عہد کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک کے تمام شہریوں کو سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف کو تحفظ فراہم کیا جائے۔میں ایک بار پھر یہ کہوں گا کہ انصاف کا مقصد اپنے آپ میں انصاف تک رسائی پر زور دیتا ہے۔دیگر الفاظ میں انصاف کو زیادہ سے زیادہ صرف اُسی صورت میں فراہم کیا جاسکتا ہے، جب اُس تک زیادہ سے زیادہ رسائی کی جاسکے۔

سب کے لئے انصاف کے مقصد کو بہتررسائی بنانے کے لئے ، بیشک ، کام جاری ہے۔یہ اپنی نوعیت کا ایک اہم کام ہے۔اس کی راہ میں بہت سی رُکاوٹیں ہیں، جن میں اس کی لاگت سب سے اعلیٰ مقام پر ہے۔اس سلسلے میں ، میں پہلے بھی بلا معاوضہ خدمت کے لئے اپنے جذبات کا اظہار کرچکا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اُس وقت ضرورت مند کے لئے مفت صلاح فراہم کرنے کا موقع حاصل کرسکا، جب میں وکالت کررہا تھا۔

دوسری اڑچن زبان ہےاور اس سلسلے میں  مجھے خوشی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے اپنے فیصلوں کو زیادہ سے زیادہ علاقائی زبانوں میں دستیاب کرانا شروع کردیا ہے۔ یقینی طورپر یہ زیادہ سے زیادہ شہریوں کو دائرے میں رکھنے کا بہترین طریقہ ہے اور اس طرح بڑے پیمانے پر عدلیہ کے ادارے شہریوں سے قریب تر ہوں گے۔

دوسری جانب مسائل کے حل بھی لاتعداد ہیں،علاوہ ازیں جب ہم  وباؤں کی عائد کردہ پابندیوں کا سامنا کرتے ہیں تو ان کے مابین سب سے پہلے ٹیکنالوجی اُبھرکر آرہی ہے۔مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہے کہ سپریم کورٹ اپنا کام کاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس وباء کےدوران ویڈیوکانفرنسنگ اور ای-فائلنگ جیسے ٹیکنالوجی کے حل استعمال کرتے ہوئے انصاف فراہم کررہی ہے۔میں بار، بینچ اور حکام کی ستائش کرتا ہوں کہ وہ سب کے لئے انصاف فراہم کرنے کے فرض کو پورا کرنے کے راستے میں کورونا وائرس کو اڑچن بننے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ کووڈ-19 کے ذریعے جو صورتحال مسلط ہوئی ہے، یہ دراصل ہمیں اس کام کو پورا کرنے اور انصاف تک رسائی کو باقاعدہ بنانے کے طور طریقےکے مزید اختراعی طور طریقے پانے ہماری مدد کرسکتی ہے۔

خواتین و حضرات!

اس مبارک موقع پر ہمیں اپنی زندگیوں کا ایک نیک تخیلی حصہ بنانے کے کام پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ مجھے راجن بابو کے الفاظ کی یاد آتی ہے۔24 جنوری 1950ء کو آئین ساز اسمبلی کا آخری اجلاس ہوا ہے۔ یہ اسی اجلاس میں تھا کہ ڈاکٹر راجندر پرساد کا نام صدر جمہوریہ ہند کے اولین صدر کے طورپر اعلان کیا گیا۔ساتھی اراکان ، عظیم جدوجہد آزادی کے جانباز کی جانب سے تالیوں اور مبارکباد کے شور کے درمیان انہوں نے کہا ‘‘میں ہمیشہ یہ کہتا رہا ہوں کہ مبارکبا د دینے کے لئے وہ وقت نہیں، جب کسی شخص کو کسی دفتر کے لیے مقرر کیا جاتا ہے، بلکہ وہ وقت ہے،جب وہ ریٹائر ہوتا ہے اور اسی لیے میں چاہوں گا کہ میں اس وقت کا انتظار کروں جب میں  اس دفتر سے رخصت لوں، جس کا آپ نے مجھے اعزاز بخشا ہے اور میں یہ محسوس کروں کہ مجھ میں وہ اعتماد اور خیرسگالی حاصل کرنے کی اہلیت ہے، جو کہ چاروں اطراف اور دوستوں کی جانب سے بھی مجھ پر نچھاور کی جارہی ہے۔’’

شاید راجن بابو کے دماغ میں سنت کبیر کی صدا بہار پنکتیاں تھیں، جنہوں نے غلاف کو بغیر اسے خراب کئے اسی صورتحال میں مارکر کو ڈھکنے کے لئے استعمال کرنے کے بارے میں کہا ہے۔

داس کبیر جتن کری اوڈھی، جیوں کیں تیوں دھر دینی چدریا

 میرا یقین ہے کہ یہ عوامی زندگی میں ہمارے برتاؤ کی رہنمائی کو ذہن میں رکھنے کے لئے ایک مناسب عکس ہے۔کیا یہ اُن لوگوں کے لئے جلا بخش نہیں ہونی چاہئے، جو اعلیٰ آئینی عہدوں پر فائز ہیں؟ہمیں ایک مثال قائم کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے، ہمیشہ جل اور حسد سے اُبھر کر اُوپر آنا چاہئے۔راجن بابو کے یہ مشاہدات ہم سب کے لئے راہ نما ہے۔ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے میں نے ہمیشہ اِن الفاظ کو اپنے لیے راہ نما منتر کے طورپر اپنے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم اپنے بانیوں کے خیالات کی کس طرح بہتر طورپر تقلید کرسکتے ہیں، جیسا کہ آئین میں عمومی اور سرنامہ(پری ایمبل)میں خصوصی طورپر بیان کی گئی۔

خواتین و حضرات!

ہندوستان کی سپریم کورٹ نے اپنے اعلیٰ ترین معیارات اور مصمم نظریات کے لئے ایک ساکھ قائم کی ہے۔عدالت کے ذریعے ثابت کئے گئے کلیدی فیصلوں نے ہمارے ملک کی قانونی اور آئینی خاکے کو مستحکم کیا ہے۔ اس کی بینچ اور بار اپنی دانشمندانہ گہرائی اور قانونی اسکالر شپ کے لئے معروف ہیں۔مجھے یقین ہے کہ یہ عدالت ہمیشہ انصاف کا گہوارہ بنی رہے گی۔ میں چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو مستقبل کے لئے اپنی نیک خواہشات  کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ میں سپریم کورٹ بار کے اُن اراکین کے لئے بھی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں، جو اپنے بامقصد مستقبل کے لئے عدالت کے افسران سمجھے جاتے ہیں۔

میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے نظریات رکھنے کا موقع دیا۔ میں یوم آئین کے موقع پر آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

جے ہند!

 

********

م ن۔ا ع۔ن ع

 (U: 7602)



(Release ID: 1676400) Visitor Counter : 178