وزیراعظم کا دفتر
روہتانگ، ہماچل پردیش میں اٹل ٹنل کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
03 OCT 2020 1:56PM by PIB Delhi
ملک کے وزیردفاع جناب راجناتھ سنگھ جی، ہماچل پردیش کےوزیراعلیٰ جناب جئے رام ٹھاکر جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی انوراگ ٹھاکر، ہماچل سرکار کے وزراء، دیگر عوامی نمائندگان، چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت جی، آرمی چیف، وزارت دفاع بارڈر روڈ آرگنائزیشن سے جڑے سبھی ساتھی اور ہماچل پردیش کے میرے بھائیو اور بہنو!
آج کا دن بہت تاریخی ہے۔ آج صرف اٹل جی کا ہی خواب پورا نہیں ہوا ہے، آج ہماچل پردیش کے کروڑوں لوگوں کا بھی دہائیوں پرانا انتظار ختم ہوا ہے۔
میری بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ آج مجھے اٹل ٹنل کے افتتاح کا موقع ملا ہے۔ اور جیسا ابھی راجناتھ جی نے بتایا، میں یہاں تنظیم کا کام دیکھتا تھا، یہاں کے پہاڑوں ، یہاں کی وادیوں میں اپنا بہت ہی بہتر وقت صرف کرتا تھا اور جب اٹل جی منالی میں آکر رہتے تھے تو اکثر ان کے پاس بیٹھنا، گپ شپ کرنا۔ اور میں اور دھومل جی ایک دن چائے پیتے پیتے اس موضوع کو بڑی گزارش کے ساتھ ان کے سامنے رکھ رہے تھے۔ اور جیسی اٹل جی کی خاصیت تھی، وہ بڑے آنکھیں کھول کرہمیں گہرائی سے پڑھ رہے تھے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ سر ہلادیتے تھے کہ ہاں بھائی۔ لیکن آخر کار جس بات کو لیکر میں اور دھومل جی ان سے لگے رہتے تھے وہ سجھاؤ اٹل جی کا خواب بن گیا، عہد بن گیا اور آج ہم اسے ایک حقیقت کے طور پر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ اس سے زندگی کا کتنا بڑا اطمینان ہوسکتاہے، آپ تصور کرسکتے ہیں۔
اب یہ کچھ منٹ پہلے ہم سب نے ایک مووی بھی دیکھی اور میں نے وہاں ایک پکچر گیلری بھی دیکھی۔دی میکنگ آف اٹل ٹنل۔ اکثر افتتاح کرنے کی چکاچوند میں وہ لوگ کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں جن کی محنت سے یہ سب ممکن ہوا ہے۔ ناقابل تسخیر پیرپنجال اس کو کریدکر ایک بہت ہی مشکل عہد کو آج پورا کیا گیا ہے۔ اس مہایگیہ میں اپنا پسینہ بہانے والے، اپنی جان جوکھم میں ڈالنے والے محنت کش نوجوانوں کو، انجینئروں کو، سبھی مزدور بھائی-بہنوں کو آج میں نہایت ادب واحترام سے سلام کرتا ہوں۔
ساتھیو، اٹل ٹنل ہماچل پردیش کے ایک بڑے حصے کے ساتھ ساتھ نئے مرکز کے زیر انتظام علاقہ لیہہ-لداخ کی بھی لائف لائن بننے والا ہے۔ اب صحیح معنوں میں ہماچل پردیش کا یہ بڑا علاقہ اور لیہہ- لداخ ملک کے باقی حصوں سے ہمیشہ جڑے رہیں گے، ترقی کے راستے پر تیزی سے آگے بڑھیں گے۔
اس ٹنل سے منالی اور کیلانگ کے بیچ کی دوری 4-3 گھنٹے کم ہوہی جائے گی۔ پہاڑ کے میرے بھائی-بہن سمجھ سکتے ہیں کہ پہاڑ پر 4-3 گھنٹے کی دوری کم ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
ساتھیو، لیہہ-لداخ کے کسانوں، باغبانوں، نوجوانوں کے لئے بھی اب ملک کی راجدھانی دلّی اور دوسرے بازار تک ان کی پہنچ آسان ہوجائے گی۔ ان کاجوکھم بھی کم ہوجائے گا۔ یہی نہیں، یہ ٹنل دیودھرا ہماچل اور بدھ روایت کے اس جڑاؤ کو بھی مضبوط کرنے والی ہے جو بھارت سے نکل کر آج پوری دنیا کو نئی راہ، نئی روشنی دکھارہی ہے۔ اس کے لئے ہماچل اور لیہہ- لداخ کے سبھی ساتھیوں کو بہت بہت مبارکباد۔
ساتھیو، اٹل ٹنل بھارت کےبارڈر انفراسٹرکچر کو بھی نئی طاقت دینے والی ہے۔ یہ عالمی سطح کی بارڈر کنیکٹیویٹی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ہمالیہ کا یہ حصہ ہو، مغربی بھارت میں ریگستان کی توسیع ہویا پھر جنوبی اور مشرقی ہندوستان کا ساحلی علاقہ، یہ ملک کی حفاظت اور خوشحالی، دونوں کے بہت بڑے وسائل ہیں۔ ہمیشہ سے ان علاقوں کے متوازن اور مکمل ترقی کو لیکر یہاں کے انفراسٹرکچر بہتر بنانے کی مانگ اٹھتی رہی ہے۔ لیکن لمبے وقت تک ہمارے یہاں بارڈر سے جڑے انفراسٹرکچر کے پروجیکٹ یا توپلاننگ کی اسٹیج سے باہر ہی نہیں نکل پائے یا جو نکلے وہ اٹک گئے، لٹک گئے، بھٹک گئے۔ اٹل ٹنل کے ساتھ بھی کبھی کبھی تو کچھ ایسا محسوس بھی ہوا ہے۔
سال 2002 میں اٹل جی نے اس ٹنل کے لئے ایپروچ روڈ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اٹل جی کی سرکار جانے کے بعد، جیسے اس کام کو بھی بھلا دیا گیا۔ حالات یہ تھی کہ سال 14-2013 تک ٹنل کے لئے صرف 1300 میٹر یعنی ڈیڑھ کلو میٹر سے بھی کم کام ہوپایا تھا۔
ایکسپرٹ بتاتے ہیں کہ جس رفتار سے اٹل ٹنل کا کام اس وقت ہورہا تھا، اگر اسی رفتار سے کام چلا ہوتا تو یہ سرنگ سال 2040 میں جاکر کے شاید پوری ہوتی۔ آپ تصور کیجئے، آپ کی آج جو عمر ہے، اس میں 20 سال اور جوڑ لیجئے، تب جاکر لوگوں کی زندگی میں یہ دن آتا، ان کا خواب پورا ہوتا۔
جب ترقی کےراستے پر تیزی سے آگے بڑھناا ہو، جب ملک کے لوگوں کی ترقی کی شدید خواہش ہو، تو رفتار بڑھانی ہی پڑتی ہے۔ اٹل ٹنل کے کام میں بھی 2014 کے بعد، غیرمعمولی تیزی لائی گئی۔ بی آر او کے سامنے آنے والی ہر روکاوٹ کو دور کیا گیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں ہر سال پہلے 300 میٹر سرنگ بن رہی تھی، اس کی رفتار بڑھ کر 1400 میٹر فی برس ہوگئی۔ صرف 6 سال میں ہم نے 26 سال کا کام پورا کرلیا۔
ساتھیو، انفراسٹرکچر کے اتنے اہم اور بڑے پروجیکٹ کی تعمیر میں دیری سے ملک کا ہر طرح سے نقصان ہوتا ہے۔ اس سے لوگوں کو سہولت ملنے میں تو دیری ہوتی ہی ہے، اس کا خمیازہ ملک کو اقتصادی سطح پر اٹھانا پڑتا ہے۔
سال 2005 میں یہ تخمینہ لگایا گیا تھا، یہ ٹنل لگ بھگ ساڑھے نو سو کروڑ روپئے میں تیار ہوجائے گی لیکن لگاتار ہوتی دیری کے سبب آج یہ تین گنا سے بھی زیادہ یعنی قریب قریب 3200 کروڑ روپئے سے زیادہ خرچ کرنے کے بعد پوری ہوپائی ہے۔ تصور کیجئے کہ ا گر 20 سال اور لگ جاتے تب کیا حالت ہوتی۔
ساتھیو، کنیکٹیویٹی کا ملک کی ترقی سے راہ راست تعلق ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کنیکٹیویٹی یعنی اتنی ہی تیز ترقی۔ خاص کر بارڈر ایریا میں تو کنیکٹیویٹی سیدھے سیدھے ملک کی دفاعی ضرورتوں سے جڑی ہوتی ہے۔ لیکن اس کو لیکر جس طرح کی سنجیدگی تھی اور اس کی سنجیدگی کی ضرورت تھی، جس طرح کی سیاسی عزم کی ضرورت تھی، بدقسمتی سے ویسی نہیں دکھائی گئی۔
اٹل ٹنل کی طرح ہی متعدد اہم پروجیکٹس کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا گیا۔ لداخ میں دولت بیگ اولڈی کی شکل میں اسٹریٹیجک طور سے بہت اہم فضائی پٹی40 سے 50 سال تک بند رہی۔ کیا مجبوری تھی، کیا دباؤ تھا، میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ اس کے بارے میں بہت کچھ کہا جاچکا ہے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ لیکن سچائی یہی ہے کہ دولت بیگ اولڈی کی فضائی پٹی فضائیہ کے اپنے ارادوں کی وجہ سے شروع ہوپائی، اس میں سیاسی مرضی کہیں نظرنہیں آئی۔
ساتھیو، میں ایسے درجنوں پروجیکٹ گنا سکتا ہوں جو اسٹریٹیجک نقطہ نظر سے بھلے ہی کتنے بھی اہم رہے ہوں، لیکن سالوں تک نظرانداز کیے گئے۔
مجھے یاد ہے کہ میں تقریباً دو سال پہلے اٹل جی کے یوم پیدائش کے موقع پر آسام میں تھا۔ وہاں پر بھارت کے سب سے لمبے ریل روڈ برج ‘باگی بیل پُل’ کو ملک کے نام وقف کرنے کا موقع مجھے ملا تھا۔ یہ پل آج نارتھ۔ ایسٹ اور اروناچل پردیش سے کنیکٹیویٹی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ باگی بیل برج پر بھی اٹل جی کی سرکار کے وقت ہی کام شروع ہوا تھا، لیکن ان کی سرکار جانے کے بعد پھر اس پل کا کام سست ہوگیا۔ سال 2014 کے بعد بھی اس کام نے بھی رفتار پکڑی اور چار سال کے اندر اندراس پل کا کام پورا کردیا گیا۔
اٹل جی کے ساتھ ہی ایک اور پل کا نام جڑا ہے۔ کوسی مہاسیتو کا ۔بہار میں متھلانچل کے دو حصوں کوجوڑنے والے کوسی مہاسیتو کا سنگ بنیاد بھی اٹل جی نے ہی رکھا تھا۔ لیکن اس کا کام بھی الجھا رہا، اٹکا رہا۔
2014 میں ہمیں سرکار میں آنے کے بعد کوسی مہاسیتو کا کام بھی ہم نے تیز کروایا۔ اب سے کچھ دن پہلے ہی کوسی مہاسیتو کا بھی افتتاح کیا جاچکا ہے۔
ساتھیو، ملک کے قریب قریب ہر حصے میں کنیکٹیویٹی کے بڑے بڑے پروجیکٹ کا یہی حال رہا ہے۔ لیکن اب یہ حالت بدل رہی ہے اور بہت تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔ گزشتہ چھ برسوں میں اس سمت میں غیرمعمولی کوشش کی گئی ہے۔ خصوصی طورسے بارڈر انفراسٹرکچر کی ترقی کے لئے پوری طاقت لگا دی گئی ہے۔
ہماچل خطے میں، چاہے وہ ہماچل ہو، جموں وکشمیر ہو، کارگل- لیہہ- لداخ ہو، اتراکھنڈ ہو، سکم ہو، اروناچل پردیش ہو، درجنوں پروجیکٹ پورے کئے جاچکے ہیں اور متعدد پروجیکٹوں پر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ سڑک بنانے کاکام ہو، پُل بنانے کا کام ہو، سرنگ بنانے کاکام ہو، اتنے بڑے پیمانے پر ملک میں ان علاقوں میں پہلے کبھی کام نہیں ہوا۔
اس کا بہت بڑا فائدہ عام لوگوں کے ساتھ ہی ہمارے فوجی بھائی- بہنوں کو بھی ہورہا ہے۔ سردی کے موسم میں ان تک رسد پہچانا ہو، ان کی حفاظت سے وابستہ ساز وسامان ہو، وہ آسانی سے پٹرولنگ کرسکیں، اس کے لئے سڑکوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔
ساتھیو، ملک کی دفاعی ضرورتوں، ملک کی حفاطت کرنے والوں کی ضرورتوں کا دھیان رکھنا، ان کے مفادات کا دھیان رکھنا ہماری سرکار کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔
ہماچل پردیش کے ہمارے بھائی۔بہنوں کو آج بھی یاد ہے کہ ون رینک ون پنشن کو لیکر پہلے کی سرکاروں کا کیا برتاؤ تھا۔ چار دہائیوں تک ہمارے سابق فوجی بھائیوں کو صرف وعدے ہی کئے گئے۔ کاغذوں میں صرف 500 کروڑ روپئے دکھاکر یہ لوگ کہتے تھے کہ ون رینک ون پنشن لاگو کریں گے۔ لیکن کیا پھر بھی نہیں۔ آج ون رینک۔ ون پنشن کا فائدہ ملک کے لاکھوں سابق فوجیوں کو مل رہا ہے۔ صرف بقایہ جات کے طور پر ہی مرکزی حکومت نے لگ بھگ 11 ہزار کروڑ روپئے سابق فوجیوں کو دیے ہیں۔
ہماچل پردیش کے بھی قریب قریب ایک لاکھ فوجی ساتھیوں کو اس کا فائدہ ملا ہے۔ ہماری سرکار کے فیصلے گواہ ہیں کہ ہم نے جو فیصلے کیے وہ ہم لاگو کرکے دکھاتے ہیں۔ ملک کے مفاد سے بڑا، ملک کی حفاظت سے بڑا، ہمارے لئے اور کچھ نہیں۔ لیکن ملک نے طویل عرصے تک وہ دور بھی دیکھا ہے جب ملک کے دفاعی مفادات کے ساتھ سمجھوتہ کیا گیا۔ ملک کی فضائیہ جدید ترین فائٹر پلین مانگتی رہی۔ وہ لوگ فائل پر فائل ، فائل پر فائل، کبھی فائل کھولتے تھے، کبھی فائل سے کھولتے تھے۔
گولہ بارود، جدید ترین رائفلیں ہوں، بلیٹ پروف جیکٹس ہوں، کڑا کے کی سردی میں کام آنے والے آلات اور دیگر ساز وسامان ہوں، سب کچھ طاق پر رکھ دیا گیا تھا۔ ایک وقت تھا جب ہماری آرڈیننس فیکٹریوں کی طاقت، اچھے اچھوں کے ہوش اڑا دیتی تھی۔ لیکن ملک کی آرڈیننس فیکٹریوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا۔
ملک میں سودیشی لڑاکا طیاروں ، ہیلی کاپٹروں کے لئے ایچ اے ایل جیسی عالمی سطح کا ادارہ بنایا گیا، لیکن اسے بھی مضبوط کرنے پر اتنا دھیان نہیں دیا گیا۔ برسوں تک اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے ذاتی مفاد نے ہماری فوجی طاقتوں کو مضبوط ہونے سے روکا ہے، اس کا نقصان کیا ہے۔
جس تیجس لڑاکو طیارہ پر آج ملک کو فخر ہے، اسے بھی ان لوگوں نے ڈبے میں بند کرنے کی تیاری کرلی تھی۔ یہ تھی ان لوگوں کی سچائی، یہ ہے ان لوگوں کی سچائی۔
ساتھیو، اب آج ملک میں یہ صورتحال بدل رہی ہے۔ ملک میں ہی جدید ترین اسلحہ بنے، میک اِن انڈیا ہتھیار بنے، اس کے لئے بڑے اصلاحات کیے گئے ہیں۔ طویل ا نتظار کے بعد چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا نظام اب ہمارے سسٹم کا حصہ ہے۔
اس سے ملک کی افواج کی ضرورتوں کے مطابق خریداری اور پیداوار دونوں میں بہتر تال میل قائم ہوا ہے۔ اب متعدد ایسے ساز وسامان ہیں جن کو بیرون ملک سے منگانے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ وہ سامان اب صرف بھارت کی صنعتوں سے ہی خریدنا ضروری کردیا گیا ہے۔
ساتھیو، ہندوستان میں ڈیفنس انڈسٹری میں غیرملکی سرمایہ کاری اور غیرملکی تکنیک آسکے اس کے لئے بھی ہندوستانی اداروں کو متعددطرح کے ترغیبات دیے جارہے ہیں۔ جیسے جیسے بھارت کا عالمی کردار بدل رہا ہے، ہمیں اسی تیزی سے اسی رفتار سے اپنے انفراسٹرکچر کو، اپنے اقتصادی اور اسٹریٹیجک طاقت کو بھی بڑھانا ہے۔
آتم نربھر بھارت کی خوداعتمادی آج عام لوگوں کی سوچ کا حصہ بن چکی ہے۔ اٹل ٹنل اسی خوداعتمادی کا عکاس ہے۔
ایک بار پھر میں آپ سبھی کو، ہماچل پردیش کو اورلیہہ-لداخ کے لاکھوں ساتھیوں کو بہت بہت مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ہماچل پر میرا کتنا حق ہے یہ تو میں نہیں کہہ سکتا ہوں لیکن ہماچل کا مجھ پر بہت حق ہے۔ آج کے اس پروگرام میں وقت بہت کم ہونے کے باوجود بھی ہمارے ہماچل کے پیار نے مجھ پر اتنا دباؤ ڈال دیا، تین پروگرام بنادیئے۔ اس کے بعد مجھے اور دو پروگرام میں بہت ہی کم وقت میں بولنا ہے۔ اور اس لئے میں یہاں تفصیل سے نہ بولتے ہوئے کچھ باتیں دو اور پروگرام میں بھی بولنے والا ہوں۔
لیکن کچھ مشورہ میں یہاں ضرور دینا چاہتا ہوں۔ میرے یہ مشورے حکومت ہند کی وزارت دفاع کے لئے بھی ہیں، حکومت ہند کی وزارت تعلیم کے لئے بھی ہیں اور بی آر او کیلئے اسپیشل بھی ہیں۔ ایک یہ ٹنل کا کام اپنے آپ میں انجیئنرگ کے نقطہ نظرسے، ورک کلچر کے نقطہ نظر سے منفرد ہے۔ پچھلے اتنے برسوں میں جب سے اس کا ڈیزائننگ کا کام شروع ہوا، کاغذ پر لکھنا شروع ہوا، تب سے لیکر اب تک۔ اگر 1500-1000 جگہیں ایسی چھانٹیں، مزدور بھی ہوسکتاہے اور اعلیٰ شخصیت بھی ہوسکتے ہیں۔ اس نے جو کام کیا ہے، اس کا اپنا جو تجربہ ہے اس کو وہ اپنی زبان میں لکھیں۔ ایک 1500 لوگ پوری کوشش کو اگر لکھیں گے، کب کیا ہوا، کیسے ہوا، ایک ایسا ڈاکومنٹیشن ہوگا جس میں ہیومن ٹچ ہوگا۔ جب ہورہا تھا تب وہ کیا سوچتا تھا کبھی تکلیف آئی تو اس کو کیا لگا۔ ایک اچھا ڈاکومنٹیشن، میں اکیڈمک ڈاکومنٹیشن نہیں کہہ رہا، یہ وہ ڈاکومنٹیشن ہے جس میں ہیومن ٹچ ہے۔ جس میں مزدور کام کرتا ہوگا، کچھ دن کھانا نہیں پہونچا ہوگا، کیسے کام کیا ہوگا، اس بات کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کبھی کوئی سامان پہنچنے والا ہوگا، برف کے سبب پہنچا نہیں ہوگا، کیسے کام کیا ہوگا۔
کبھی کوئی انجینئر چیلنج آیا ہوگا۔ کیسے کیا ہوگا۔ میں چاہوں کہ کم سے کم 1500 لوگ، ہر سطح پر کام کرنے والے پانچ پیج، چھ پیج، دس پیج، اپناتجربہ لکھیں۔ کسی ایک شخص کو ذمہ داری دیجئے پھر اس کو تھوڑا ٹھیک ٹھاک لینگویج بہتر کرکے ڈاکومنٹیشن کرادیجئے اور چھاپنے کی ضرورت نہیں ہے ڈیجیٹل ہی بنادیں گے تو بھی چلے گا۔
دوسری، میری گزارش وزارت تعلیم سے ہے کہ ہمارے ملک میں جتنے بھی ٹکنیکل اور انجینئرنگ سے جڑی یونیورسٹیاں ہیں ان یونیورسٹیوں کے بچوں کو کیس اسٹڈی کاکام دیا جائے۔ اور ہر برس ایک۔ ایک یونیورسٹی سے آٹھ دس بچوں کا بیچ یہاں آئے، کیس اسٹڈی کا کیسے تصور ہوا، کیسے بنا، کیسے چنوتیاں آئیں، کیسے راستے نکالے اور دنیا میں سب سے اونچی اور سب سے لمبی جگہ پر دنیا میں نام کمانے والی اس ٹنل کی انجینئرنگ نالج ہمارے ملک کے اسٹوڈینٹس کو ہونی ہی چاہئے۔
اتنا ہی نہیں، گلوبلی بھی میں چاہوں گا ایم ای اے کے لوگ کچھ یونیورسٹیوں کو مدعو کریں۔ وہاں کی یونیوسٹیز یہاں اسٹڈی کے لئے آئیں۔ پروجیکٹ پر اسٹڈی کریں۔ دنیا کے اندر ہماری اس طاقت کی پہچان ہونی چاہئے۔ دنیا کو ہماری طاقت کا علم ہونا چاہئے۔ محدود وسائل کے بعد بھی کیسے بے مثال کام موجودہ نسل کے ہمارے جوان کرسکتے ہیں اس کا علم دنیا کو ہونا چاہئے۔
اور اس لئے میں چاہوں گا کہ وزارت دفاع، وزارت تعلیم، ایم ای اے، بی آر او، سب مل کرکے ایک طرح سے لگاتار یہ ایجوکیشن کا حصہ بن جائے، ٹنل کام کام۔ ہماری ایک پوری نئی نسل اس سے تیار ہوجائے گی تو ٹنل انفراسٹرکچر بنے گا لیکن انسان سازی بھی ایک بہت بڑا کام ہوتا ہے۔ ہمارے اعلیٰ انجینئر بنانے کاکام بھی یہ ٹنل کرسکتی ہے اور اس سمت میں بھی ہم کام کریں۔
میں پھر ایک بار آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور میں ان جوانوں کااستقبال کرتا ہوں، جنہوں نے اس کام کو بخوبی نبھایا ہے، بخوبی پورا کیا ہے اور ملک کا وقار بڑھایا ہے۔
بہت بہت شکریہ!!!
-----------------------
م ن۔م ع۔ ع ن
U NO: 6060
(Release ID: 1661343)
Visitor Counter : 355
Read this release in:
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Manipuri
,
Bengali
,
Assamese
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam