وزارت دفاع

رکشا منتری جناب راج ناتھ سنگھ کے 17 ستمبر کو راجیہ سبھا میں بیان کا متن

Posted On: 17 SEP 2020 1:28PM by PIB Delhi

عزت مآب چیئرمین،

  1. میں اس جلیل القدر ایوان کے محترم ممبروں کو پچھلے چند مہینوں کے دوران لداخ کی سرحدوں پر پیش آنے والے واقعات کے بارےمیں مطلع کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ ہماری اس عظیم قوم  کی تعمیر میں بے شمار ہم وطنوں نے قربانیاں دی ہیں۔ آزاد بھارت کی مسلح افواج نے ہماری سرحدوں کی سلامتی کے لیے عظیم ترین قربانیاں دینے سے کبھی پس وپیش نہیں کیا۔ آپ سب واقف ہیں کہ 15 جون 2020 کو کرنل سنتوش بابو اور ہمارے 19 نوجوان فوجیوں نے گلوان وادی میں ہمارے مادر وطن کی حفاظت میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کی تھی۔ ہمارے وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی نے خود لداخ کا دورہ کیا اور ہمارے بہادر فوجیوں کا حوصلہ بڑھایا۔ میں نے بھی ان فوجیوں سے ملاقات کرنے کے بعد ان کی جرأت مندی اور ناقابل تنسیخ  حوصلے کا تجربہ کیا ہے۔ اس ایوان نے بھی اجلاس کے شروع میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکے گلوان کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔
  2.   میں  چین کے ساتھ اپنے سرحدی مسئلے کی کچھ تفصیلات مختصراً پیش کرنے کے لیے کچھ وقف لینا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ ایوان کو معلوم ہے کہ بھارت اور چین کو اپنا سرحدی مسئلہ ابھی حل کرنا ہے۔چین ہمارے دونوں ملکوں یعنی بھارت اور چین کے درمیان  سرحد کی مروجہ اور روایتی صف بندی کو تسلیم نہیں کرتا۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ صف بندی بہترین طریقے پر قائم جغرافیائی اصولوں پر مبنی ہے جن کی توثیق  معاہدوں اور سمجھوتوں کے ذریعے نیز  تاریخی استعمال اور پریکٹس کے ذریعے کی گئی ہے جو دونوں ملکوں کو صدیوں سے معلوم رہے ہیں۔ جبکہ چین کا موقف یہ ہے کہ  دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کو باضابطہ طور پر متعین نہیں کیا گیا ہے اس کے ساتھ چین کا یہ بھی خیال ہے کہ تاریخی دائرہ اختیار کی بنیاد پر روایتی رسم ورواج کی تشریح دونوں ممالک کی مختلف ہے۔ دونوں ملکوں نے 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا تھالیکن ان کوششوں کا باہمی طور پر قابل قبول  کوئی حل نہیں نکل سکا۔
  3. جیسا کہ اس ایوان کو معلوم ہے کہ  چین نے مرکزی انتظام علاوہ علاقے لداخ میں  تقریبا 3800 مربع کلو میٹر کے علاقے پر  غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ 1963 کے  نام نہاد چین پاکستان ‘سرحدی سمجھوتے’ کے تحت  پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر میں 5180 مربع کلو میٹر علاقہ چین کے حوالے کردیا تھا۔ چین اروناچل پردیش میں بھارت- چین سرحد کو مشرقی سیکٹر میں  تقریباً90000  مربع کلو میٹر علاقے پر بھی اپنا دعویٰ کرتاہے۔
  4. بھارت اور چین دونوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ سرحد کا مسئلہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جس کے لیے صبر وتحمل کی ضرورت ہے۔ اور دونوں ہی ملکوں نے اس مسئلے کا مناسب منصفانہ  اور باہمی طور پر قابل قبول حل نکالنے کے لیے بات چیت اور پرامن مذاکرات  سے کام لینے کا عہد کر رکھا ہے۔ اس دوران میں دونوں ملکوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ سرحدی علاقوں میں امن وتحمل برقرار رکھنا باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
  5. میں یہاں یہ ذکر کرنا چاہتاہوں کہ بھارت اور چین کے درمیان اصل لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کی کوئی مشترکہ حدبندی ابھی تک موجود نہیں ہے اور پورے ایل اے سی کے بارےمیں کوئی مشترکہ تصور موجود نہیں ہے۔ اس لیے سرحدی علاقوں خاص طور پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر امن اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کی خاطر دونوں ملکوں نے کئی سمجھوتے اور پروٹوکول کیے ہیں۔
  6. ان سمجھوتوں کے مطابق طرفین نے ایل اے سی پر امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے سے اتفاق کیا ہے۔ اور ایسا کرتے وقت ایل اے سی پر سرحد کے سوال پر صف بندی میں ان کے اپنے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اسی بنیاد پر  ہمارے مجموعی تعلقات میں 1988 سے خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔بھارت کا موقف یہ ہے کہ  کہ باہمی تعلقات سرحد کا سوال حل کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ فروغ پاسکتے ہیں۔ اس لیے  سرحدی علاقوں میں ایل اے سی پر امن اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچنے سے ہمارے تعلقات کے مثبت سمت میں چلنے پر اثر پڑکر رہے گا۔
  7. 1993 اور 1996 کے سمجھوتوں کا ایک ا ہم جزو یہ ہے کہ دونوں ملک لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے قریب کے علاقوں میں  اپنی فوجی فورسوں کی سطح کم سے کم رکھیں گے۔ ان سمجھوں میں اس بات کو بھی لازمی بنایا گیا ہے کہ سرحد کے سوال کا قطعی حل نکلنے تک دونوں ممالک لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا سختی سے احترام کریں گے۔اس کے علاوہ ان سمجھوتوں میں بھارت اور چین نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی وضاحت اور تصدیق کا عہد بھی کیاہے تاکہ ایک مشترکہ مفاہمت پر پہنچا جاسکے۔اس کے نتیجے میں 1990 کی دہائی کے اخیر میں اور 2003 تک دونوں ملک ایل اے سی کی وضاحت اور تصدیق کے کام  میں مصروف رہے۔لیکن اس کے بعد چین نے ایل اے سی کی وضاحت کے عمل کو جاری رکھنے پر کسی رضامندی کا اظہار نہیں کیا۔نتیجے کے طو رپر کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں ایل اے سی کے بارےمیں چین اور بھارت کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ان علاقوں میں  اور سرحدی علاقوں کے دوسرے شیکشنوں میں ایسے سمجھوتے موجود ہیں جن کے مطابق طرفین کی فوجوں کو کام کرنا چاہیے۔ اور امن ہم آہنگی برقرار رکھنےکے لیے مقابلہ آرائی جیسی  صورت حال سے نمٹنا چاہیے۔
  8. اس سے پہلے کہ میں ایوان کو موجودہ واقعات سے واقف کراؤں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حکومت کے پاس ایک مفصل اور وقت پر کھرا اترنے والا تعاون کا میکانزم  مختلف انٹلیجنس ایجنسیوں کے درمیان  موجود ہےجن میں سینٹرل آرمڈ پولیس فورسز کے انٹلیجنس یونٹ اور تینوں مسلح فوجوں کے انٹلیجنس یونٹ موجود ہیں۔ تکنیکی اور انسانی انٹلیجنس ایک انتہائی مربوط طریقے پر مسلسل جمع کی جاتی ہیں ۔اس کو مسلح افواج کو بھی فراہم کیا جاتاہےجن کی مدد سے وہ فیصلے کرتی ہیں۔
  9. اب مجھے ایوان کو اس سال کے واقعات سے آگاہ کرنا ہے۔ اپریل سے ہم نے مشرقی لداخ کے قریب سرحد کے نزدیک چینی علاقوں میں  فوج اور ہتھیاروں کے جمع کیے جانے کو نوٹس کیا۔مئی کے شروع میں چین نے گلوان وادی کے علاقے میں ہماری فوج کے روایت گشت میں رکاوٹ ڈالنے کا ا قدام کیا، جس  کے نتیجے میں ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوئی۔ اس صورت حال پر باہمی سمجھوتوں اور پروٹوکول کے مطابق  گراؤنڈ کمانڈر توجہ دے ہی رہے تھے کہ مئی کے وسط میں چین نے مغربی سیکٹر کے دیگر ایل اے سی حصوں میں زبردست داخل ہونے کی بہت سی کوششیں کی۔ ان علاقوں میں  کونگ کالا، گوگرا اور پینگانگ جھیل کا شمالی کنارہ شامل تھا۔ ان کوششوں کا شروع ہی میں پتہ چل گیا اور ہماری مسلح فوجوں نے ان کامناسب  جواب دیا۔
  10. ہم نے چین پر سفارتی اور فوجی دونوں ذرائع سے واضح کردیا کہ  چین ان کارروائیوں کے ذریعے اسٹیٹس کو (صورت حال کو جوں کا توں رکھنے کے عمل) یکطرفہ طور پر بدلنے کی کوشش کر رہاہے۔ یہ بات واضح طور پر بتادی گئی  کہ یہ کارروائی ناقابل قبول ہے۔
  11. ایل اے سی پر ٹکراؤ  بڑھتا ہوا دیکھ کر دونوں طرف کے سینئر کمانڈروں نے 6 جون 2020 کو ایک میٹنگ میں اس بات سے اتفاق کیا کہ فوجوں کی واپسی کی جائے اور ایسا دونوں طرف سے ہو۔طرفین نے ایل اے سی کا احترام اور پابندی کرنے سے بھی اتفاق کیا  اور اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ ایسا کوئی  عمل نہ کیا جائے جس سے اسٹیٹس کو   میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔  لیکن اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چین نے 15 جون کو گلوان میں ایک پرتشدد کارروائی کی۔ہمارے بہادر فوجیوں نے اپنی جانوں  کی قربانی دی اور چین کو بھی نقصان پہنچایا جن میں ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔
  12. ان تمام واقعات کے دوران ہماری مسلح افواج کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے جارحانہ کارروائیوں کے دوران ‘‘سیّم’’ برقرار رکھا ا ور اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے بھارت کی علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے درکار ‘‘شوریہ’’ کا مظاہرہ بھی کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ ایوان ہمارے فوجیوں کی ہمیت اور جرأت کی ستائش کرے، جو ہمیں محفوظ اور حفاظت سے رکھنے کے لیے انتہائی مشکل حالات میں سخت محنت کرتی ہیں۔
  13. اپنی سرحدوں کے تحفظ کے ہمارے عزم کے بارےمیں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے لیکن بھارت کا یہ بھی خیال ہے کہ باہمی احترام  اور آپسی حساسیت پڑوسیوں کے ساتھ پُرامن تعلقات کی بنیاد ہیں۔ہم موجودہ صورت حال کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ہمیں چین کے ساتھ سفارتی اور فوجی رابطے بھی برقرار رکھنے ہیں۔ ان مذاکرات کے دوران ہم نے تین اہم اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے جو ہماری حکمت عملی کی بنیاد ہیں۔(i) طریفین کو ایل اے سی کا سختی سے احترام اور پابندی کرنی چاہیے۔ (ii) دونوں میں سے کسی کو بھی یک طرفہ طور پر اسٹیٹس کو کو بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔  (iii) اور یہ کہ  دونوں کے درمیان  تمام سمجھوتوں اور مفاہمت کی  پوری پوری پابندی کی جانی چاہیے۔ چین نے یہ اپنے طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ صورت حال کو ذمہ دارانہ طریقے پر حل کیا جائےا ور باہمی سمجھوتوں  ا ور پروٹوکول کے مطابق  امن اور ہم آہنگی کو یقینی بنایا جائے۔ البتہ چینی کارروائیوں سے یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ اس کا فعل اس کے قول کے مطابق نہیں  ہے۔ یہ اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ  بات چیت کا سلسلہ جاری تھا لیکن چین29 اور 30 اگست کی رات کو  جارحانہ فوجی کارروائیوں میں  مصروف ہوگیا جو کہ پینگانگ جھیل کے جنوبی کنارے کے علاقے میں اسٹیٹس کو کو تبدیل کرنے کی ایک کوشش تھی۔ اس بار بھی ایل اے سی پر ہماری مسلح فوجوں کی بروقت اور سخت کارروائی  نے ان کوششوں کو کامیاب ہونے سے روک دیا۔
  14.  ان کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ  چینی عمل ہمارے مختلف باہمی سمجھوتوں کی بے ا عتنائی کے عکاس ہیں۔ بڑے پیمانے پر چین کا فوجوں کو جمع  کرنا 1993 اور 1996 کے سمجھوتوں کے خلاف ہیں۔لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا احترام کرنا اور اس کی سختی سے پابندی کرناسرحدی علاقوں میں امن اور ہم آہنگی کی بنیاد ہیں ا ور ان کو 1993 اور 1996 کے سمجھوتوں میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ ہماری مسلح فوجیں اس کی واضح طور پر پابندی کرتی ہیں لیکن چین کی طرف سے ایسا نہیں کیا گیا ہے۔ ان کی کارروائیوں سے ایل اے سی کے قریب وقتاً فوقتاً فوج کے آمنے سامنے آجانے  اور ٹکراؤ کے حالات پیدا ہوئے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ متعلقہ سمجھوتوں میں  ٹکراؤ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مفصل طرقہ کار اور ضابطے دیئے گئے ہیں۔ لیکن اس سال  حالیہ واقعات میں  چینی فوج کی جارحانہ کارروائی  باہمی طور پر  طے کئے گئے طریقوں کی  مکمل خلاف ورزی کی ہے۔
  15. اب حالات یہ ہیں کہ  چین نے  ایل اے سی اور اندرونی علاقوں میں  بڑے پیمانے پر فوجیں اور ہتھیار جمع کرلیے ہیں۔ مشرقی لداخل میں گوگرا کونگ کالا اور پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں سمیت مشرقی لداخ کے بہت سے علاقوں میں تناؤ ہے۔ چینی کارروائیوں کے جواب میں ہماری فوجوں نے بھی ان علاقوں میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ بھارت کی سرحدیں پوری طرح محفوظ رہیں۔ مناسب جوابی کارروائی کی ہے۔ ایوان کو پورا بھروسہ ہونا چاہیے کہ ہماری مسلح فوجیں ہمیشہ چیلنج کا مقابلہ کریں گی اور ہمارا سر فخر سے بلند کریں گی۔ یہ صورت حال ابھی جاری ہے اور اس میں واضح طور پر حساس کارروائیاں شامل ہیں۔ اس لیے میں عوام میں تفصیلات نہیں بتا سکوں گا لیکن مجھے اس سلسلے میں عوام کی سمجھداری کے بارےمیں پوری طرح اعتماد ہے۔
  16. ہماری مسلح فوجوں کی طرف سے جن میں آئی ٹی بی پی بھی شامل ہے۔ یہ تیز رفتار کارروائی کوو-19 کے چیلنج والے وقت میں کی گئی ہے۔ ان کی کوششوں کی تعریف کی جانی چاہیے۔یہ اس اہمیت کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے جو ہماری حکومت نے پچھلے چند برسوں میں سرحدی بنیادی ڈھانچے کو ترقی دینے  کوشش کے سلسلے میں دی  ہے۔ ایوان کو معلوم ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں میں چین نے بنیادی ڈھانچے کی  تعمیر کی کافی سرگرمیاں دکھائی ہیں جس سے سرحدی علاقوں میں فوجیں تعینات کرنے کی اس کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے اس کے جواب میں ہماری حکومت نے بھی پچھلی سطحوں کے مقابلے میں سرحدی بنیادی ڈھانچے کے ترقی پر اپنے بجٹ میں  اضافہ کیا ہے اس کے نتیجےمیں سرحدی علاقوں میں مزید سڑکیں اور پل مکمل ہوگئے ہیں۔اس سے نہ صرف مقامی آبادی تک مطلوب کنیکٹیویٹی فراہم ہوئی ہے بلکہ ہماری مسلح فوج کو بھی بہتر لاجسٹکل امداد حاصل ہوئی ہے جس سے وہ سرحدی علاقوں میں زیادہ چوکس ہوگئی ہیں اور جب کبھی ضرورت پڑتی ہے تو موثر جوابی کارروائی کرتی ہیں۔ آنے والے برسوں میں بھی حکومت اس مقصد کے حصول میں عہد بند ہے۔ ہم اپنے ملک کے مفاد میں کوئی بڑا اور سخت قدم  اٹھانے میں پس وپیش نہیں کریں گے۔

معزز چیئرمین،

  1. میں یہ بات زور دیکر کہنا چاہتا ہوں کہ بھارت نے  ہمارے سرحدی علاقوں میں موجودہ مسائل کو پُرامن بات چیت  اور صلاح ومشورے سے حل کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ اسی مقصد کے حصول میں میں نے 4 ستمبر کو ماسکو میں اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ موجودہ صورت حال کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ ہم نے چین کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کے بارےمیں اپنی تشویش سے انھیں واضح طور پر واقف کرایا جن میں بڑے پیمانے پر فوجوں کا جماؤ، ان کا جارحانہ رویہ اور  باہمی سمجھوتوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسٹیٹس کو کو یکطرفہ طور پر توڑنے کی کوششیں شامل ہیں۔ میں نے یہ بات  بالکل واضح کردی کہ ہم مسئلے کو پر امن طور پر حل کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ چین بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی کرے، بھارت کے اقتدار اعلیٰ اور علاقائی یکجہتی کے تحفظ کے ہمارے عزم کے بارےمیں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ میرے ساتھی وزیر خارجہ  جناب جے شنکر نے اس کے بعد 10 ستمبر کو ماسکو میں چین کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ دونوں میں اتفاق رائے ہوا جس پر اگر چین کی طرف سے پرخلوص طور پر اور وفاداری سے عمل کیا جائے تو سرحدی علاقوں میں فوجیں مکمل طور پر ایک دوسرے سے دور ہٹ جائیں گی اور امن اور ہم آہنگی بحال ہوجائے گی۔
  2. جیسا کہ ممبر حضرات جانتے ہیں کہ ماضی میں بھی ہمارے سرحدی علاقوں میں چین کے ساتھ بہت دنوں تک ٹکراؤ جیسی صورت حال قائم رہی ہےجسے پرامن طورپر حل کرلیا گیا۔ اگرچہ اس سال  صورتحال  کافی مختلف کیونکہ فوجوں کا کافی بڑے پیمانے پر جماؤ ہے اور ٹکراؤ کے کئی مقامات ہیں پھر بھی ہم صورتحال کے پرامن حل کے لیے عہد بند ہیں۔

اس ایوان کے ذریعے  کے ذریعے میں اپنے 130 کروڑ عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم ملک کا سر جھکنے نہیں دیں گے۔ یہ قوم کے تئیں ہمارا پکا عزم ہے۔

  1. معزز چیئرمین! اس ایوان کی یہ شاندار روایت رہی ہے کہ جب کبھی ملک کو کسی چیلنج کا سامنا ہوا ہے ایوان نے ہمیشہ مسلح فوج کے عزم اور پختہ ارادے کے  تئیں اپنی طاقت اور ا تحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس ایوان نے ہمیشہ سرحد پر متعین ہماری مسلح افوج کے ناقابل تنسیخ جذبے ، جرأت اور بہادری میں پورے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
  2. جناب والا آپ کے ذریعے میں ہمارے ملک کے لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری مسلح افواج کا حوصلہ اور عزم بہت بلند ہے  اور ہمارے فوجیوں نے اپنے راستے میں آنے والے کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کا پختہ ارادہ کر رکھا ہے۔ اس بار بھی ہمارے فوجیوں نے تحمل اور جرأت مندی کو جارحیت کے مقابلے میں چنا ہے۔ ہمارے یہاں ایک مثال ہے ‘‘ساہسے کھلوشری وستی’’ جس کا مطلب ہے کہ فتح ہمت کے اندر رہتی ہے۔ہمارے فوجی تحمل ، جرأت مندی اور بہادری کی زندہ علامت ہیں۔ جناب ، ہمارے وزیر اعظم کے دورے نےکمانڈروں اور فوجیوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ  بھارت کے 130 کروڑ لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ سخت سردی کے موسم کے لیے ان کے لیے گرم کپڑے، رہنے کے لیے خصوصی خیمے اور  مناسب مقدار میں ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کردیا گیا ہے۔ جناب والا ہمارے فوجیوں کا حوصلہ بہت بلند ہے۔ وہ لوگ کم آکسیجن اور انتہائی سردی میں بلند ترین اونچائیوں پر بھی خدمت بجالانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے سیاچین اور کارگل میں بھی پچھلے کئی برسوں میں یہ کارنامہ انجام دیاہے۔
  3. محترم چیئرمین، یہ صحیح ہے کہ ہمیں لداخ میں ایک چیلنج کا سامنا ہے لیکن مجھے اعتماد ہے کہ ہمارا ملک اور ہمارے بہادر  فوجی ہر چیلنج کا مقابلہ کرسکیں گے۔میں اس ایوان پر زور دیتا ہوں کہ وہ متفقہ طور پر ہماری مسلح افواج کی ہمت اور عزم کا احترام کرے۔ہمارے بہادر فوجیوں کے اتحاد اور مکمل ا عتماد کا پیغام نہ صرف پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں گونجے گا اور یہ ہماری فوجوں میں ایک نیا اعتماد ، نئی توانائی اور لامحدود جوش وخروش بھر دے گا۔

****************

م ن۔ اج ۔ ر ا

U:5553


(Release ID: 1656373) Visitor Counter : 320