وزارت سیاحت
سیاحت کی وزارت کے دیکھو اپنا یش ویبینار سیریز کے تحت یوم آزادی تھیم پر مرکوز دوسرے ویبینار سیلولر جیل لیٹر میموریز اور یادیں کا اہتمام کیاگیا
ویبینار میں سیلور جیل کے گیلریز اور سیلوں کے توسط سے بھارت کی آزادی کی جدوجہد کے سفر کو نمایاں کیاگیا
ویبینار کی اگلی کڑی کا عنوان جلیا والا باغ: آزادی کی جدوجہد میں ایک اہم موڑ ہے
Posted On:
12 AUG 2020 1:26PM by PIB Delhi
جیسا کہ ہندوستان اپنے 71 ویں یوم آزادی کی سالگرہ تقریبات منانے کی تیاری کررہا ہے۔ سیاحت کی وزارت کی جانب سے ’دیکھو اپنا دیش‘ ویبینار سیریز کے تحت 10 اگست 2020 کو سیلولر جیل لیٹر میموریز اور یادوں کے موضوع پر ایک ویبینار کا اہتمام کیا گیا۔
دیکھو اپنا دیش ویبینار سیریز میں سیلولر جیل، یٹر میموریز اور یادیں 46 ویں ویبینار تھا۔ جیسے محترمہ ندی بنسل سی ای او انڈیا سٹی واکس اینڈ انڈیا ودیوکلز ڈاکٹر سومی رائے ہیڈ آف آپریشن انڈیا ودلوکلز اور انڈیا ہیریٹیج واکس اور محترمہ سومترا سین گپتا، سٹی ایکسپورٹر انڈیا سٹی واکس کے ذریعے پیش کیاگیا۔ دیکھو اپنا دیش ویبینار سیریز ایک بھارت شیریشٹھ بھارت کے تحت بھارت کی مالا مال گوناگونیت کو نمایاں کرنے کی ایک کوشش ہے اور ورچوئل پلیٹ فارم کے توسط سے ایک بھارت شیریشٹھ بھارت کے جذبے کو لگاتار فروغ دے رہی ہے۔
اس ویبینار میں سیلولر جیل کے سیلز اور گیلریز کے ذریعے بھارت کی آزادی کی جدوجہد کے سفر کو نمایاں کیاگیا ہے۔ ویر ساورکر، بی کے دت، فضل حق خیرآبادی، بریندرا کمار گھوش، سشیل داس گپتا جیسے کچھ بہت مقبول سیاسی قیدیوں کی زندیوں اور کہانیوں کو پیش کیاگیا ہے۔ اس پرزنٹیشن میں ہندوستان کی آزادی کے تئیں انڈمان میں نیتاجی سبھاش چندر بوس کی اہم حدمات کا ہی ذکر کیاگیا ہے۔
پورٹ بلیئر، انڈومان اور نکوبار جزائر میں سیلولر جیل ایک قید خانہ ہے، جہاں برطانیہ کی طرف سے ہندوستانی مجاہدین آزادی کو جلاوطن کیاگیا تھا اور بہت غیر انسانی حالات میں قید کرکے رکھا تھا۔ آج یہ ایک قومی یادگار ہے۔ اسے سیلولر اس لئے کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کی تعمیر اکیلی قید کے مقصد کے لئے صرف انفرادی سیلز کی میزبانی کے لئے تعمیر کی گئی تھی۔ اصل اور بنیادی طور سے عمارت میں سات ونگ تھے، جس کے مرکز میں ایک بڑی گھنٹی کے ساتھ ایک ٹاور تھا جس کی نگہداشت گارڈ کے ذریعے کی جاتی تھی۔ ہرونگ کی تین منزلیں تھی اور ہر اکیلی قید سیل کی لمبائی چوڑائی لگ بھگ 15 فٹ اور 9 فٹ تھی، جس میں 9 فٹ کی اونچائی پر ایک واحد کھڑکی لگی ہوئی تھی۔ ان ونگس کو ایک سائیکل کے اسپوکس جیسا بتایاگیا تھا اور ایک ونگ کے سامنے دوسرے ونگ کے پچھلے حصے کو رکھا گیا تھا۔ اس لئے ایک قیدی کو دوسرے قیدی کے ساتھ بات کرنے کا کوئی بھی موقع فراہم نہیں تھا۔
.
پریزنیٹرس (پیش کرنے والوں) نے یاد کیا کہ کس طرح سے 1857 کا سال برطانوی بالادستی کے لئے ایک خطرہ بن گیا تھا اور وسط 19 ویں صدی میں برطانوی ایمپائر (سامراج) کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 20 ویں صدی کے سیاسی ماحول نے آزادی کی جدوجہد کے کئی مرحلے دیکھے ہیں۔ جیسے کہ گاندھی جی عدم تشدد کی پالیسی اور سول نافرمانی اور دیگر بہت سی مہم یا تحریکیں۔ جیل کی تعمیر 1896 میں شروع ہوئی تھی اور 1910 میں ختم ہوئی تھی۔ اس کی اوریجنل (اصل) عمارت ایک گہرے بھورے رنگ کی بنی ہوئی تھی۔ عمارت میں سات ونگ تھے، جس کے مرکز میں ایک ٹاور کی تعیناتی چوراہے کی شکل میں کی گئی تھی اور جس کا استعمال قیدیوں پر نظر رکھنے کے لئے گارڈوں کے ذریعے کی جاتی تھی۔
سیلولر جیل کی تعمیر ہونے سے پہلے وہ وآیپر جزیرے کی جیل تھی جیسے برطانیہ کے دور حکومت کے ذریعے ملک کی آزادی کی لڑائی لڑنے والوں کو اذیتیں دینے کے لئے ظلم اور پریشان کرنے کی سب سے بری شکل دینےکے لئے استعمال کی جاتی تھی۔ کال کوٹھری والا سیل لاک اپ اسٹوک اور کوڑوں کی مار وایپرجیل کی خصوصیات رہی ہیں۔ عورتوں کو بھی جیل میں رکھا گیا تھا۔ جیل کے حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ اس جگہ کو خطرناک نام دیا گیا تھا۔ وایپر چین گونگ جیل جن لوگوں نے برٹش حکومت کو چیلنج دیا تھا۔ انہیں ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا تھا اور رات میں ان کے پیروں کے ارد گرد بیڑیوں کے ذریعے سے چلنےوالی چین تک محدود کردی جاتی تھی۔ اس جیل میں چین گروہ کے ممبروں سخت مزدوری کے لئے رکھا گیا تھا۔ سیلولر جیل کے ارکی ٹیکچر کو پینسلوینیا نظام یا الگ سسٹم تھیوری کے اصول کی بنیاد پر کیاگیا تھا، جس میں دیگر قیدیوں سے پوری طرح الگ رکھنے کے لئے ہر قیدی کے لئے الگ الگ قید کا ہونا ضروری ہے ۔ ایک ہی ونگ میں یا الگ ونگس میں قیدیوں بیچ کسی بھی طرح کا کوئی رابطہ ممکن نہیں تھا۔ سیلولر جیل عظیم ان دش بھکتوں، محب وطن لوگوں اور مجاہدین آزادی کے ساتھ غیر انسانی سلوک وتکالیف کو دیکھنے والا ایک خاموش تماشائی رہا ہے، جنہیں ان سیلز میں قید کیاگیا تھا۔
دیگر سزائی غیر انسانی ہوتی تھیں جو کہ پسائی کرنے والی مل پر فاضل گھنٹوں کا کام کرنے سے لے کر ایک ہفتے تک ہتھکڑی پہن کر کھڑے رہنا ، باغبانی گری سوکھانے، رسی بنانے، ناریل کی جٹا تیار کرنے، قالین بنانے، تولیا بننے، چھ مہینے تک بیڑیوں میں جکڑے رہنا، اکیلی کال کوٹھری میں قید رہنا، چار دن تک بھوکا رہنا اور 10 تک سلاخوں کے پیچھے رہنے تک پھیلی ہوئی تھی۔ ایک بھیانک سزا ایسی تھی کہ جس میں قیدی کو اپنے بدن سے پیروں کو الگ کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑتا تھا۔پریزینٹیشن پیش کرنے والوں نے کچھ مجاہدین آزادی کی قربانیوں پر روشنی ڈالی، جنہیں سیلولر جیل میں غیر انسانی رویے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ویر ساورکر: 1911 میں عظیم مجاہد آزادی ونائک داموورکر مورلے منٹو اصلاحات (انڈین کونسل ایکٹ 1909) کے خلاف بغاوت کرنے کے لئے کالا پانی کی سیلولر جیل میں جوکالا پانی کے نام سے مشہور تھی50 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں 1924 میں رہا کیاگیا تھا۔ وہ اپنی بہادری کے لئے مشہور تھے لہٰذا انہیں ویر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
جی کے دت: باتو کیشوردت بی کے دت کے نام سے مشہور تھے۔ وہ ایک انقلابی مجاہد آزادی تھے ، وہ بھگت سنگھ کے ساتھ 1929 میں سینٹرل قانون ساز اسمبلی میں بم کیس میں ملوث تھے۔ وہ 54 سال کی عمر میں بیماری کے بعد 20 جولائی 1965 میں انتقال کرگئے تھے۔ بھگت سنگھ اور دت کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی اور انہیں پورٹ بلیر میں سیلولر جیل میں بھیج دیا گیا تھا۔
فضل حق خیر آبادی: 1857 کے ناکام بغاوت کے بعد فضل حق خیر آبادی کو معافی کے دائرے میں رکھا گیا تھا لیکن 30 جنوری 1957 کو بری فوجی افسروں کے ذریعے تشدد بھڑکانے کے جرم میں خیرآباد میں انہیں گرفتار کرلیاگیا۔ انہیں جہاد کے لئے رول ادا کرنے اور ہلاکت کو بڑھاوا دینے کا قصور وار پایاگیا۔ انہوں نے اپنا وکیل خود ہی بننے کا فیصلہ کیا اور اپنا بچاؤ خود ہی کیا۔ ان کی دلیلیں اور جس طرح سے انہوں نے اپنے معاملے کا بچاؤ کیا، وہ اتنا اثر والا اور یقینی تھا کہ مجسٹریٹ نے ان کو بے قصور قرار دینے کا فیصلہ لکھ دیا تھا، لیکن انہوں نے فتویٰ جاری کرنےکی بات قبول کی اور کہا کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتے ہیں انہیں انڈومان جزیرے کے کالا پانی (سیلولر جیل ) میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ان کی جائیداد کو اودھ کی عدالت کے جوڈیشیل کمشنر نے ضبط کرلی۔
بریندر کمار گھوش: بریندر گھوش 5 جنوری 1880 کو لندن کے نزدیک کرویڈون میں پیدا ہوئے تھے۔30 اپریل 1908 کو خودی رام اور پرفلا جو دو انقلابی تھے کے ذریعے کنگس فورڈ کی قتل کی کوشش کے بعد پولیس نے اپنی تفتیش تیز کی جس کے نتیجے میں 2 مئی 1908 کو بریندر اور اربندو گھوش کی گرفتاری عمل میں آئی۔ ان کے کچھ ساتھیوں کی بھی گرفتاری ہوں، علی پور بم کیس کے نام سے مشہور ٹرائل (مقدمے) میں بریندر گھوش کو ابتدائی سزا سنائی گئی اور اولاسکروت کو موت کی سزا ہوئی مگر بعد میں موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیاگیا۔ بریندر کو دیگر مجرموں کے ساتھ 1909 میں انڈومان میں سیلولر جیل میں منتقل کردیاگیا۔
29 دسمبر 1943 کو سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند سرکار کے ذریعے جزائر پر سیاسی کنٹرول کرنے کا مسودہ پاس کیاگیا۔ پولیس نے انڈین نیشنل آرمی (فوج) کا ترنگا پرچم لہرانےکے لئے پورٹ بلیئر کا دورہ کیا۔ انڈمان کی ان کی ایک واحد دورے کے دوران جاپانی افسروں کے ذریعے انہیں مقامی آبادی سے ہوشیاری کے ساتھ چھپا کر رکھا گیا تھا۔ انہیں انڈمان کے لوگوں کی تکلیفوں سے مطلع کیاگیا۔
...............................................................
م ن، ح ا، ع ر
U-4483
(Release ID: 1645536)
Visitor Counter : 218