زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت

بھارت سرکار کے زرعی تعاون اور کسانوں کے محکمہ نے ہندوستانی زراعت اسٹریٹجک پالیسی میں تبدیلیاں اور سرمایہ کاری مواقع میں اصلاحات کے بارے میں 2 ویبینارس کی میزبانی کی


کسانوں کی پیداوار کو بہتر مارکیٹ کی سہولت دیتے ہوئے اور زرعی شعبے کو سخت قوانین سے آزاد کرتے ہوئے ایک مضبوط زرعی ایکو سسٹم فروغ دیا جائے گا، کسانوں کی بہبود اور زراعت کے سکریٹری کا بیان

ہندوستان اب دنیا میں دوسرا سب سے بڑا ایکوا کلچر پیدا کرنے والا ملک ہے اور سمندری فوڈ برآمد کرنے والا چوتھا سب سے بڑا ملک ہے۔اگلے ڈیڑھ سال میں لگ بھگ 57 کروڑ مویشیوں کو ان کی سرپرستی ، ان کی نسل اور پروڈکٹویٹی کا پتہ لگانےکے لئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر منفرد آئی ڈی دی جائے گی

Posted On: 27 JUN 2020 1:23PM by PIB Delhi

بھارت سرکار کے زرعی تعاون اور کسانوں کی بہبود کےمحکمہ نے 25 اور 26 جون 2020 کو دو ویبینار کی میزبانی کی۔  پہلے ویبینار کا موضوع تھا ہندوستانی زراعت میں اہم اور تاریخی اصلاحات- سرمایہ کاری کے مواقع، زرعی صنعت میں بڑھ رہے ہیں، جبکہ دوسرے ویبینار کا موضوع تھا زرعی اصلاحات میں ایک نئی سمت اسٹریٹجک پالیسی تبدیلیاں، پالیسی سازوں کے خیالات۔ زراعت اور کسانوں کی بہبود کے سکریٹری جناب سنجے اگروال ، مویشی پروری اور ڈیری کے سکریٹری جناب اتل چترویدی، ماہی پروری کے سکریٹری ڈاکٹر راجیو رنجن اور خوراک کو ڈبہ بند کرنے کی صنعت کی سکریٹری محترمہ پشپا سبرامنیم نے وبینار سے خطاب کیا۔

وبینار سے خطاب کرتے ہوئے زراعت اور کسانوں کی بہبود کے سکریٹری جناب سنجے اگروال نے کووڈ-19 جیسی عالمی وبا سے پیدا ہونے والے بحران کے دوران زرعی سیکٹر اور کسانوں کی بہبود کے لئے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں بھارت سرکار کی طرف سے کئے گئے زبردست اقدامات کی ستائش کی۔ اس بحرانی صورتحال میں صنعت کی کوششوں اور بھارتی کسانوں کی صلاحیت اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ اس سال خریف کی بوائی کے ذریعہ جو اراضی احاطہ کی گئی وہ 316 لاکھ ہیکٹیئر اراضی رہی، جبکہ پچھلے سال 145 لاکھ ہیکٹیئر اراضی پر بوائی ہوئی تھی اور گزشتہ 5 سال کے دوران اوسطاً 187 لاکھ ہیکٹیئر میں بوائی ہوئی تھی۔

جناب سنجے اگروال نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو  زرعی سیکٹر میں زبردست فائدہ حاصل ہے، جو مجموعی گھریلو پیدا وار جی ڈی پی کے تقریباً 15 فیصد کا تعاون دیتا ہے اور ملک کی آبادی کے 50 فیصد سے زیادہ حصے کو روزی روٹی فراہم کرتا ہے۔ ہندوستان زرعی کیمیکل کا چوتھا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی مویشیوں کی آبادی لگ بھگ 31 فیصد اور سینچائی کے لئے سب سے بڑی اراضی ہے۔ حالانکہ ہندوستان میں فوڈ پروسیسنگ یعنی خوراک کو ڈبہ کرنے کی صنعت 10 فیصد سے کم ہے اور یہ اس نشانےکو 25 فیصد تک بڑھانے کا نشانہ ہے۔  عالمی نامیاتی مارکیٹ سالانہ 12 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ کسانوں کی پیداوار کے لئے بہتر مارکیٹنگ  مقامات تک رسائی فراہم کرکے ایک مضبوط زرعی ایکو سسٹم تیار کرنے اور سخت قوانین سے اس سیکٹر کو پاک کرنا حکومت کے لئے توجہ ایک اہم شعبہ ہے، جس کے لئے حال ہی میں 3 نئے آرڈیننس کا اعلان کیاگیا۔فصل کی کٹائی کے بعد بنیادی ڈھانچے کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپے کے زرعی انفرا فنڈ، 10 ہزار ایف پی او کے لئے اسکیم، 25 ملین کسانوں کو شامل کرنےکے لئے خصوصی مہم جیسی بہت سی اسکیموں کے ذریعہ ایگری ایکو سسٹم کو بھی مضبوط کیا جارہا ہے اور ایک ڈیجیٹل ایگری اسٹیک کو فروغ دیا جارہاہے، جو آن لائن مارکیٹ مقامات کے لئے اہم ثابت ہوگا۔زراعت کسانوں کی بہبود کے سکریٹری نے زیادہ آمدنی اور بہتر معیار زندگی کے ساتھ کسانوں کو صنعت کاروں میں تبدیل کرکے آتم نربھر زراعت کے لئے ایک امنگ بھرا وژن پیش کیا۔

کسانوں کے لئے مویشی پروری کی بہ نسبت اے ٹی ایم مشین سے کرتے ہوئے مویشی پروری اور ڈیری کے سکریٹری جناب اتل چترویدی نے کہا کہ خردہ ریٹیلر کے لئے دودھ کی طرح کوئی بھی پروڈکٹ تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ حالانکہ ہندوستان میں دودھ کی فی کس کھپت اب بھی 394جی ایم ایس یومیہ ہے، جبکہ امریکہ یوروپ میں 700-500 جی ایم ایس یومیہ ہے۔ ہمارا مقصد ڈیری کے سیکٹر میں بازار کی موجودہ مانگ کو 158 ملین میٹرک ٹن سے بڑھا کر اگلے پانچ سال میں 290 ملین میٹرک ٹن کرنا ہے۔ دودھ کے پروسیسینگ میں منظم سیکٹر کی حصے داری کو موجودہ کے 35-30 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کرنے کا نشانہ طے کیاگیا ہے۔

جناب چترویدی نے کہا کہ حکومت نے مویشی پروری کے سیکٹر کو فروغ دینے کے لئے بہت سے اقدامات کئے ہیں۔ اس میں ایک سال میں ایف ایم ڈی کے لئے ایک ارب ویکسین کے ڈوزدینا شامل ہے، جو کسی بھی دیگر ملک کے بہ نسبت میں ایک بڑی مہم ہے، جس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ مویشی مرض سے پاک رہے۔ پشو آدھار کے توسط سے پانچ نسلوں کی ٹیگنگ-اگلے ڈیڑھ سال میں تقریباً 57 کروڑ مویشیوں کو ان کے سرپرستی، ان کی نسل پروڈکٹویٹی کا پتہ لگانے کے لئے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر منفردآئی ڈی دی جائے گی۔ مصنوعی ان سیمی نیشن ، آئی وی ایف اور سروگیسی کے ذریعہ سے مویشیوں کی نسلوں میں سدھار لانا اور مویشیوں کے لئے بہتر چارہ اور بہتر خوراک دے کر دیہی صنعت کاروں کی تعمیر کرنے  کا مقصد شامل ہے۔ اس مہینے مویشی پروری، انفرا ڈیولپمنٹ 2018 میں ڈیری انفرا ڈیولپمنٹ جیسے بہت سی ترغیبات کا اعلان گیا ہے۔

ماہی پروری کو ایک ابھرتا ہوا سیکٹر بتاتے ہوئے ڈاکٹر راجیو رنجن نے کہا کہ 15-2014 سے لے کر 19-2018 تک ماہی پروری کے سیکٹر میں 10.87 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر راجیو رنجن ماہی پروری کے سکریٹری ہیں۔ بھارت میں مچھلی کی پیداوار میں 7.53 فیصد ، ماہی پروری کی برآمدات میں 9.71 فیصد کا اصافہ ہوا اور بھارت میں مچھلی کی پیداوار کی عالمی حصہ داری 7.73 فیصد ہوگئی ہے۔ بھارت اب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ایکوا کلچر(سمندر سے پیدا ہونے والی اشیا) کا پیدا کرنے والا ملک ہے اور چوتھا سب سے بڑا سی-فوڈ برآمد کار ہے۔ ماہی پروری کے سیکٹر کی یو ایس پی ایس میں اس کی اعلیٰ شرح نمووسیع اور گوناگوں وسائل، کم سرمایہ کاری پر زیادہ ریٹرن، کم مدت میں زیادہ کمائی ، مضبوط تکنیکی بیک اپ اور برآمد کے مواقع شامل ہیں۔

ڈاکٹر راجیو رنجن نے اس سیکٹر میں اگلے 5 سال کے لئے بھارت سرکار کے اہم مقاصد کے بارے میں بتایا۔ مچھلی کی پیداوار کو 19-2018 میں 137.58 لاکھ ٹن سے بڑھا کر 25-2024 میں 220 لاکھ ٹن کرنے کا نشانہ  طے کیاگیا ہے۔ 25-2024 میں اوسطاً ایکوا کلچر پیدا وار کو 3.3 ٹن ہیکٹیئر سے بڑھا کر 5.0 ٹن ہیکٹیئر کرنے کا نشانہ ۔ ماہی پروری کی برآمد کو 25-2024 تک ایک لاکھ کروڑ روپے اور 2028 تک دو لاکھ کروڑ روپے کرنے اور روزگار پیرا کرنے کو 19-2018 میں لگ بھگ 15 لاکھ سے بڑھا کر 25-2024 میں لگ بھگ 55 لاکھ کرنے کا  نشانہ طے کیاگیا ہے۔

 

...............................................................

م ن، ح ا، ع ر

U-3556


(Release ID: 1635032) Visitor Counter : 217