بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی وزارت

اگربتی اور بانس کی صنعتوں کو فروغ دینے کیلئے بانس کی چھڑیوں پر درآمداتی محصول میں اضافہ کیا گیا: کے وی آئی سی

Posted On: 11 JUN 2020 6:40PM by PIB Delhi

 

مرکزی حکومت کا بانس کی چھڑیوں پر درآمداتی محصول میں 10 فیصد سے 25فیصد  اضافہ کرنے کا فیصلہ ملک میں خودروزگار کے نئے مواقع پیدا کریگا۔آج جاری کردہ ایک بیان میں اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کھادی اینڈ ولیج انڈسٹریز کمیشن (کے وی آئی سی) نے کہا ہے کہ اگلے 8 سے 10 مہینوں کے دوران اگربتی کی صنعت میں کم از کم ایک لاکھ نئے روزگار پیدا ہوں گے۔ صنعتی ماہرین کے مطابق بانس کی صنعت ہندوستان میں گاؤں کی صنعت کے سیکٹر کے تحت ایک اہم سرگرمی ہے۔

کے وی آئی سی نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ایم ایس ایم ای کے مرکزی وزیر جناب نتن گڈکری کی پہل پر وزارت خزانہ کے ذریعے لیا گیا ہے۔ جناب گڈکری نے وزیراعظم جناب نریندر مودی سے درخواست کی تھی کہ وہ بانس کی چھڑیوں پر درآمداتی محصول میں اضافہ کریں تاکہ کثیر مقدار میں ہونے والی درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جاسکے اور مقامی صنعت کے فروغ میں مدد فراہم کی جاسکے۔ یہ فیصلہ بڑی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ چین اور ویتنام سے بانس کی چھڑیوں کی بھاری درآمدات سے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر روزگار کا نقصان ہوا ہے۔ اس فیصلے سے ہندوستان میں اگربتی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پوراکرنے کیلئے اگربتی مینوفیکچرنگ کی نئی یونٹیں قائم کرنے کیلئے نئے راستے ہموار ہوں گے۔

کے وی آئی سی نے کہا ہے کہ ‘‘فی الحال ہندوستان میں خوشبو دار اگربتیوں کا صرفہ 1490 ٹن فی سال ہے جس میں سے صرف 760 ٹن یومیہ کی پیداوار مقامی سطح پر کی جاتی  ہے۔ اس طرح مانگ اور سپلائی میں وسیع خلیج کے سبب کثیر مقدار میں خام اگربتی کی درآمدات کی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ خام اگربتی کی درآمدات  2009 میں محض دوفیصد تھی جو بڑھ کر 2019 میں 80 فیصد ہوگئی۔ مالیاتی لحاظ سے ہندوستان میں خام اگربتی کی درآمدات میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ 2009 میں یہ 31 کروڑ روپئے کا تھا جو بڑھ کر 2019 میں 546 کروڑ روپئے کا ہوگیا۔ اس کا سبب درآمداتی محصول میں 2011 میں کمی کرنا تھا ۔2011 میں درآمداتی محصول کو 30 فیصد سے گھٹا کر10 فیصد کردیا گیا تھا۔ کے وی آئی سی نے مزید کہا کہ اس سے ہندوستانی اگربتی مینوفیکچرر کو سخت مشکل پیش آئی اور تقریباً  25فیصد مینوفیکچرنگ اکائیاں بند ہوگئیں’’۔

تاہم کھادی اینڈ ولیج انڈسٹریز کمیشن کی درخواست پر وزارت تجارت نے 31 اگست 2019 کو خام اگربتی کی درآمدات کو ‘محدود’ زمرے کے تحت رکھ دیا۔ درآمدات کو محدود کردینے کے بعد مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، اترپردیش، گجرات اور متعدد شمال مشرقی ریاستوں میں سینکڑوں اگربتی اکائیوں کا احیاء ہوا۔اس سے مقامی تاجروں کو بھی  خام اگربتی کی مینوفیکچرنگ کیلئے  گول بانس کی چھڑیوں کو درآمد کرنے کیلئے تحریک  حاصل ہوئی ۔ اس سے بانس کی چھڑیوں کی درآمدات میں اضافہ ہوا،19-2018 میں یہ 210 کروڑ روپئے کاتھا جو بڑھ کر سال 20-2019 میں 370 کروڑ روپئے پر پہنچ گیا۔

کے وی آئی سی کے چیئرمین جناب ونئے کمار سکسینہ  نے کہا ہے کہ اس واحد فیصلے سے ہندوستان میں اگربتی کے ساتھ ساتھ بانس کی صنعت کو استحکام حاصل ہوگا ۔ جناب سکسینہ نے کہا ‘‘ہندوستان دنیا بھر میں بانس کی پیداوار کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، اسی طرح ہندوستان بانس اور اس کی مصنوعات کادوسرا سب سے بڑا درآمداتی ملک ہے۔ بانس کی چھڑیوں پر درآمداتی محصول میں 10فیصد سے 25 فیصد کا اضافہ چین سے بھاری درآمدات پر قدغن لگائے گا اور اگر بتی  اور بانس کی صنعتوں میں گھریلو مینوفیکچرنگ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریگا۔ ہم اب امید کرتے ہیں کہ ہندوستان جلد ہی اگربتی کی پیداوار میں خودکفیل ملک بن جائیگا، جس سے لاکھوں نئے روزگار پیدا ہوں گے’’۔

جناب سکسینہ نے مزید بتایا کہ ‘‘اگربتی بنانے کی صنعت گاؤں کی صنعت کا حصہ ہے جس میں نہایت کم مقدار میں سرمائے اور کم تکنیکی ہنر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سمت میں زیادہ تر خواتین ورکرز کام کرتی ہیں۔ کووڈکے بعد کے منظرنامے میں یہ صنعت مائیگرینٹ ورکروں کیلئے ایک عطیہ ثابت ہوگا۔ اگربتی کی صنعت وزیراعظم نریندر مودی کے آتم نربھر بھارت (خود کفیل ہندوستان) کے خواب کو حقیقت بناسکتی ہے’’۔

واضح رہے کہ ہندوستان ہر سال 14.6 ملین ٹن بانس کی پیداوار کرتا ہے جبکہ تقریباً 70 ہزار کسان بانس کی پودہ کاری میں مصروف عمل ہیں۔ ہندوستان میں 136 اقسام کے بانس پائے جاتے ہیں ۔ بمبوسا تلدا جس کا استعمال اگربتی کی چھڑیاں بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ شمال مشرقی خطے میں کثیر مقدار میں پایاجاتا ہے۔ کے وی آئی سی نے بانس لگانے کی مہم کا بھی آغاز کیا ہے تاکہ ہندوستان کو اگلے تین سے چار برسوں کے دوران بانس کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کیلئے خودکفیل بنایا جاسکے۔

 

 

-----------------------

 

م ن۔م ع۔ ع ن

U NO:3223



(Release ID: 1631153) Visitor Counter : 234