وزیراعظم کا دفتر

من کی بات 2.0 کی 11ویں کڑی میں وزیراعظم کے خطاب کا متن(26.04.2020)

Posted On: 26 APR 2020 11:46AM by PIB Delhi

 

میرے پیارے ہم وطنو! نمسکار،

آپ سب لاک ڈاؤن میں اس ‘من کی بات ’ کو سن رہے ہیں، اس ‘من کی بات’ کی کے لئے آنے والی تجاویز ،  فون کال کی  تعداد  عام طور سے موصول ہونےو الی تجاویز اور فون کال سے کئی گنا زیادہ ہے۔ کئی سارے موضوعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے آپ کی  یہ من کی باتیں  مجھ تک پہنچی ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ان کو زیادہ سے زیادہ پڑھ پاؤں، سن پاؤں ، آپ کی باتوں سے کئی ایسے  پہلو جاننے کو ملے ہیں جن پر اس گہما گہمی میں دھیان ہی نہیں جاتا ہے۔ میرا من کرتا ہے کہ  جنگ کے درمیان ہورہی اس ‘من کی بات’ میں  ان ہی سب پہلوؤ ں کو آپ سبھی  ہم وطنوں کے ساتھ  بانٹوں۔

ساتھیو، ہندوستان کی  کورونا کے خلاف لڑائی  صحیح معنی میں پیپُل ڈرائیوین ہے۔ ہندوستان میں کورونا کے خلاف لڑائی  عوام لڑرہی ہے، آپ لڑرہے ہیں، عوام کے ساتھ ملکر حکومت انتظامیہ لڑرہی ہے۔ ہندوستان جیسا وسیع ملک جو ترقی کیلئے عہد بند ہے۔ غریبی سے فیصلہ کن لڑائی لڑرہا ہے۔ اس کے پاس کورونا سے لڑنے  اور جیتنے کا یہی ایک طریقہ ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ آج پورا ملک ، ملک کا ہر ایک شہری ، ہر فرد اس لڑائی کا سپاہی ہے، لڑائی کی قیادت کررہا ہے۔ آپ کہیں بھی نظر ڈالیے آپ کو احساس ہوجائیگا کہ ہندوستان کی لڑائی  پیپُل ڈرائیوین  ہے۔ جب پوری دنیا اس وبا کے بحران سے جوجھ رہی ہے ، مستقبل میں جب  اس کی چرچا ہوگی  ، اس کے طور طریقے کی چرچا ہوگی  ، مجھے یقین ہے کہ بھارت کی یہ   پیپُل ڈرائیوین  لڑائی ، اس کی ضرور چرچا ہوگی۔ پورے ملک میں گلی محلے میں جگہ جگہ پر آج لوگ ایک دوسرے  کی مدد کیلئے آگے آئے ہیں۔ غریبوں کیلئے کھانے سے لے کر راشن کا بندوبست ہو، لاک ڈاؤن کا پالن ہو، اسپتال کا بندوبست ہو، طبی آلات کی ملک میں ہی تعمیر ہو۔ آج پورا ملک ایک ہدف ، ایک سمت، ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ تالی، تھالی، دیا، موم بتی ، ان ساری چیزوں نے جن جذبات کو جنم دیا ، جس جذبے سے ہم وطنوں نے کچھ نہ کچھ کرنے کی ٹھان لی۔ ہر کسی کو ان باتوں نے  تحریک دیا۔ شہر ہو یا گاؤں ایسا لگ رہا ہے  جیسے ملک میں ایک بہت بڑا مہایگیہ  چل رہا ہے جس میں ہر کوئی  اپنا تعاون دینے کیلئے  پُرجوش ہے۔ ہمارے کسان بھائی بہنوں کو ہی دیکھئے ۔ ایک طرف وہ اس وبا کے درمیان  اپنے کھیتوں میں دن رات محنت کررہے ہیں اور اس بات کی بھی فکر کررہے ہیں کہ ملک میں کوئی بھی  بھوکا نہ سوئے، ہر کوئی اپنے اپنی طاقت کے حساب سے  اس لڑائی کو لڑرہا ہے۔ کوئی کرایا معاف کررہا ہے تو کوئی اپنی پوری پنشن یا انعا م میں ملی رقم کو پی ایم کیئرس میں جمع کرا رہا ہے۔ کوئی کھیت کی ساری سبزیاں  عطیہ دے رہا ہے تو کوئی ہر روز  سینکڑوں غریبوں کو مفت کھانا کھلا رہا ہے، کوئی ماسک بنارہا ہے ، کہیں ہمارے مزدور بھائی بہن  کوارنٹائن میں رہتے ہوئے جس اسکول میں رہ رہے ہیں اس کی رنگائی پوتائی کررہے ہیں۔

ساتھیو، دوسروں کی مدد کیلئے  آپ کے اندر دل کے کسی کو نے میں جو یہ امنڈتا جذبہ ہے نا وہی ، وہی کورونا کے خلاف ہندوستان کی لڑائی کو طاقت دے رہا ہے۔ وہی اس لڑائی کو سچے معنی میں پیپُل ڈرائیوین بنارہا ہے او ر ہم نے دیکھا ہے پچھلے کچھ برسوں میں ہمارے ملک میں یہ مزاج بنا ہے ، لگاتار مضبوط ہوتار ہا ہے، چاہے کروڑوں لوگوں کا گیس سبسیڈی چھوڑنا ہو، لاکھوں   بزرگوں کا ریلوے سبسیڈی چھوڑنا ہو، سوچھ بھارت ابھیان کی قیادت کرنی ہو، بیت الخلا بنانے ہوں۔ ان گنت باتیں ایسی ہیں ان ساری باتوں سے پتہ چلتا ہے  ہم سب کو ایک من ایک مضبوط دھاگے سے پرو دیا ہے۔ ایک ہوکر ملک کیلئے کچھ کرنے کی  تحریک دی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو  ، میں نہایت  ادب ، بہت ہی احترام کے ساتھ آج 130 کروڑ ہم وطنوں کے اس جذبے کو سر جھکا کر سلام کرتاہوں۔ آپ اپنے  جذبے کے مطابق ملک کے لئے اپنی  دلچسپی کے حساب سے اپنے وقت کے مطابق کچھ کرسکیں اس کے لئے  حکومت نے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم بھی تیار کیا ہے۔ یہ پلیٹ فارم ہے ۔covidwarriors.gov.in   ۔ میں دوبارہ بولتا ہوں، covidwarriors.gov.in حکومت نے اس پلیٹ فارم کے توسط سے تمام سماجی اداروں کے رضاکار ، سول سوسائٹی کے نمائندے اور مقامی انتظامیہ کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ بہت ہی کم وقت میں اس پورٹل سے سوا کروڑ لوگ جڑ چکے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر ، نرسوں سے لیکر ہماری آشا ، اے این ایم بہنیں ، ہمارے این سی سی ، این ایس ایس کے ساتھی  الگ الگ شعبے کے تمام پیشہ ور افراد ، انہوں نے اس پلیٹ فارم کو اپنا پلیٹ فارم بنالیا ہے، یہ لوگ مقامی سطح پر بحران کے بندوبست سے متعلق منصوبہ بنانے والوں میں اور اس کے حصول میں بھی بہت مدد کررہے ہیں، آپ بھی   covidwarriors.gov.in سے  جڑ کر ملک کی خدمت کرسکتے ہیں، کووڈ واریئر س بن سکتے ہیں۔

ساتھیو، ہر مشکل حالات  ،ہڑ لڑائی کچھ کچھ سبق دیتی ہے، کچھ نہ کچھ سکھا کر جاتی ہے ، سیکھ دیتی ہے ،کچھ امکانات کے راستے بناتی ہے اور کچھ نئی منزلوں کی  سمت بھی دیتی ہے۔ اس حالات میں آپ سب ہم وطنوں نے جو عہد طاقت دکھائی ہے اس سے بھارت میں ایک نئے بدلاؤ کی شروعات بھی ہوئی ہے۔ ہمار ے بزنس ، ہمارے دفتر، ہمارے تعلیمی ادارے، ہمارا میڈیکل سیکٹر، ہر کوئی تیزی سے نئے تکنیکی بدلاؤ کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے محاذ پر تو واقعی ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کا ہر ایک  اختراع کار نئے حالات کے مطابق کچھ نہ کچھ  نیا تیار کررہا ہے۔

ساتھیو، ملک جب ایک ٹیم بن کر  کام کرتا ہے تب کیا کچھ ہوتا ہے یہ ہم تجربہ کررہے ہیں۔آج مرکزی سرکار ہو ، ریاستی سرکار ہو ان کا ہر ایک شعبہ  اور ادارہ راحت کیلئے مل جل کر  پوری تیزی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ ہماری ہوابازی سیکٹر میں کام کررہے لوگ ہوں ، ریلوے ملازمین ہوں، یہ دن رات محنت کررہے ہیں تاکہ ملک کے شہریوں کو کم سے کم پریشانی ہو، آپ میں سے شاید بہت سے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ملک کے ہر ایک حصے میں دوائیوں کو پہنچانے کیلئے لائف لائن اڑان نام سے ایک خصوصی ابھیان چل رہا ہے ، ہمارے ان ساتھیوں نے  اتنے کم وقت میں ملک کے اندر ہی  تین لاکھ کلو میٹر کی فضائی اڑان بھری ہے اور 500 ٹن سے زیادہ طبی ساز وسامان ملک کے کونے کونے میں آپ تک پہنچایا ہے۔ اسی طرح ریلوے کے ساتھی  لاک ڈاؤن میں بھی  لگاتار محنت کررہے ہیں تاکہ ملک کے عام شہریوں کو ضروری اشیاء کی کمی نہ ہو۔ اس کام کیلئے بھارتی ریلوے قریب قریب 60 سے زیادہ ریل راستے پر 100 سے بھی زیادہ پارسل ٹرین چلا رہی ہے۔ اسی طرح  دواؤں کی سپلائی میں ہمارے ڈاک محکمے کے لوگ بہت اہم کردار نبھا رہے ہیں۔ ہمارے یہ سبھی ساتھی حقیقی معنی میں کورونا کے  واریئر ہی ہیں۔

ساتھیو، ‘پردھان منتری غریب کلیان پیکیج’ کے تحت  غریبوں کےاکاؤنٹ میں پیسے سیدھے ٹرانسفر کیے جارہے ہیں، بزرگوں کیلئے پنشن جاری کی گئی ہے، غریبوں کو تین مہینے کے مفت گیس سیلنڈر راشن جیسی سہولتیں بھی دی جارہی ہیں۔ ان سب کاموں میں حکومت کے الگ الگ محکموں کے لوگ بینکنگ سیکٹر کے لوگ ایک ٹیم کی طرح دن رات کام کررہے ہیں اور میں اپنے ملک کی ریاستی سرکاروں کی بھی اس بات کیلئے  تعریف کروں گا کہ وہ اس وبا سے نمٹنے کیلئے بہت سرگرم کردار ادا کررہی ہیں۔ مقامی انتظامیہ ، ریاستی سرکاریں، جو ذمہ داری نبھا رہی ہیں اس کا  کورونا کے خلاف لڑائی میں بہت بڑا کردار ہے، ان کی یہ کوشش بیحد قابل تعریف ہے ۔

میرے پیارے ہم وطنو، ملک بھر میں صحت خدمات سے جڑے لوگوں نے ابھی حال ہی میں جو آرڈیننس لایا گیا ہے اس پر اپنے اطمینان کااظہا ر کرچکے  ہیں۔ اس آرڈیننس میں کورونا واریئرس کے ساتھ تشدد اور انہیں کسی بھی طرح سے چوٹ پہنچانے والے لوگوں کےخلاف بیحد سخت سزا تجویز کی گئی ہے، ہمارے ڈاکٹر ، نرسیز ، طبی عملہ، کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور ایسے سبھی لوگ جو ملک کو کورونا سے پاک بنانے میں دن رات  مصروف ہوئے ہیں ان کی  حفاظت کرنے کیلئے یہ قدم بہت ضروری تھا۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہم سب تجربہ کررہے ہیں کہ وبا کے خلاف اس لڑائی کے دوران ہمیں اپنی زندگی کو، سماج کو، ہمارے آس پاس رونما ہورہے  واقعات کو ایک  تازہ نظریے سے دیکھنے کا موقع بھی ملا ہے، سماج کے نظریے میں بھی  مثبت بدلا ؤ آیا ہے، آج اپنی زندگی سے جڑے  ہر شخص کی اہمیت کا ہمیں احساس ہورہا ہے ،ہمارے گھروں میں کام کرنے والے لوگ ہوں ، ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے کام کرنے والے ، ہمارے  عام کام کرنے والے ہوں، پڑوس کی دوکانوں میں کام کرنے والے لوگ ہوں، ان سب کا کتنا بڑا رول ہے ہمیں یہ تجربہ ہورہا ہے۔ اسی طرح ضروری خدمات کی  ڈیلیوری کرنے والےلوگ، منڈیوں میں کام کرنے والے  ہمارے مزدور بھائی بہن، ہمارے آس پڑوس کے  آٹو ڈرائیور، رکشا چلانے والے ۔ آج ہم تجربہ کررہے ہیں کہ ان سب کے بغیر ہماری زندگی کتنی مشکل ہوسکتی ہے۔

آج کل سوشل میڈیا میں ہم سب لوگ لگاتار دیکھ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں نہ صرف اپنے ساتھیوں کو یاد کررہے ہیں ، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھ رہے ہیں بلکہ  ان کے بارے میں بہت عزت اور احترام سے لکھ بھی رہے ہیں۔ آج ملک ہر ایک کونے سے ایسی تصویریں آرہی ہیں کہ لوگ صفائی کرمچاریوں پر پھول برسا رہے ہیں، پہلے ان کے کام کو آپ بھی کبھی  نوٹس نہیں کرتے تھے ، ڈاکٹر ہوں، صفائی کرمچاری  ہوں، دیگر خدمات انجام دینے والے لوگ ہوں۔ اتنا ہی نہیں ہماری  پولیس انتظامیہ کو لیکر بھی  عام لوگوں کی سوچ میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے پولیس کے بارے میں سوچتے ہی  منفی سو چ کے سوا انہیں کچھ نظر نہیں آتا تھا ، ہمارے پولیس کارکنان آج غریبوں، ضرورتمندوں کو کھانا پہنچا رہے ہیں ، دوا پہنچا رہے ہیں، جس طرح سے ہر مدد کیلئے پولیس سامنے آرہی ہے اس سے پولیسنگ کا انسانی اور رحم دلی کا جذبہ  ہمارے سامنے اُبھر کر آیا ہے ، ہمارے من کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، ہمارے دل کو چھو لیا ہے، ایک ایسا موقع ہے جس میں عام لوگ پولیس کے ساتھ  جذباتی طریقے سے جڑ رہے ہیں ، ہمارے پولیس اہلکاروں نے اسے  عوام کی خدمت کے ایک موقع کے طو ر پر لیا ہے اور مجھے پورا یقین ہے ان واقعات سے  آنے والے وقت میں صحیح معنی میں بہت ہی مثبت بدلاؤ آسکتا ہے اور ہم سب کو اس مثبت  سوچ کو کبھی بھی منفی  سوچ کے رنگ سے رنگنا نہیں ہے۔

ساتھیو،  ہم اکثرسنتے ہیں ۔ پرکرتی ، ویکرتی اور سنسکرتی  ان الفاظ کو ایک ساتھ دیکھیں اور اس کے پیچھے کے جذبے کو دیکھیں تو آپ کو زندگی کو سمجھنے کا بھی ایک نیا راستہ کھلتاہوا دِکھے گا، اگر انسانی پرکرتی  کی چرچا کریں تو ‘یہ میرا ہے’ ، ‘میں اس کا استعمال کرتاہوں’، اس کو اور اس جذبے کو بہت فطری مانا جاتا ہے، کسی کو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہوتا ، اسے ہم ‘پرکرتی’ کہہ سکتے ہیں، لیکن  ‘ جو میرا نہیں ہے’، ‘جس پر میرا حق نہیں ہے’ اسے میں دوسرے سے چھین لیتا ہوں، اسے چھین کر استعمال میں  لاتا ہوں، تب ہم اسے ‘وِیکرتی’ کہہ سکتے ہیں۔ ان دونوں سے پرے  پرکرتی او ر ویکرتی سے اوپر جب کوئی سنسکارت  ۔ من سوچتا ہے یا سلوک کرتا ہے تو ہمیں ‘سنسکرتی’ نظر آتی ہے ۔ جب کوئی اپنے حق کی چیز ، اپنے محنت سے کمائی چیز اپنے لئے ضروری چیز کم ہو یا زیادہ اس کی پرواہ کیے بنا کسی  شخص کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے  خود کی  فکر چھوڑ کر اپنے حق کےحصے کو بانٹ کرکے  کسی دوسرے کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ وہی تو ‘سنسکرتی’ ہے۔ ساتھیو، جب کسوٹی کا دور ہوتا ہے تب ان اوصاف کاامتحان ہوتا ہے۔

آپ نے پچھلے دنوں دیکھا ہوگا کہ  ہندوستان نے اپنے سنسکاروں کے مطابق ،ہماری سوچ کے مطابق،  ہماری سنسکرتی کا استعمال کرتے ہوئے  کچھ فیصلے لیے ہیں ، بحران کی اس گھڑی میں  دنیا کے لئے بھی ، طاقتور ملکوں کیلئے بھی  دوائیوں کا بحران بہت زیادہ رہاہے، ایک ایسا وقت ہے  کہ اگر ہندوستان دنیا کو دوائیاں نہ بھی دے تو ہندوستان کو قصوروار نہیں مانتا ،ہر ملک سمجھ رہاہے کہ  ہندوستان کیلئے  بھی  اس کی ترجیح اپنے شہریوں کی زندگی بچانا ہے  لیکن ساتھیو، ہندوستان نے پرکرتی ، ویکرتی کی سوچ سے  اوپر ہوکر فیصلہ لیا ، ہندوستان نے  اپنی سنسکرتی  کے  مطابق فیصلہ لیا ،ہم نے بھارت کی ضرورتوں کیلئے  جو کرنا تھا اس کی  کوشش کو تو بڑھایا ہی لیکن دنیا بھر سے  آرہی  انسانیت کی حفاظت کی پُکار پر بھی  پورا پورا دھیان دیا۔  ہم نے دنیا کے  ہر ضرورتمند تک دوائیوں کو پہنچانے کابیڑااٹھایا اور انسانیت کے اس کام کو کرکے دکھایا، آج جب میری متعدد ممالک کے  رہنماؤں سے فون پر بات ہوتی ہے تو وہ ہندوستان کے عوا م کا احسان  ضرور مانتے ہیں، جب وہ لوگ کہتے ہیں  تھینک یو انڈیا، تھینک یو پیپل آف انڈیا  ، تو ملک کیلئے  فخر اور  بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح اس وقت دنیا بھر میں  ہندوستان کے  آیوروید اوریوگ کی اہمیت کو بھی  لوگ بڑے اہم جذبے سے دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دیکھئے  ، ہر طرف قوت مدافعت بڑھانے کیلئے کس طرح سے بھارت کے آیوروید اور یوگا کی چرچا ہورہی ہے۔  کورونا کے نقطہ نظر سے  آیوش کی وزارت نے امیونیٹی  (قوت  مدافعت) بڑھانے کیلئے جو پروٹوکول دیا تھا مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ  اس کااستعمال ضرور کررہے ہوں گے۔ گرم پانی ، کاڑھا اور جو دیگر رہنما خطوط  آیوش کی وزارت نے جاری کیے ہیں وہ آپ اپنے روز مرہ میں شامل کریں گے تو آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔

ساتھیو، ویسے یہ بدقسمتی رہی ہے کہ کئی بار ہم  اپنے ہی  طاقتوں اور  مضبوط روایت کو پہچاننے سے انکار کردیتےہیں لیکن جب  دنیا کاکوئی دوسرا ملک   شواہد پر مبنی تحقیق کی بنیاد پر وہی بات کرتا ہے  ، ہمارا ہی فارمولہ ہمیں سکھاتا ہے ، تو ہم اسے  ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، ممکن ہے اس کے پیچھے ایک بہت بڑا سبب ۔ سینکڑوں برسوں کی ہماری  غلامی کا دور رہا ہے اس وجہ سے  کبھی کبھی ہمیں اپنی ہی طاقت پر  یقین نہیں ہوتا ہے ،ہماری خود اعتمادی کم نظر آتی ہے، اس لئے ہم اپنے ملک کی اچھی باتوں کو اپنے روایتی اصولوں کوشواہد پر مبنی تحقیق کی بنیاد پر آگے بڑھانے کے بجائے اسے  چھوڑ دیتے ہیں، اسے کم تر سمجھنے لگتے ہیں، ہندوستان کی نوجوان نسل کو اب اس چنوتی کو تسلیم کرنا ہو گا ، جیسے  دنیا بھر نے یوگا کو تسلیم کیا ہے ویسے ہی  ہزاروں برس پرانے ہمار ے آیوروید کے اصولوں کے طریقوں کو بھی  دنیا ضرور تسلیم کرے گی۔ ہاں، اس کے لئے نوجوان نسل کو عہد کرنا ہوگا  اور دنیا جس زبان میں  سمجھتی ہے اس سائنسی زبان میں ہمیں  سمجھانا ہوگا ، کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔

ساتھیو، ویسے  کووڈ-19 کے سبب  کئی  مثبت بدلاؤ ، ہمارے کام کرنے کے طریقے، ہماری طرز زندگی اور ہماری عادتو ں میں بھی فطری طور سے اپنی جگہ بنارہے ہیں۔ آپ سب نے بھی محسوس کیا ہوگا اس بحران نے کیسے الگ الگ موضوعات پر ہماری سوچ اور سمجھ کو بیدار کیا ہے جو اثر ہمیں اپنے آس پاس  دیکھنے کو مل رہے ہیں ان میں سب سے پہلا ہے ماسک پہننا اور اپنے چہرے کو ڈھک کر رکھنا، کورونا کی وجہ سے  بدلتے ہوئے حالات میں ماسک بھی ہماری زندگی کاحصہ بن رہا ہے۔ ویسے میں اس کی بھی عادت کبھی نہیں رہی کہ ہمارے آس پاس کے بہت سارے لوگ   ماسک میں دکھیں لیکن اب ہویہی رہا ہے ۔ ہاں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے  کہ جو ماسک لگاتے ہیں وہ سبھی بیمار ہیں اور جب میں ماسک کی بات کرتا ہوں تو مجھے پرانی بات یاد آتی ہے، آپ سب کو بھی یاد ہوگا ، ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ملک کے کئی ایسے علاقے  ہوتے تھے کہ وہاں اگر کوئی  شہری پھل خریدتا ہوا دکھائی دیتا تھا  تو  آس پڑوس کےلوگ اس کو ضرور پوچھتے تھے ۔ کیا گھر میں کوئی بیمار ہے؟ یعنی پھل ۔ مطلب بیماری میں ہی کھایا جاتا ہے۔ ایسی ایک  سوچ بنی ہوئی تھی  ، حالانکہ وقت بدلااور یہ سوچ بھی بدلی، ویسے ہی ماسک کو لیکر بھی  سوچ اب بدلنے والی ہے، آپ دیکھئے گا  ماسک جب  مہذب سماج کا عکاس بن جائے گا ، اگر بیماری سے خود کو بچانا ہے اور دوسروں کو بھی بچانا ہے، تو آپ کو ماسک لگانا پڑے گا اور میرا تو  معمولی مشورہ رہتا ہے ۔ گمچھا ، منہ ڈھکنا ہے۔

ساتھیو، ہمارے سماج میں ایک اور بڑی بیداری یہ آئی ہے کہ آپ سبھی لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عوامی مقامات پر تھوکنے کے کیا نقصانات ہوسکتے ہیں ، یہاں وہاں ، کہیں پر بھی  تھوک دینا غلط عادتوں کاحصہ بناہوا تھا، یہ سوچھتا اور صحت کو سنگین چیلنج بھی دیتا تھا، ویسے ایک طرح سے دیکھیں تو ہم ہمیشہ سے ہی  اس مسئلے کو جانتے رہے ہیں، لیکن یہ مسئلہ سماج سے  ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، جب وہ وقت آگیا ہے کہ اس بری عادت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے ، کہتے بھی ہیں کہ“better late than never”۔ تو دیر بھلے ہی ہوگئی ہو لیکن اب یہ تھوکنے کی عادت چھوڑ دینی چاہئے، یہ  باتیں جہاں بنیادی صفائی ستھرائی کی سطح بڑھائیں گی وہیں کورونا انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے میں بھی مدد کریں گی۔

میرے پیارے ہم وطنو، یہ حسین اتفاق  ہی ہے کہ آج جب آپ سے میں من کی بات کررہا ہوں تو اکچھیہ –ترتیہ  کا  مقدس تیوہار بھی ہے۔ساتھیو،  ‘چھیہ’ کا مطلب  ہوتا ہے برباد ی لیکن جو کبھی برباد نہیں ہو ہو ‘اکچھیہ، ہے اپنے گھروں میں ہم سب اس تیوہار کو ہر سال مناتے ہیں، لیکن اس سال ہمارے لیے اس کی خصوصی اہمیت ہے۔آج کے مشکل وقت میں یہ ایک ایسا دن ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری  آتما ، ہماری  بھاؤنا‘اکچھیہ’ ہے ، یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ  چاہے کتنی بھی  مشکلات راستہ روکے ، چاہے کتنی بھی  مصیبتیں آئیں، چاہے کتنی بھی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑے ، ان سے لڑنے او ر جوجھنے کی انسانی جذبے ’اکچھیہ’ ہے۔ مانا جاتا ہے کہ یہی وہ دن ہے جس دن بھگوان شری کرشن   اور بھگوان سوریہ دیو کے آشیرواد سے پانڈووں کو ‘اکچھیہ پاتر ’ملا تھا ،اکچھیہ پاتر یعنی ایک ایسا برتن جس میں کھانا کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے ان داتا کسان  ہر حالات میں  ملک کے لئے  ، ہم سب کیلئے اسی جذبے سے محنت کرتے ہیں، انہیں کی محنت سے آج ہم سب کیلئے  ،غریبوں کیلئے، ملک کے پاس  اکچھیہ اناج کا بھنڈار ہے۔ اس اکچھیہ ترتیہ پر ہمیں ماحولات، جنگل ، ندیوں اور پورے ماحولی نظام کے تحفظ کے بارے میں بھی  سوچنا چاہئے جو ہماری زندگی میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔ اگر ہم ‘اکچھیہ’ رہنا چاہتے ہیں  تو ہمیں پہلے یہ  یقینی بنانا ہوگا کہ ہماری دھرتی اکچھیہ رہے ۔

کیاآپ جانتے ہیں کہ اکچھیہ ترتیہ کا یہ تیوہار  دان کی شکتی، یعنی  پاور آف گیونگ کا بھی ایک  موقع ہوتا ہے۔ ہم دلی جذبے سے جو کچھ بھی دیتے ہیں حقیقت میں اہمیت اسی کی ہوتی ہے۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ ہم  کیا دیتے ہیں اور کتنا دیتے ہیں، مشکل کے اس دور میں ہماری چھوٹی سی کوشش ہمارے آس پاس کے بہت سے لوگوں کیلئے  بہت بڑا نمونہ بن سکتا ہے۔ ساتھیو، جین روایت میں بھی یہ بہت  مقدس دن ہے کیوں کہ پہلے تیرتھ کر بھگوان رشی بھدیو کی زندگی کا یہ ایک اہم دن رہا ہے۔ ایسے میں جین سماج اسے ایک تیوہار کی شکل میں مناتا ہے اور اس لئے یہ سمجھنا آسان ہے کہ  کیوں اس دن کو لوگ کسی بھی نیک کام کو شروع کرنا پسند کرتے ہیں چونکہ آج کچھ نیا شروع کرنے کا دن  ہے  تو ایسے میں کیا ہم سب ملکر اپنی کوششوں سے اپنی دھرتی کو اکچھیہ  اور اویناشی بنانے کا عہد کرسکتے ہیں۔ ساتھیو،  آج بھگوان بسویشور جی کی بھی جینتی ہے یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے بھگوان بسویشورکی مورتیاں اور ان کے پیغامات  سے بار بار جڑنے کا ، سیکھے کا موقع ملا ہے، ملک اور دنیا میں  بھگوان بسویشور کے سبھی  ماننے والوں کو ان کے یوم پیدائش پر بہت بہت مبارکباد۔

ساتھیو، رمضان کا بھی  مقدس مہینہ شروع ہوچکا ہے، جب پچھلی بار رمضان منایا گیا تھا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس بار رمضان میں اتنی بڑی مصیبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا لیکن اب جب پوری دنیا میں یہ مصیبت آہی گئی ہے تو ہمارے سامنے  موقع ہے اس رمضان کو خود ، آپسی بھائی چارہ، خدمت کےجذبے کا عکاس بنائیں۔ اس بار ہم پہلے سے زیادہ عبادت کریں تاکہ عید آنے سے پہلے دنیا کورونا سے پاک ہوجائے او رہم پہلے کی طرح امنگ اور خوشی کے ساتھ عید منائیں۔ مجھے یقین ہے کہ رمضان کے ان دنوں میں  مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے  کورونا کے خلاف چل رہی  اس لڑائی کو ہم اور مضبوط بنائیں  گے۔ سڑکوں پر ، بازاروں میں، محلوں میں، جسمانی دوری کے اصولوں پر عمل آوری ابھی بہت ضروری ہے۔ آج ان سبھی کمیونٹی لیڈرس کے تئیں بھی  شکریہ کا اظہار کرتا ہوں جو دو گز دوری  اور گھرسے باہر نہیں نکلنے کو لیکر  لوگوں کو بیدار کررہے ہیں۔ واقعی کورونا نے اس بار  ہندوستان سمیت دنیا بھر میں تیوہاروں کو منانے  کی شکل ہی بدل دی ہے۔ رنگ روپ بدل دیئے ہیں۔ ا بھی پچھلے دنوں ہی ہمارے یہاں بھی  بیہو، بیساکھی، پوڈھنڈو، ویشو، اوڑیہ نیا سال، ایسے متعدد تیوہار آئے ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے کیسے ان تیوہاروں کو گھر میں رہ کر اور بڑی سادگی کے ساتھ سماج کے تئیں اچھی سوچ کے ساتھ تیوہاروں کو منایا، عام طور پر وہ ان تیوہاروں کو اپنے دوستوں اور فیملی کےساتھ  پورے  جوش ا ور امنگ کے ساتھ مناتے تھے ، گھر کے باہر نکل کر اپنی خوشی ساجھا کرتے تھے، لیکن اس بار ہر کسی نے صبر کیا ، لاک ڈاؤن کے اصولوں کا پالن کیا، ہم نے دیکھا ہے کہ اس بار ہمارے عیسائی دوستوں نے ایسٹر بھی گھر پر ہی منایا ہے، اپنے سماج ، اپنے ملک کے تئیں یہ ذمہ داری نبھانا آج کی بہت بڑی ضرورت ہے ، تبھی ہم کورونا کےپھیلاؤ کو روک پانے میں کامیاب ہوں گے۔ کورونا جیسی عالمی وبا کو شکست دے پائیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو، اس عالمی وبا کے بحران کے درمیان آپ کی فیملی کے ایک رکن کے ناطے  اور آپ سب بھی میرے ہی کنبے کے فرد ہیں تب کچھ اشارہ کرنا ، کچھ مشورہ دینا یہ میرا فرض بھی بن جاتا ہے، میر ے ہم وطنو، میں آپ سے گزارش کروں گا۔ ہم قطعی  حد سے زیادہ خود اعتمادی میں نہ پھنس جائیں ، ہم ایسا خیال نہ پال لیں کہ ہمارے شہر میں، ہمارے گاؤں میں، ہماری گلی میں، ہمارے دفتر میں، ابھی تک کورونا نہیں پہنچا ہے، اس لئے اب پہنچنے والا نہیں ہے۔ دیکھئے ایسی غلطی کبھی مت کرنا، دنیا کا تجربہ ہمیں بہت کچھ کہہ رہا ہے اور ہمارے یہاں تو بار بار کہا جاتا ہے ‘ساؤدھانی ہٹی تو دُرگھٹنا گھٹی’(احتیاط ختم ہوئی تو حادثہ رونماہوا)۔ یاد رکھئے  ہمارے  اسلاف نے ہمیں ان سارے معاملات میں بہت اچھا راستہ دکھایا ہے، ہمارے اسلاف نے کہا ہے

‘اگنی : شیسم ، رنا: شیسم،

ودیادھی: شیسم تتھیوچ۔

پونہ: پونہ: پرودھیت،

تسمات شیسم نہ کاریت۔

اس کا مطلب  ہلکے میں لیکر چھوڑ دی گئی آگ، قرض اور بیماری موقع پاتے ہی دوبارہ بڑھ کر خطرناک ہوجاتی ہے۔  اس لئے  ان کا پوری طرح  علاج بہت ضروری ہوتا ہے۔اس لئے بہت زیادہ خوداعتمادی  میں آکر مقامی سطح پر کہیں پر بھی کوئی  لاپروائی نہیں ہونی چاہئے۔ اس کاہمیشہ ہمیشہ ہمیں  دھیان رکھنا ہی ہوگا اور میں پھر ایک بار کہوں گا ۔ دو گز دوری بنائے رکھئے ، خود کو صحتمند رکھئے ۔ ‘دو گز دوری ،بہت ہی ضروری’۔ آپ سب کی اچھی صحت کی تمنا کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ۔ اگلے ‘من کی بات’ کے وقت  جب ملیں تب اس عالمی وبا سے کچھ نجات کی خبریں دنیا بھر سے آئیں۔ انسان ان مصیبتوں سے باہر آئے۔ اسی دعا کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔

 

 

-----------------------

 

م ن۔م ع۔ ع ن

U NO-2061



(Release ID: 1618452) Visitor Counter : 607