وزیراعظم کا دفتر

بیلور مٹھ، کولکاتہ میں وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 12 JAN 2020 12:35PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،12 جنوری 20 /  رام کرشن مٹھ کے جنرل سکریٹری  جناب سوامی سُویرانندا جی مہاراج، سوامی دیویانند جی مہاراج، یہاں موجود  معزز سنتوں ، مہمانان، میرے نوجوان ساتھیوں۔

آپ سبھی کو سوامی وویکانند کے یوم پیدائش کے اس مقدس موقعے پر، نوجوانوں کے قومی دن کے موقعے پر، بہت بہت مبارکباد۔ ملک کے باشندوں کے لیے بیلور مٹھ کی اس مقدس سرزمین پر آنا کسی تیرتھ یاترا  سے کم نہیں ہے، لیکن میرے لیے تو ہمیشہ سے ہی یہ گھر آنے جیسا ہی ہے۔ میں پریسیڈینٹ سوامی کا، یہاں پر سبھی منتظمین کا دل سے بہت شکر گزار ہوں کہ مجھے کل رات یہاں رہنے کے لیے اجازت دی اور حکومت کا بھی میں ممنون  ہوں کیونکہ حکومت میں پروٹوکول، سکیورٹی یہ سب اِدھر اُدھر جانے نہیں دیتے۔ لیکن میری درخواست کو منتظمین نے بھی منظور کیا۔ اور مجھے اس مقدس سرزمین میں رات گزارنے کا موقع حاصل ہوا۔ اس سرزمین میں، یہاں کی فضا میں سوامی رام کرشن پرم ہنس، ماں شاردا دیوی، سوامی برہمانند، سوامی وویکانند سمیت تمام گروؤں کی قربت ہر کسی کو محسوس ہو رہی ہے۔ جب بھی میں یہاں بیلور مٹھ آتا ہوں تو ماضی کے وہ صفحات کھل جاتے ہیں، جن کی وجہ سے میں یہاں ہوں۔ اور 130 کروڑہندوستانیوں کی خدمت میں کچھ فرائض انجام دے پا رہا ہوں۔

پچھلی بار جب میں یہاں آیا تھا تو گرو جی ، سوامی آتم استھانند جی کے آشیرواد لے کر گیا تھا۔ اور میں کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے مجھے انگلی پکڑ کر عوام کی خدمت ہی بھگوان کی سیوا کا راستہ دکھاتا ہے۔ آج وہ جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ لیکن ان کا کام، ان کے ذریعے دکھایا گیا  راستہ، رام کرشن مشن کی شکل میں  ہمیشہ ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتا رہے گا۔

یہاں بہت سے نوجوان برہمچاری بیٹھے ہیں مجھے ان کے درمیان کچھ لمحے  گزارنے کا موقع ملا۔ جو ذہنی  حالت  آپ کی ہے کبھی میری بھی ہوا کرتی تھی۔ اور آپنے تجربہ کیا ہوگا ہم میں سے زیادہ تر لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں اس کی وجہ وویکانند جی کے خیالات، وویکانند جی کے ذریعے کہی گئی باتیں ، وویکانند جی کی شخصیت ہمیں یہاں تک کھینچ کر لے آتی ہے۔ لیکن ۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ اس سرزمین  پر آنے کے بعد ماتا شاردا دیوی کا آنچل ہمیں بس جانے کے لیے ایک ماں کا پیار دیتا ہے۔ جتنے بھی برہمچاری لوگ ہیں سب کو یہی محسوس ہوتا ہوگا، جو کبھی مجھے ہوا کرتا تھا۔

ساتھیو، سوامی وویکانند کا ہونا صرف ایک شخصیت کا ہونا نہیں ہے، بلکہ وہ ایک زندگی کی دھارا کا، زندگی گزارنے کے ایک طریقے کا نام ہے۔ انہوں نے غریبوں کی خدمت اور ہندوستان کے تئیں محبت کو ہی اپنی زندگی کا آغاز اور زندگی کا انجام  بھی مان لیا، جی بھی لیا اور جینے کے لیے آج بھی کروڑوں لوگوں کو راستہ بھی دکھا دیا۔

آپ سبھی، ملک کا ہر نوجوان اور میں یقین سے کہہ رہا ہوں ۔ ملک کا ہر نوجوان چاہے وویکانند کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ جانے انجانے میں بھی اسی عزم کا ہی حصہ ہیں۔ وقت بدلا ہے، دہائیاں بدلی ہیں، صدی بدل گئی ہے، لیکن سوامی جی کے اس عزم کو پورا کرنے کا  ذمہ ہم پر بھی ہے، آنے والے نسل پر بھی ہے۔ اور یہ کام کوئی ایسا نہیں ہے کہ ایک بار کر دیا تو ہو گیا۔ یہ مسلسل کرنے کا کام ہے، صدیوں صدیوں تک کرنے کا کام ہے۔

کئی بار ہم سوچنے لگتے ہیں کہ میرے اکیلے کے کرنے سے کیا ہوگا۔ میری بات کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔ میں جو چاہتا ہوں، میں جو سوچتا ہوں، اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتا ہے اور اس حالت سے نوجوان ذہن کو باہر نکالنا بہت ضروری ہے۔  اور میں تو سیدھا سادا منتر بتا دیتا ہوں۔ جو میں نے بھی کبھی گروؤں سے سیکھا ہے۔ ہم کبھی اکیلے نہیں ہیں۔ کبھی بھی اکیلے نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ ایک اور ہوتا ہے جو ہمیں دکھتا نہیں ہے وہ ایشور کا روپ ہوتا ہے ۔ ہم اکیلے کبھی نہیں ہوتے ہیں۔ ہمارا خالق ہر لمحہ ہمارے ساتھ ہی ہوتا ہے۔

سوامی جی کی وہ بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی ہوگی جب وہ کہتے تھے کہ ‘‘اگر مجھے سو توانائی سے بھرپور نوجوان مل جائیں ، تو میں ہندوستان کو بدل دوں گا’’۔ سوامی جی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ مجھے سو لوگ  مل جائیں گے تو میں یہ بن جاؤں گا۔۔۔ ایسا نہیں کہا، انہوں نے یہ کہا کہ ہندوستان بدل جائے گا۔ یعنی تبدیلی کے لیے ہماری توانائی، کچھ کرنے کا جوش ہی یہ جذبہ بہت ضروری ہے۔

سوامی جی تو غلامی کے اس دور میں 100 ایسے نوجوان ساتھیوں کی تلاش کر رہے تھے۔ لیکن 21ویں صدی کو ہندوستان کی صدی بنانے کے لیے، نئے ہندوستان کی تعمیر کے لیے تو کروڑوں توانائی سے بھرپور نوجوان آج ہندوستان کے ہر کونے میں کھڑے ہوئے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی نوجوابی آبادی کا خزانہ ہندوستان کے پاس ہے۔

ساتھیو، 21ویں صدی کے ہندوستان کے اس ملک کے نوجوانوں سے ہی نہیں، اس ملک کے نوجوانوں سے صرف ہندوستان کو ہی نہیں پوری دنیا کو بہت امیدیں ہیں۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ ملک نے 21ویں صدی کے لیے، نئے ہندوستان کی تعمیر کے لیے بڑے عزم لے کر قدم اٹھائے ہیں۔ یہ عزائم صرف حکومت کے نہیں، یہ عزائم 130 کروڑ ہم وطنوں کے ہیں، ملک کے نوجوانوں کے ہیں۔

گزشتہ 5 سالوں کا تجربہ دکھاتا ہے کہ ملک کے نوجوان جس مہم کے ساتھ جڑ جاتے ہیں، اس کی کامیابی طے ہے۔ ہندوستان صاف ہو سکتا ہے یا نہیں، اس کو لے کر 5 سال پہلے تک ایک مایوسی کا احساس تھا، لیکن ملک کے نوجوان نے کمان سنبھالی اور تبدیلی سامنے نظر آرہی ہے۔

5-4 سال پہلے تک مختلف لوگوں کو یہ بھی مشکل لگتا تھا کہ ہندوستان میں ڈیجیٹل پیمنٹ کا پھیلاؤ اتنا بڑھ سکتا ہے کیا؟ لیکن آج ہندوستان دنیا کے سب سے تیز ی سے بڑھتی ڈیجیٹل معیشت میں اپنی مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے۔

بدعنوانی کے خلاف کچھ سال پہلے تک کیسے ملک کا نوجوان سڑکوں پر تھا، یہ بھی ہم نے دیکھا ہے۔ تب لگتا تھا کہ ملک میں انتظامیہ کو بدلنا مشکل ہے۔ لیکن نوجوانوں نے یہ تبدیلی بھی کر دکھائی۔

ساتھیو، نوجوان جوش، نوجوان توانائی ہی 21ویں صدی کی اس دہائی میں ہندوستان کو بدلنے کی بنیاد ہے۔ اس طرح سے 2020، یہ جنوری مہینہ، ایک طرح سے نئے سال کی نیک خواہشات سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ صرف نیا سال نہیں ہے نئی دہائی بھی ہے۔  اور اس لیے ہمیں اپنے خوابوں کو اس دہائی کے عزم کے ساتھ جوڑ کر کے منزل حاصل کرنے کی سمت میں زیادہ توانائی کے ساتھ، اور زیادہ امنگ کے ساتھ ، اور زیادہ سپردگی کے ساتھ جڑنا ہے۔

نئے ہندوستان کا عزم، آپ کے ذریعے ہی مکمل کیا جانا ہے۔ یہ نوجوان خیالات ہی ہے جو کہتے ہیں کہ مسئلہ کو ٹالو نہیں، اگر آپ نوجوان ہیں تو مسئلے کو ٹالنے کی کبھی سوچ ہی نہیں سکتے ہیں۔ نوجوان ہے مطلب مسئلے سے ٹکراؤ، مسئلوں کو سلجھائیں، چیلنج کو ہی چیلنج کر ڈالو۔  انہیں خیالات پر چلتے ہوئے مرکزی حکومت بھی ملک کے سامنے موجودہ دہائیوں پرانے چیلنجوں کو سلجھانے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔

ساتھیو، پچھلے کچھ وقت سے ملک میں اور نوجوانوں میں بہت چرچا ہے سیٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ کی۔ یہ ایکٹ کیا ہے، اسے لانا کیوں ضروری تھا؟ نوجوانوں کے من میں بہت سے سوالات مختلف لوگوں کے ذریعے بھر دیئے گئے ہیں۔ بہت سے نوجوان بیدار ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اب بھی اس غلط فہمی کے شکار ہوئے ہیں، افواہوں کے شکار ہوئے ہیں۔ ایسے ہر نوجوان کو سمجھانا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے اور اسے مطمئن کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

اور اس لیے آج نوجوانوں کے قومی دن کے موقعے پر میں پھر سے ملک کے نوجوانوں کو، مغربی بنگال کے نوجوانوں کو، نارتھ ایسٹ کے نوجوانوں کو آج اس مقدس سرزمین سے اور نوجوانوں کے درمیان کھڑا ہو کر ضرور کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

ساتھیو، ایسا نہیں ہے کہ ملک کی شہریت دینے کے لیے ہندوستانی حکومت نے راتوں رات کوئی نیا قانون بنا دیا ہے۔ ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ دوسرے ملک سے، کسی بھی مذہب کا کوئی بھی فرد ، جو ہندوستان پر یقین رکھتا ہے، ہندوستان کے آئین کو مانتا ہے، ہندوستان کی شہریت حاصل کر سکتا ہے۔ کوئی مخمصہ نہیں ہے اس میں۔۔۔ میں پھر کہوں گا، سیٹیزن شپ ایکٹ، شہریت چھین لینے کا نہیں، یہ شہریت دینے کا قانون ہے اور سیٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ ، اُس قانون میں صرف ایک ترمیم ہے۔ یہ ترمیم، یہ امینڈمنٹ کیا ہے؟ ہم نے تبدیلی یہ کی  ہے کہ ہندوستان کی شہریت لینے کی سہولت اور بڑھا دی ہے۔ یہ سہولت کس کے لیے بڑھائی ہے؟ ان لوگوں کے لیے، جن پر تقسیم کے بعد بنے پاکستان میں، ان کے مذہبی عقیدے کی وجہ سے مظالم ہوئے، ظلم ہوا، زندگی گزارنا مشکل  ہو گیا، بہن – بیٹیوں کی عزت غیرمحفوظ ہو گئی۔ زندگی گزارنا ہی ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ مختلف مصیبتوں  سے یہ زندگی گھر گئی۔

ساتھیو، آزادی کے بعد، پوجیہ مہاتما گاندھی سے لے کر اس وقت کے بڑے بڑے عظیم لیڈروں کا یہی کہنا تھا کہ ہندوستان کو ایسے لوگوں کو شہریت دینی چاہیے، جن پر ان کے مذہب کی وجہ سے پاکستان میں مظالم ہو رہے ہیں۔

اب میں آپ سے پوچھتا ہوں مجھے بتایئے کہ ایسے مہاجرین کو ہمیں مرنے کے لیے واپس بھیجنا چاہیے کیا؟ بھیجنا چاہیے کیا؟ کیا ہماری ذمہ داری ہے کہ نہیں ہے، ان کو برابری میں ہمارا شہری بنانا چاہیے کہ نہیں بنانا چاہیے۔ اگر وہ قانون کے ساتھ، بندھنوں کے ساتھ رہتا ہے، امن – چین کی زندگی بسر کرتا ہے تو ہمیں  اطمینان ہوگا کہ نہیں ہوگا۔۔۔ یہ کام مقدس ہے کہ نہیں ہے۔۔ ہمیں کرنا چاہیے کہ نہیں کرنا چاہیے۔ اوروں کی بھلائی کے لیے کام کرنا اچھا ہے کہ برا ہے؟ اگر مودی جی یہ کرتے ہیں تو آپ کا ساتھ ہے نا۔۔۔ آپ کا ساتھ ہے نا۔۔۔ ہاتھ اوپر اٹھا کر بتایئے آپ کا ساتھ ہے نا۔

ہماری حکومت نے ملک کو آزادی دلانے والے عظیم سپوتوں کی خواہش کا ہی احترام کیا ہے۔ جو مہاتما گاندھی کہہ کر گئے اس کام کو ہم نے کیا ہے جی۔۔۔ اور سیٹیزن شپ  امینڈمنٹ ایکٹ میں ہم شہریت دے ہی رہے ہیں، کسی کی بھی۔۔۔ کسی کی بھی۔۔۔ شہریت چھین نہیں رہے ہیں۔

اس کے علاوہ ، آج بھی کسی بھی مذہب کا فرد، بھگون کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو۔۔۔ جو فرد ہندوستان کے آئین کو مانتا ہے، وہ طے  شدہ عمل کے تحت ہندوستان کی شہریت لے سکتا ہے۔ یہ آپ کو واضح طور پر سمجھ آیا کہ نہیں آیا۔ سمجھ گئے نہ۔۔۔ جو چھوٹے چھوٹے طلبا ہیں وہ بھی سمجھ گئے نہ۔۔۔ جو آپ سمجھ رہے ہیں نہ وہ سیاسی کھیل کھیلنے والے سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ بھی سمجھدار ہیں لیکن سمجھنا چاہتے نہیں ہیں۔ آپ سمجھدار بھی ہیں اور ملک کا بھلا چاہنے والے نوجوان بھی ہیں۔

اور ہاں، جہاں تک نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کا سوال ہے۔ ہمارا فخر ہے نارتھ ایسٹ ، ہمارا فخر ہے۔ نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کی ثقافت ، وہاں کی روایت، وہاں کی ڈیموگرافی، وہاں کے رسم و رواج، وہاں کے رہن – سہن، وہاں کے کھان پان، وہاںکی ڈیموگرافی اس پر اس قانون میں جو اصلاح کی گئی ہے اس کا کوئی الٹا اثر ان پر نہ پڑے، اس کا بھی اہتمام مرکزی  حکومت نے کیا ہے۔

ساتھیو، اتنا واضح ہونے کے باوجود، کچھ لوگ اپنے سیاسی مفاد کے لیے سیٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ کو لے کر مسلسل بھرم پھیلا رہے ہیں۔  مجھے خوشی ہے کہ آج کا نوجوان ہی ایسے لوگوں کا بھرم بھی دور کر رہا ہے۔

اور تو اور ، پاکستان میں جس طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں پر مظالم ہوتے ہیں، اسے لےکر بھی دنیا بھر میں آواز ہمارے نوجوان ہی اٹھا رہے ہیں۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ شہریت قانون میں ہم یہ ترمیم نہ لاتے تو نہ یہ تنازعہ چھڑتا اور نہ یہ تنازعہ چھڑتا تو دنیاکو بھی معلوم نہ ہوتا کہ پاکستان میں اقلیتوں پر کیسے کیسے مظالم ہوئے ہیں۔  انسانی حقوق کی کس طرح پامالی ہوئی ہے۔  کیسے بہن – بیٹیوں کی زندگی کو برباد کیا گیا ہے۔ یہ ہماری پہل کا نتیجہ ہے کہ اب پاکستان کو جواب دینا پڑے گا کہ 70 سال میں آپ نے وہاں پر اقلیتوں کے ساتھ یہ ظلم کیوں کیے۔

ساتھیو، بیدار رہتے ہوئے، بیداری پھیلانا ، دوسروں کو بیدار کرنا بھی ہم سبھی کی ذمہ داری ہے۔ اور بھی بہت سے موضوع ہیں جس کی وجہ سے معاشرتی بیداری، عوامی تحریک، عوامی بیداری ضروری ہے جیسے پانی کو ہی لے لو۔۔۔ پانی بچانا آج ہر شہری کی ذمہ داری بنتی جا رہی ہے۔ سنگل یوز پلاسٹک کے خلاف مہم ہو یا پھر غریبوں کے لیے حکومت کی مختلف اسکیموں، ان سبھی باتوں کے لیے بیداری بڑھانے میں آپ کا تعان ملک کی بہت بڑی مدد کرے گا۔

ساتھیو، ہماری ثقافت اور ہمارا آئین ہم سے یہی امید کرتا ہے کہ شہری کے طور پر اپنے فرائض  کو، اپنی ذمہ داریوں کو ،  ہم پوری ایمانداری اور پورے اخلاص کے ساتھ سے نبھائیں۔ آزادی کے 70 سال کے درمیان ہمارے حق۔۔۔ حق۔۔۔ ہم نے بہت سنا ہے۔ حق کے لیے لوگوں کو بیدار بھی کیا ہے۔ اور وہ  ضروری بھی تھا۔ اور اسی راستے پر چلتے ہوئے ہم ہندوستان کو عالمی منظر نامے  پر اپنے صحیح مقام پر دیکھ پائیں گے۔ یہی سوامی وویکانند کی بھی ہر ہندوسانی سے توقع تھی اور یہی اس تنظیم کی بھی بنیاد میں ہے۔

سوامی وویکانند جی بھی یہی چاہتے تھے، وہ بھارت ماں کو عظیم الشان شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اور ہم سب بھی تو انہیں کے خواب کو پورا کرنے کے لیے عزم لے رہے ہیں۔ آج پھر ایک سوامی وویکانند جی کے مقدس تہوار پر بیلور مٹھ کی اس مقدس سرزمین پر عظیم سنتوں کے درمیان  بڑی عقیدت  کے ساتھ کچھ لمحے گزارنے کا مجھے موقع ملا۔ آج صبح صبح بہت دیر تک پوجیہ  سوامی وویکانند جی جس کمرے میں ٹھہرتے تھے وہاں پر ایک روحانی شعور ہے، اسپند ہے۔ اس ماحول کے اندر آج صبح مجھے وقت  گزارنے کا موقع میری زندگی کا بہت انمول  وقت تھا وہ جو آج مجھے وقت گزارنے کا موقع ملا۔ ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے پوجیہ  سوامی وییکانند جی  ہمیں اور زیادہ کام کرنے کےلیے ترغیب دے رہے ہیں، نئی توانائی دے رہے ہیں ہمارے اپنے عزائم میں نئی توانائی بھر رہےہیں اور اسی احساس کے ساتھ، اسی ترغیب کے ساتھ، اسی نئی توانائی کےساتھ آپ سب ساتھیوں کے جوش کے ساتھ اس مٹی کے آشیرواد کے ساتھ میں پھر ایک بات آج یہاں سے اسی خواب کو پورا کرنے کے لیے چل پڑونگا، چلتا رہوں گا کچھ نہ کچھ کرتا رہوں گا۔۔۔ سبھی سنتوں کے آشیرواد بنے رہیں۔ آپ سب کو بھی میری طرف سے  بہت بہت نیک خواہشات اور سوامی جی نے ہمیشہ کہا تھا سب کچھ بھول جاؤ ماں بھارتی کو ہی اپنی دیوی مان کر کے اس کے لیے لگ جاؤ اسی جذبے کو لے کر آپ میرے ساتھ بولیں گے۔۔۔ دونوں مٹھی ہاتھ اوپر کر کے پوری قوت سے بولیے۔۔۔

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بہت بہت شکریہ!

*************

( م ن ۔ا گ۔ م ت ح (

 U. No. 160

 

 


(Release ID: 1599201) Visitor Counter : 206