وزیراعظم کا دفتر
من کی بات کی 128 قسط میں وزیراعظم کے خطاب کا متن
प्रविष्टि तिथि:
30 NOV 2025 11:52AM by PIB Delhi
میرے پیارے ہم وطنوں،
نمسکار۔من کی بات میں ایک بار پھر خوش آمدید۔ نومبر کا مہینہ بہت سی ترغیبات لے کر آیا۔ ابھی کچھ دن پہلے 26 نومبر کو سنٹرل ہال میںیوم آئین کے موقع پر ایک خصوصی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ وندے ماترم کی 150 ویں سالگرہ نے ملک گیر پروگراموں کی شاندار شروعات کی۔ 25 نومبر کو ایودھیا کے رام مندر میں دھرم دھوج پھہرایا گیا۔ اسی دن کروکشیتر کے جیوتیسر میں پنچجنیہ میموریل کا افتتاح ہوا۔
دوستوں
ابھی کچھ دن پہلے، میں نے حیدرآباد میں دنیا کے سب سے بڑے لیپ انجن ایم آر او سہولت کا افتتاح کیا۔بھارت نے ہوائی جہاز کی دیکھ بھال، مرمت اور اوور ہال کے شعبے میں یہ بڑا قدم اٹھایا ہے۔ گزشتہ ہفتے ممبئی میں ایک تقریب کے دوران آئی این ایس مہے کو بھارت بحریہ میں شامل کیا گیا تھا۔ ابھی پچھلے ہفتے، اسکائی روٹ کے انفینٹی کیمپس نے بھارت کے خلائی ماحولیاتی نظام کو ایک نیا فروغ دیا۔ یہ ہندوستان کی نئی سوچ، اختراع اور نوجوانوں کی طاقت کا عکاس ہے۔
دوستوں
ملک نے زرعی شعبے میں بھی ایک اہم سنگ میل حاصل کیا ہے۔ بھارت نے 357 ملین ٹن غذائی اجناس کی پیداوار کے ساتھ ایک تاریخی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ تین سو ستاون ملین ٹن! 10 سال پہلے کے مقابلے بھارت کی غذائی اجناس کی پیداوار میں 100 ملین ٹن کا اضافہ ہوا ہے۔ بھارت نے کھیلوں کی دنیا میں بھی اپنا نام روشن کیا ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی بھارت کو کامن ویلتھ گیمز کا میزبان قرار دیا گیا تھا۔ یہ کامیابیاں ملک کی اور اس کے شہریوں کی ہیں۔من کی بات عوام کی اجتماعی کوششوں کو عوام کے سامنے لانے کے لیے ملک کے لوگوں کی ایسی کامیابیوں کا جشن منانے کا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔
دوستوں
اگر دماغ میں لگن، اجتماعی طاقت پر یقین اور ایک ٹیم کے طور پر کام کرنا اور گرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کا حوصلہ ہو تو مشکل ترین کاموں میں بھی کامیابی یقینی ہے۔ اس دور کا تصور کریں جب کوئی سیٹلائٹ نہیں تھا، جی پی سی سسٹم نہیں تھا، نیو ی گیشن کی سہولت نہیں تھی۔ تب بھی ہمارے ملاح بڑے بڑے جہازوں میں سوار ہو کر اپنی منزلوں تک پہنچ جاتے تھے۔ اب، سمندر سے آگے بڑھتے ہوئے، دنیا بھر کے ممالک خلاء کی لامحدود بلندیوں کو عبور کر رہے ہیں۔ چیلنج وہاں بھی ایک ہی ہے؛ نہ جی پی ایس سسٹم ہے، نہ کمیونیکیشن سسٹم… تو ہم کیسے آگے بڑھیں گے؟
دوستوں
کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نے میری توجہ اپنی طرف کھینچی۔ یہ ویڈیو اسرو کے زیر اہتمام ایک منفرد ڈرون مقابلے کا تھا۔ اس ویڈیو میں ہمارے ملک کے نوجوان خصوصاً ہمارے جنریشن زی مریخ جیسے حالات میں ڈرون اڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ڈرون اڑتے، چند لمحوں کے لیے متوازن رہتے اور پھر اچانک زمین پر گر جاتے۔ کیا آپ جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ وہاں اڑنے والے ڈرونز میں جی پی ایس کی سہولت بالکل نہیں تھی۔ مریخ پر جی پی ایس ممکن نہیں ہے، اس لیے ڈرون کوئی بیرونی سگنل یا رہنمائی حاصل نہیں کر سکتے۔ ڈرونز کو اپنے کیمروں اور ان بلٹ سافٹ ویئر کی مدد سے اڑنا تھا۔ اس چھوٹے ڈرون کو زمینی نمونوں کو پہچاننا، اونچائی کی پیمائش کرنا، رکاوٹوں کو سمجھنا اور لینڈنگ کا محفوظ راستہ تلاش کرنا تھا۔ اس لیے ڈرون یکے بعد دیگرے گر رہے تھے۔
دوستوں
اس مقابلے میں پونے کے نوجوانوں کی ٹیم نے کچھ کامیابی حاصل کی۔ ان کا ڈرون بھی کئی بار گرا اور گر کر تباہ ہوا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ کئی کوششوں کے بعد اس ٹیم کا ڈرون کچھ دیر کے لیے مریخ کے ماحول میں پرواز کرنے میں کامیاب رہا۔
دوستوں
اس ویڈیو کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک اور منظر آیا: جس دن چندریان-2 کا رابطہ ختم ہو گیا۔ اس دن پورے ملک اور خاص طور پر سائنسدان لمحہ بہ لمحہ مایوس ہوئے۔
لیکن دوستوں، ناکامی انہیں روک نہیں سکی۔ اسی دن انہوں نے چندریان 3 کی کامیابی کی کہانی لکھنا شروع کی۔ یہی وجہ ہے کہ جب چندریان 3 کامیابی سے اترا تو یہ صرف ایک مشن کی کامیابی نہیں تھی۔ یہ ناکامی سے باہر آنے کے بعد بنائے گئے نئے اعتماد کی کامیابی تھی۔ میں نے اس ویڈیو میں نظر آنے والے نوجوانوں کی آنکھوں میں وہی چنگاری دیکھی۔ جب بھی میں اپنے نوجوانوں کی لگن اور ہمارے سائنسدانوں کے عزم کے جذبے کو دیکھتا ہوں، میرا دل جوش سے بھر جاتا ہے۔ نوجوانوں کی یہی لگن وکست بھارت کی سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں،
شہد کی مٹھاس سے آپ سبھی واقف ہیں، لیکن ہمیں اکثر یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس میں کتنی محنت، روایات اور فطرت کے ساتھ اتنی خوبصورت ہم آہنگی شامل ہے۔
دوستوں
جموں و کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں شہد کی مکھیاں جنگلی تلسی سے منفرد شہد تیار کرتی ہیں جسے سولائی بھی کہا جاتا ہے۔ سفید رنگ کا یہ شہد رامبنسولائی شہد کہلاتا ہے۔ چند سال پہلے، رامبن سولائی شہد کو جی آئی ٹیگ ملا تھا۔ جس کے بعد اس شہد کو ملک بھر میں پہچان مل رہی ہے۔
دوستوں
پٹور، جنوبی کنڑ ضلع میں، وہاں کی پودوں کو شہد کی پیداوار کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔ یہاںگرام جنیا نامی کسانوں کی تنظیم قدرت کے اس تحفے کو ایک نئی سمت دے رہی ہے۔گرام جنیا نے ایک جدید پروسیسنگ یونٹ قائم کیا ہے… ایک لیب، بوٹلنگ، اسٹوریج، اور ڈیجیٹل ٹریکنگ کی سہولیات شامل کی گئی ہیں۔ اب یہ شہد ایک برانڈڈ پروڈکٹ کے طور پر دیہی علاقوں سے شہروں تک پہنچ رہا ہے۔ اس کوشش سے ڈھائی ہزار سے زائد کسان مستفید ہوئے ہیں۔
دوستوں
کرناٹک کے ٹمکورو ضلع میںشیو گنگا کلنجیہ نامی تنظیم کی کوشش بھی قابل ستائش ہے۔ ہر رکن کو ابتدائی طور پر شہد کی مکھیوں کے دو ڈبے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ایسا کرکے اس تنظیم نے کئی کسانوں کو اپنی مہم سے جوڑا ہے۔ اب اس تنظیم سے وابستہ کسان مشترکہ طور پر شہد نکالتے ہیں، اسے اچھی طرح پیک کرتے ہیں اور مقامی مارکیٹ میں پہنچاتے ہیں۔ اس سے انہیں لاکھوں کی آمدنی بھی ہو رہی ہے۔ اسی طرح کی ایک مثال ناگالینڈ میں چٹان کے شہد کے شکار کی ہے۔ ناگالینڈ کے گاؤں چوکلانگن میں کھامنی-ینگن قبیلہ صدیوں سے شہد نکالنے میں مصروف ہے۔ وہاں شہد کی مکھیاں درختوں پر نہیں بلکہ اونچی چٹانوں پر اپنی رہائش گاہیں بناتی ہیں۔ اس لیے شہد نکالنے کا کام بھی بہت پرخطر ہے۔ اس لیے وہاں کے لوگ پہلے شہد کی مکھیوں سے شائستگی سے بات کرتے ہیں، ان سے اجازت لیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ شہد لینے آئے ہیں جس کے بعد وہ شہد نکالتے ہیں۔
دوستوں
آج بھارت شہد کی پیداوار میں نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ 11 سال قبل ملک میں شہد کی پیداوار 76 ہزار میٹرک ٹن تھی۔ اب یہ بڑھ کر 1.5 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ ہو گیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران شہد کی برآمدات میں بھی تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہنی مشن پروگرام کے تحت کھادی گراموادیوگ نےبھی 2.25 لاکھ سے زیادہ شہد کی مکھیوں کے ڈبے لوگوں میں تقسیم کیے ہیں۔ اس سے ہزاروں لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع میسر آئے ہیں… یعنی ملک کے گوشے گوشے میں شہد کی مٹھاس بڑھ رہی ہے۔ اور یہ مٹھاس کسانوں کی آمدنی میں بھی اضافہ کر رہی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں،
ہم سب جانتے ہیں کہ مہابھارت کی لڑائی ہریانہ کے کروکشیتر میں ہوئی تھی۔ لیکن اب آپ اس جنگ کا واقعی تجربہ کر سکتے ہیں، مہابھارت تجربہ مرکز میں۔ مہابھارت کی کہانی کوتھری ڈی میں پیش کیا جا رہا ہے، جس میں لائٹ اور ساؤنڈ ڈسپلے اور ڈیجیٹل تکنیک کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ جب میں نے 25 نومبر کو کروکشیتر کا دورہ کیا تو اس انوبھو کیندر کے تجربے نے مجھے خوشی سے بھر دیا۔
دوستوں
کروکشیتر کے برہما سروور میں منعقدہ بین الاقوامی گیتا مہوتسو میں شرکت کرنا بھی میرے لیے بہت خاص تھا۔ میں یہ دیکھ کر بہت متاثر ہوا کہ کس طرح پوری دنیا کے لوگ آسمانی صحیفے گیتا سے متاثر ہو رہے ہیں۔
اس میلے میں یورپ اور وسطی ایشیا سمیت دنیا کے کئی ممالک سے لوگ شریک ہوئے ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں، یہ پہلا موقع تھا جب سعودی عرب میں عوامی پلیٹ فارم پر گیتا کا مظاہرہ کیا گیا۔ یورپ کے شہر لٹویا میں بھی ایک یادگار گیتا مہوتسو کا انعقاد کیا گیا۔ اس میلے میں لٹویا، ایسٹونیا، لیتھوانیا اور الجزائر کے فنکاروں نے جوش و خروش سے حصہ لیا۔
دوستوں
بھارت کی عظیم ثقافت میں امن اور ہمدردی کا جذبہ نمایاں رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کا تصور کریں، جب ہر طرف تباہی کا خوفناک ماحول چھایا ہوا تھا۔ ایسے مشکل وقت میں، گجرات کے نواں نگر کے جام صاحب مہاراجہ دگ وجے سنگھ جی نے جو عظیم کام کیا، وہ آج بھی ہمیں متاثر کرتا ہے۔ اس وقت جام صاحب کسی سٹریٹیجک اتحاد یا جنگی حکمت عملی کے بارے میں نہیں سوچ رہے تھے۔ بلکہ اس کی تشویش یہ تھی کہ عالمی جنگ کے دوران پولش یہودی بچوں کی حفاظت کیسے کی گئی۔ انہوں نے گجرات میں ہزاروں بچوں کو پناہ دی اور انہیں نئی زندگی دی۔ جو آج بھی ایک مثال بنی ہوئی ہے۔ چند روز قبل جنوبی اسرائیل کے شہر موشاو نیواتیم میں جام صاحب کے مجسمے کی نقاب کشائی کی گئی۔ یہ ایک بہت ہی خاص اعزاز تھا۔ پچھلے سال مجھے پولینڈ کے شہر وارسا میں جام صاحب کی یادگار پر حاضری دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ لمحہ میرے لیے ناقابل فراموش رہے گا۔
میرے پیارے ہم وطنوں،
کچھ دن پہلے، میں قدرتی کاشتکاری پر ایک میگا کانفرنس میں شرکت کے لیے کوئمبٹور گیا تھا۔ میں جنوبی بھارت میں قدرتی کاشتکاری کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں سے بہت متاثر ہوا۔ بہت سے نوجوان، اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ور افراد اب قدرتی کاشتکاری کے میدان کو اپنا رہے ہیں۔ میں نے وہاں کے کسانوں سے بات کی اور ان کے تجربات کے بارے میں سیکھا۔ قدرتی کاشتکاری بھارت کی قدیم روایات کا ایک حصہ رہی ہے، اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم زمین کی حفاظت کے لیے اسے مسلسل فروغ دیں۔
دوستوں
دنیا کی قدیم ترین زبان اور دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک کا سنگم ہمیشہ ایک شاندار تجربہ ہوتا ہے۔ میںکاشی تمل سنگم کی بات کر رہا ہوں۔ چوتھا کاشی تامل سنگم 2 دسمبر کو کاشی کے نمو گھاٹ پر شروع ہو رہا ہے۔ اس سال کاشی تامل سنگم کا ایک بہت ہی دلچسپ موضوع ہے: تمل سیکھیں ، تمل کارکلم۔ کاشی تامل سنگم ان تمام لوگوں کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن گیا ہے جو تمل زبان سے وابستہ ہیں۔ جب بھی کوئی کاشی کے لوگوں سے بات کرتا ہے… وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ وہ کاشی،تمل سنگم کا حصہ بن کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں انہیں کچھ نیا سیکھنے اور نئے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔ اس بار بھی کاشی کے لوگ پورے جوش و خروش کے ساتھ تمل ناڈو کے اپنے بھائیوں اور بہنوں کا استقبال کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ کاشی تامل سنگم کا حصہ بنیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، دوسرے پلیٹ فارمز پر بھی غور کریں، جو ’ایک بھارت۔شریشٹھ بھارت‘ کے جذبے کو تقویت دیتے ہیں۔
یہاں میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہوں گا
تمل ثقافت عظیم ہے۔
تمل زبان بہت اچھی ہے۔
تمل بھارت کا فخر ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں،
جببھارت کا سیکورٹی ایکو سسٹم مضبوط ہوتا ہے تو ہربھارتیہ فخر محسوس کرتا ہے۔ گزشتہ ہفتے آئی این ایس مہے کو ممبئی میںبھارتیہ بحریہ میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے دیسی ڈیزائن پر کچھ لوگوں میں بڑے پیمانے پر بحث کی گئی۔ اسی وقت، پڈوچیری اور مالابار کوسٹ کے لوگ اس کے نام سے ہی خوش تھے۔ درحقیقت اس کا نام مہے اس جگہ کے نام پر رکھا گیا ہے، جو کہ ایک بھرپور تاریخی ورثہ رکھتی ہے۔ کیرالہ اور تمل ناڈو میں بہت سے لوگوں نے نوٹ کیا کہ جنگی جہاز کا کرسٹ ارومی اور کلاریپائیتو کی روایتی لچکدار تلوار سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے کہ ہماری بحریہ تیزی سے خود انحصاری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہم 4 دسمبر کو بحریہ کا دن بھی منائیں گے۔ یہ موقع ہمارے فوجیوں کی بے مثال ہمت اور بہادری کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک خاص دن ہے۔
دوستوں
بحریہ سے متعلقہ سیاحت میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ہمارے ملک میں بہت سی جگہیں ہیں جہاں سے وہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ دیو، گجرات میں سومناتھ کے قریب ایک ضلع، ملک کے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ دیو میں آئی این ایس کھوکھری کے لیے وقف کھکھری میموریل اور میوزیم ہے۔ گوا میںنیویل ایوی ایشن میوزیم ہے، جو ایشیا میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد میوزیم ہے۔ فورٹ کوچی میں آئی این ایس ڈروناچاریہ میں انڈین نیول میری ٹائم میوزیم ہے۔ یہاں، کوئی ہمارے ملک کی سمندری تاریخ اور بھارتیہ بحریہ کے ارتقاء کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
سری وجئے پورم میں واقع سمودریکا - نیول میرین میوزیم جو پہلے پورٹ بلیئر کے نام سے جانا جاتا تھا، خطے کی بھرپور تاریخ کی نمائش کے لیے جانا جاتا ہے۔ کاروار کے رابندر ناتھ ٹیگور بیچ پر واقع جنگی جہاز میوزیم میں میزائلوں اور ہتھیاروں کی نقلیں رکھی گئی ہیں۔ نیز، وشاکھاپٹنم میں ایک آبدوز، ہیلی کاپٹر، اور ہوائی جہاز کا میوزیم ہے جو بھارتیہ بحریہ سے وابستہ ہے۔ میں آپ سب سے، خاص طور پر فوجی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ان عجائب گھروں کو ضرور دیکھیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں،
موسم سرما آ گیا ہے، اور اسی طرح موسم سرما کی سیاحت کا موسم بھی آ گیا ہے۔ بہت سے ممالک نے سرمائی سیاحت کو اپنی معیشت کا ایک اہم ستون بنا دیا ہے۔ بہت سے ممالک میں دنیا کے سب سے کامیاب موسم سرما کے تہوار اور سرمائی کھیلوں کے ماڈل موجود ہیں۔
ان ممالک نے اسکیئنگ، سنو بورڈنگ، سنو ٹریکنگ، آئس کلائمبنگ اور فیملی اسنو پارکس جیسے تجربات کو اپنی شناخت کا حصہ بنایا ہے۔ انہوں نے اپنے موسم سرما کے تہواروں کو بھی عالمی پرکشش مقامات میں تبدیل کر دیا ہے۔
دوستوں
ہمارے ملک میں موسم سرما کی سیاحت کے لیے بھی تمام امکانات موجود ہیں۔ ہمارے پاس پہاڑ، ثقافت اور مہم جوئی کے لامتناہی امکانات ہیں۔ میں خوش ہوں ان دنوں اتراکھنڈ میں موسم سرما کی سیاحت بہت سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے۔ اولی، منسیاری، چوپٹا، اور دیارہ جیسے مقامات سردیوں کے موسم میں مقبول ہو رہے ہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل، ریاست کی پہلی ہائی ایلٹیٹیوڈ الٹرا رن میراتھن پتھورا گڑھ ضلع میں 14,500 فٹ سے زیادہ کی بلندی پر آدی کیلاش میں منعقد ہوئی تھی۔ اس میں ملک بھر کی 18 ریاستوں کے 750 سے زائد کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ 60 کلو میٹر طویل’آدی کیلاش پرکرما رن‘ کا آغاز صبح 5 بجے سخت سردی میں ہوا۔ اتنی سردی کے باوجود لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ جبکہ تین سال پہلے تک 2,000 سے بھی کم سیاح آدی کیلاش کا دورہ کرتے تھے، اب یہ تعداد بڑھ کر 30,000 ہو گئی ہے۔
دوستوں
سرمائی کھیل بھی چند ہفتوں میں اتراکھنڈ میں ہونے والے ہیں۔ ملک بھر سے ایتھلیٹس، ایڈونچر کے شوقین اور کھیلوں کے شائقین اس ایونٹ کے لیے پرجوش ہیں۔
اسکیئنگ ہو یا سنو بورڈنگ، برف پر مبنی مختلف کھیلوں کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ اتراکھنڈ نے موسم سرما کی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے رابطہ اور بنیادی ڈھانچے پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ ہوم اسٹے کے حوالے سے بھی نئی پالیسی بنائی گئی ہے۔
دوستوں
موسم سرما میں ’ویڈ اِن انڈیا‘ مہم کی اپنی شان اور جنون ہے۔ چاہے وہ سردیوں کا سنہری سورج ہو یا پہاڑوں سے اترتی دھند کی چادر۔ پہاڑیاں مقام کی شادیوں کے لیے بھی بہت مشہور ہو رہی ہیں۔ اب بہت سی شادیاں منعقد کی جا رہی ہیں، خاص کر گنگا جی کے کنارے۔
دوستوں
سردیوں کے ان دنوں میں ہمالیہ کی وادیاں ایک ایسے تجربے کا حصہ بن جاتی ہیں جو زندگی بھر رہتا ہے۔ اگر آپ اس موسم سرما میں سفر کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، تو ہمالیہ کی وادیوں کو ضرور ذہن میں رکھیں۔
دوستوں
چند ہفتے پہلے، میں نے بھوٹان کا دورہ کیا۔ اس طرح کے دورے مختلف قسم کی بات چیت اور بات چیت کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس سفر کے دوران، میں بھوٹان کے بادشاہ سے ملا، جو موجودہ بادشاہ کے والد ہیں، جو خود بھی بادشاہ رہ چکے ہیں، وزیر اعظم اور دیگر لوگوں سے ملا۔ دورے کے دوران میں نے سب کو ایک بات کا ذکر کرتے سنا۔ ہر کوئی وہاں بدھ مت کے آثار بھیجنے پر بھارتیوں کا شکریہ ادا کر رہے تھے… بھگوان بدھ کے مقدس آثار۔ جب بھی میں نے یہ سنا میرا دل فخر سے پھول گیا۔
دوستوں
بھگوان بدھ کے مقدس آثار کے لیے اسی طرح کا جوش و خروش بہت سے دوسرے ممالک میں دیکھا گیا ہے۔ ابھی پچھلے مہینے ہی ان مقدس آثار کو نیشنل میوزیم سے روس کے شہر کالمیکیا لے جایا گیا تھا۔ وہاں بدھ مت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ روس کے دور دراز علاقوں سے بھی بڑی تعداد میں لوگ ان کو دیکھنے آئے تھے۔ باقیات کو منگولیا، ویتنام اور تھائی لینڈ بھی لے جایا گیا ہے۔ ہر طرف زبردست جوش و خروش دیکھا گیا۔ یہاں تک کہ تھائی لینڈ کے بادشاہ بھی درشن کے لیے تشریف لائے۔ پوری دنیا میں بھگوان بدھ کے مقدس آثار سے اس قدر گہرا تعلق دیکھنا دل کو پرجوش کرنے والا ہے۔ یہ سن کر خوشی ہوتی ہے کہ اس طرح کے اقدامات دنیا بھر کے لوگوں کو جوڑنے کا ذریعہ کیسے بنتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں،
میں آپ سب سے ہمیشہ گذارش کرتا ہوں کہ لوکل فار لوکل کے منتر کو آگے بڑھائیں۔ ابھی کچھ دن پہلے،جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران، جب کئی عالمی رہنماؤں کو تحائف پیش کرنے کی بات آئی، تو میں نے ووکل فار لوکلکےجذبہ کا اعادہ کیا۔ میں نے اپنے ہم وطنوں کی جانب سے عالمی رہنمائوں کو جو تحائف پیش کیے ان میں اس جذبے کو احتیاط سے مدنظر رکھا گیا تھا۔ جی 20 کے دوران میں نے جنوبی افریقہ کے صدر کو نٹراج کا کانسی کا مجسمہ پیش کیا۔ یہ تمل ناڈو کے تھنجاور کے ثقافتی ورثے میں جڑی چول دور کی کاریگری کی ایک شاندار مثال ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم کو چاندی کے گھوڑے کی نقل پیش کی گئی۔ یہ ادے پور، راجستھان کی شاندار کاریگری کو ظاہر کرتا ہے۔ جاپان کے وزیر اعظم کو چاندی کے بدھ کا نمونہ پیش کیا گیا۔ یہ تلنگانہ اور کریم نگر کے مشہور چاندی کے دستکاری کی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اٹلی کے وزیراعظم کو پھولوں کی شکل والا چاندی کا آئینہ تحفے میں دیا گیا۔ یہ کریم نگر کی روایتی دھاتی کاریگری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ میں نے آسٹریلیا کے وزیر اعظم کو ایک پیتل کاارلی پیش کیا، جو منار، کیرالہ سے ایک شاندار دستکاری ہے۔ میرا مقصد دنیا کوبھارتیہ دستکاری، فن اور روایات سے آگاہ کرنا اور اپنے دستکاروں کی صلاحیتوں کو عالمی پلیٹ فارم فراہم کرنا تھا۔
دوستوں
مجھے خوشی ہے کہ ملک کے لاکھوں لوگوں نےووکل فار لوکل کے جذبے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے۔ اس سال جب آپ تہوار کی خریداری کے لیے بازار گئے تو آپ نے ایک بات ضرور نوٹ کی ہو گیکہ لوگوں کی ترجیحات، اور ان کے گھروں میں لائے جانے والے سامان نے واضح طور پر اشارہ کیا کہ ملک سودیشی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ لوگ خوشی سےبھارتیہ مصنوعات کا انتخاب کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ معمولی دکاندار نے بھی اس تبدیلی کو محسوس کیا۔ اس بار نوجوانوں نے ووکل فار لوکل مہم کو بھی زور دیا۔ آنے والے دنوں میں کرسمس اور نئے سال کے لیے خریداری کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔
میں آپ کو ایک بار پھر یاد دلاتا ہوںکہ ووکل فار لوکل کے منتر کو یاد رکھیں، صرف وہی خریدیں جو ملک میں بنتا ہے، صرف وہی بیچیں جو ملک کے ایک شہری کی محنت سے ہو۔
میرے پیارے ہم وطنوں،
بھارت میں کھیلوں کے حوالے سے یہ مہینہ سپر ہٹ رہا ہے۔ اس مہینے کا آغازبھارتیہ خواتین ٹیم کے آئی سی سی خواتین ورلڈ کپ جیتنے کے ساتھ ہوا۔ لیکن اس کے بعد بھی میدان میں مزید ایکشن دیکھنے میں آیا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ٹوکیو میں ڈیف اولمپکس کا انعقاد ہوا جس میں بھارت نے اب تک کی بہترین کارکردگی پیش کرتے ہوئے 20 تمغے جیتے ہیں۔ ہماری خواتین کھلاڑیوں نے بھی کبڈی ورلڈ کپ جیت کر تاریخ رقم کی۔ پورے ٹورنامنٹ میں ان کی شاندار کارکردگی نے ہربھارتیہ کا دل جیت لیا۔ ہمارے کھلاڑیوں نے ورلڈ باکسنگ کپ کے فائنل میں بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا جہاں انہوں نے 20 تمغے جیتے۔ دوستوں، اس سے بھی زیادہ جس بات پر بحث ہو رہی ہے وہ ہے بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی ہماری خواتین کی ٹیم ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہماری ٹیم نے ایک بھی میچ ہارے بغیر یہ ٹورنامنٹ جیتا۔ اہل وطن کو اس ٹیم کے ہر کھلاڑی پر بہت فخر ہے۔ ابھی دو دن پہلے میری اس ٹیم سے وزیراعظم کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی۔ واقعی، اس ٹیم کا حوصلہ اور جذبہ ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے۔ یہ جیت ہماری کھیلوں کی تاریخ کی سب سے بڑی جیت میں سے ایک ہے، جو ہر بھارتیہ کو متاثر کرتی رہے گی۔
دوستوں
آج کل ہمارے ملک میںاینڈورنس اسپورٹس کا ایک نیا کھیل کلچر بھی تیزی سے ابھر رہا ہے۔اینڈورنس اسپورٹس سے، میرا مطلب کھیلوں کی سرگرمیاں ہیں جو آپ کی حدود کو جانچتی ہیں۔ کچھ سال پہلے تک، میراتھن اور بائیکتھون جیسے خصوصی ایونٹس صرف چند ایک تک محدود تھے۔ لیکن اب، بہت کچھ بدل گیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہر ماہ پورے ملک میں 1,500 سے زیادہ اینڈورنس اسپورٹس کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ کھلاڑی ان مقابلوں میں شرکت کے لیے دور دراز کا سفر کرتے ہیں۔
دوستوں
اینڈورنس اسپورٹس کی ایک مثال خود آئرن مین ٹرائتھلون ہے۔ اس کا تصور کریں! اگر آپ کو بتایا جائے کہ آپ کے پاس ایک دن سے بھی کم وقت ہے اور آپ کو یہ تین کام مکمل کرنے ہیں: سمندر میں 4 کلومیٹر تیرنا، 180 کلومیٹر سائیکل چلانا، اور تقریباً 42 کلومیٹر کی میراتھن دوڑنا، تو آپ سوچیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہو گا۔ لیکن پختہ عزم کے حامل لوگ اسے بھی کامیابی سےکرلیتے ہیں۔ اسی لیے اسے آئرن مین ٹرائیتھلون کہا جاتا ہے۔
اسی طرح کی ایک تقریب حال ہی میں گوا میں منعقد ہوئی۔ آج کل لوگ اس طرح کی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اور بھی بہت سے مقابلے ہیں جو ہمارے نوجوان دوستوں میں بہت مقبول ہو رہے ہیں۔ بہت سے لوگ سائیکل پر فٹ انڈیا سنڈے جیسے پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ یہ سب فٹنس کو فروغ دینے کے طریقے ہیں۔
دوستوں
ہر ماہ آپ سے ملنا میرے لیے ہمیشہ ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ آپ کی کہانیاں، آپ کی کوششیں، مجھے نئے سرے سے متاثر کرتی ہیں۔ آپ اپنے پیغامات میں جو تجاویز اور تجربات بانٹتے ہیں وہ ہمیں اس پروگرام میں ہندوستان کے تنوع کو شامل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جب ہم اگلے مہینے ملیں گے تو 2025 ختم ہونے والا ہوگاہے۔ ملک کے بیشتر علاقوں میں اب سردی کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ موسم سرما میں اپنا اور اپنے خاندان کا خاص خیال رکھیں۔ اگلے مہینے ہم کچھ نئے موضوعات اور نئی شخصیات پر ضرور گفتگو کریں گے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ نمسکار۔
***
(ش ح۔اص)
UR No 2055
(रिलीज़ आईडी: 2196516)
आगंतुक पटल : 17
इस विज्ञप्ति को इन भाषाओं में पढ़ें:
Punjabi
,
Telugu
,
Manipuri
,
Assamese
,
English
,
Marathi
,
हिन्दी
,
Bengali
,
Bengali-TR
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Kannada
,
Malayalam