تین ادوار، ایک چراغ: اے۔آر۔ایم اپنی خیالی دنیا آئی ایف ایف آئی کے اسٹیج پر لے آیا
جتن لال، تووینو تھامس اور سربھی لکشمی نے فلم کی پرت دار کہانی سنانے کے انداز کو واضح کیا
سنیما کو تفریح بھی فراہم کرنی چاہیے اور پھر بھی فیسٹیول کے قابل ہونا چاہیے" :اے۔آر۔ایم کے وژن پر تووینو تھامس
ایک افسانوی چراغ، تین نسلوں کی کہانی، اور ایک بلند پرواز فینٹسی ایڈونچر — ’اے۔آر۔ایم‘ (اجیائنٹے رندم موشانم) آئی ایف ایف آئی میں کیرالا کی لوک روایات کے حسن اور ایک رزمیہ فلمی شان کے ساتھ پیش ہوئی۔ہدایتکار جتن لال، اداکار تووینو تھامس اور نیشنل ایوارڈ یافتہ سوربھِی لکشمی اسٹیج پر آئے اور فلم کے طویل تخلیقی سفر، تہہ دار اسکرپٹ اور فنکاروں و عملے سے درکار غیر معمولی محنت کے بارے میں نہایت دلچسپ گفتگو کی۔
جتن لال کہتے ہیں، ’’اففی میرا فلمی اسکول تھا۔
جتن نے سیشن کا آغاز ایک غیر متوقع طور پر جذباتی یاد کے ساتھ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے آئی ایف ایف آئی میں پہلی مرتبہ 2013 میں شرکت کی تھی، اور وہ ہر سال واپس آتے رہے تاکہ سیکھ سکیں، سمجھ سکیں اور ترقی کر سکیں۔ انہوں نے کہا، “میں کسی فلم اسکول میں نہیں گیا۔ آئی ایف ایف آئی ہی میرا فلم اسکول تھا۔”“بارہ سال بعد، میری فلم انڈین پینوراما میں شامل ہے۔ یہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک دائرہ مکمل ہو گیا ہو۔”

انہوں نے اے۔آر۔ایم کو ایک فینٹسی—ایڈونچر فلم قرار دیا جس میں گہرے استعارے چھپے ہوئے ہیں، اور کہانی کے مرکز میں موجود افسانوی چراغ بھی کسی نہ کسی گہری معنی خیزی کی علامت ہے۔ ان کے مطابق اسکرپٹ میں باریک سماجی تبصرے بھی شامل ہیں—جس میں ذات پات اور ثقافتی وراثت جیسے موضوعات شامل ہیں—جبکہ یہ اُن ناظرین کو بھی پوری طرح محظوظ کرتی ہے جو صرف بصری تماشہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
تووینو تھامس نے تین کردار ادا کرنے کے بارے میں کہا:“یہ میرے کیریئر کا سب سے بڑا چیلنج تھا”
اگر جتن نے فلم کے سفر کی بات کی تو تووینو نے جدوجہد اور جوش کی۔ انہوں نے اعتراف کیا:“جب یہ اسکرپٹ 2017 میں میرے پاس آئی تو مجھے یقین نہیں تھا کہ میں یہ کر پاؤں گا۔”تین مختلف ادوار میں منیّان، کنجِکلو اور اجیائن کے کردار نبھانا صرف ظاہری تبدیلی کا معاملہ نہیں تھا۔انہوں نے کہا: “یہ صرف دِکھاوے کی بات نہیں تھی، ہر کردار کی چال ڈھال بالکل الگ ہونی چاہیے تھی۔”
انہوں نے یاد کیا کہ فلم کو مکمل ہونے میں کئی سال لگے—بجٹ کے مسائل، صحیح پروڈیوسر کی تلاش، اور جسمانی و ذہنی تیاری کے مراحل سے گزرنا پڑا۔“اُس وقت میں خود کو سنیما کا طالب علم سمجھتا تھا۔ ڈائریکٹر اور رائٹر مجھ پر پُراعتماد تھے، چاہے میں خود اتنا پُریقین نہ تھا،” انہوں نے کہا۔تووینو نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک فلم بیک وقت تفریحی بھی ہو سکتی ہے اور فلمی میلوں کے معیار پر بھی پوری اتر سکتی ہے۔“اے۔آر۔ایم یہ ثابت کرتی ہے کہ دونوں دنیائیں آپس میں مل سکتی ہیں۔”

اپنا تجربہ بتاتے ہوئے سوربھِی نے اپنے کردار کے پیچھے کی گئی سخت تیاری کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کلرِپّیٹّو کی تربیت حاصل کی، اپنے کردار کا گہرائی سے مطالعہ کیا، اور ہر منظر کو پوری سنجیدگی کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تووینو کے ساتھ کام کرنے سے ایک “اداکار سے اداکار والی توانائی” پیدا ہوئی، جس میں فنکار غائب ہوجاتے ہیں اور صرف کردار نظر آتے ہیں۔

سنیما، ہنر اور کیرالہ کے بدلتے ہوئے ناظرین
گفتگو جلد ہی ملیالم سنیما کے بدلتے منظرنامے تک جا پہنچی۔ تووینو نے جلدی سے اس بات کو تسلیم کیا کہ ملیالی ناظرین کے ذوق میں تبدیلی آ رہی ہے:“وہ دنیا کا سنیما دیکھتے ہیں، ہمیں اپنی طرف سے بہترین دینا ہوگا۔”
انہوں نے صنعت کے ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا:کیرالہ کی صرف 15 فیصد آبادی سنیما گھروں میں فلمیں دیکھتی ہے۔ہندی یا تیلگو صنعتوں کے مقابلے میں ملیالم فلموں کا بیرونِ ملک ناظرین بھی کم ہے، اس لیے بجٹ بڑھانا آسان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا:“اگر صرف ملیالی لوگ ہی ملیالم سنیما دیکھیں گے تو بجٹ محدود رہے گا۔ غیر ملیالی ناظرین کو بھی ہماری فلمیں اپنی فلموں کی طرح دیکھنی چاہئیں۔”

اس کے باوجود وہ اس میں امید کی ایک کرن بھی دیکھتے ہیں۔انہوں نے کہا، “بجٹ کی پابندیاں ہمیں زیادہ تخلیقی بناتی ہیں۔ ہم اپنے وژن کو حقیقت بنانے کے نئے طریقے تلاش کرتے ہیں۔”انہوں نے بتایا کہ سانس کی مشقیں، کرداروں کی ورکشاپیں اور کلری جیسی تربیت نے انہیں اپنے تینوں کرداروں کی جسمانی خصوصیات کو الگ پہچان دینے میں مدد کی۔“ہر کردار کلری کو الگ انداز سے کرتا—ہم اتنی گہرائی تک گئے تھے۔”
صحافیوں کے ساتھ بات چیت تک یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ اے آر ایم صرف ایک فینٹسی ایپک نہیں ہے، بلکہ یہ ثابت قدمی، ثقافتی فخر اور ملیالم سنیما کی سرحدوں کو آگے بڑھانے کی اٹل خواہش کا نتیجہ ہے۔اپنے مرکز میں لوک کہانیوں کو لیے ہوئے، بنیاد میں تہہ دار تحریر کو سمیٹے ہوئے، اور فن و جرات سے گڑھے گئے کرداروں کی اداکاری کے ساتھ، فلم کی ٹیم نے افّی کے ناظرین کے لیے ایک وعدہ چھوڑا:چراغ کا جادو ابھی تو شروعات ہے۔
پی سی لنک:
آئی ایف ایف آئی کے بارے میں
سال1952 میں قائم ہونے والا انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا (آئی ایف ایف آئی) جنوبی ایشیا کا سب سے قدیم اور سب سے بڑا سنیما کا جشن ہے۔ نیشنل فلم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (این ایف ڈی سی)، وزارتِ اطلاعات و نشریات، حکومتِ ہند اور انٹرٹینمنٹ سوسائٹی آف گوا (ای ایس جی)، حکومتِ گوا کے اشتراک سے منعقد ہونے والا یہ فیسٹیول اب عالمی سینمائی طاقت کے طور پر اُبھرا ہے—جہاں بحال شدہ کلاسکس دلیرانہ تجربات سے ملتے ہیں اور عظیم استادوں کے ساتھ پہلی بار قدم رکھنے والے بے خوف تخلیق کار بھی جگہ پاتے ہیں۔آئی ایف ایف آئی کی اصل چمک اس کے دلکش امتزاج میں ہے—بین الاقوامی مقابلے، ثقافتی پیشکشیں، خوبصورت فنی کام، خراجِ عقیدت کے سیشنز، اور ہائی انرجی ویوز فلم بازار جہاں خیالات، معاہدے اور اشتراکات پرواز کرتے ہیں۔گوا کے شاندار ساحلی پس منظر میں 20-28 نومبر تک منعقد ہونے والا 56 واں ایڈیشن زبانوں،انواع،اختراعات اور آوازوں کے ایک شاندار میدان عمل کا وعدہ کرتا ہے۔جو عالمی سطح پر ہندوستان کی تخلیقی صلاحیتوں کا ایک عمیق جشن ہے ۔
For more information, click on:
IFFI Website: https://www.iffigoa.org/
PIB’s IFFI Microsite: https://www.pib.gov.in/iffi/56/
PIB IFFIWood Broadcast Channel: https://whatsapp.com/channel/0029VaEiBaML2AU6gnzWOm3F
X Handles: @IFFIGoa, @PIB_India, @PIB_Panaji
* * *
ش ح ۔ م د ۔ م ص
(U : 1957 )
रिलीज़ आईडी:
2195689
| Visitor Counter:
6