’’ماں، اوما، پدما‘‘ کی رونمائی—سنیما، یادوں اور وراثت کا حسین امتزاج نمایاں
کامران کی نئی کتاب نے آئی ایف ایف آئی میں گھٹک کی فلمی ہنرمندی کو نئے سرے سے اجاگر کیا
ڈی پی ڈی نے ہندوستانی سنیما پر اپنی بڑھتے ہوئے مجموعہ میں ایک نیا عنوان شامل کیا
آئی ایف ایف آئی میں آج پریس کانفرنس ہال سنیما کی یادوں کی روح سے معمور تھا، جب فلم ساز اور آئی آئی ٹی بمبئی کے پروفیسر مظہر کامران نے اپنی نئی کتاب ’’ماں، اوما، پدما: دی ایپک سنیما آف رتوک گھٹک‘‘ کا اجرا کیا۔ تقریب کا آغاز سنجیدہ ماحول میں ہوا، جہاں معزز مہمانوں نے لیجنڈری اداکار دھرمیندر کے انتقال پر تعزیتی کلمات پیش کیے، جس کے بعد گفتگو ایک پُرمحبت اور بامعنی انداز میں آگے بڑھی، جس میں ہندوستان کے بااثر ترین فلم سازوں میں سے ایک، رتوک گھٹک کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔

کتاب کا باضابطہ اجرا وزارتِ اطلاعات و نشریات کے شعبہ اشاعت (ڈی پی ڈی) کے پرنسپل ڈائریکٹر جنرل جناب بھوپندر کینتھولا کے ہاتھوں انجام پایا۔ ممتاز فلم ساز راج کمار ہیرانی بھی کانفرنس میں شریک ہوئے، جس سے اس موقع کی اہمیت اور گرمجوشی میں مزید اضافہ ہوا۔
جناب کینتھولا نے اس بات کی وضاحت کی کہ ڈی پی ڈی نے ’’ماں، اوما، پدما‘‘ کو شائع کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ انہوں نے ویوز سمٹ 2025 میں کیے گئے اس اعلان کا حوالہ دیا، جس کے تحت یہ سال پانچ مایہ ناز فلمی شخصیات کی صدسالہ تقریبات کے نام کیا گیا تھا، جن میں گھٹک بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا، ’’ڈی پی ڈی ایسی کتابیں شائع کرتا ہے جو ہر ایک کے لیے قابلِ رسائی اور مناسب قیمت میں دستیاب ہوں۔ کامران اس وژن کے ساتھ خوشی سے کام کرنے پر آمادہ تھے، اور سب کچھ بہت خوبصورتی سے ہم آہنگ ہوگیا۔‘‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کتاب کا سرورق آئی آئی ٹی بمبئی میں کامران کے اپنے طلبہ نے ڈیزائن کیا ہے، جو ایک تخلیقی اشتراک تھا اور جس نے مصنف کو بے حد خوش کیا۔

کامران نے نہایت جذباتی انداز میں اس احساس کا اظہار کیا کہ اپنے خیالات کو کتاب کی شکل اختیار کرتے ہوئے دیکھنا ان کے لیے ایک منفرد تجربہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہر لفظ پوری ایمان داری اور یقین کے ساتھ لکھا ہے، اس حقیقت کو قبول کرتے ہوئے کہ قارئین کبھی ان سے اتفاق کریں گے اور کبھی اختلاف بھی کریں گے۔ ہندوستانی سنیما میں گھٹک کی حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے کامران نے کہا کہ اگرچہ آج انہیں بے حد سراہا جاتا ہے، لیکن گھٹک نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ حاشیے پر گزارا، اور اپنی بھرپور بصری طاقت اور وژن کے باوجود اپنی فلمیں بنانے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔ کامران کا کہنا تھا، ’’جب بھی ہم وقت کے تناظر میں ہندوستانی سنیما کے بارے میں سوچیں گے، گھٹک کی کوئی نہ کوئی فلم ضرور ہمارے سامنے ہوگی۔‘‘
کامران نے گھٹک کے بارے میں اس غلط فہمی کی بھی وضاحت کی کہ وہ فلم اسکول کی باضابطہ تربیت سے محروم تھے۔ انہوں نے کہا، ’’انہوں نے سخت محنت سے سیکھا،‘‘ اور اس کے ثبوت کے طور پر گھٹک کی ابتدائی تحریریں، اپنے دور کے عظیم فنکاروں کے ساتھ ان کے اشتراکات، اور آیزن شٹائن اور اسٹانسلاوسکی کے کاموں کے ساتھ ان کی گہری وابستگی کا حوالہ دیا۔ انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ گھٹک نے ایف ٹی آئی آئی میں مختصر مدت کے لیے تدریس بھی کی تھی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ فلمی تعلیم کئی شکلوں میں حاصل کی جا سکتی ہے۔

گفتگو جلد ہی ڈی پی ڈی کی اُس وسیع تر کوشش کی جانب مڑ گئی جس کا مقصد ہندوستانی سنیما پر مبنی کتابوں کو فروغ دینا ہے۔ جناب کینتھولا نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں اب تک 12 کتابیں شائع کی جا چکی ہیں، جن میں پھالکے ایوارڈ یافتگان پر مبنی تازہ ترین جلد اور ایف ٹی آئی آئی کے جریدے ’’لین سائٹ‘‘ کے مضامین کا ایک مجوزہ مجموعہ بھی شامل ہے، جسے وسیع تر رسائی کے لیے اب ہندی میں شائع کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ مزید پانچ کتابوں پر کام جاری ہے، جن میں لکشمی کانت۔پیارے لال اور لتا منگیشکر جیسے اساطیری ناموں پر مبنی تصانیف شامل ہوں گی۔
گفتگو کا رخ آخرکار گھٹک کے سنیما میں بار بار دکھائی دینے والی نسائی موجودگی کی طرف ہوگیا: یعنی کامران کی کتاب کے عنوان کی ’’ماں، اوما اور پدما‘‘۔ کامران نے وضاحت کی کہ گھٹک کے نزدیک مادریت نسائی وجود کی سب سے گہری اور جامع علامت تھی، جو دریائے پدما کے ساتھ جڑی ہوئی ہے—ایک ابدی استعارہ جو ان کے سنیما میں بارہا نمایاں ہوتا ہے۔

یہ کانفرنس، جس میں غور و فکر، ستائش اور ازسرِنو دریافت کا امتزاج تھا، رتوک گھٹک کی فنکارانہ وراثت کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ کامران کی گہرائی سے تحقیق شدہ اور دل سے لکھی گئی کاوش کا جشن بھی ثابت ہوئی۔ ’’ماں، اوما، پدما‘‘ ہندوستانی سنیما پر ہونے والے مکالمے کو مزید مالا مال کرنے کا وعدہ کرتی ہے—ایک ایسی تصنیف جو قابلِ رسائی، بصیرت افروز اور اپنے موضوع کی طرح ہی بے پناہ جذبے سے محرک ہے۔
پی سی لنک:
آئی ایف ایف آئی کے بارے میں
سال1952 میں قائم ہونے والا بھارت کا بین الاقوامی فلم فیسٹیول (آئی ایف ایف آئی) جنوبی ایشیا کا قدیم ترین اور سب سے بڑا سنیمائی جشن تصور کیا جاتا ہے۔ یہ فیسٹیول نیشنل فلم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (این ایف ڈی سی)، وزارتِ اطلاعات و نشریات، حکومتِ ہند، اور انٹرٹینمنٹ سوسائٹی آف گوا (ای ایس جی)، حکومتِ گوا کے اشتراک سے منعقد ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ فیسٹیول ایک عالمی سنیمائی مرکز کی حیثیت اختیار کرچکا ہے—جہاں بحال شدہ کلاسیکی فلمیں دلیرانہ تجرباتی سنیما سے ملتی ہیں، اور لیجنڈری فلم ساز نئے اور بے خوف تخلیق کاروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر نظر آتے ہیں۔آئی ایف ایف آئی کی اصل پہچان اس کا متنوع امتزاج ہے—بین الاقوامی مقابلے، ثقافتی نمائشیں، ماسٹر کلاسز، خراجِ عقیدت پیش کرنے والے سیشنز، اور پرجوش ’’ویوز فلم بازار‘‘، جہاں تخلیقی خیالات، معاہدے اور اشتراکات پروان چڑھتے ہیں۔ گوا کے دلکش ساحلی پس منظر میں 20 سے 28 نومبر تک منعقد ہونے والا 56واں ایڈیشن زبانوں، اصناف، اختراعات اور آوازوں کی ایک چمکتی دمکتی دنیا پیش کرنے کا وعدہ کرتا ہے—ایک ایسا دل موہ لینے والا جشن جو عالمی سطح پر ہندوستانی تخلیقی صلاحیتوں کی شاندار نمائندگی کرتا ہے۔
For more information, click on:
IFFI Website: https://www.iffigoa.org/
PIB’s IFFI Microsite: https://www.pib.gov.in/iffi/56/
PIB IFFIWood Broadcast Channel: https://whatsapp.com/channel/0029VaEiBaML2AU6gnzWOm3F
X Handles: @IFFIGoa, @PIB_India, @PIB_Panaji
************
ش ح ۔ م د ۔ م ص
(U : 1742)
Release ID:
2193758
| Visitor Counter:
4