صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت
صحت کے مرکزی وزیر جے پی نڈا نے اینٹی مائیکروبائل ریزسٹنس2.0 (اے ایم آر) کے موضوع پر قومی عملی منصوبے کا آغاز کیا
صحت کے مرکزی وزیر نے کہا کہ، اے ایم آر صحت کا ایک بڑا عوامی مسئلہ ہے، جس کا حل صرف اجتماعی کوششوں کے ذریعے ممکن ہے
مرکزی وزیر نے کہا کہ‘‘ افسوس کی بات ہے کہ اینٹی بایوٹکس کا ضرورت سے زیادہ اور غلط استعمال عام ہو گیا ہے، جو اس سلسلے میں درست اقدامات کی فوری ضرورت کو ظاہر کرتا ہے’’
این اے پی ، اے ایم آر2.0 کے تحت اے ایم آرکو قابو میں رکھنے کی کلیدی حکمتِ عملیوں میں بیداری،تعلیم اور تربیت کو مضبوط بنانا، لیبارٹری کی صلاحیت کو بڑھانا،اورصحت سے متعلق سہولیات میں انفیکشن پر قابو پانا شامل ہے
Posted On:
18 NOV 2025 2:18PM by PIB Delhi
صحت اور خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر جناب جگت پرکاش نڈا، نے آج یہاں اینٹی مائیکربائل ریزسٹنس (اے ایم آر)پر قومی عملی منصوبے (29–2025) کا دوسرا ورژن جاری کیا۔
اس موقع پر ان کے ہمراہ ڈاکٹر اے کے سود، خصوصی سائنسی صلاح کار ،محترمہ پنیا سلیلا سری واستو، مرکزی صحت سیکریٹری؛ ڈاکٹر راجیو بہل، سیکریٹری، محکمہ صحتی تحقیق، اور ڈاکٹر سنیتا شرما، ڈائریکٹر جنرل آف ہیلتھ سروسز( ڈی جی ایس ایچ) بھی موجود تھیں۔
اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے جناب نڈا نے زور دے کر کہا اینٹی مائیکروبائل ریزسٹنس (اے ایم آر) صحت سے متعلق ایک بڑا عوامی مسئلہ ہے جس کا حل صرف اجتماعی کوششوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سفر 2010 میں ابتدائی بات چیت سے شروع ہوا اور اس کے بعد 2017 میں پہلا این اے پی-اے ایم آر جاری کیا گیا۔
چیلنج کی سنگینی کو اجاگر کرتے ہوئے، وزیر موصوف نے کہا کہ اے ایم آر خاص طور پر سرجیکل عمل، کینسر کے علاج، اور دیگر اہم طبی سرگرمی میں بڑے خطرات پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افسوس کی بات ہے کہاینٹی بایوٹکس کا ضرورت سے زیادہ اور غلط استعمال عام ہو گیا ہے، جو درست اقدامات کی فوری ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس حوالے سے مختلف متعلقہ وزارتوں نے کئی اہم اقدامات بھی کیے ہیں۔
جناب نڈا نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ این اے پی ،اے ایم آر 2.0 این اے پی ،اے ایم آر میں پہلے شناخت شدہ خامیوں کو دور کرتا ہے، جس میں اے ایم آر سے متعلق اقدامات کی ملکیت کو بڑھانا، بین شعبہ جاتی ہم آہنگی کو مضبوط کرنا اور نجی شعبے کے ساتھ سرگرم شراکت ک داری کو یقینی بنانا شامل ہے۔ اے ایم آر کو قابو میں رکھنے کی کلیدی حکمتِ عملیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر موصوف نے بیداری، تعلیم اور تربیت بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے صحت سے متعلق سہولیات میں لیبارٹری کی صلاحیت بڑھانے اور انفیکشن پر قابو پانے کو بہتر بنانے کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔ جناب نڈا نے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے باقاعدہ متعلقہ فریقوں کے اجلاسوں کی اہمیت پر بھی زوردیا۔
ڈاکٹر اے کے سود نے کہا کہ این اے پی-اے ایم آر 2.0 ایک بروقت اقدام ہے جو زیادہ مربوط عملی منصوبے تیار کرنے میں مدگار ثابت ہوگا اوریہ صحت کی عالمی تنظیم( ڈبلیو ایچ او )کے عالمی اے ایم آر بیداری ہفتے (24-18نومبر) کے پہلے دن جاری کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت عالمی سطح پر اس اقدام کو آگے بڑھانے میں پیش رو ممالک میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے ایم آر ایک وبائی مرض کی مانند ہے جو کئی ممالک، خاص طور پر ایشیا اور افریقہ کے ترقی پذیر ممالک کو متاثر کر رہا ہے۔
ڈاکٹر سود نے بھارت کی جانب سے اے ایم آر کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کیے گئے کچھ اقدامات کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ کیرالہ اور گجرات ایسی پہلی ریاستیں ہیں جنہوں نے اینٹی بایوٹکس کی اوور دی کاؤنٹر( کاؤنٹر پر) فروخت پر پابندی عائد کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ اینٹی مائیکروبائلز اور کیڑے مار ادویات کے استعمال پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
‘‘انڈیا اے ایم آر اختراعی مرکز قائم کیا گیا، جس میں قومی اور بین الاقوامی فریق شامل ہیں تاکہ ایک جدید ٹیکنالوجی پلیٹ فارم بنایا جا سکے۔ مذکورہ ہب نے وسائل کو متحرک کرنے، جدت لانے اور متعدد متعلقہ فریقوں کے درمیان تعاون کو بڑھانے میں مدد فراہم کی ہے۔’’
پس منظر:
اینٹی مائیکروبائلز ریزسٹنس (اے ایم آر)کو عالمی سطح پر صحت کے ایک سنگین خطرے کے طور پر شناخت کیا گیا ہے، جس کے، صحت سیاسی اور اقتصادی شعبوں پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اے ایم آر علاج میں تاخیر پیدا کرتا ہے، جس سے ریزسٹنس مائیکرو آرگنیزم یعنی مزاحم خوردبینی جانداروں کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھتا ہے، صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے اور کنبوں اور معاشروں پر اقتصادی بوجھ بڑھتا ہے۔ اے ایم آر سرجیکل عمل، کینسر کے علاج، اور اعضاء کی پیوند کاری جیسی طبی سرگرمیوں کے تحفظ اور مؤثریت کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے، جس سے نہ صرف جدید طب میں حاصل ہونے والی ترقی بلکہ عالمی اور قومی سطح پر ترقی اور معیشت پر بھی اس کےمنفی اثر پڑنے کا امکان ہوتا ہے۔
اے ایم آر کو قومی ترجیح کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور صحت کی مرکزی وزارت نے اے ایم آر کو قابو میں رکھنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ 2010 میں اے ایم آر کنٹین منٹ کے لیے قومی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی تھی، جس کے بعد 2011 کے اوائل میں اے ایم آر کنٹین منٹ کی قومی پالیسی تیار کی گئی۔ اپریل 2017 میں قومی عملے منصوبے برائے اینٹی مائیکروبائلز ریزسٹنس این اے پی ،اے ایم آر جاری کیا گیا، جو عالمی عملی منصوبے(جی اے پی )کے مطابق تیار کیا گیا تھا اور اگلے پانچ برسوں (2017-2021) کے دوران نافذ کیا جانا تھا۔
چونکہ اے ایم آر ایک کثیر شعبہ جاتی مسئلہ ہے اور اس کے کنٹرول کے لیے‘‘ون ہیلتھ اپروچ’’ کی ضرورت ہے، لہذا اس لیے یہ اس وقت ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب ہر شعبہ انسانی صحت، حیوانات، زراعت اور ماحولیاتی شعبہ اے ایم آر کو قابو میں رکھنے کے تئیں پرعزم ہو۔ این اے پی ،اے ایم آر 2.0 کی تیاری 2022 میں شروع ہوئی، جس کے لیے انسانی صحت، تحقیق، پیشہ ورانہ انجمنوں اور سول سوسائٹی، ماحولیاتی اور حیوانات کے شعبوں کے متعلقہ فریقوں کے ساتھ متعدد مشاورتی اجلاس منعقد کیے گئے۔ اس کے بعد نیتی آیوگ میں اعلیٰ سطح کے اجلاس منعقد کیے گئے، جس میں 20 سے زائد متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے نمائندگان نے شرکت کی۔ ہر متعلقہ وزارت /محکمے نے اپنے اہداف اور ٹائم لائنز کے ساتھ متعلقہ عملی منصوبےتیار کیے۔
اپ ڈیٹ شدہ این اے پی-اے ایم آر میں ہر کلیدی فریق وزارت/محکمے کے مخصوص ایکشن پلانز، ٹائم لائنز اور بجٹ شامل ہیں تاکہ قومی عملی منصوبے کی عمل درآمد کی نگرانی، مؤثر طریقے سے کی جا سکے۔ اس کے علاوہ، اپ ڈیٹ شدہ این اے پی-اے ایم آر میں شعبہ جات کے اندر اور ان کے درمیان رابطہ اور تعاون کے واضح طریقہ کار بھی شامل ہیں۔
اس کے اجرا کے بعد ہر متعلقہ فریق وزارت/محکمے سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے نفاذ کے روڈ میپ وضع کریں، جس میں نجی شعبہ، تکنیکی ادارے، پیشہ ورانہ گروپس، صنعت، کوآپریٹو، این جی اوز، بین الاقوامی شراکت دار اور دیگر متعلقہ تنظیموں کی شمولیت کویقینی بنایا جائے۔ پہلے عالمی اے ایم آر بیداری ہفتے کے موقع پر اس منصوبے کے آغاز کے دوران، تمام متعلقہ فریقوں نے ایک بار پھر اے ایم آر کو قابو میں رکھنے کے لیے قومی عملے منصوبے 2.0 کے نفاذ کے عزم کی تصدیق کی۔
اس تقریب میں صحت کی مرکزی وزارت اور دیگر متعلقہ فریق وزارتوں کے سینئر اہلکاروں نے شرکت کی، جس میں ماہی پروری کی وزارت، مویشی پروری اور ڈیری کی وزارت (ایم او ایف اے ایچ ڈی) زراعت اور کسانوں کی بہبود کی وزارت(ایم او اے ایف ڈبلیو)، ماحولیات، جنگلات اورآب وہوا کی تبدیلی(ایم او ای ایف سی سی) سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت(ایم او ایس ٹی)کیمیکل اور فرٹیلائزرکی وزارت،آیوش کی وزارت، جل شکتی کی وزارت ، اطلاعات ونشریات کی وزارت(ایم او آئی بی) اور تعلیم کی وزارت (ایم او ای) شامل ہیں۔
*****
ش ح۔ ش م ۔ م ذ
(U N.1422)
(Release ID: 2191275)
Visitor Counter : 7