وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے چھٹے رام ناتھ گوئنکا لیکچرسے خطاب کیا


بھارت ترقی یافتہ بننے کے لیے پُرعزم ہے، بھارت خود کفیل بننے کے لیے پُرعزم ہے: وزیر اعظم

بھارت محض ایک ابھرتی ہوئی منڈی نہیں، بلکہ ایک ابھرتا ہوا ماڈل بھی ہے: وزیر اعظم

آج دنیا بھارت کے ترقیاتی ماڈل کو امید کے ایک نمونے کے طور پر دیکھ رہی ہے: وزیر اعظم

ہم تکمیلیّت (سَینچوریشن) کے مشن پر مسلسل کام کر رہے ہیں، کسی بھی اسکیم کے فائدے سے ایک بھی مستحق محروم نہیں رہنا چاہیے: وزیر اعظم

ہماری نئی قومی تعلیمی پالیسی میں، ہم نے مقامی زبانوں میں تعلیم پر خاص زور دیا ہے: وزیر اعظم

Posted On: 17 NOV 2025 9:54PM by PIB Delhi

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں انڈین ایکسپریس کی جانب سے منعقدہ چھٹے رام ناتھ گوئنکا لیکچر سے خطاب کیا۔ جناب مودی نے کہا کہ آج ہم اس منفرد شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جس نے بھارت میں جمہوریت، صحافت، اظہار رائے اور عوامی تحریکوں کی طاقت کو بڑھایا۔انہوں نے کہا کہ ایک دور اندیش، ادارہ ساز، قوم پرست اور میڈیا رہنما کے طور پر جناب رام ناتھ گوئنکا نے انڈین ایکسپریس گروپ کو محض ایک اخبار کے طور پر نہیں بلکہ بھارت کے عوام کے درمیان ایک مشن کے طور پر قائم کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی قیادت میں یہ گروپ بھارت کے جمہوری اقدار اور قومی مفادات کی آواز بن گیا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ 21ویں صدی کے اس دور میں، جب بھارت ترقی یافتہ ہونے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، جناب رام ناتھ گوئنکا کی وابستگی، کوششیں اور دور اندیشی ایک بڑی تحریک اور الہام کا ذریعہ ہیں۔ وزیر اعظم نے اس لیکچر کے لیے انہیں مدعو کرنے پر انڈین ایکسپریس گروپ کا شکریہ ادا کیا اور موجودہ تمام شرکاء کو اپنی نیک خواہشات پیش کیں۔

جناب رام ناتھ گوئنکا سے بھگوت گیتا کے ایک شلوک سے گہری تحریک حاصل کرنے کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے بتایا کہ خوشی و غم، فائدہ و نقصان، فتح و شکست کے تئیں برابری کے جذبے کے ساتھ اپنا فرض ادا کرنے کی یہ تعلیم رام ناتھ جی کی زندگی اور کام میں گہرائی سے سرایت کر گئی تھی۔جناب مودی نے کہا کہ جناب رام ناتھ گوئنکا نے زندگی بھر اس اصول کی پاسداری کی  اور فرض کو سب سے بلند رکھا۔ انہوں نے کہا کہ رام ناتھ جی نے آزادی کی تحریک کے دوران بھارتی نیشنل کانگریس کی حمایت کی، بعد میں جنتا پارٹی کا ساتھ دیا اور جن سنگھ کے ٹکٹ پر انتخابات بھی لڑے۔ نظریات سے بالاتر ہو کر، انہوں نے ہمیشہ قومی مفاد کو اولین ترجیح دی۔وزیر اعظم نے کہا کہ جن لوگوں نے سالوں تک رام ناتھ جی کے ساتھ کام کیا، وہ اکثر ان کے شیئر کیے ہوئے کئی قصے سناتے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ آزادی کے بعد، جب حیدرآباد میں رضاکاروں کے ظلم و ستم کا مسئلہ اٹھا، تو رام ناتھ جی نے سردار پٹیل کی مدد کی۔ 1970 کی دہائی میں، جب بہار میں طلبہ تحریک کو قیادت کی ضرورت تھی، تو رام ناتھ جی نے ناناجی دیشمکھ کے ساتھ مل کر جناب جے پرکاش نرائن کو تحریک کی قیادت کرنے کے لیے راضی کیا۔ایمرجنسی کے دوران، جب اس وقت کے وزیرِ اعظم کے ایک قریبی وزیر نے رام ناتھ جی کو بلایا اور قید کی دھمکی دی، تو ان کا بہادرانہ ردعمل تاریخ کے خفیہ ریکارڈ کا حصہ بن گیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اگرچہ ان میں سے کچھ تفصیلات عوام کے لئے دستیاب  ہیں اور کچھ ابھی بھی خفیہ ہیں، یہ سب رام ناتھ جی کی سچائی کے تئیں ناقابلِ تسخیر وابستگی اور فرض کے تئیں ان کی مضبوط وفاداری کو ظاہر کرتے ہیں، چاہے ان کے سامنے کتنی بھی بڑی طاقت رہی ہو۔

اردو ترجمہ:

جناب مودی نے کہا کہ رام ناتھ گوئنکا کو اکثر بے صبر قرار دیا جاتا تھا۔منفی معنی میں نہیں بلکہ مثبت معنی میں۔ انہوں نے اجاگر کیا کہ یہ وہ قسم کی بے صبری تھی جو تبدیلی کے لیے اعلیٰ ترین کوششوں کو تحریک دیتی ہے، وہی بے صبری جو ساکن پانی کو حرکت میں لے آتی ہے۔وزیر اعظم نے ایک مماثلت قائم کرتے ہوئے کہاکہ آج کا بھارت بھی بے صبر ہے،ترقی کرنے کے لیے بے صبر، خود کفیل بننے کے لیے بے صبر۔ انہوں نے کہا کہ 21ویں صدی کے پہلے پچیس سال تیزی سے گزرتے گئے، ایک کے بعد ایک چیلنجز آئے، پھر بھی کسی نے بھارت کی رفتار کو نہیں روکا۔

گزشتہ چار پانچ سالوں کو عالمی چیلنجوں سے بھرپور قرار دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ 2020 میں کووڈ-19 وبا نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا اور وسیع پیمانے پر غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی۔ عالمی سپلائی چین بری طرح متاثر ہوئی اور دنیا مایوسی کی طرف بڑھنے لگی۔ جیسے ہی حالات مستحکم ہونے لگے، پڑوسی ممالک میں ہنگامے پیدا ہونے لگے۔ان بحرانوں کے درمیان، بھارت کی معیشت نے اعلیٰ ترقی کی شرح حاصل کر کے لچک کا مظاہرہ کیا۔ جناب مودی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ 2022 میں یورپی بحران نے عالمی سپلائی چین اور توانائی کے بازاروں کو متاثر کیا، جس کا اثر پوری دنیا پر پڑا۔ اس کے باوجود، بھارت کی معاشی ترقی 2022-23 تک مضبوطی سے جاری رہی۔2023 میں، حالانکہ مغربی ایشیا میں حالات خراب ہوئے، بھارت کی ترقی کی شرح مستحکم رہی۔ انہوں نے زور دیا کہ اس سال بھی، عالمی غیر یقینی صورتحال کے باوجود، بھارت کی ترقی کی شرح تقریباً سات فیصد کے قریب ہے۔

وزیر اعظم نے کہاکہ ایسے وقت میں جب دنیا انتشار سے خوفزدہ ہے، بھارت اعتماد کے ساتھ روشن مستقبل کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت صرف ایک ابھرتی ہوئی منڈی نہیں، بلکہ ایک ابھرتا ہوا ماڈل بھی ہے۔انہوں نے اجاگر کیا کہ آج دنیا بھارتی ترقیاتی ماڈل کو امید کے ایک نمونے کے طور پر دیکھتی ہے۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایک مضبوط جمہوریت کئی معیارات پر پرکھی جاتی ہے، جن میں سب سے اہم معیار عوامی شراکت داری ہے، جناب مودی نے کہا کہ جمہوریت میں لوگوں کا اعتماد اور امید انتخابات کے دوران سب سے زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ 14 نومبر کو اعلان ہونے والے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی تھے، اور ان کے ساتھ ایک اہم پہلو بھی سامنے آیا کہ کوئی بھی جمہوریت اپنے شہریوں کی بڑھتی ہوئی شراکت داری کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔انہوں نے بتایا کہ اس بار بہار میں تاریخ کی سب سے زیادہ رائے دہی ہوئی، جہاں خواتین کی رائے دہی کی شرح مردوں سے تقریباً نو فیصد زیادہ رہی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی جمہوریت کی فتح ہے۔

وزیر اعظم جناب مودی نے کہا کہ بہار کے نتائج ایک بار پھر بھارت کے عوام کی بلند توقعات کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج، شہری اُن سیاسی جماعتوں پر اعتماد کرتے ہیں جو اُن توقعات کو پورا کرنے کے لیے دیانتداری سے کام کرتی ہیں اور ترقی کو ترجیح دیتی ہیں۔

وزیر اعظم نے ہر ریاستی حکومت سےچاہے وہ کسی بھی نظریے کی ہو، بائیں بازو، دائیں بازو یا مرکز کی۔بہار کے نتائج سے سبق لینے کی مؤدبانہ اپیل کی اور کہا کہ آج دیا گیا حکومت کا پیغام آنے والے سالوں میں سیاسی جماعتوں کے مستقبل کا تعین کرے گا۔انہوں نے بتایا کہ بہار کی عوام نے اپوزیشن کو 15 سال دیے تھے، اور اگرچہ اُن کے پاس ریاست کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کا موقع تھا، انہوں نے جنگل راج کا راستہ اختیار کیا۔ وزیر اعظم نے زور دیا کہ بہار کی عوام اس دھوکے کو کبھی نہیں بھولیں گی۔انہوں نے کہا کہ چاہے مرکز کی حکومت ہو یا ریاستوں میں مختلف جماعتوں کی قیادت والی حکومتیں، سب سے اہم ترجیح ترقی ہونی چاہیے یعنی ترقی اور صرف ترقی۔ جناب مودی نے تمام ریاستی حکومتوں سے بہتر سرمایہ کاری کے ماحول پیدا کرنے، کاروبار میں آسانی لانے، اور ترقی کے معیارات کو آگے بڑھانے میں مقابلہ کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات سے عوام کا اعتماد حاصل ہوگا۔

جناب مودی نے کہا کہ بہار کے انتخابات میں فتح کے بعد، بعض افرادجن میں کچھ صحافی بھی شامل ہیں جو ان کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں انھوں نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی اور وہ خود مسلسل چوبیس گھنٹے انتخابی موڈ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات جیتنے کے لیے انتخابی موڈ میں رہنے کی ضرورت نہیں، بلکہ چوبیس گھنٹے جذباتی موڈ میں رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔انہوں نے زور دیا کہ جب ہر لمحہ ضائع نہ کرنے، غریبوں کی مشکلات کم کرنے، روزگار فراہم کرنے، صحت کی سہولیات یقینی بنانے، اور متوسط طبقے کی توقعات کو پورا کرنے کی داخلی بے چینی ہو، تو مسلسل محنت ہی اصل محرک طاقت بن جاتی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ جب اسی جذبے اور عزم کے ساتھ حکومت چلائی جاتی ہے، تو انتخابات کے دن نتائج واضح طور پر نظر آتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں بہار میں دیکھا گیا۔

جناب مودی نے رام ناتھ گوئنکا کو ودیشا سے جن سنگھ کا ٹکٹ ملنے کی ایک کہانی سناتے ہوئے کہا کہ اُس وقت رام ناتھ جی اور ناناجی دیشمکھ کے درمیان یہ بات زیرِ بحث تھی کہ تنظیم زیادہ اہم ہے یا چہرہ۔ ناناجی دیشمکھ نے رام ناتھ جی سے کہا کہ انہیں صرف نامزدگی داخل کرنی ہے اور بعد میں فتح کے سرٹیفکیٹ کے لیے آنا ہے۔اس کے بعد ناناجی نے پارٹی کے کارکنوں کے ذریعے انتخابی مہم کی قیادت کی اور رام ناتھ جی کی فتح کو یقینی بنایا۔ جناب مودی نے واضح کیا کہ اس کہانی کو شیئر کرنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ امیدوار صرف نامزدگی داخل کریں، بلکہ پارٹی کے لا تعداد کارکنان کی لگن کو اجاگر کرنا تھا۔انہوں نے زور دیا کہ لاکھوں کارکنان نے اپنی محنت اور پسینے سے پارٹی کی جڑوں کو مضبوط کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیرالہ، مغربی بنگال اور جموں و کشمیر جیسے ریاستوں میں سینکڑوں کارکنان نے پارٹی کے لیے اپنا خون بھی بہایا ہے۔جناب مودی نے کہا کہ ایسی لگن رکھنے والے کارکنان والی پارٹی کا مقصد صرف انتخابات جیتنا نہیں، بلکہ مسلسل خدمت کے ذریعے عوام کے دلوں کو جیتنا ہوتا ہے۔

قومی ترقی کے لیے اس کے فائدے کو سب تک پہنچانے پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جب سرکاری اسکیمیں دلتوں، مظلوموں، محروموں اور پسماندہ طبقات تک پہنچتی ہیں، تو حقیقی سماجی انصاف یقینی بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائیوں میں، سماجی انصاف کے نام پر کچھ جماعتوں اور خاندانوں نے اپنے ذاتی مفاد حاصل کیے۔

جناب مودی نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ آج ملک سماجی انصاف کو حقیقت میں بدلتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے حقیقی سماجی انصاف کے مفہوم کو تفصیل سے بیان کیا اور 12 کروڑ بیت الخلاء تعمیر کرنے کی مثال دی، جس سے وہ لوگ جو کھلے میں پیشاب و بیت الخلاء کرنے پر مجبور تھے، انہیں عزت ملی۔انہوں نے اجاگر کیا کہ 57 کروڑ جن-دھن بینک اکاؤنٹس نے اُن لوگوں کے لیے مالی شمولیت ممکن بنائی، جنہیں پچھلی حکومتیں بینک اکاؤنٹ کے قابل بھی نہیں سمجھتی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 4 کروڑ پکے مکانات نے غریبوں کو نئے خواب دیکھنے کے لیے بااختیار بنایا اور خطرہ مول لینے کی ان کی صلاحیت کو بڑھایا ہے۔

گزشتہ 11 سالوں میں سماجی تحفظ کے شعبے میں کیے گئے نمایاں اقدامات کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج تقریباً 94 کروڑ بھارتی سماجی تحفظ کے دائرے میں ہیں، جبکہ ایک دہائی قبل یہ تعداد صرف 25 کروڑ تھی۔انہوں نے زور دے کر کہاکہ پہلے صرف 25 کروڑ لوگ ہی سرکاری سماجی تحفظ کی اسکیموں سے مستفید ہوتے تھے، جبکہ اب یہ تعداد بڑھ کر 94 کروڑ ہو گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہی حقیقی سماجی انصاف ہے۔جناب مودی نے مزید کہا کہ حکومت نے نہ صرف سماجی تحفظ کے دائرے کو وسیع کیا ہے، بلکہ ایک مکمل مشن کے تحت یہ یقینی بنایا ہے کہ کوئی بھی مستحق فائدہ حاصل کرنے سے محروم نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی حکومت ہر مستحق تک پہنچنے کے مقصد کے ساتھ کام کرتی ہے، تو یہ کسی بھی قسم کے امتیاز کو ختم کر دیتی ہے۔ایسے اقدامات کے نتیجے میں، گزشتہ 11 سالوں میں 25 کروڑ لوگ غریبی سے نکل چکے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ جمہوریت نتائج دیتی ہے۔

وزیر اعظم نے مزید آسپریشنل ڈسٹرکٹ پروگرام کی مثال دی۔ انہوں نے عوام سے اس اقدام کا مطالعہ کرنے کی اپیل کی اور بتایا کہ ملک کے سو سے زائد اضلاع کو پہلے پسماندہ قرار دیا گیا تھا اور پھر پچھلی حکومتوں نے ان کی غفلت برتی۔ ان اضلاع کو ترقی کے لیے بہت مشکل سمجھا جاتا تھا اور وہاں تعینات افسران کو اکثر سزا دی جاتی تھی۔انہوں نے بتایا کہ ان پسماندہ اضلاع میں 25 کروڑ سے زائد شہری رہتے ہیں، جو جامع ترقی کے پیمانے اور اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

وزیر اعظم جناب مودی نے کہا کہ اگر یہ پسماندہ اضلاع غیر ترقی یافتہ رہ جاتے، تو بھارت اگلے سو سالوں میں بھی ترقی نہیں کر پاتا۔ انہوں نے کہا کہ اسی لیے حکومت نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی، ریاستی حکومتوں کو شامل کیا، اور تفصیلی مطالعے کیے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کون سا ضلع مخصوص ترقیاتی معیارات کے لحاظ سے کتنا پسماندہ ہے۔ان معلومات کی بنیاد پر، ہر ضلع کے لیے مخصوص حکمت عملی تیار کی گئی۔ جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کے بہترین افسران تیز ذہن اور جدید سوچ رکھنے والےان علاقوں میں تعینات کیے گئے۔ ان اضلاع کو اب پسماندہ نہیں بلکہ آسپریشنل ڈسٹرکٹ کے طور پر دوبارہ متعارف کی گئی۔ آج، ان میں سے کئی اضلاع ترقی کے کئی معیارات پر اپنے متعلقہ ریاستوں کے دیگر اضلاع سے بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں۔

چھتیس گڑھ کے بستر کو ایک قابل ذکر مثال کے طور پر ذکر کرتے ہوئے جناب مودی نے یاد دلایاکہ پہلے صحافیوں کو اس علاقے میں جانے کے لیے انتظامیہ کی بجائے زیادہ تر غیر سرکاری تنظیموں سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ آج وہی بستر ترقی کے راستے پر آگے بڑھ رہا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ انہیں صحیح طور پر معلوم نہیں کہ انڈین ایکسپریس نے بستر اولمپکس کو کتنا کوریج دیا، لیکن انہوں نے کہا کہ جناب رام ناتھ گوئنکا کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی کہ بستر کے نوجوان اب بستر اولمپکس جیسے پروگراموں کا انعقاد کر رہے ہیں۔

بستر پر بات کرتے ہوئے، جناب مودی نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ نکسل ازم یا ماؤ نواز دہشت گردی کے مسئلے پر بھی توجہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ملک بھر میں نکسل ازم کا اثر کم ہو رہا ہے، لیکن اپوزیشن جماعت کے اندر اس کی سرگرمی مسلسل بڑھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے بھارت کے تقریباً ہر بڑے صوبے میں ماؤ نواز شدت پسندی کا اثر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے افسوس کا اظہار کیا کہ اپوزیشن ماؤ نواز دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے، جو بھارتی آئین کو مسترد کرتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن نے نہ صرف دور دراز کے جنگلاتی علاقوں میں نکسل ازم کی حمایت کی بلکہ شہری مراکز، یہاں تک کہ اہم اداروں میں بھی اس کی جڑیں مضبوط کرنے میں مدد فراہم کی۔

انہوں نے کہا کہ 10-15 سال پہلے، شہری نکسل اپوزیشن کے اندر ہی اپنی جڑیں جما چکے تھے، اور آج انہوں نے پارٹی کو مسلم لیگ-ماؤسٹ کانگریس (ایم ایم سی) میں تبدیل کر دیا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ اس ایم ایم سی نے اپنے مفادات کے لیے قومی مفادات کو ترک کر دیا ہے اور یہ ملک کی یکجہتی کے لیے مسلسل خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جیسے جیسے بھارت ایک ترقی یافتہ قوم بننے کی سمت میں ایک نئی سفر پر گامزن ہے، جناب رام ناتھ گوئنکا کی میراث اور بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ رام ناتھ جی نے کس طرح برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کی سخت مخالفت کی تھی، اور وزیر اعظم نے ان کے ایک اداریہ بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے لکھا تھاکہ ‘‘میں برطانوی احکامات کی پیروی کرنے کی بجائے اخبار بند کر دینا پسند کروں گا۔’’جناب مودی نے کہا کہ ایمرجنسی کے دوران، جب ملک کو غلام بنانے کی ایک اور کوشش کی گئی، تو رام ناتھ جی ایک بار پھر ثابت قدم رہے۔ انہوں نے اجاگر کیا کہ اس سال ایمرجنسی کے پچاس سال مکمل ہو رہے ہیں اور انڈین ایکسپریس نے اس وقت یہ دکھا دیا تھا کہ خالی اداریے بھی اس ذہنیت کو چیلنج کر سکتے ہیں جو لوگوں کو غلام بنانے کی کوشش کرتی ہے۔

وزیر اعظم نے آگے کہا کہ وہ بھارت کو غلامی کی ذہنیت سے آزاد کرانے کے موضوع پر تفصیل سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے 190 سال پیچھے، 1857 کی پہلی جنگ آزادی سے بھی پہلے، 1835 میں جانا ہوگا، جب برطانوی رکن پارلیمنٹ تھامس بیبنگٹن میکالے نے بھارت کو اس کی ثقافتی جڑوں سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک بڑا منصوبہ شروع کیا تھا۔میکالے نے ایسے بھارتی پیدا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جو دکھنے میں تو بھارتی ہوں، لیکن سوچنے میں انگریزوں جیسے ہوں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، انہوں نے بھارت کی تعلیمی نظام میں صرف اصلاحات نہیں کیں بلکہ اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا۔وزیر اعظم نے مہاتما گاندھی کا حوالہ دیا، جنہوں نے کہا تھا کہ بھارت کی قدیم تعلیمی نظام ایک خوبصورت درخت تھی جسے جڑ سے اُکھاڑ کر تباہ کر دیا گیا۔

بھارت کی روایتی تعلیمی نظام میں اپنی ثقافت پر فخر کا جذبہ پیدا کرنے اور سیکھنے اور مہارت کی ترقی دونوں پر مساوی زور دینے کا ذکر کرتے ہوئے جناب مودی نے کہا کہ یہی وجہ تھی کہ میکالے نے اسے ختم کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی ہو گیا۔میکالے نے یہ یقینی بنایا کہ اس دور میں برطانوی زبان اور خیالات کو زیادہ اہمیت دی جائے اور بھارت کو آنے والے صدیوں میں اس کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میکالے نے بھارت کا اعتماد توڑا اور کمتری کا احساس پیدا کیا۔ ایک ہی جھٹکے میں، اس نے بھارت کے ہزاروں سالہ علم، سائنس، فن، ثقافت اور پوری طرزِ زندگی کو مستردکر دیا۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یہی وہ لمحہ تھا جب اس یقین کے بیج بوئے گئے تھے کہ ترقی اور عظمت صرف غیر ملکی طریقوں سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے، جناب مودی نے کہا کہ آزادی کے بعد یہ ذہنیت اور بھی مضبوط ہو گئی۔ بھارت کی تعلیم، معیشت اور سماجی توقعات تیزی سے غیر ملکی ماڈلز کے ساتھ ہم آہنگ ہونے لگیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ گھریلو نظاموں پر فخر کم ہوتا گیا اور مہاتما گاندھی کی رکھی ہوئی گھریلو بنیاد کو کافی حد تک بھلا دیا گیا۔ حکومت کے ماڈلز بیرون ملک تلاش کیے جانے لگے اور اختراع کی تلاش غیر ملکی زمین پر کی جانے لگی۔انہوں نے کہا کہ اس ذہنیت کے سبب درآمد شدہ خیالات، اشیاء اور خدمات کو بہتر سمجھنے کا سماجی رجحان پیدا ہوا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جب کوئی قوم خود کی عزت کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو وہ اپنے مقامی ماحولیاتی نظام کو مسترد کر دیتی ہے، جس میں میڈ ان انڈیا مینوفیکچرنگ ڈھانچہ بھی شامل ہے۔انہوں نے سیاحت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جن ممالک میں سیاحت پھل پھول رہی ہے، وہاں کے لوگ اپنی تاریخی وراثت پر فخر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس آزادی کے بعد بھارت میں اپنی ہی وراثت کو مسترد کرنے کی کوششیں ہوئیں۔وراثت پر فخر کے بغیر، اس کے تحفظ کی کوئی ترغیب نہیں ہوتی اور تحفظ کے بغیر، ایسی وراثت صرف اینٹ پتھر کے کھنڈر بن کر رہ جاتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اپنی وراثت پر فخر سیاحت کی ترقی کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔

مقامی زبانوں کے مسئلے پر آگے بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے سوال کیا کہ کون سا ملک اپنی زبانوں کی بے عزتی کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جاپان، چین اور جنوبی کوریا جیسے ممالک نے کئی مغربی طریقوں کو اپنایا، لیکن اپنی مادری زبانوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں مقامی زبانوں میں تعلیم پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ حکومت انگریزی زبان کی مخالفت میں نہیں ہے، بلکہ وہ بھارتی زبانوں کی مضبوط حمایت کرتی ہے۔

اردو ترجمہ:

یہ بات کرتے ہوئے کہ میکالے کے بھارت کی ثقافتی اور تعلیمی بنیاد کے خلاف کیے گئے جرائم کو 2035 میں 200 سال مکمل ہو جائیں گے، جناب مودی نے قومی سطح پر کارروائی کا مطالبہ کیا اور شہریوں سے اگلے دس سالوں میں میکالے کے قائم کردہ غلامی کے ذہنیت سے آزادی حاصل کرنے کا عزم کرنے کی اپیل کی۔انہوں نے زور دیا کہ میکالے کے شروع کیے گئے برے اثرات اور سماجی بدعات کو آنے والے دہائی میں جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اس موقع پر کئی اہم موضوعات پر بات چیت ہوئی اور انہوں نے کہا کہ وہ سامعین کا زیادہ وقت نہیں لیں گے۔ انہوں نے انڈین ایکسپریس گروپ کو ملک کی ہر تبدیلی اور ترقی کی کہانی کا گواہ بتایا۔جیسے جیسے بھارت ایک ترقی یافتہ ملک بننے کے ہدف کی طرف بڑھ رہا ہے، انہوں نے اس سفر میں گروپ کی مسلسل شراکت کی تعریف کی۔ انہوں نے جناب رام ناتھ گوئنکا کے اصولوں کو برقرار رکھنے میں ان کی لگن بھر کوششوں کے لیے انڈین ایکسپریس ٹیم کو مبارکباد دی اور پروگرام کی کامیابی کے لیے اپنی نیک تمناؤں کے ساتھ اختتام کیا۔

***********

UR-1409

(ش ح۔   ش آ۔م ش)


(Release ID: 2191127) Visitor Counter : 5