کامرس اور صنعت کی وزارتہ
زرعی و پروسیس شدہ خوراکی اشیاء کی برآمدات کے فروغ کا ادارہ (اے پی ای ڈی اے) نے نام نہاد الزامات کو مسترد کر دیا – حیاتیاتی کاٹن کی تصدیق کے حوالے سے بے بنیاد دعوؤں کی تردید
نامیاتی پیداوار سے متعلق قومی پروگرام (این پی او پی) کے تحت آرگینک سرٹیفکیشن ایک تیسرے فریق کے ذریعہ کیا جاتا ہے اور یورپی کمیشن اور سوئٹزرلینڈ کی جانب سے فصل کی سطح پر اس کی توثیق کی گئی ہے: اپیڈا
Posted On:
27 JUL 2025 10:58AM by PIB Delhi
نامیاتی پیداوار کا قومی پروگرام (این پی او پی) وزارت تجارت و صنعت، حکومتِ ہند کے محکمہ تجارت کی جانب سے سال 2001 میں نامیاتی مصنوعات کی برآمدات کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے نفاذ کے لیے اے پی ای ڈی اے (ایگری کلچرل اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹس ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کو سکریٹریٹ کی حیثیت حاصل ہے۔ چھوٹے اور حاشیہ پر موجود کسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 2005 میں گروور گروپ سرٹیفکیشن کا نظام متعارف کرایا گیا تھا۔
نامیاتی مصنوعات کی برآمد کے لیے تیسرے فریق کی تصدیق ایک لازمی شرط ہے۔ فصل کی پیداوار سے متعلق این پی او پی کے معیارات کو یورپی کمیشن اور سوئٹزرلینڈ نے اپنے قومی معیارات کے مساوی تسلیم کیا ہے اور برطانیہ میں بھی یہ تسلیم شدہ ہیں۔ تائیوان کے ساتھ نامیاتی مصنوعات کے لیے ایک باہمی تسلیم شدہ معاہدہ (ایم آر اے) بھی موجود ہے۔
این پی او پی کے تحت نامیاتی تصدیق کا نظام ایک تھرڈ پارٹی سرٹیفکیشن سسٹم پر مبنی ہے، جس میں نامیاتی عمل اور پیداوار کی مکمل سپلائی چین کو کسی مجاز (سرکاری یا نجی) سرٹیفکیشن ادارے کے ذریعے جانچا اور تصدیق کیا جاتا ہے۔ منظور شدہ سرٹیفکیشن ادارے اپنی منظوری کے دائرہ کار کے مطابق نامیاتی آپریٹرز کو سند دیتے ہیں۔ اس وقت بھارت میں 37 فعال سرٹیفکیشن ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں 14 ریاستی سرٹیفکیشن ادارے شامل ہیں۔
یہاں یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اے پی ای ڈی اے یا محکمہ تجارت کی جانب سے این پی او پی کے تحت نامیاتی کاشتکاری اختیار کرنے والے کسانوں کو کسی قسم کی سبسڈی فراہم نہیں کی جاتی۔ فی ہیکٹر 50,000 روپے کی رقم اور اس سے منسلک دیگر اندازے بے بنیاد اور غلط ہیں۔
این پی او پی کے تحت نامیاتی سرٹیفکیشن صرف مدھیہ پردیش تک محدود نہیں بلکہ یہ بھارت کی 31 ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق (19.07.2025 تک)، این پی او پی کے تحت منظور شدہ سرٹیفکیشن اداروں کے ذریعے 4712 فعال نامیاتی گروور گروپس موجود ہیں، جو تقریباً 19,29,243 کسانوں پر مشتمل ہیں۔ یہ گروور گروپس مختلف اقسام کی فصلوں جیسے کہ اناج، دالیں، تیل دار تلہن، چائے، کافی، مصالحہ جات اور صرف کپاس ہی نہیں بلکہ دیگر پیداوار میں بھی شامل ہیں۔
چنانچہ، بریفنگ میں ذکر کردہ نامیاتی گروور گروپس اور کسانوں کی تعداد درست نہیں ہے، اور یہ بھی گمراہ کن ہے کہ تمام نامیاتی گروور گروپس صرف مدھیہ پردیش میں واقع ہیں اور صرف کپاس کی پیداوار کر رہے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ این پی او پی کے تحت کپاس کی نگرانی صرف پیداوار کی سطح تک کی جاتی ہے۔ پیداوار کے بعد کی تمام کارروائیاں، جیسے کہ جننگ (روئی نکالنا)، پروسیسنگ وغیرہ، نجی سرٹیفکیشن کے تحت آتی ہیں۔
این پی او پی کے تحت، داخلی کنٹرول نظام (آئی سی ایس) کو کسان گروپ خود بھی چلا سکتے ہیں یا کسی خدمت فراہم کنندہ/نمائندے کے ذریعے بھی منظم کیا جا سکتا ہے۔ این پی او پی کے معیارات کے مطابق، آئی سی ایس کے لیے لازم ہے کہ وہ سال میں کم از کم دو بار تمام کسانوں کا اندرونی معائنہ کریں۔ اس کے علاوہ، سرٹیفکیشن باڈی (سی بی) ہر آئی سی ایس کا سالانہ آڈٹ کرتی ہے، جس میں دفتر کا معائنہ اور کھیتوں کا آڈٹ ایک نمونہ جاتی منصوبے کی بنیاد پر شامل ہوتا ہے۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر زمین کی ملکیت کے سائز، آئی سی ایس میں شامل کسانوں کی تعداد اور خطرے کی جانچ پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر ضروری سمجھا جائے تو سرٹیفکیشن باڈیز اضافی معائنے بھی کر سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ، سی بی کی نگرانی کے لیے ایک تیسری سطح کا چیک بھی موجود ہے، جو کہ این اے بی (نیشنل ایکریڈیشن باڈی) اے پی ای ڈی اے کے ذریعے کرتا ہے۔ اس کے تحت، این اے بی کی تشکیل کردہ ایک جانچ کمیٹی بغیر پیشگی اطلاع کے خطرے کے تجزیے یا موصول ہونے والی شکایات کی بنیاد پر آپریٹرز بشمول گروور گروپس (آئی سی ایس) کا معائنہ کرتی ہے اور اس سارے عمل کی نگرانی اے پی ای ڈی اے کے ذریعے کی جاتی ہے۔
مندرجہ بالا جانچ اور توازن کے نظام کے باوجود، گروور گروپ سرٹیفکیشن کے غلط استعمال اور بے ضابطگیوں کے کچھ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ تاہم اس قسم کی بے ضابطگیاں صرف بھارت یا این پی او پی تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی ریگولیٹری نظام میں پائی جا سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں متعلقہ حکام کی جانب سے درج ذیل اقدامات کیے گئے ہیں:
- جان بوجھ کر ضوابط کی خلاف ورزی اور سرٹیفکیشن باڈیز کی جانب سے این پی او پی کے معیارات کی سنگین خلاف ورزیوں کے معاملات میں سخت کارروائی کی گئی ہے۔
- این پی او پی کے ضوابط میں ترمیم کی گئی ہے، جس کے تحت گروور گروپس کے قانونی تشخص کے حوالے سے سخت اصول نافذ کیے گئے ہیں، اور اب آئی سی ایس دفتر کی گروور گروپ کے قریب موجودگی کو لازمی قرار دیا گیا ہے تاکہ قریبی نگرانی ممکن ہو سکے۔ مزید برآں گروور گروپس کے معائنے کے لیے جلد ہی ایک موبائل ایپ کے ذریعے نگرانی کا نظام بھی شروع کیا جا رہا ہے۔
- نامیاتی کپاس کی پیداوار کی سرٹیفکیشن کے لیے اضافی جانچ کے نئے طریقہ کار مرتب کیے گئے ہیں۔ اس طریقہ کار کے تحت کپاس کی سرٹیفکیشن کرنے والی باڈیز کے دائرۂ کار کو محدود کر دیا گیا ہے تاکہ زیادہ قریب سے نگرانی اور جائزہ ممکن بنایا جا سکے۔
- بغیر اطلاع دیے گئے معائنوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ گروور گروپس اور خلاف ورزی کرنے والی سرٹیفکیشن باڈیز کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
اے پی ای ڈی اے اس بات کے لیے پرعزم ہے کہ این پی او پی کے تحت نامیاتی سرٹیفکیشن کا نظام قابل اعتماد، شفاف اور واضح ہو۔ جہاں کہیں بھی نامیاتی معیارات کی خلاف ورزی یا دانستہ کوتاہی کے مصدقہ شواہد سامنے آئے ہیں، وہاں اے پی ای ڈی اے نے جامع تحقیقات کی ہیں اور مؤثر اقدامات کیے ہیں۔ تمام ایسے معاملات کو فطری انصاف کے اصولوں کی روشنی میں ایک منظم جانچ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ کسی بھی سرٹیفکیشن باڈی یا آپریٹر کے خلاف ضوابط کی خلاف ورزی ثابت ہونے پر، این پی او پی کے اصولوں کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔
یہ بھی ذکر کیا جانا چاہیے کہ گزشتہ روز ایک اپوزیشن لیڈر کی پریس بریفنگ میں نامیاتی سرٹیفکیشن پروگرام، یعنی قومی نامیاتی پیداوار پروگرام (این پی او پی) کے خلاف بے بنیاد، غیر مصدقہ اور گمراہ کن الزامات عائد کیے گئے۔
ملک کے ایک مضبوط ریگولیٹری نظام پر کسی مخصوص فصل، خطے یا آپریٹر گروپ کی بنیاد پر عمومی نوعیت کے الزامات لگانا، نہ صرف قانونی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ بھارت میں جاری وسیع تر نامیاتی تحریک کو بھی کمزور کرتا ہے۔
******
ش ح۔ ش ا ر۔ ول
Uno: 3396
(Release ID: 2149043)