نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
سناتن کی شان کو پھر سے قائم کیا جارہاہے ، جو کھو گیا تھااسے مزید عزم کے ساتھ دوبارہ بنایا جا رہا ہے: نائب صدر جناب جگدیپ دھنکڑ
نائب صدر نے زور دیتے ہوئے کہا -ہم اپنے صبر کے گلیشیئر کیوں پگھلائیں؟ سیاست کے درجہ حرارت کو معتدل رکھیں: نائب صدر
ہم زبانوں پر کیسے منقسم ہو سکتے ہیں؟ ہماری زبانیں شمولیت کی نشاندہی کرتی ہیں: وی پی
خدمت کے طور پر تعلیم موجودہ تجارتی ماڈل سے متصادم ہے جو تیزی سے ابھر رہا ہے: نائب صدر
Posted On:
17 JUN 2025 3:28PM by PIB Delhi
نائب صدرجمہوریہ جناب جگدیپ دھنکھڑنے آج کہا کہ‘‘...سناتن افتخار دوبارہ تعمیر ہو رہا ہے۔ جو کھو گیا تھا اسے دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے - مضبوط عزائم کے ساتھ۔’’
آج پانڈی چیری یونیورسٹی میں طلباء اور فیکلٹی ممبران سے خطاب کرتے ہوئے، نائب صدر جمہوریہ جناب جگدیپ دھنکھڑنے کہا-‘‘ہندوستان کا تعلیمی جغرافیہ اور تاریخ سیکھنے کے عظیم مراکز - تکشلا، نالندہ، متھلا، ولبھی اور بہت سے دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ ان اداروں نے تاریخ کے اس دور میں پورے ہندوستان کو پوری دنیا میں متعارف کرایا ہے۔ دنیا بھر کے اسکالرز نے اپنے خیالات کا اشتراک کیا اور دنیا بھر سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ لیکن نالندہ کی نو منزلہ لائبریری - اور صرف اس دور کو دیکھیں- 1300 سال پہلے، اسے دھرم گنج کہا جاتا تھا، جو کہ اس وقت کے مخطوطات کا گھر تھا- جو کہ ریاضی، فلکیات اور فلسفہ کو فروغ دیتا تھا - اس کے بعد حملہ کی دو لہروں میں۔ پہلے اسلامی حملہ اور پھر برطانوی ۔ ہندوستان کی علمی وراثت کو نقصان پہنچا۔ بختیار خلجی نے 1190 کے آس پاس ظلم اور بربریت کا مظاہرہ کیا، اس نے تہذیب کے خلاف کام کیا اور تب صرف کتابیں ہی نہیں جلیں ،اس نے بھکشوؤں کے گلے کاٹ دالے ، استوپوں کو توڑ دیا اور اپنی سوچ میں ہندوستان کی روح کوبربرباد کردیا- یہ محسوس کئے بغیر کہ ہندوستان کی روح برباد ہونے والی نہیں ہے۔آگ برسوں تک بھڑکتی رہی ، اس نے 90 لاکھ کتابیں نگل لیں۔ ہماری تاریخ راکھ میں بدل گئی۔ نالندہ ایک نظریہ سے کہیں آگے تھا ۔ یہ پوری انسانیت کے پورے فائدہ کے لئے علم کا ایک زندہ مرکز تھا۔لائبریریوں کی نو منزلیں میدانوں کے اوپر اونچی تھیں جو تاڑ کے پتوں کی مخطوطات سے پر تھیں ... تین مہینے تک آگ کی لپٹیں انہیں نگلتی رہیں ، اتنا گھنا دھواں تھا ، جیسا کہ ہم حال ہی میں عالمی آگ زنی کے واقعات کو دیکھ رہے ہیں۔’’
سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے اور بات چیت میں شامل ہونے پر زور دیتے ہوئے، جناب دھنکھڑنے کہا-‘‘دوستو، قومی ذہنیت کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ مجھے سب سے پہلے سیاسی نظام کے بارے میں بات کرنے دیں۔ ہم نے ایک دوسرے سے اختلاف کرنے کی عادت بنا ڈالی ہے ۔ کوئی بھی اچھا خیال کسی اور کی طرف سے آتا ہے اور مجھ سے نہیں،تو وہ غلط ہوتا ہے۔ کیونکہ میں اپنے سوچ کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔اس عمل میں، میں اپنے ویدک فلسفہ ( اننت واد ) کا بلی چڑھا رہاہوں ۔ اصل اظہار خیال ہونا چاہیے، بحث و مباحثہ ہونا چاہئے ، مکالمے ہونے چاہئے ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے ضمیمہ ہیں، ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنا ہوگا ، ہم سیاسی درجہ حرارت بڑھانے کیلئے بہت پرجوش ہیں ۔ تبدیلی ماحولیات ہمارے لئے ایسا کررہاہے، ہم سبھی فکر مند ہیں، ہم اپنے صبر و تحمل کے گلیشئروں کو کیوں پگھلائیں ؟ ہمیں اپنی تہذیبی ، روحانی وراثت سے ہٹ بے صبری کا مظاہرہ کیوں کریں؟ میں سیاسی عروج ، اور سیاست میں قیادت سے اپیل کرتا ہوں برائے کرم سیاسی درجہ ٔ حرارت کم کریں ۔ ٹکراؤ کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بات چیت ہونی چاہئے ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنا ہے، کیوں کہ ہم سب کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ تہذیبی، روحانی جوہر، سیاست میں تصادم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہندوستان ترقی کی جانب گامزن ہو ، دنیا ہماری جانب دیکھ رہی ہے۔ چیلنجز تو ہوں گی ہی کیونکہ ہندوستان اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ پرجوش اور کثیر العزائم ملک ہے۔گزشتہ دہائی کی غیر معمولی ترقی کے نتیجے میں، اگر ہمارے سیاست دان ہمیشہ قومی مفاد اور قومی ترقی کو سننے کے تقاضوں کو پورا نہیں کریں گے تو ہمارے لیےیہ چیلنج مزید پیچیدہ ہو جائیں گے’’۔
تعلیم کی کمرشلائزیشن پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نائب صدر جناب جگدیپ دھنکھڑ نے کہا -‘‘ایک وقت تھا جب تعلیم اور صحت ان لوگوں کے ذریعہ ہوتے تھے جن کے پاس معاشرے کو واپس دینے کے لئے کافی وسائل ہوتے تھے، انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ منافع کمانے کے منصوبے ہیں۔ صحت اور تعلیم میں ان کے منصوبے ہماری پرانی دانشمندی کے مطابق تھے- ہمیں معاشرے کی طرف واپس آنا چاہئے تاکہ اس کی مثال پیش کی جا سکے، ہمیں جدید ترین شہری نہیں بننا چاہئے۔ ہماری تعلیم کو ہندوستان کے روایتی گروکل نظام کے مطابق ہونا چاہیے جو کہ ہندوستانی آئین میں 22 چھوٹی چیزوں میں سے ایک میں ہے اور ہمیں علم حاصل کرنے کے علاوہ لڑکے اور لڑکیوں پر بھی زور دینا چاہیے کیونکہ اس کے بعد ہی علم کا حصول جدید ترین تعلیم کے ساتھ متصادم ہے۔ کارپوریٹ کے ساتھ تبدیلی - میں ان لوگوں سے اپیل کرتا ہوں جو آپ کے سی ایس آر وسائل کو گرین فیلڈ پروجیکٹس کے طور پر اکٹھا کریں’’۔
یونیورسٹی میں سابق طلباء کی شراکت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا-‘‘اگر آپ دنیا بھر میں دیکھیں - دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتیں - آپ دیکھیں گے کہ یونیورسٹیوں کے انڈومنٹ فنڈز اربوں امریکی ڈالرز میں چلتے ہیں، ایک یونیورسٹی کا فنڈ 50 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ عزت مآب وائس چانسلر، ایک شروعات کریں اس ادارہ کے ہر ایک سابق اسٹوڈنٹس کو اس فنڈ میں تعاون کرنا چاہئے ۔ لڑکے اور لڑکیاں ، رقم معنی نہیں رکھتے جذبہ معنی رکھتے ہیں - آپ دیکھیں گے آنے والے برسوں میں یہ کتنا اثردار ہوگا ، نہ صرف فنڈ بڑھے گا بلکہ یہ سابق اسٹوڈنٹس کے الما میٹر کے درمیان ایک لسٹ بھی بنائے گی۔ یہ ایک بڑا قدم ہوگا۔ یاد رکھیں، اٹھایا گیا ہر قدم عظیم ہے – اور یہی سبب ہے کہ 20 جولائی، 1969 کو، جب نیل آرمسٹرانگ ، چاند پر قدم رکھنے والے پہلا شخص ،نے کہا-‘‘ میرا ایک چھوٹا قدم انسانیت کیلئے ایک بڑی چھلانگ ہے ’’۔ لہذا، سابق طلباء کے لیے،یہ ایک چھوٹا قدم ہوسکتا ہے - لیکن مجموعی طور پر، نتائج ہندسی ہوں گے۔’’
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہندوستان کی زبانیں شمولیت کی نشاندہی کرتی ہیں، جناب جگدیپ دھنکھڑ نے اس بات پر زور دیا-‘‘ ہم زبانوں پر کیسے منقسم ہو سکتے ہیں؟ دنیا کا کوئی بھی ملک ہمارے ملک ‘ ہندوستان’کی طرح زبانوں کے معاملہ میں اتنا خوشحال نہیں ہے، اور ذرا تصور کریں، سنسکرت عالمی سطح پر اہم ہے - تمل، تیلگو، کنڑ، ملیالم، اوڈیا، مراٹھی، پالی، پراکرت، بنگالی، آسامی - میں 11 گیارہ کا نام لیتا ہوں کیونکہ وہ ہماری کلاسک زبانیں ہیں ۔ پارلیمنٹ میں ، ممبرا ن کو 22 زبانوں میں اپنی باتیں کہنے کی اجازت ہے ۔ طلبا و طالبات، ہماری زبانیں شمولیت کیلئے ہیں ۔ کیا سناتن ہمیں ایک ہی عظیم مقصد کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے لیے کچھ نہیں سکھاتی ہیں؟ تو کیا یہ سب سے بڑھ کر تفرقہ انگیزی کی بنیاد ہے؟ شمولیت کے لئے کیا ذمہ دار ہے؟ کیا یہ تقسیم کی بنیاد ہوسکتی ہے؟ میں سبھی سے احتساب کرنے ، غور و فکر کرنے، موقع کے مطابق اٹھنے ، ہماری عظیم حصولیابیوں پر حیرت کرنے ، اپنے ہدف کو دیکھنے ، لڑکے اور لڑکیوں کے مستقبل کو دھیان میں رکھنے اور اس طوفان سے نکلنے کی اپیل کرتا ہوں ’’۔
اس موقع پر جناب کے کیلاش ناتھن، پڈوچیری کے عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر، جناب این رنگاسامی، پڈوچیری کے عزت مآب وزیر اعلیٰ، جناب ایمبالم سیلوم @ آر سیلوم، معزز اسپیکر، پڈوچیری قانون ساز اسمبلی،جناب ایس سیلواگناپتی، معزز ممبر پارلیمنٹ (ایوان بالا-راجیہ سبھا ) ،معزز رکن پارلیمنٹ(ایوان زیریں-لوک سبھا ) ویتھی لنگم، فیکلٹی ممبران، طلباء اور دیگر معززین بھی موجود تھے۔
*****
ش ح – ظ ا–م ذ
UR No. 1822
(Release ID: 2137001)