نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
امن اس وقت قائم ہوتا ہے جب آپ ہر وقت جنگ کے لیے تیار ہوں- نائب صدر
قومی سلامتی کے لیے ہمیں مقامی قوت کی ضرورت ہے- نائب صدر
بنیادی فرائض کا شعور قومی مفاد کو ترجیح دینا ہے- نائب صدر
معاشی قوم پرستی عوام کا معاملہ ہے-نائب صدر جمہوریہ
پارلیمنٹ 1.4 ارب عوام کی خواہشات کا عکس ہے- نائب صدر
Posted On:
27 MAY 2025 2:50PM by PIB Delhi
نائب صدر جمہوریہ اور چیئرمین راجیہ سبھا، جناب جگدیپ دھنکھڑ نے آج کہا: ‘‘قومی سلامتی کے لیے ہمیں مقامی (انڈجینس) طاقت کی ضرورت ہے۔ جنگ کو بہترین طریقے سے اُس وقت ٹالا جا سکتا ہے جب آپ طاقت کی پوزیشن میں ہوں۔ امن اُس وقت قائم ہوتا ہے جب آپ ہر وقت جنگ کے لیے تیار ہوں۔ طاقت صرف ٹیکنالوجیکل برتری یا روایتی ہتھیاروں سے ہی نہیں، بلکہ عوام سے بھی حاصل ہوتی ہے۔’’
شہریوں کے فرائض ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، نائب صدر نے کہا: ‘‘توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ ہمیں چن چن کر چیزیں نہیں اپنانی چاہییں۔ ہم بنیادی حقوق کا مطالبہ تو دن رات کرتے ہیں، لیکن بنیادی فرائض کو بالکل نظرانداز کر دیتے ہیں! اگر ہم صرف اپنے حقوق پر توجہ دیں اور فرائض کو نظرانداز کریں، تو ہم دنیا کی سب سے بڑی، قدیم اور فعال جمہوریت کے شہری ہونے کے تقاضوں پر پورا نہیں اُترتے۔ آئین میں 11 بنیادی فرائض شامل ہیں۔ یہ ابتدا میں آئین کا حصہ نہیں تھے، اور اس کی ایک وجہ ہے۔ ہمارے بانیانِ آئین نے یقیناً یہ توقع کی تھی کہ ہم ان فرائض سے خود بخود ہم آہنگ ہوں گے، اور ان کا احترام کریں گے۔ لیکن جب یہ محسوس کیا گیا کہ ان فرائض کو آئین میں واضح طور پر شامل کرنا ضروری ہے تاکہ عوام بالخصوص ان سے آگاہ ہو سکیں، تو یہ فرائض 42ویں اور 86ویں آئینی ترمیم کے ذریعے شامل کیے گئے۔ اگر میں بنیادی فرائض کا خلاصہ پیش کروں تو وہ ہے: قومی فلاح و بہبود کو ترجیح دینا۔ عوامی گفتگو، امن و امان، نظم و ضبط، ماحولیات - اور زندگی میں جو کچھ بھی بھلائی سے متعلق ہے - اُس میں مثبت طور پر حصہ لینا۔’’
نائب صدر نے کہا:‘‘کبھی کبھی لوگ سوچتے ہیں کہ ہم کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ 'سودیشی' معاشی قوم پرستی سے گہرائی سے جُڑا ہوا ہے۔ معاشی قوم پرستی کا مطلب ہے کہ ہمیں سودیشی اشیاء کو استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں ہمیشہ ‘ووکل ٖفار لوکل’ کے اصول کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ یہ ہمارے لوگوں کو بھی اس بات کی ترغیب دے گا کہ وہ ہماری ضروریات کو پورا کریں۔ لیکن اگر ہم ایسے اشیاء کو دوسرے ممالک سے درآمد کرنا شروع کر دیں جو ہمارے اپنے ملک میں پیدا ہو سکتی ہیں، یا بنائی جا سکتی ہیں، تو ہم فوراً تین مشکلات کو دعوت دیتے ہیں۔ پہلی مشکل: ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں ایک غیر ضروری خلا پیدا ہوتا ہے، اور یہ اربوں ڈالر کا نقصان ہے۔ دوسری بات: جب ہم وہ اشیاء درآمد کرتے ہیں جو یہاں بن سکتی ہیں، تو ہم اپنے ہی لوگوں سے روزگار چھین رہے ہوتے ہیں۔ ہم انہیں کام سے محروم کر رہے ہوتے ہیں۔ اور تیسری بات، جو سب سے اہم ہے، ہم اپنی صنعت کاری کی صلاحیت اور کاروباری جذبے کو کمزور کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا، ہر فرد اپنا کردار ادا کر سکتا ہے - وہ کیا پہنتا ہے، کیا کھاتا ہے، کون سے جوتے پہنتا ہے - سب کچھ۔ یہ سب اشیائے صارفین ہیں۔ ہم اکثر غیر ملکی اشیاء کو ترجیح دیتے ہیں، اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ ہم اپنی قومی معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اسی لیے میں زور دے کر کہتا ہوں کہ ‘معاشی قوم پرستی’ عوام کا معاملہ ہے۔’’
نائب صدر نے آج وائس پریزیڈنٹ انکلیو میں راجیہ سبھا انٹرن شپ پروگرام (مرحلہ 7) کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:‘‘حال ہی میں پیش آنے والے واقعے ‘آپریشن سندور’ نے ہماری سوچ میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کی ہے۔ ہم پہلے سے کہیں زیادہ قوم پرست ہو گئے ہیں۔ اور اس کا اظہار اُن وفود کی شرکت سے ہوتا ہے جو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہوئے بیرونِ ملک گئے، تاکہ امن کا پیغام دیں اور دہشت گردی کے لیے ہماری مکمل عدم برداشت کو واضح کریں۔ اور اس تناظر میں، حالیہ حالات کو دیکھتے ہوئے، ہمارے پاس اب کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ ہمیں متحد رہنا ہے اور مزید مضبوط ہونا ہے۔۔۔ جیسے اداروں کی قومی ذمہ داریاں ہوتی ہیں، ویسے ہی سیاسی جماعتوں کی بھی قومی مقاصد کے لیے اخلاقی ذمہ داریاں ہیں۔ آخرکار تمام ادارے - قانون ساز، عدلیہ، انتظامیہ - سب کا مرکز قومی ترقی، عوامی فلاح و بہبود، شفافیت، احتساب اور دیانتداری ہونا چاہیے۔قومی سلامتی اور معاشی ترقی جیسے معاملات پر تمام سیاسی جماعتوں کو ذاتی مفادات سے بلند ہو کر قومی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے۔ میں سیاست کے ہر طبقے سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے غور کرے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ قومی سلامتی، ترقی اور داخلی امن جیسے معاملات پر مکمل اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ کبھی کبھی سیاست میں جذبات اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ قوم پرستی اور سلامتی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اور یہی وہ رجحان ہے جسے ہمیں ختم کرنا ہوگا۔’’
نائب صدر جناب جگدیپ دھنکھڑ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی میں اعلیٰ حیثیت پر زور دیتے ہوئے کہا:‘‘بھارتی پارلیمنٹ محض ایک قانون ساز ادارہ نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ اس وقت 1.4 ارب عوام کی خواہشات کا حقیقی عکس ہے۔ یہ واحد آئینی اور جائز پلیٹ فارم ہے جو عوام کی مرضی کو درست طور پر ظاہر کرتا ہے، اور اسی لیے پارلیمنٹ کو اولیت حاصل ہے۔اگرچہ ہر معاملے میں پارلیمنٹ کو فوقیت حاصل نہیں، کیونکہ کچھ معاملات میں انتظامیہ کو برتری حاصل ہے - جیسے حکومت کیسے چلانی ہے۔ عدلیہ کو انصاف کے نظام سے متعلق معاملات میں اولیت حاصل ہے۔ لیکن دو اہم پہلو ایسے ہیں جن میں پارلیمنٹ کو اولیت حاصل ہے: پہلا، یہ قوانین بنانے کی حتمی اور اعلیٰ ترین اتھارٹی ہے۔ دوسرا، یہ انتظامیہ کو جواب دہ بناتی ہے۔ کیونکہ طرزِ حکمرانی کچھ بنیادی اصولوں پر مبنی ہوتی ہے - پہلا اصول شفافیت ہے، دوسرا اصول جواب دہی، اور جدید دور میں ہم نے تیسرا اہم پہلو بھی شامل کیا ہے: اداروں کی مؤثر کارکردگی تاکہ ہم ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن رہیں۔۔۔پارلیمنٹ ایک ایسا مقام ہے - آخری اور اعلیٰ ترین مقام - جہاں بحث، مکالمہ، گفتگو اور خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے۔’’
تعاون اور اتفاقِ رائے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے نائب صدر نے کہا:‘‘ بچو اور بچیوں، ہمارا آئین ایک مقدس ترین دستاویز ہے۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ کیسے تشکیل پایا - تقریباً تین سال سے کچھ کم عرصے میں- ہمارے بانیانِ آئین نے اسے مرتب کیا۔ انہوں نے ایسے مسائل سے نمٹا جو انتہائی تقسیم پیدا کرنے والے، متنازع اور اشتعال انگیز تھے، مگر انہوں نے انہیں ہم آہنگی، تعاون اور اتفاقِ رائے کے جذبے سے حل کیا۔ یہ وہ چیز ہے جو آپ کو زندگی میں سیکھنی چاہیے۔اور اس کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ ہمیشہ دوسرے کے نقطۂ نظر کا احترام کریں۔ کیونکہ اگر آپ یہ سمجھیں کہ صرف آپ ہی درست ہیں اور دوسرا شخص غلط ہے، تو آپ خود کو ایک قیمتی رائے سے محروم کر رہے ہوتے ہیں۔ اور دوسرا، میرے ذاتی تجربے کے مطابق، اکثر اوقات دوسرا نقطۂ نظر ہی درست ثابت ہوتا ہے۔’’
نائب صدر نے کہا:‘‘یہ آئین جو بڑی محنت اور توجہ سے تشکیل دیا گیا، ہماری تہذیبی ترقی کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ اگر آپ اُس آئین کو دیکھیں جس پر ہمارے بانیانِ آئین نے دستخط کیے تھے، تو آپ کو اسے قریب سے جاننے کاموقع ملے گا۔ جب آپ اسے دیکھیں گے تو پائیں گے کہ اس میں 22 چھوٹی تصویریں شامل ہیں۔ ہر چھوٹی تصویر ہمارے شاندار تاریخی ماضی کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ ‘گروکل’ کو دکھاتی ہے، وادیٔ سندھ کی تہذیب کے عروج کو ظاہر کرتی ہے، رام، سیتا اور لکشمن کی ایودھیا واپسی کا منظر پیش کرتی ہے، جو نیکی کی بدی پر فتح کی علامت ہے - اور یہ سب آئین کے تیسرے حصے یعنی بنیادی حقوق کے حصے میں موجود ہے۔جب آپ ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کو دیکھیں گے، تو وہاں بھگوان شری کرشن کو کُرُکشیتر میں ارجن کو اُپدیش دیتے ہوئے پائیں گے۔ اور ایسی بہت سی جھلکیاں ہیں جو آپ کو ہمارے آئین کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کرائیں گی۔آئین نہ صرف ہمیں بنیادی حقوق دیتا ہے بلکہ یہ ہر شہری کو فرائض ادا کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ حقوق اُس وقت زیادہ بامعنی بنتے ہیں جب وہ نافذالعمل ہوں۔ اور اسی لیے، بچو اور بچیو، یاد رکھو کہ بھارت دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں اگر آپ کا بنیادی حق متاثر ہو، تو آپ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں۔ آپ اپنی شکایت کو انصاف کے اعلیٰ ترین فورم تک لے جا سکتے ہیں۔لیکن ہر شہری اور ہر ادارے کو اپنی طاقت آئینی دائرے کے اندر رہ کر استعمال کرنی چاہیے، اور آئینی اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ہم اپنے پڑوسی سے محبت تبھی کر سکتے ہیں جب ہم اُس کے مخصوص دائرۂ کار میں مداخلت نہ کریں- چاہے وہ زمینی سرحد ہو یا کوئی اور حدود۔ اس آئینی دائرۂ اختیار کی حرمت کو ہر حال میں برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اگر اس میں کسی بھی قسم کی مداخلت ہو، تو سمجھ جائیں کہ خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔’’
*******
ش ح ۔ا گ۔ رب
U- 1139
(Release ID: 2131653)