نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

شمولیت اور اظہار رائے کی آزادی ہماری عظیم وراثت ہیں – نائب صدر


اظہار کی آزادی اور شمولیت کا میلان بھارت میں نسبتاً سب سے زیادہ ہے – نائب صدر نے کہا

ہمیں خوراک کی حفاظت کے ذریعے کسانوں کی خوشحالی کی طرف بڑھنا چاہیے – نائب صدر جمہوریہ

کسانوں کو پروڈیوسر سے صنعت کار میں تبدیل ہونا چاہیے – وی پی نے زور دے کر کہا

شہریوں کو اس بات کا پورا خیال رکھنا چاہیے کہ آزادی اظہار اور شمولیت قومی اثاثہ بن جائیں – نائب صدر

اختراع اور تحقیق کسانوں پر مرکوز ہونی چاہیے – وی پی

نائب صدر کا کوئمبٹور میں تمل ناڈو زرعی یونیورسٹی میں اجتماع سے خطاب

Posted On: 27 APR 2025 2:49PM by PIB Delhi

نائب صدر جمہوریہ ہند جناب جگدیپ دھنکھڑ نے آج کہا، ”بھارت دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے، ایک امن پسند قوم ہے جہاں شمولیت اور اظہار رائے اور سوچ کی آزادی ہماری وراثت ہے۔“

تمل ناڈو ایگریکلچرل یونیورسٹی، کوئمبٹور، تمل ناڈو میں منعقدہ ایک پروگرام میں "وکست بھارت کے لیے زرعی تعلیم، اختراعات اور صنعت کاری کو فروغ دینا" کے موضوع پر اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ اگر کوئی ہزاروں سالوں کی تاریخ کو دیکھے تو پتہ چلے گا کہ ہماری تہذیب میں شمولیت اور اظہار رائے کی آزادی شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ دور میں اظہار رائے اور شمولیت کا تناسب اور میلان دنیا میں نسبتاً سب سے زیادہ بھارت میں ہے، ”چاروں طرف دیکھو، بھارت جیسا کوئی دوسرا ملک نہیں ہے جو شمولیت اور اظہار کی آزادی کا مظاہرہ کرسکے۔“ انھوں نے کہا کہ اس عظیم ملک — سب سے بڑی جمہوریت، سب سے قدیم جمہوریت، سب سے زیادہ متحرک جمہوریت کے شہری ہونے کے ناطے — ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم سب سے زیادہ محتاط اور ہمہ گیر آزادی اظہار رائے کا مظاہرہ کریں۔ شمولیت کو ہمارا قومی اثاثہ ہونا چاہیے۔

زراعت کے شعبے کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے اس بات پر زور دیا کہ ”ہمیں خوراک کی حفاظت کے ذریعے کسانوں کی خوشحالی کی طرف بڑھنا چاہیے۔“ انھوں نے کہا کہ کسان کو خوشحال ہونا ہے، اور اس ارتقا کا آغاز تمل ناڈو زرعی یونیورسٹی جیسے اداروں سے ہونا چاہیے۔

انھوں نے مزید کہا کہ کسانوں کو کھیتی باڑی سے باہر نکلنا چاہیے اور اپنی پیداوار کی مارکیٹنگ میں خود کو شامل کرنا چاہیے۔ ”کسانوں کو صرف ایک پروڈیوسر بن کر ہی نہیں رہ جانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ محنت سے، انتھک محنت سے پیداوار اٹھائیں گے اور اسے جمع کیے بغیر ایک ایسے وقت میں فروخت کریں گے جب یہ مارکیٹ کے لیے مناسب ہو۔ اس سے انھیں مالی طور پر زیادہ فائدہ ہوگا،“ انہوں نے کہا۔ انھوں نے بیداری پیدا کرکے کسانوں کو با اختیار بنانے پر زور دیا اور ساتھ ہی اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ حکومت کا کوآپریٹو نظام بہت مضبوط ہے۔

”پہلی بار، ہمارے پاس ایک وزیر تعاون ہے۔ کوآپریٹیو کو ہمارے آئین میں جگہ ملی ہے۔ اس لیے ہمیں کسان تاجروں کی ضرورت ہے۔ ہمیں کسان صنعت کاروں کی ضرورت ہے۔ اس ذہنیت کو بدلیں، تاکہ ایک کسان خود کو پروڈیوسر سے ویلیو ایڈر میں تبدیل کر کے کوئی ایسی صنعت شروع کرے جو کم سے کم پیداوار پر مبنی ہو،“ انھوں نے کہا۔

نائب صدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ زرعی پیداوار کا بازار بہت بڑا ہے اور جب زرعی پیداوار میں قیمت کا اضافہ ہو گا تو صنعت ترقی کرے گی۔

جناب دھنکھڑ نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو ذہن میں رکھے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک ناقابلِ تعطل اقتصادی عروج، بنیادی ڈھانچے میں غیر معمولی ترقی، تکنیکی رسائی کے ساتھ آخری میل تک پہنچ رہا ہے اور ملک کی بین الاقوامی ساکھ اور اس کے رہنما وزیر اعظم اس سلسلے میں شہریوں کے لیے سب سے بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ملک کے اس عروج کو برقرار رکھیں۔“ انھوں نے زور دے کر کہا۔

شہریوں کی شرکت پر زور دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ یہ صحیح وقت ہے کہ ہر شہری مکمل طور پر بیدار ہو جائے اور امید اور امکان کے ماحولیاتی نظام سے فائدہ اٹھائے۔ انھوں نے سب سے زور دے کر کہا کہ وہ پختہ عزم کریں کہ ملک سب سے پہلے ہمارا نصب العین ہو گا، ملک کے لیے ہماری غیر متزلزل وابستگی اور ہمیشہ رہنمائی کرنے والا ستارہ۔ انھوں نے زور دیا کہ کوئی بھی مفاد ملک سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔

زراعت میں تحقیق اور ٹیکنالوجی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے، انھوں نے زور دے کر کہا کہ لیب اور زمین کے درمیان فرق کو محض پُر نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ ایک ہموار رابطہ ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا، ”لیب اور زمین کو ایک ساتھ ہونا چاہیے اور اس کے لیے، کسانوں کو تعلیم دینے کے لیے، 730 سے ​​زیادہ کرشی وگیان کیندروں کو کسانوں کے ساتھ بات چیت کے متحرک مراکز ہونا چاہیے۔“ انھوں نے کرشی وگیان کیندروں اور انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ کو جوڑنے پر بھی زور دیا، جس کے اپنے آپ میں 150 سے زیادہ ادارے ہیں اور جو زرعی سائنس کے ہر پہلو پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

حکومت کے اقدامات کی ستائش کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے ذکر کیا کہ پی ایم کسان ندھی سمان جیسی اختراعی اسکیمیں مفت نہیں ہیں بلکہ ایک ایسے شعبے کے ساتھ انصاف کرنے کے اقدامات ہیں جو ہماری زندگی کی لکیر ہے۔ ”یہ کسان کو براہ راست کی جانے والی منتقلی ہے،“ انہوں نے زور دے کر کہا۔

اس تناظر میں، جناب دکھنکھڑ نے کہا کہ ”ہمارے ملک میں کھادوں کے لیے بڑے پیمانے پر سبسڈی دی جاتی ہے۔ تمل ناڈو زرعی یونیورسٹی جیسے اداروں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر فی الحال کسان کے فائدے کے لیے کھاد کے شعبے کو دی جانے والی سبسڈی براہ راست کسان تک جاتی ہے، تو ہر کسان کو ہر سال تقریباً 35,000 روپے ملیں گے۔“

وسیع تر قومی وژن پر، نائب صدر جمہوریہ نے کہا، ”وکست بھارت کے حصول کے لیے تمل ناڈو زرعی یونیورسٹی جیسے اداروں کو احتیاط کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ”اس یونیورسٹی میں آنا ایک اعزاز کی بات ہے جس نے ہندوستان کی غذائی تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔“

انھوں نے یاد دلایا کہ، ”ہندوستان نے خوراک کی کمی سے لے کر خوراک کی وافر مقدار تک رسائی حاصل کی ہے اور تمل ناڈو زرعی یونیورسٹی نے زرعی ترقی کو متاثر کیا ہے اور دیہی تبدیلی کے وسیع تر مقصد کی خدمت کی ہے۔“

زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، نائب صدر جمہوریہ نے کہا، ”زرعی شعبے کی عظیم شخصیات میں سے ایک، بھارت کے قابل فخر فرزندوں میں سے ایک، ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن، تمل ناڈو زرعی یونیورسٹی کے سابق طالب علم تھے“۔ انھوں نے نشاندہی کی کہ ڈاکٹر سوامی ناتھن کو چاروں سویلین ایوارڈ بشمول اعلیٰ ترین یعنی بھارت رتن کے وصول کنندہ ہونے کا نادر اعزاز حاصل ہے۔

اثرات پر مبنی اختراعات اور تحقیق پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اختراعات اور تحقیقی اقدامات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ان کا کسانوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ”کیا ان کا زمینی اثر ہو رہا ہے؟ اس لیے تحقیق کو لاگو کیا جانا چاہیے۔ تحقیق ضرورت پر مبنی ہونی چاہیے۔ تحقیق کو ایک ایسا مقصد فراہم کرنا چاہیے جس کی آپ شناخت کریں،“ انھوں نے مشورہ دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ تحقیق کو نہ صرف مرکز اور ریاست کی حکومت کی طرف سے بلکہ صنعت، تجارت، کاروبار اور تجارت کے ذریعہ بھی تعاون کیا جانا چاہیے۔

اپنے اختتامی کلمات میں، نائب صدر نے مشاہدہ کیا کہ ہندوستان - ہمارا بھارت - ہمیشہ سے زراعت کی سرزمین رہا ہے۔ دیہات میں اس کا دل دھڑکتا ہے۔ یہ روزگار اور معیشت کی لائف لائن ہے اور ہر لحاظ سے ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی طاقت ہے۔

تامل سرزمین کی قدیم حکمت کا ذکر کرتے ہوئے، انھوں نے یاد دلایا کہ اس مقدس سرزمین میں، کسان کے کردار کو عظیم شاعر سنت تھرو ولور اعلی سطح پر لے گئے تھے۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے، نائب صدر نے کہا، ”کسان انسانیت کا سنگ بنیاد ہیں اور زراعت سب سے اولین دستکاری ہے۔“ انھوں نے تھرو ولور کی دانش مندی کی تعریف کی، انھیں لا زوال قرار دیا اور مزید کہا کہ ”کسان ہمارا خوراک فراہم کنندہ ہے۔ کسان ہماری تقدیر کا معمار ہے۔“

اس موقع پر تمل ناڈو کے گورنر جناب آر این روی، تمل ناڈو حکومت کے انسانی وسائل کے انتظام کی وزیر محترمہ این کیالویزی سلوا راج، حکومت کے زرعی پروڈکشن کمشنر اور سکریٹری جناب وی دکشینا مورتی، ڈاکٹر ایم رویندرن، ڈائریکٹر ریسرچ، تمل ناڈو زرعی یونیورسٹی، تمل ناڈو زرعی یونیورسٹی کے رجسٹرار اور وائس چانسلر اور دیگر معززین بھی موجود تھے۔

*****

ش ح۔ ف ش ع

U: 292


(Release ID: 2124726) Visitor Counter : 17