وزیراعظم کا دفتر
نئی دہلی میں سول لیڈرشپ کانکلیو کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
21 FEB 2025 2:04PM by PIB Delhi
عزت مآب،
میں یہاں بھوٹان کے وزیر اعظم، میرے بھائی داشو شیرنگ توبگے جی، سیول بورڈ کے چیئرمین سدھیر مہتا، وائس چیئرمین ہنس مکھ آدھیا، صنعتی دنیا کے وہ لوگ جو اپنی زندگیوں میں اپنے اپنے شعبوں میں قیادت فراہم کرنے میں کامیاب رہے ہیں، جیسی بہت سی عظیم شخصیات کو دیکھ رہا ہوں، ساتھ ہی میں یہاں ایسے نوجوان دوستوں کو بھی دیکھ رہا ہوں ، مستقبل جن کا منتظرہے۔
ساتھیو!
کچھ پروگرام ایسے ہوتے ہیں، جو دل کے بہت قریب ہوتے ہیں اور آج کا پروگرام بھی ایسا ہی ایک پروگرام ہے۔ قوم کی تعمیر کے لیے بہتر شہریوں کی ترقی ضروری ہے۔ قوم کی تعمیر انفرادی ترقی سے شروع ہوتی ہے، انسانوں کی تخلیق سے قوم کی تعمیر،افراد سے دنیا ، افراد سے دنیائے عالم ، اگر کوئی بلندی یا عظمت حاصل کرنا چاہتا ہے ،تو اس کی ابتدا عوام سے ہوتی ہے۔ ہر شعبے میں بہترین لیڈروں کی ترقی نہایت ضروری اور وقت کی ضرورت ہے۔ اور اسی لیے دی اسکول آف الٹی میٹ لیڈر شپ کا قیام ترقی یافتہ ہندوستان کے ترقی کے سفر میں نہایت اہم اور بہت بڑا قدم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس ادارے کے نام میں ہی 'روح' ہے، یہ ہندوستان کی سماجی زندگی کی روح بننے والی ہے، اور ہم اس سے اچھی طرح واقف ہیں، ہمیں روح لفظ بار بار سننے کو ملتا ہے، اگر ہم اس روح کو اس احساس کے ساتھ دیکھتے ہیں، تو یہ ہمیں روح کا احساس دلاتا ہے۔ میں اس مشن سے وابستہ تمام ساتھیوں اور اس ادارے سے وابستہ تمام عظیم لوگوں کا تہہ دل سے استقبال کرتا ہوں۔ بہت جلد گفٹ سٹی کے نزدیک دی اسکول آف الٹی میٹ لیڈر شپ کا ایک بہت بڑا کیمپس بھی تیار ہونے والا ہے۔ اور اب جب میں آپ کے درمیان آ رہا تھا، چیئرمین موصوف نے مجھے اس کا مکمل ماڈل دکھایا، مجھے منصوبے سے باخبر کرایا، حقیقت میں مجھے لگتا ہے کہ یہ تعمیراتی نقطہ نظر سے بھی قیادت حاصل کرے گا۔
ساتھیو !
آج، جب سول - دی اسکول آف الٹی میٹ لیڈر شپ اپنے سفر کا پہلا بڑا قدم بڑھا رہا ہے، آپ کو یاد رکھنا ہوگا کہ آپ کی سمت کیا ہے، آپ کا مقصد کیا ہے؟ سوامی وویکانند نے کہا تھا کہ ’’مجھے تقریبا 100 پرجوش نوجوان اور خواتین دو ، میں ہندوستان کو یکسر تبدیل کردوں گا۔‘‘ سوامی وویکانند ہندوستان کو غلامی سے نکال کر اس کو یکسر بدلنا چاہتے تھے۔ اور ان کا ماننا تھا کہ اگر ان کے پاس 100 لیڈر ہوں تو وہ نہ صرف ہندوستان کو آزاد کر اسکتے ہیں، بلکہ اسے دنیا کا نمبر ایک ملک بھی بنا سکتے ہیں۔ اسی قوت ارادی کے ساتھ، اسی منتر کے ساتھ، ہم سب کو اور خاص طور پر آپ کو آگے بڑھنا ہے۔ آج ہر ہندوستانی 21ویں صدی کے ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے دن رات کام کر رہا ہے۔ ایسے میں 140 کروڑ کی آبادی والے ملک میں بھی ہمیں زندگی کے ہر شعبے، ہر عمودی اور زندگی کے ہر پہلو میں بہترین قیادت کی ضرورت ہے۔ صرف سیاسی قیادت ہی نہیں، سکول آف الٹیمیٹ لیڈرشپ کے پاس زندگی کے ہر شعبے میں 21ویں صدی کے لئے لیڈر شپ تیار کرنے کی کافی گنجائش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسکول آف الٹیمیٹ لیڈرشپ سے ایسے لیڈر بن کر ابھریں گے، جو نہ صرف ملک بلکہ دنیا کے اداروں میں، ہر میدان میں اپنا پرچم بلند کریں گے۔ اور ممکن ہے کہ یہاں سے تربیت حاصل کر کے نکلنے والے کچھ نوجوان سیاست میں کوئی نیا مقام حاصل کر لیں۔
ساتھیو !
کوئی بھی ملک جب ترقی کرتا ہے، تو قدرتی وسائل کا اپنا کردار ہوتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر انسانی وسائل کا کردار بہت بڑا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب مہاراشٹر اور گجرات کی علیحدگی کی تحریک چل رہی تھی، اس وقت ہم بہت چھوٹے تھے، لیکن اس وقت ایک بحث یہ بھی تھی کہ گجرات الگ ہو کر کیا کرے گا۔ اس کے پاس قدرتی وسائل نہیں، کانیں نہیں، کوئلہ نہیں، کچھ نہیں ہے، وہ کیا کرے گا؟ پانی بھی نہیں، ایک طرف صحرا ہے اور دوسری طرف پاکستان ہے، یہ کیا کرے گا؟ اور ان گجراتیوں کے پاس زیادہ سے زیادہ نمک ہی ہے، ان کے پاس اور ہے کیا؟ لیکن قیادت کی طاقت دیکھئے، آج گجرات ہی سب کچھ ہے۔ وہاں کے عام لوگوں میں یہ جو صلاحیت تھی کہ وہ بیٹھ کر رو نہیں سکتے کہ یہ نہیں ہے، وہ نہیں ہے، یہ نہیں ہے، وہ نہیں ہے، اوہ جو کچھ ہے وہ ہے۔ گجرات میں ایک بھی ہیرے کی کان نہیں ہے لیکن دنیا کے 10 میں سے 9 ہیروں میں کسی نہ کسی گجراتی کا ہاتھ لگا ہوتا ہے ۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف وسائل ہی نہیں، سب سے بڑی طاقت انسانی وسائل، انسانی صلاحیت، افرادی قوت ہے اور آپ کی زبان میں اسے لیڈر شپ کہا جاتا ہے۔
21ویں صدی میں ایسے وسائل کی ضرورت ہے، جو جدت طرازی کا باعث بنیں اور جو ہنر کو آگے بڑھا سکیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شعبے میں مہارت کی کتنی اہمیت ہے۔ اس لیے قیادت کی ترقی کے شعبے کو بھی نئی مہارتوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں قیادت کی ترقی کے اس کام کو انتہائی سائنسی انداز میں تیز رفتاری سے آگے لے جانا ہے۔ اس سمت میں سیول اور آپ کے ادارے کا بہت اہم کردار ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے بھی اس پر کام شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ کہ باضابطہ طور پر یہ آج آپ کا پہلا پروگرام ہو سکتا ہے، لیکن مجھے بتایا گیا کہ قومی تعلیمی پالیسی کے موثر نفاذ کے لیے ریاستی تعلیم کے سیکریٹریوں، ریاست کے پروجیکٹ ڈائریکٹروں اور دیگر عہدیداروں کے لیے ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا ہے۔ گجرات کے وزیراعلی کے دفتر کے عملے میں قیادت کی نشوونما کے لیے ایک برین اسٹارمنگ کیمپ کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اور میں کہہ سکتا ہوں، کہ یہ تو محض ابھی شروعات ہے۔ اب ہمیں سیول کو دنیا کا بہترین لیڈرشپ ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ بنتے دیکھنا ہے اور اس کے لیے آپ کو محنت بھی کرنی ہوگی۔
ساتھیو !
آج ہندوستان ایک عالمی پاور ہاؤس کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اس رفتار کو ہر میدان میں اور تیز تر کرنے کے لیے ہمیں عالمی معیار کے رہنما، بین الاقوامی قیادت کی ضرورت ہے۔ سیول جیسے قائدانہ ادارے اس میں گیم چینجر یعنی بساط بدلنے والے ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایسے بین الاقوامی ادارے نہ صرف ہماری پسند ہیں، بلکہ ہماری ضرورت بھی ہیں۔ آج ہندوستان کو ہر شعبے میں ایسے پرجوش قائدین کی بھی ضرورت ہے ، جو عالمی پیچیدگیوں اور عالمی ضروریات کا حل تلاش کرسکیں۔ مسائل کو حل کرتے ہوئے عالمی سطح پر ملکی مفادات کو مقدم رکھیں۔ جن کا نقطہ نظر عالمی ہو، لیکن ان کی سوچ کا ایک اہم حصہ مقامی بھی ہو۔ ہمیں ایسے افراد تیار کرنے کی ضرورت ہے، جو بین الاقوامی ذہن سازی کو سمجھتے ہوئے ہندوستانی ذہن کے ساتھ آگے بڑھیں۔ جو اہمیت کی حامل فیصلہ سازی، بحران کے بندو بست اور مستقبل پر مرکوز سوچ کے لیے ہر لمحہ تیار ہوں۔ اگر ہمیں بین الاقوامی منڈیوں میں، عالمی اداروں میں مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے، جو بین الاقوامی کاروباری حرکیات کو سمجھتے ہوں۔ سیول کا کام یہی ہے، آپ کا پیمانہ بڑا ہے، دائرہ کار بڑا ہے اور آپ سے توقعات بھی اتنی ہی زیادہ ہیں۔
ساتھیو !
ایک چیز آپ سب کے لیے ہمیشہ مفید رہے گی کہ آنے والے وقت میں قیادت صرف اقتدار تک محدود نہیں رہے گی۔ قائدانہ کردار میں صرف وہی لوگ ہوں گے، جو جدت اور اثر انگیز ہونے کی صلاحیتوں کے حامل ہوں گے۔ ملک کے افراد کو اس ضرورت کے مطابق ابھرنا ہوگا۔ سیول ایک ایسا ادارہ ہوگا، جو ان افراد میں تنقیدی سوچ، خطرہ مول لینے اور حل پر مبنی ذہن سازی کو فروغ دے گا۔ آنے والے وقت میں، اس ادارے میں ایسے رہنما تیار ہوں گے ، جو تباہ کن تبدیلیوں کے بیچ کام کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
ساتھیو !
ہمیں ایسے رہنما تیار کرنے کی ضرورت ہے، جو رجحانات بنانے میں نہیں بلکہ رجحانات قائم کرنے کے لیے کام کرنے والے ہوں ۔ آنے والے وقت میں، ہم نئی قیادت کو ڈپلومیسی سے ٹیک انوویشن یعنی ٹیکنالوجی سے اختراع تک آگے بڑھائیں گے۔ تو ان تمام شعبوں میں ہندوستان کا اثر و رسوخ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک طرح سے ہندوستان کا پورا وژن، اس کا پورا مستقبل ایک مضبوط قیادت کی نسل پر منحصر ہوگا۔ اس لیے ہمیں عالمی طرز فکر اور مقامی پرورش کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں اپنی طرز حکمرانی اور پالیسی سازی کو عالمی معیار کے مطابق بنانا ہوگا۔ یہ تب ہی ممکن ہو گا، جب ہمارے پالیسی ساز، بیوروکریٹس، کاروباری افراد اپنی پالیسیوں کو بہترین عالمی طریقوں سے جوڑ کر اسے مرتب کر سکیں گے۔ اور سیول جیسے ادارے اس میں بہت بڑا کردار ادا کریں گے۔
ساتھیو !
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر ہم ایک ترقی یافتہ ہندوستان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر میدان میں تیز رفتاری سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمارے صحیفوں میں کہا گیا ہے کہ
یت یات آچرتی شریسٹھ (بہترین طرز عمل)، تت تت ایو اترے جن۔
اس کا مطلب ہے کہ عظیم انسان جیسا طریقہ کار اپنا تا ہے ،عام لوگ اسی کے نقشے قدم پر چلتے ہیں۔ لہذا ایسی قیادت ضروری ہے، جو ہر پہلو سے ہندوستان کے قومی نظریے کی عکاسی کرے اور اس کے مطابق برتاؤ کرے۔ مستقبل کی قیادت میں، ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے لیے ضروری فولاد اور روح دونوں پیدا کرنا، یہی سیول کا مقصد ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ضروری تبدیلیاں اور اصلاحات خود بخود رونما ہوتی رہیں گی ۔
ساتھیو !
ہمیں یہ قوت اور جذبہ پبلک پالیسی اور سماجی شعبوں میں بھی پیدا کرنا ہے۔ ہمیں بہت سے ابھرتے ہوئے شعبوں جیسے ڈیپ ٹیک، خلاء ، بائیوٹیک، قابل تجدید توانائی کے لیے لیڈر شپ تیار کرنی ہے۔ کھیل کود، زراعت، مینوفیکچرنگ اور سماجی خدمت جیسے روایتی شعبوں کے لیے بھی قیادت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نہ صرف ہر شعبے میں بہترین کارکردگی کی تمنا کرنی ہے، بلکہ اسے حاصل بھی کرنا ہے۔ اس لیے ہندوستان کو ایسے لیڈروں کی ضرورت ہوگی، جو عالمی سطح پر اعلیٰ کارکردگی کے نئے ادارے تیار کرسکیں۔ ہماری تاریخ ایسے اداروں کی شاندار داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہمیں اس جذبے کو زندہ رکھنا ہے اور یہ مشکل بھی نہیں ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک کی مثالیں موجود ہیں، جنہوں نے ایسا کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس ہال میں بیٹھے لاکھوں دوست افراد اور جو باہر ہماری باتیں سن رہے ہیں اور ہمیں دیکھ رہے ہیں، وہ سبھی اہلیت کے حامل ہیں۔ یہ ادارہ آپ کے خوابوں اور آپ کے وژن کی تجربہ گاہ بھی ہونا چاہیے۔ تاکہ آج سے 25 سے 50 سال بعد کی نسل آپ کو فخر سے یاد رکھے۔ آپ آج جو یہ بنیاد رکھ رہے ہیں ، اس پر فخر کر سکیں۔
ساتھیو !
ایک ادارے کی حیثیت سے ، کروڑوں ہندوستانیوں کا عزم اور خواب آپ کے سامنے بالکل واضح ہونا چاہئیں۔ وہ شعبے اور عوامل بھی آپ پر واضح ہونے چاہئیں، جو ہمارے لیے ایک چیلنج اور موقع دونوں ہی ہیں۔ جب ہم ایک مشترکہ مقصد کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور مل کر کام کرتے ہیں، تو نتائج بھی حیرت انگیز ہوتے ہیں۔ ایک مشترکہ مقصد سے تیار رشتے خون سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں ۔ یہ ذہنوں کو متحد کرتے ہیں ، یہ جذبہ کو بڑھاتے ہیں اور یہ وقت کی کسوٹی پر بھی کھڑے ہوتے ہیں۔ جب مشترکہ مقصد بڑا ہو، جب آپ کا مقصد بڑا ہو، ایسی صورتحال میں قیادت بھی ترقی کرتی ہے، ٹیم کا جذبہ بھی پروان چڑھتا ہے، لوگ اپنے مقاصد کے لیے خود کو وقف کر دیتے ہیں۔ جب مشترکہ مقصد، مشترکہ مقصد ہو، تو ہر فرد کی بہترین صلاحیت بھی سامنے آتی ہے۔ اور یہی نہیں بلکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بھی بڑے عزم کے ساتھ آگے لے جا تا ہے۔ اور اس عمل میں ایک لیڈر تیار ہوتا ہے۔ وہ اس قابلیت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو اس کے پاس نہیں ہے تاکہ وہ بلندی تک پہنچ سکے۔
ساتھیو !
جب کوئی مقصد مشترکہ ہوتا ہے، تو ٹیم جذبے کا ایک ناقابل یقین احساس ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ جب لوگ کسی مشترکہ مقصد کے لیے شریک ساتھی کے طور پر ساتھ آتے ہیں، تو ایک تعلق پیدا ہوتا ہے۔ ٹیم بنانے کا یہ عمل قیادت کو بھی جنم دیتا ہے۔ مشترکہ مقصد کی ہماری جدوجہد آزادی سے بہتر اور کیا مثال ہوسکتی ہے؟ آزادی کی ہماری جدوجہد نے نہ صرف سیاست میں بلکہ دیگر شعبوں میں بھی رہنما پیدا کئے ہیں ۔ آج ہمیں تحریک آزادی کے اسی جذبے کو زندہ رکھنا ہے اور اس سے تحریک لے کر ہمیں آگے بڑھنا ہے۔
ساتھیو !
سنسکرت میں ایک بہت خوبصورت کہاوت ہے:
अमन्त्रं अक्षरं नास्ति, नास्ति मूलं अनौषधम्। अयोग्यः पुरुषो नास्ति, योजकाः तत्र दुर्लभः।
یعنی ایسا کوئی لفظ نہیں، جس سے منتر نہ بنایا جا سکے۔ ایسی کوئی جڑی بوٹی نہیں جس سے دوا نہ بن سکے۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہے، جو اہل نہ ہو۔ لیکن سب کو صرف ایک ایسے منصوبہ ساز کی ضرورت ہے، جو انہیں صحیح جگہ پر استعمال کر سکے، اور انہیں صحیح سمت دے سکے۔ سیول کا کردار بھی منصوبہ ساز کا ہے۔ آپ کو بھی الفاظ کو منتر میں بدلنا ہے ، جڑی بوٹیوں کو دوا میں بدلنا ہے ۔ یہاں بھی کئی لیڈر بیٹھے ہیں، آپ نے بھی قیادت کے یہ ہنر سیکھے ہیں اور ان کو نکھارا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا – اگر آپ خود کو ترقی دیتے ہیں، تو آپ ذاتی طور پر کامیابی کا تجربہ حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ایک ٹیم تیار کرتے ہیں، تو آپ کی تنظیم ترقی کا تجربہ کر سکتی ہے۔ اگر آپ لیڈر تیار کرتے ہیں، تو آپ کی تنظیم ناقابل تسخیر ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ ان تین جملوں کے ذریعے ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ ہمیں کرناکیا ہے اور ہمیں کیسے تعاون کرنا ہے۔
ساتھیو !
آج ملک میں ایک نیا سماجی نظام تشکیل پا رہا ہے، جس کی تشکیل وہ نوجوان نسل کر رہی ہے، جو 21ویں صدی میں پیدا ہوئی تھی اور جو گزشتہ دہائی میں پیدا ہوئی تھی۔ یہ صحیح معنی میں ترقی یافتہ ہندوستان کی پہلی نسل ہونے جا رہی ہے، یہ امرت کی نسل ہونے جا رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ نیا ادارہ اس امرت نسل کی لیڈر شپ کو تیار کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرے گا۔ ایک بار پھر، میں آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
یہ بھی ایک انتہائی خوش آئند اتفاق ہے کہ آج بھوٹان کے شاہ کا یوم پیدائش ہے اور یہاں یہ پروگرام منعقد کیا جا رہا ہے۔ بھوٹان کے وزیر اعظم کا اتنے اہم دن پر یہاں آنے اور بھوٹان کے شاہ کا انہیں یہاں بھیجنے میں بہت بڑا کردار ہے، اس لیے میں ان کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ساتھیو !
ان دو دنوں میں، اگر میرے پاس وقت ہوتا، تو میں ان دو دن یہیں رہتا کیونکہ کچھ عرصہ پہلے وکست بھارت کا ایک پروگرام تھا، آپ میں سے بہت سے نوجوان اس میں موجود تھے، اس لیے میں تقریباً پورا دن یہاں رہا، سب سے ملا، گپ شپ ہوئی، بہت کچھ سیکھنے کو ملا، بہت کچھ جاننے کو ملا، اور آج یہ میری خوش قسمتی ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ پہلی صف میں وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیوں میں نئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ آپ کے لیے ان سب سے ملنے، بیٹھنے اور بات کرنے کا ایک بڑا موقع ہے۔ مجھے یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی، کیونکہ جب بھی یہ لوگ مجھے ملتے ہیں، وہ اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی کام لے آتے ہیں۔ لیکن آپ کو ان کے تجربات سے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کو ملے گا۔ یہ لوگ اپنے اپنے شعبوں میں اپنے آپ میں بڑی حصولیابیاں ہیں اور انہوں نے آپ لوگوں کو بہت زیادہ وقت دیا ہے، اس سے مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ جب ایسے کامیاب لوگ اس طرح کے بیج بوئیں گے، تو وہ برگد کا درخت بھی ایسے لیڈر پیدا کرے گا، جو کامیابی کی نئی بلندیوں کو حاصل کریں گے، میں ایک بار پھر ہر اس شخص کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے مجھے وقت دیا، میری صلاحیتوں کو بڑھایا، اپنے ملک کے لیے بہت سے نوجوانوں کے لیے میرے اندر کچھ کرنے کی امید جگائی ہے۔ یہ احساس ہمیشہ میرے اندر رہتا ہے اور آج پھر مجھے یہ موقع ملا ہے ۔ میری طرف سے نوجوانوں کو بہت بہت نیک خواہشات ۔
آپ کا بہت بہت شکریہ۔
*****
U.No:7424
ش ح۔ش م۔ق ر
(Release ID: 2105286)
Visitor Counter : 15