نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

اس ملک میں علاقائیت بمقابلہ وطن پرستی پر بحث کیسے ہو سکتی ہے؟: نائب صدر


حالیہ برسوں میں عدلیہ تک رسائی کیلئے پیسے کا ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ملک مخالف جذبات کو فروغ دیا جا رہا ہے : نائب صدر

آج ہمیں اپنے ثقافتی فلسفے کو بچانے کی ضرورت ہے۔ ہم خود اس شاخ کو کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر ہم پنپ رہے ہیں: نائب صدر

نائب صدر جمہوریہ نے ملک میں انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کیا

نائب صدر جمہوریہ نے کرناٹک ویبھوادبی اور ثقافتی میلے کے تیسرے ایڈیشن کا افتتاح کیا

Posted On: 07 FEB 2025 4:38PM by PIB Delhi

نائب صدر جناب جگدیپ دھنکھڑنے آج تفرقہ انگیز قوتوں کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ ہم جس چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں وہ موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ سنگین ہے...(کچھ) لوگ جس طرح سے کام کر رہے ہیں وہ نفرت انگیز طریقے سے تقسیم پیدا کرنا ہے۔ تقسیم کی بہت سی بنیادیں ہیں - ذات پات، علاقائیت۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس ملک میں علاقائیت بمقابلہ قوم پرستی کی بات کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ بہت لغو اور بے بنیاد ہے لیکن جب آپ اس کی جڑوں کو دیکھیں گے تو آپ کو ملک دشمن قوتوں کا ہاتھ ملے گا۔

کرناٹک کے رانے بینور میں منعقدہ کرناٹک ویبھو ادبی اور ثقافتی میلے کے تیسرے ایڈیشن کی افتتاحی تقریب میں اپنے خطاب میں نائب صدر نے کہا، ’’یہ قوتیں (تقسیم کرنے والی طاقتیں) مختلف طریقوں سے کام کرتی ہیں۔ ان قوتوں نے نئے طریقے اپنائے ہیں اور بہت سے معاملات پر آپ دیکھیں گے کہ وہ عدلیہ کا سہارا لیتے ہیں۔ مجھے تشویش اس لیے ہے کہ ہمارے ملک کے آئین نے عدالتی نظام میں ہر فرد کو حقوق دیے ہیں اور وہ حقوق کیا ہیں؟ کہ وہ عدالت میں پناہ لے سکتا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں عدلیہ تک رسائی کو پیسے کا استعمال کرتے ہوئے ملک دشمن جذبات کو فروغ دینے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور یہ اس انداز میں ہو رہا ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ہو رہا ہے‘‘۔

انہوں نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ ’’ملک کو چیلنج کرنے والی قوتیں قوم پرستی اور علاقائیت کے درمیان تصادم پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہیں بہت کرارا جواب ملنا چاہیے۔ وہ ہمارے ثقافتی ورثے کو ہلانا چاہتی ہیں۔‘‘

ملک کے ثقافتی فلسفے کو محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا ،’’آج کے دن ، جب میں ایک طرف دیکھتا ہوں ، ہندوستان کی ترقی کو دنیا کی نظر سے دیکھتا ہوں ، ملک کے اندر رہنے والے لوگوں کی نظر سے دیکھو ، وہ بارش میں ناچتے ہوئے مور کے پنکھ ہیں... لیکن جب میں مور کے پیروں کو دیکھتا ہوں ، تو میں پریشان ہو جاتا ہوں ، غور کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں ، اور پھر مجھے اپنے ثقافتی فلسفے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ ہم اس شاخ کو کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر ہم ترقی کر رہے ہیں ، جس پر ہم بیٹھے ہیں ‘‘۔