قومی انسانی حقوق کمیشن
این ایچ آر سی، انڈیا نے ‘فرد کی عظمت اور آزادی – ہاتھ سے گندگی اٹھانے والوں کے حقوق’ پر کھلی بحث کا اہتمام کیا
این ایچ آر سی، انڈیا کے چیئرپرسن، جسٹس وی راما سبرامنین نے گندگی اور خطرناک کچرے کی دستی طور پر صفائی کرنے کی روک تھام سے متعلق قانونی دفعات کے باوجود صفائی کے کارکنوں کی اموات کے مسلسل واقعات پر تشویش کا اظہار کیا
سیورلائنوں اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے لئے ٹیکنالوجی/روبوٹس کا استعمال کرتے ہوئے ایک پائلٹ پروجیکٹ چلانے کی ضرورت پر زور دیا گیا، جس کا آغاز ایک ریاست سے کیا جائے گا اور بعد میں ملک کے دیگر حصوں میں بھی اسے نافذ کیا جائے گا
این ایچ آر سی، انڈیا کے سکریٹری جنرل جناب بھرت لال نے کہا کہ کمیشن مختلف ریاستوں کے ذریعے صفائی کے میکانائزڈ عمل کے نفاذ پر نظر رکھ رہا ہے
مختلف تجاویز میں، ایس بی ایم اور نمستے اسکیموں کے تحت مینوئل اسکوینجنگ ڈیٹا اور سیور ڈیتھ رپورٹنگ، بجٹ تجزیہ اور بیداری مہم میں شفافیت پر زور دیا گیا
Posted On:
06 JAN 2025 12:25PM by PIB Delhi
انسانی حقوق کی قومی کمیشن (این ایچ آر سی)، انڈیا نے نئی دہلی میں اپنے احاطے میں ‘فرد کی عظمت اور آزادی- دستی صفائی کرنے والوں کے حقوق’ پر ہائبرڈ موڈ میں ایک کھلے مباحثے کا اہتمام کیا۔ اس بحث کی صدارت این ایچ آر سی، انڈیا کے چیئرپرسن جسٹس جناب وی راما سبرامنین نے ممبران کی موجودگی میں کی۔ وجے بھارتی سیانی اور جسٹس (ڈاکٹر) بدیوت رنجن سارنگی، سکریٹری جنرل، جناب بھرت لال اور دیگر سینئر افسران موجود تھے۔ اس میں مختلف وزارتوں اور ریاستی حکومتوں، این جی اوز، انسانی حقوق کے محافظوں، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، نجی تنظیموں اور ریسرچ اسکالرس کے نمائندے شامل تھے، جنہوں نے ہاتھ سے گندگی اٹھانے والوں کے حقوق اور ان کے وقار کو یقینی بنانے کے سلسلے میں متعلقہ مسائل پر بات چیت میں حصہ لیا۔
این ایچ آر سی، انڈیا کے چیئرپرسن نے کہا کہ ہاتھ سے گندگی کا اٹھایا جاناایک ایسا مسئلہ ہے، جس سے قانونی طور پر نمٹا جا رہا ہے، انتظامی طور پر منظم کیا جا رہا ہے اور اسے ختم کرنے کے لیے عدالتی سطح پر نگرانی کی جا رہی ہے۔ تاہم، یہ تشویشناک بات ہے کہ سیوریج اور مضر فضلہ کو دستی طور پر صاف کرنے کی قانونی دفعات موجود ہونے کے باوجود صفائی کے کارکنوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔
جسٹس راما سبرامنین نے کہا کہ اس کے وجوہات کا پتہ لگایا جانا اور سمجھنا ضروری ہے تاکہ تدارکی اقدامات کئے جاسکیں۔ انہوں نے سیوریج لائنوں اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے لیے ٹیکنالوجی/روبوٹس کا استعمال کرتے ہوئے ایک پائلٹ پروجیکٹ چلانے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور اس کے نتائج کو سمجھنے کے لیے اسے پہلے ایک ریاست سے شروع کیا جانا چاہئے تاکہ بعد میں ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اس کے نفاذ کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس سے پہلے، بحث کا ایجنڈا طے کرتے ہوئے، این ایچ آر سی ، انڈیا کے سکریٹری جنرل، جناب بھرت لال نے کہا کہ کمیشن نے مختلف ریاستوں میں مشینوں کے ذریعے صفائی کے عمل کے نفاذ اور اس سلسلے میں ان کی طرف سے کئے گئے اقدامات کو نمایاں کیاہے۔اس سلسلے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مختلف ریاستوں نے ڈاکٹر بلرام سنگھ بہ نام یونین آف انڈیا اینڈ او آر ایس میں سپریم کورٹ کے ذریعہ جاری کردہ رہنما خطوط کے مطابق تمام شہری مقامی اداروں کے لئے تین سال تک کا پروگرام تیار کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ کس طرح سےبعض ذاتیں اور برادریاں اس عمل سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔
قبل ازیں، این ایچ آر سی، انڈیا کے جوائنٹ سکریٹری، جناب دیویندر کمار نِم نے تین تکنیکی سیشنوں ‘ہندوستان میں سیپٹک اور ٹینکوں میں ہونے والی اموات کے مسئلے پر خطاب،’ ‘دستی صفائی پر مکمل پابندی کی ضرورت،’ اور ‘ دستی صفائی کرنے والوں کے لیے بحالی کے اقدامات: وقار اور بااختیار بنانے کا راستہ اور آگے بڑھنے کا راستہ کا جائزہ پیش کیا، جسے اجتماعی کوششوں سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
مقررین میں قومی صفائی ملازمین مالیات اور ترقیاتی کارپوریشن کے منیجنگ ڈائرکٹر جناب پربھات کمار سنگھ، صفائی ملازمین آندولن ، نئی دلی کے قومی کنوینر جناب بیجواڑا ویلسن، یونیسیف انڈیا کے سینئر واش ماہرجناب سجائے مجومدار، یونیسیف انڈیا کے پانی کی صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے ماہرجناب یوسف کبیر،سی پی ایچ ای او روہت ککڑ، جینروبوٹکس انوویشنز کیرل کے ڈائرکٹر جناب راشد کریم بنکل، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی بیشالی لاہڑی ، نیشنل لاء یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس اینڈ سبالٹرن اسٹڈیز سینٹر کے لاء اینڈ ڈائرکٹر ڈاکٹر ونود کمار،ویو فاؤنڈیشن کی منجولا پردیپ،تمل ناڈو کی سولیناس ، انٹی گریٹی پرائیویٹ لمیٹیڈ کی محترمہ راج کماری ، پنے کی فلیم یونیورسٹی کی پروفیسر شیوا دوبے، کام ایویڈا انوائروانجینئرس پرائیویٹ لمیٹیڈ کی منیجنگ ڈائرکٹر جناب ایم کرشنا موجود تھے۔
بات چیت سے سامنے آنے والی چند تجاویز درج ذیل ہیں:
1.بہتر نمائندگی اور زمینی سطح پر نگرانی کی ضرورت ہے تاکہ فلاح و بہبود کے موثر نفاذ کو یقینی بنایا جا سکے۔
2. بحالی کے پروگراموں اور کم از کم اجرت کے موثر نفاذ کے لئے سروے کرنا۔
3.دو ہزار تیرہ(2013) کے ایکٹ میں صفائی کے کارکنوں اور دستی صفائی کرنے والوں کے درمیان فرق ضروری ہے۔
4. پائیدار معاش کے لئے خواتین کی زیر قیادت ایس ایچ جی ایس کو بااختیار بنانے کے لیے صفائی اور تربیت کے لیے میکانائزیشن کی ترغیب دینا۔
5.ایس بی ایم اور نمستے اسکیموں کے تحت دستی طور پر صفائی کے ڈیٹا اور گٹر میں ہونے والی اموات کی رپورٹنگ، بجٹ کے تجزیہ، اور بیداری کی مہموں میں شفافیت کی ضرورت ہے۔
6.دستی صفائی اور گٹر کی صفائی میں شامل لوگوں کے لیے صلاحیت سازی کی تربیت۔
7. خطرناک فضلہ کی صفائی کے لیے تکنیکی اختراعات کے ساتھ آنے والوں کو مالی امداد دینا۔
8.ڈی سلیجنگ مارکیٹ کی فہرست سازی اور اس کے کاموں کو منظم کرنا۔
9. حفاظتی سامان کی فراہمی اور آگاہی سے متعلق ورکشاپس کا انعقاد۔
10. ہیلتھ انشورنس، تعلیم وغیرہ کے لیے ڈیٹا بیس بنانے کے لیے دستی صفائی میں ملوث افراد کی شناخت کے لیے نگرانی کے طریقہ کار کی ضرورت ہے۔
کمیشن قانونی اور پالیسی دفعات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ان تجاویز پر مزید غور کرے گا اور اس میں موجود خامیوں کو دور کرے گا تاکہ خطرناک اور سیوریج کے فضلے کی دستی صفائی کے ساتھ ساتھ ایسے کاموں میں شامل افراد کی مناسب بحالی کے لیے مؤثر طریقے سے خاتمہ کیا جا سکے۔
***
ش ح۔ ک ا۔ ع ن
(Release ID: 2090526)
Visitor Counter : 23