وزارت اطلاعات ونشریات
azadi ka amrit mahotsav
iffi banner

آئی ایف ایف آئی (اِفّی)کے 55ویں فیسٹول میں’دھندلی حدود:رابطۂ عامہ(پی آر) کس طرح جدید فلمی مقبولیت کو شکل دیتا ہے‘موضوع پر پینل ڈسکشن


’’زندگی کی طرح سنیما بھی صداقت پر پروان چڑھتا ہے۔پی آر کو سچائی کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ ہونا چاہئے، اسے مسخ کرنے کا نہیں‘‘: روی کوٹّارکارا

’’پی آر کو ایک  ہتھیار کی طرح استعمال کرنا ایک گہری سماجی تبدیلی کا عکاس ہے، جہاں اقدار کا تعین کرنے میں تصور اکثر حقیقت پر غالب آجاتا ہے‘‘:شنکر رام کرشنن

’’پی آر کا اصل جوہر جھوٹی کہانیاں بنانے میں نہیں ہے، بلکہ ایسے بامعنی رشتوں کو فروغ دینے میں ہے جو سنیما کی سچائی کو عیاں کرتے ہیں‘‘: ہمیش مانکڑ

’’فیصلے سامعین کرتے ہیں، پی آر پر مبنی نظریہ نہیں:‘‘ ہمیش مانکڑ

ہندوستان کے 55ویں بین الاقوامی فلم فیسٹول میں ’’سینما میں سچائی اور مفروضہ  کے درمیان لکیروں کو دھندلا کرنا‘‘ کے عنوان سے ایک بصیرت انگیز سیشن میں بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں صنعت کے ماہرین رابطہ عامہ (پی آر)، سامعین کے تاثرات اور سنیما کی صداقت کے بدلتے ہوئے کردار پر تبادلہ خیال کے لئے جمع ہوئے۔ معروف فلم ساز جئے پرددیسائی کی نظامت میں، پینل میں ممتاز فلم ساز اور فلم فیڈریشن آف انڈیا کے صدر، روی کوٹّاراکارا ،معروف فلم ساز شنکر رام کرشنن اور معمر فلمی صحافی ہمیش مانکڑ شامل تھے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/27-5-19TJQ.jpg

یہ گفتگو فلم صنعت کے منظر نامے کی تشکیل میں پی آر کے تبدیلی کے کردار پر مرکوز تھی، خاص طور پر ایسے دور میں جہاں سوشل میڈیا کا غلبہ ہے اور سامعین کی فوری رائے دیکھی جارہی ہے۔ یہ دیکھا گیا کہ سچائی اور مفروضے کے درمیان لکیریں تیزی سے دھندلی ہوتی جا رہی ہیں کیونکہ تشہیری حکمت عملی اکثر اصل سنیما کے جوہر پر حاوی ہوجاتی ہے۔ مواد کے بجائے  وضعی تصویر پر زیادہ توجہ  دی جاتی ہے۔

ہمیش مانکڑ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح پی آر جو کبھی تعلقات استوار کرنے پر مرکوز تھا، ہیرا پھیری کی طرف مڑ گیا ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا، ’’فلموں کو اکثر اسٹریٹجک مہمات کے ذریعے زیادہ بہتر انداز میں پیش کیا جاتا ہے،جس سے  سامعین گمراہ  ہوتے ہیں اور ساکھ پر منفی اثر مرتب ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے صداقت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا،’’پی آر سے چلنے والے بیانیے سے قطع نظر سامعین ہی فلم کی کامیابی کے اصل  محرک بنتے ہیں۔‘‘

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/27-5-2KIDC.jpg

روی کوٹّاکارا نے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر روشنی ڈالی، جہاں جائزے اور متاثر کن رائے کسی فلم کو قبل از وقت بنا سکتی ہےیا بگاڑ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’یہاں تک کہ ایک مضبوط فلم بھی قبل از وقت، گمراہ کن جائزوں کی وجہ سے لڑکھڑا سکتی ہے۔یہ  نوٹ کرتے ہوئے کہ ’’کیوریٹڈ ’ٹاپ 10‘ کی فہرستیں اکثر اندرونی ترجیحات سے چلتی ہیں، اصل ناظرین کے رجحانات سے نہیں، انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ کس طرح  او ٹی ٹی پلیٹ فارم ترجیحات میں ہیرا پھیری کرتے ہیں۔

شنکر رام کرشنن نے کیرالہ فلم انڈسٹری کے تجربات پر روشنی ڈالی  اور فلم کی مقبولیت میں ثقافتی حساسیت اور سوشل میڈیا کے کردار پر زور دیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پی آر غیر معروف فلموں کو اونچائی تک لے سکتا ہے لیکن حریفوں کے خلاف ہتھیار بھی بن سکتا ہے، اس پر زور دیتے ہوئے کہ’’کچھ معاملات میں،پی آر پروموشن کے بارے میں کم اور شدید مسابقتی منظر نامے میں زیادہ محسوس ہوتا ہے۔‘‘

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/27-5-3V4GI.jpg

پینل کے تمام اراکین اس بات پر متفق تھے کہ  اگرچہ پی آر ایک ضروری ٹول ہے، لیکن اس کا غلط استعمال فلم انڈسٹری کی ساکھ کو ختم کر سکتا ہے۔ سیشن میں اخلاقی طریقوں کی وکالت کی گئی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پی آر سنیما کی فنکاری کو نقصان پہنچانے کی بجائے مستحکم کرے جیسا کہ جے پرد دیسائی نے نتیجہ اخذ کیا کہ پی آر ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اگرچہ یہ کسی فلم کی رسائی کو بڑھا سکتا ہے، لیکن حدود کے تجاوز سے ساکھ کے بحران کا خطرہ ہے، جس سے فلم سازوں اور سامعین کے درمیان اعتماد کو نقصان پہنچتا ہے۔‘‘

سیشن نے مؤثرپی آر اور مستند کہانی پیش کرنے کے درمیان توازن کی ضرورت پر بصیرت انگیز نقطۂ نظر فراہم کیا۔ پینل کے اراکین نے ایک ایسے مستقبل کا تصور پیش کیا جہاں اخلاقی پی آر تاثرات کو حقیقت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں مدد کرتا ہے، سامعین کے ساتھ شفاف اور بھروسہ مند تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔

****

ش ح۔ع و ۔ع د۔

Urdu No. 3089

iffi reel

(Release ID: 2078271)